دو متضاد سياسى روشيں

دو متضاد سياسى روشيں

اوپر جو كچھ بيان كيا گيا ہے وہ چند نمونے اس سياسى روش و حكمت عملى كے ہيں جو معاويہ نے مطلق اقتدار حاصل كرنے اور حضرت على (ع) كى حكومت كو تباہ و برباد كرنے كے لئے اختيار كى تھى اس كے مقابل ہم اميرالمومنين حضرت على (ع) كى انصاف پسندانہ و عدل گسترانہ سياسى راہ و روش كو ديكھتے ہيں چنانچہ جس وقت جاريہ بن قدامہ كو حضرت على (ع) رخصت كرنے لگے تو آپ نے يہ نصيحت كى كہصرف جنگجو لوگوں سے ہى جنگ كرنا تم كو چاھے مجبورا پيدل سفر طے كرنا پڑے مگر عوام كے چوپايوں پر ہرگز نظر مت ركھنا جب تك كنوؤں اور چشموں كے مالك اجازت نہ دے ديں تم راستے ميں كسى كنويں اور چشمے كا پانى استعمال نہ كرنا كسى مسلمان كو فحش بات نہ كہنا جس سے تمہارا عہد و پيمان ہوجائے اس كے ساتھ عہد شكنى كر كے ظلم نہ كرنا اور ذرہ برابر خون نا حق نہ بہانا

جب ہم ان دو متضاد روشوں كا باہمى مقابلہ كرتے ہيں تو ديكھتے ہيں كہ ان ميں سے پہلى قتل و غارتگرى پر مبنى ہے اگر چہ يہ حكمت عملى بظاہر لوگوں كے مال و حقوق كا احترام كرتى ہے مگر چونكہ پہلا راستہ جس راہ سے گزر كر منزل مقصود تك پہنچتا ہے وہ اصول و ضوابط كے كسى دائرے ميں نہيں آتا اسى لئے وہ شرعى اور قانونى قواعد كى پابندى بھى نہى كرتا اس كے برعكس قانونى حدود اور انسانى قدريں دوسرے گروہ كى راہ ميں چونكہ مانع و حايل ہوتى ہيں اسى لئے وہ اسے ہرناجائز و ناروا كام كو انجام دينے سے روكتى ہيں_

حق گوئي اور عدل پسندى جيسى خصوصيات كى پابنديوں كے باعث حضرت على (ع) كى سپاہ كے دنيا پرست افراد نے جہاد جيسے مقدس فرض كو انجام دينے ميںسستى و سہل انگارى سے كام ليا كيونكہ وہ اپنے سامنے ايسى جنگ ديكھتے تھے جس كا اجر اس دنيا ميں ان كے لئے موت كے سوا كچھ نہ تھا اگر وہ جنگ ميں كامياب ہوتے تو دشمن كے مال پر قبضہ نہيں كرسكتے تھے وہ كسى دشمن كو نہ تو اپنى مرضى سے قتل كرسكتے تھے اور نہ ہى اس كے بيوى بچوں كو اپنى قيد ميں ركھ سكتے تھے جب يہ شرائط و پابندياں عائد ہوں تو جنگ كس لئے كريں؟ جنگ كے محركات احكام خداوندى كى پابندى اور انسانى فضائل پيش نظر ركھے جاتے تو ان كيلئے جنگ كرنا امر لاحاصل تھا اس كے برعكس اہل شام معاويہ كى ايك آواز پر فورا لبيك كہتے كيونكہ جنگ سے ان كے تمام حيوانى جبلتوں كو آسودگى ملتى جسے بھى وہ چاہتے قتل كرتے، كنيز و غلام بنا ليتے قتل و غارتگرى ہى ان كى آمدنى كا ذريعہ و وسيلہ تھا بالخصوص اہل شام ميں ان لوگوں كے جن كى تربيت اسلامى اصول كے مطابق نہيں ہوئي تھى حضرت على (ع) نے كوفہ كے لوگوں سے خطاب كرتے ہوئے اس كى جانب اشارہ كرتے ہوئے فرماياتھا كہ جس چيز سے تمہارى اصلاح ہوتى ہے اور جو چيز تمہارى كجى كو درست كرتى ہے ميں اس سے واقف ہوں ليكن تمہارى اس اصلاح كو اپنے ضمير كى آواز كے خلاف ميں اور ناجائز سمجھتا ہوں

اميرالمومنين حضرت على (ع) كى ريا كار سياست مندوں كى راہ و ورش اختيار كرنے كے بجائے ہميشہ يہ كوشش رہى كہ عراق كے عوام كى اصلاح كے ذريعے عام لوگوں كے ضمير ميں اپنے جذبے كو بيدار كرتے رہيں نيز اسلامى معاشرے كى كمزورى اور دشمن كى طاقت كے عوامل كى جانب توجہ دلا كر انھيں اصلاح نفس و تہذيب اخلاق كى تعليم ديں تا كہ ان كى كمزوريوں كو دور كر كے انھيں دعوت حق قبول كرنے كى اصلاح دى جاسكے_

حضرت على (ع) كے خطبات و ہمدردانہ نصائح ميں وہ تمام انسانى محركات اور مادى و معنوى پہلو موجود ہيں جن ميں عراق كے عوام كى فلاح و بہبود مضمر تھى چانچہ ہر درد و غم اور ہر كمزورى و ناتوانى كاعلاج ان پر كاربند رہ كر ہى كيا جاسكتا تھا اور اسى ميں ان كى فلاح و بہبود پنہاں تھى _

كوئي بھى فرد بشر وہ علم و اقتدار كے اعتبار سے خواہ كسى بھى مقام و منزلت پر ہو حضرت على (ع) جيسى بصيرت نظر كے ساتھ اس كيفيت كو بيان نہيں كر سكتا تھا جو اس وقت عراق و شام پر مسلط و حكم فرما تھى اپنے رہبر كے حكم سے روگرداں ہو كر او رجہاد جيسے مقدم فرض سے كنارہ كشى كر كے عراق كے لوگوں كى كيا سرنوشت ہوسكتى تھى اسے حضرت على (ع) سے بہتر كوئي دوسرا شخص بيان نہيں كرسكتا تھا اس كے ساتھ ہى آپ(ع) نے بہترين دستور عمل پر كاربند رہنے كى ہدايت فرمائي تھى جس سے ان كى حالت فلاح و بہبود پاسكتى تھي_

ليكن عراق كے عوام آپ(ع) كى نظر ميں ان سے كہيں بدتر تھے جنہيں معاويہ جنگ و پيكار كے لئے بھيجا كرتا تھا كيونكہ وہ دوستى كا لبادہ پہن كر آپ(ع) كے پرچم كے نيچے جمع ہوتے اور ہوا خواہى و طرفدارى كا دم بھرتے ليكن اس كے ساتھ اس جنگ ميں جو اہل شام كى طرف سے شروع كى جاتى وہ دفاعى اقدام نہ كرتے وہ ہر لمحہ و لحظہ كوئي نہ كوئي بہانہ تراشتے رہتے كبھى كہتے كہ موسم بہت گرم ہے اتنى تو مہلت ديجئے كہ دن كى تمازت ذرا كم ہوجائے اور كبھى يہ كہنے لگتے كہ موسم بہت سرد ہے اس وقت تك كے لئے صبر كيجئے كہ موسم معتدل ہوجائے_جب حضرت على (ع) انھيں يہ كہہ كر لا جواب كرديتے كہ سردى و گرمى تو تمہارے لئے ايك بہانہ ہے خدا كى قسم تم اس قدر كاہل و بزدل ہوچكے ہو كہ اگر تلوار تمہارے روبرو آجائے تو اسے ديكھ كر فرار كرجاؤ گے اس پر وہ كہتے كہ ہم اس صورت ميں ہى ميدان كار زار كى طرف جاسكتے ہيں كہ جنگ ميں آپ بھى ہمارے ساتھ شريك ہوں _

ان كى يہ شرائط اس وضع ميں تھى جب كہ مركزى حكومت كو حضرت على (ع) كى سخت ضرورت تھى ا س پر حضرت على (ع) فرماتے كيا ان حالات كے تحت ميرے لئے ميدان جنگ كى جانب روانہ ہونا مناسب ہے تمہارى يہى شرط كافى ہے كہ ميں اپنے ايك دلاور اور قابل اعتماد فرماندار كا انتخاب كروں اور اس كے ہمراہ تمہيں جنگ پر روانہ كروں

حضرت على (ع) كے دست مبارك ميں جب تك عنان حكومت رہى آپ كا كوئي بھى وقت ايسانہ گذرا جس ميں آپ نے عوام كى راہنمائي نہ فرمائي ہو وہ اپنے تجربيات اور علوم باطنى كے ذريعے ان پر وہ چيزيں كشف و عياں كرتے جن ميں ان كى فلاح و بہبود مضمر تھى اور انہى سے ان كى حالت بہتر ہوسكتى تھى چنانچہ ايك مرتبہ آپ(ع) نے خود فرمايا تھا: كہ ميں نے تمہارے ساتھ رہ كر تمہارى ہمنشينى و ہمدمى كو زيبائي اور خوبصورتى بخشى اور ميرى ہميشہ يہى كوشش رہى كہ جس قدر ممكن ہوسكے تمہيں ذلت و خوارى كے حلقے اور جور و ستم كى بندشوں سے آزاد كروا دوں_

ليكن افسوس كہ حضرت على (ع) نے اصلاح كى جو بھى ہمدردانہ سعى و كوشش كى اس كا اثر ان كے تھكے ہوئے جسموں پر اور خستہ و كوفتہ دل و دماغ پر اس حد تك نہ ہو سكا جس قدر آپ(ع) چاہتے تھے چنانچہ يہى وجہ تھى كہ انہوں نے خود كا غارتگر شاميوں كے حوالے كرديا تا كہ جب بھى چاہيں اور جس طرح بھى چاہيں ان كے جان و مال كو نذر آتش كرديں 

تبصرے
Loading...