کمالِ توحید تک پہنچنے کے لئے اخلاص کا طریقہ کار

خلاصہ: نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ کی مختصر تشریح بیان کرتے ہوئے مولائے کائنات حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے اس فقرے کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے جو اس بارے میں ہے کہ اللہ کی توحید کا کمال، اس کے لئے اخلاص ہے۔ یہ مضمون مرحوم علامہ طباطبائی کے بیانات سے ماخوذ ہے جو انہوں نے تفسیر المیزان میں بیان فرمائے ہیں۔

      نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “وَكَمَالُ تَوْحِيدِهِ الاِخْلاَصُ لَهُ”، “اور اس کی توحید کا کمال، اس کے لئے اخلاص ہے”۔توحید کے کچھ مراتب ہیں کہ بعض دیگر بعض سے بالاتر ہیں اور انسان اس کے مکمل رتبہ تک نہیں پہنچتا مگر یہ کہ معبودِ واحد کی جیسے مناسب ہے یعنی منحصر طور پر اس کی عبادت کرے، اور صرف “الھاً واحداً” کہنے پر اکتفاء نہ کرے اور ہر کسی کے سامنے ذلت اختیار نہ کرے اور خوش نہ ہو، بلکہ صحیح اور حقیقت کی بنیاد پر جو چیز بھی کمال اور وجود کی حامل ہے سب کی اللہ سے نسبت دے، کائنات کی خلقت، اور رزق کھانے والوں کے رزق اور ان کو زندہ کرنے اور موت دینے اور مختصر یہ کہ دینے اور نہ دینے اور سب چیزوں کو اسی سے سمجھے، اور نتیجتاً خضوع اور تذلل کو اللہ تعالیٰ کے لئے منحصر کرے، اور اُس کے سوا کسی کے لئے اور کسی بھی وجہ سے ذلت کا اظہار نہ کرے۔بلکہ صرف اس کی رحمت پر امید رکھے اور صرف اس کے غضب سے ڈرے، اور جو کچھ اُس کے پاس ہے صرف اسی کی لالچ رکھے، اور صرف اسی کی بارگاہ میں سر سجدہ میں رکھے، اور دوسرے لفظوں میں علم میں بھی اور عمل میں بھی اپنے آپ کو اللہ کے لئے خالص کرے، اسی وجہ سے امامؑ نے فرمایا: “و کمال توحیده الاخلاص ‌ له”، جب انسان کی اللہ کے بارے میں معرفت اس منزل تک پہنچ گئی اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو اِس شرافت پر فائز کردیا اور اسے اپنی بارگاہ میں اولیاء اور مقربین کے درجہ تک بلند کردیا تو تب ہے کہ انتہائی بصیرت کے ساتھ اللہ کی حقیقی معرفت سے اپنے عجز کو پہچان کر سمجھ جاتا ہے کہ اللہ کی اس طرح توصیف نہیں کرسکتا جو اس کے کبریا اور عظمت سے مناسب ہے! اور نیز اچھی طرح ادراک کرلیتا ہے کہ جس معنی میں بھی اللہ کے صفات بیان کرنا چاہے تو وہ معنی کلی طور پر ایسے ہیں کہ اس نے انہیں اپنی ممکنہ دیکھی گئی چیزوں سے لیا ہے جو سب اللہ کی مخلوق ہیں اور انہی کے ذریعے اس نے اللہ کی توصیف کی ہے۔حالانکہ یہ معانی عموماً ذہنی اور محدود اور مقیّد صورتیں ہیں، ایسی صورتیں ہیں جو ایک دوسرے سے نہیں ملتیں اور ایک دوسرے کو ہٹاتی ہیں، مثلاً علم اور قدرت اور حیات اور رزق اور عزت اور غنا اور ان جیسی، یہ ایسے مفاہیم ہیں کہ ہر ایک کا دوسرے سے فرق ہے، اور واضح ہے کہ علم، قدرت کے علاوہ ہے، اور قدرت، علم کے علاوہ ہے، ہر مفہوم خود، خود ہی ہے، ہم جب مثلاً علم کے مفہوم کو مدنظر رکھیں تو اُس وقت ہماری توجہ قدرت کی طرف نہیں ہوتی، اور علم کے معنی میں قدرت کو نہیں دیکھتے، اور نیز جب ہم علم کے معنی کا اس لحاظ سے کہ صفات میں سے ایک صفت ہے، تصور کرتے ہیں تو جس ذات کی یہ صفت ہے، اُس سے ہم غافل ہوتے ہیں۔یہاں سے یہ بات ہمیں سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہ مفاہیم اور یہ معلومات اور ادراکات، اِس سے قاصر ہیں کہ خالق سے منطبق ہوسکیں، اور اس کی اس طرح توصیف کرسکیں جیسا وہ ہے، لہذا جو اخلاص کے درجہ پر پہنچا ہے وہ اپنے آپ کو اس بات کا محتاج اور پابند سمجھتا ہے کہ اپنے اللہ کی توصیف کے بارے میں اپنے نقص اور عجز کا اعتراف کرے، وہ بھی کیسا نقص؟! ایسا نقص جسے صحیح نہیں کیا جاسکتا اور ایسا عجز جو ناقابل تلافی ہے، اور نیز اپنے آپ کو لاچار دیکھتا ہے کہ جتنا راستہ اِس وادی میں اب تک طے کرچکا ہے، واپس جائے، اور اب تک سب کچھ جس کی اس نے اللہ سے نسبت دی ہے، اس سے استغفار کرے اور ان اوصاف کی اس سے نفی کرے، اور نتیجتاً اپنے آپ کو ایسی حیرت میں سرگرداں پائے جس سے کوئی چھٹکارا نہیں ہے۔ یہ ہے مراد امام (علیہ السلام) کا اس فقرے سے جو فرمایا: “و کمال الاخلاص له نفى الصفات عنه لشهاده کل صفه انها غیر الموصوف و شهاده کل موصوف انه غیر الصفه”، “اور اس کے اخلاص کا کمال اس کی توصیف سے زبان کو روکنا ہے کیونکہ ہر صفت خود گواہی دیتی ہے کہ وہ موصوف کے علاوہ ہے، جیسا کہ ہر موصوف گواہی دیتا ہے کہ وہ صفت کے علاوہ ہے”۔اور اگر کوئی توجہ کرے تو سمجھ جائے گا کہ خطبہ کے اس فقرہ کے بارے میں یہ تفسیر جو ہم نے کی ہے یہ ایسا معنی ہے کہ خطبہ کے پہلے فقرے اس کی تائید کرتے ہیں، کیونکہ امام (علیہ السلام) خطبہ کے اوائل میں فرماتے ہیں: “الذى لا یدرکه بعد الهمم و لا یناله غوص الفطن الذى لیس لصفته حد محدود و لا نعت موجود و لا وقت معدود و لا اجل ممدود”۔ [ماخوذ اور اقتباس از: ترجمه تفسیر المیزان، ج۶، ص۱۳۸]۔۔۔۔۔۔۔۔حوالہ:[ماخوذ اور اقتباس از: ترجمه تفسیر المیزان، مرحوم علامہ طباطبائی]

تبصرے
Loading...