آخرس سعى و كوشش

آخرس سعى و كوشش

 ہجرى كے دوران معاويہ كى يورش ميں چونكہ بہت اضافہ ہوگيا تھا اسى لئے حضرت على (ع) نے اس كے حملوں كو روكنے كے لئے ان فوجى دستوں كو بھيجنے كے علاوہ جن كى حيثيت محفوظ لشكر كى تھى يہ فيصلہ كيا كہ اپنى تمام سعى و كوشش شام كى جانب لازم و ضرورى فوجى طاقت روانہ كرنے كيلئے صرف كرديں تا كہ معاويہ كى تجاوز كارى كا ہميشہ كے لئے سد باب ہوسكے كيونكہ آپ كے لئے اس كے علاوہ كوئي چارہ باقى نہيں رہ گيا تھا كہ مكمل جنگى سطح پر اس كا مقابلہ كيا جائے تا كہ اس شر سے ہميشہ كے لئے نجات حاصل ہو اور وہ بھى اپنى جگہ خاموش ہركر بيٹھے رہے_اس فيصلے كے بعد آپ نے حضرت معقل بن قيس كو سَواد  كوفہ  كى جانب روانہ كيا تا كہ لوگوں كو جنگ ميں شريك ہونے كى دعوت دے سكيں_

آپ(ع) نے والى آذربائيجان قيس بن سعد كو بھى خط لكھا جس ميں مرقوم فرمايا كہ وہ لوگوں كو شام كى جانب روانہ ہونے كيلئے آمادہ اور نظرياتى اعتبار سے ان ميں وحدت يكجہتى كرے

اس كے علاوہ حضرت على (ع) نے خود بھى كوفہ كے لوگوں كو آمادہ كرنے كے لئے مفصل تقرير كى جس ميں آپ (ع) نے فرمايا كہ اے ا للہ كے بندو گذشتہ اقوام كى تاريخ پر غور و فكر كرنا تمہارے لئے بيش قيمت درس عبرت ہے كہاں ہيں وہ بادشاہوں كے غول اور ان كے وارثين سلطنت كہاں ہيں فراعنہ اور ان كے جانشين ؟ كدھر گئے وہ خاندان رس كے مدنى فرمانروا جن سب نے پيغمبروں كو تہ تيغ، سنت كے روشن چراغوں كو خاموش اور ستمگروں كى راہ و روش كو زندہ كيا تھا كہاں گئے وہ فرمانروا جو عظيم لشكر لے كر روانہ ہوئے اور جنہوں نے ہزاروں بلكہ لاكھوں كى سپاہ كو شكست دى كدھر جاچھپى فاتحين كى وہ فوج كثير تعداد جو يكجا جمع ہوئي اور جس نے نئے شہروں كى بنياد ركھي؟

خدا كے برگزيدہ و نيك بندے سفر پرجانے كے لئے كمربستہ ہوگئے انہوں نے دنيا كا فانى و بے ثبات چند روزہ چيزوں كا سودا آخرت كى جاودانى زندگى سے كيا سچ تو يہ ہے كہ ہمارے وہ بھائي جنہوں نے جنگ صفين ميں اپنا خون بہايا تھا اگر آج اس دنيا ميں نہيں ہيں تو انہوں نے كون سا خسارہ برداشت كيا؟

كہاں ہيں وہ ميرے بھائي جنہوں نے جہاد كى راہ اختيار كى اور جادہ حق طے كيا كہاں ہيں عماريا كہاں گئے ابن تيہان ذوالشہادتين ؟اور كدھر گئے ان جيسے دوسرے لوگ جنہوں نے موت سے عہد و پيمان كيا اور شرپسندوں كے ہاتھوں اپنے سر قلم كرائے اس كے بعد آپ(ع) نے ريش مبارك پر اپنے ہاتھ ركھے اور كافى دير تك گريہ و زارى كرتے رہے _اس كے بعد فرمايا: كہ افسوس افسوس كہاں گئے وہ ميرے بھائي جنہوں نے قرآن پاك كى تلاوت كى اور زندگى ميں اسے اپنا حاكم بنايا اپنے فرائض كے پابند رہے اور ہميشہ انھيں پورا كيا انہوں نے سنت نبوى كو زندہاور بدعتوں كا قلع قمع كيا انہوں نے جہاد كى حكومت كو قبول كيا اور اپنے ہادى اور رہبر پر پورا اعتماد كرتے ہوئے اس كى پيروى كى _

اس كے بعد آپ(ع) نے بآواز بلند فرمايا: (جہاد جہاد) اے خدا كے بندو ميں تمہيں يہ بتادينا چاہتا ہوں كہ آج ميں بھى تمہارے ساتھ عسكر گاہ كى جانب چلوں گا جو شخص بھى خدا كى جانب جلد از جلد آنا چاہتا ہے وہ نكل كر ہمارے ساتھ آئےآپ (ع) كى اس سعى و كوشش كا يہ نتيجہ بر آمد ہوا كہ تقريبا چاليس ہزار افراد عسكر گاہ ميں جمع ہوگئے_

بقول ” نوف بكالي” آپ (ع) نے دس ہزار سپاہ كا پرچم حضرت امام حسين (ع) كو ديا دس ہزار سپاہى حضرت قيس كے زير نگرانى كئے دس ہزار سپاہ حضرت ابوايوب انصارى كى زير فرماندارى مقرر كئے اور دس ہزار سپاہى ان ديگر فرمانداروں كے حوالے كئے جنہوں نے اس تعداد ميں مزيد اضافہ كيا تھا اور حكم ديا كہ پورى فوج صفين كى جانب روانہ ہوليكن ابھى جمعہ بھى نہ گذر ا تھا كہ آپ (ع) كے سرمبارك پر ابن ملجم نے كارى ضرب لگائي جس كے باعث لشكر بحالت مجبورى واپس كوفہ آگيا

حضرت على (ع) كے خلاف دہشت پسندانہ سازش

تمام مشكلات اور سختيوں كے باوجود حضرت على (ع) جس زمانے ميں شام كى جانب روانہ ہوئے اور معاويہ سے جنگ كا تدارك كر رہے تھے اسى عرصہ ميں چند خوارج بظاہر مراسم حج بيت اللہ ادا كرنے كى نيت سے مكہ ميں جمع ہوئے يہاں انہوں نے چند جلسات كى تشكيل كى جس ميں ان مقتولين كو ياد كيا جو جنگ نہروان ميں كام آگئے تھے ان كے خيال ميں وہ لوگ بے قصور مارے گئے تھے اور ان كے قتل كے اصل ذمہ دار حضرت على (ع) ، معاويہ اور عمروعاص تھے_

ان كے خيال ميں يہ تينوں ہى حضرات ” ائمہ ضلال ( گمراہوں كے امام) تھے_ چنانچہ انہوں نے فيصلہ كيا كہ تينوں كا فيصلہ كرديا جائے تا كہ اس طرح باہمى اختلاف ، كشمكش اور ناانصافى كى بيخ كنى كرديں_

ان ميں سے تين افراد نے اس مقصد كے لئے اپنى زندگى داؤ پر لگادى _ تا كہ تينوں مذكورہ حضرات كى زندگى كو ختم كرديں حضرت على (ع) كو قتل كرنے كا ذمہ عبدالرحمن ابن ملجم نامى نے ليا انہوں نے اس سازش كى تكميل كے لئے باہمى عہد و پيمان كئے اور يہ فيصلہ كيا كہ بتاريخ 19 ماہ رمضان 40 ھ صبح كے وقت وہ اپنى دہشت پسندانہ كاروائي پر عمل در آمد كريں گے اس كے بعد وہ ايك دوسرے سے جداہوگئے_

ابن ملجم كوفہ ميں داخل ہوا اور اپنى چچازاد بہن قَطَام كے گھر پہنچا وہ اس كے ساتھ پہلے بھى چونكہ معاشقہ كرچكا تھا اسى لئے اب اسے اپنى شادى كرنے كا پيغام ديا قَطَام خود خوارج ميں سے تھى اس كے بھائي اور باپ كا قتل جنگ نہروان ميں ہوچكا تھا اسى لئے اس كے دل ميں حضرت على (ع) كے خلاف سخت عداوت و دشمنى تھى اس نے كہا كہ ميں اس شرط پرشادى قبول كرسكتى ہوں كہ ايك كنيز و غلام اور تين ہزار درہم نقد دينے كے علاوہ تو على (ع) كو قتل كردے اگر تو اس مقصد ميں كامياب ہوگيا تو تو ميرے كليجے كو ٹھنڈا كرے گا اور مجھ سے داد مراد پائے گا اور اگر كہيں تو خود مارا گيا تو تجھے دنيوى نعمتوں سے كہيں زيادہ عظيم اس كااجر و ثواب ملے گا _

ابن ملجم نے جب ديكھا كہ يہ عورت اس كام كے لئے بہت زيادہ اصرار كررہى ہے تو اس نے بتاديا كہ ميں يہى ناپاك ارادہ لے كر كوفہ سے آيا ہوں_

ابن ملجم نے شبيب بن بجرہ نامى دوسرے شخص سے جو خود بھى خوارج ميں سے تھا اس كام ميں مدد لى قطام نے و ردان بن مجالد كو بھى اس كے ساتھ كرديا تا كہ وہ بھى اس كام ميں اس كا مدد گار ہوسكے اس نے ” اشعث بن قيس” كو بھى اپنا راز دار بناليا اس شخض نے بھى اس كام كو تمام كرنے كے لئے اس كى حوصلہ افزائي كي 

تبصرے
Loading...