ہواؤں کا اللہ کی رحمت سے چلنا

خلاصہ: نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ کی مختصر تشریح کرتے ہوئے اس فقرہ پر گفتگو کی جارہی ہے جس میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے ہواؤں کے چلنے کی وجہ، اللہ کی رحمت بتائی ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “وَ نَشَرَ الرّياحَ بِرَحْمَتِهِ”، “اور اس (اللہ) نے ہواؤں کو اپنی رحمت سے چلایا”۔”نشر” کے معنی چلانے اور پھیلانے کے ہیں۔رحمت لغوی لحاظ سے رِقّت اور شفقت ہے یعنی نرم دلی کہ جس کے بعد کوئی کرم نوازی ہو، مگر اللہ سبحانہ کے بارے میں رِقّت اور نرم دلی ناممکن ہے کیونکہ یہ جسم کے صفات میں سے ہے اور وہ جسمانیت اور مادیت سے پاک و منزہ ہے، لہذا اللہ تعالیٰ کی رحمت رقت کے بغیر اس کا مخلوق پر لطف و کرم ہے اور یہ قاعدہ اللہ تعالیٰ کے کئی دیگر صفات ثبوتیہ فعلیہ کے بارے میں بھی جاری ہوتا ہے، جیسے: رضا اور غضب، محبت اور عداوت وغیرہ۔مولا علی (علیہ السلام) کا یہ جملہ اس آیت کی یاددہانی کرتا ہے جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: “وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ”، “وہ وہی (خدا) ہے جو اپنی رحمت (بارش) سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری کے لئے بھیجتا ہے”۔حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کا مذکورہ بالا کلام اس بات کو واضح کررہا ہے کہ ہواؤں کے چلنے کی وجہ، اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ لہذا ہواؤں کے چلنے کے فائدوں میں اللہ کی رحمت کو دیکھنا چاہیے، چند فائدے یہ ہیں:۱۔ ہواؤں کا چلنا، آلودہ ہواؤں کو صاف ہوا میں بدل دیتا ہے اور صاف ہوا میں انسان کے لئے سانس لینا لذت اور خوشی کا باعث بنتا ہے۔۲۔ ہواؤں کا چلنا، بادلوں کے چلنے اور بارش کے برسنے کا سبب بنتا ہے، جس کی وجہ سے غیرآباد زمینیں اور خشک درخت زندہ اور سبزو خرم ہوجاتے ہیں اور لوگ اس سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔۳۔ ہواؤں کے چلنے کے حیرت انگیز قوانین اور ان کی قسمیں جن میں سے بعض یہ ہیں جو نظامِ کائنات کی دلچسپ بحثوں میں سے ہیں: گرم اور ٹھنڈی ہوا کو معتدل بنانا، درختوں کا باردار ہونا، کشتیوں کی حرکت وغیرہ۔۔۔۔۔۔ماخوذ از:[پیام امام، آیت اللہ مکارم شیرازی][ترجمہ و تفسیر نہج البلاغہ، علامہ محمد تقی جعفری][پرتوی از انوار نہج البلاغہ، محمد علی صادقی][ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی]

تبصرے
Loading...