منتظر کون

خلاصہ: انتظار کرنے والے انسان کو ہر لحاظ سے تیار رہنا چاہئے چاہے فکری صورت ہو یا روحی، انتظام و اہتمام کا مسئلہ ہو یا عملی اقدامات ہوں۔

    اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام زمانہ(عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کا  ایک حقیقی منتظر ہر وقت اور ہر لمحہ اپنی کمزوریوں کو دور کرنے اور اسکی اصلاح کے در پے رہتا ہے اور ساتھ ساتھ دشمن کی کمزوریوں سے استفادہ کرنے اور اسکو شکست دینے کے فراق میں بھی رہتا ہے،      انتظار کرنے والے انسان کو ہر لحاظ سے تیار رہنا چاہئے چاہے فکری صورت ہو یا روحی، انتظام و اہتمام کا مسئلہ ہو یا عملی اقدامات ہوں، اس بناء پر حقیقی منتظر وہ ہے جو خود کو خداوند متعال کے نیک اور صالح بندوں کی صف میں لانے کی کوشش کرے اور زندگی کے ہر پہلو میں دین کے قوانین اور احکام کو جاری کرتے ہوئے صحیح معنوں میں دستورات دین پر عمل پیرا ہو، اپنے اور معاشرے کے لوگوں کو بھی امام(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے ظہور کے لئے تیار کرے۔     حضرت امام صادق(علیہ السلام) ایک روایت میں فرماتے ہيں: «مَنْ‏ سَرَّهُ‏ أَنْ‏ يَكُونَ‏ مِنْ‏ أَصْحَابِ‏ الْقَائِمِ‏ فَلْيَنْتَظِرْ وَ لْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِر; جو شخص يہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ حضرت امام مہدی(عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے محبوں ميں سے ہو اُسے چاہئے کہ وہ ظہور حضرت امام مہدی (عج)  کا منتظر رہے اور انتظار کے ساتھ اپنے آپ کو تقویٰ اور نيک اخلاق سے آراستہ و مزين کرے»[بحار الانوار، ج:۵۲، ص:۱۴۰]۔     انسان میں مختلف پہلو پائے جاتے ہیں، ایک طرف تو نظری اور عملی  پہلو اس میں موجود ہے اور دوسری طرف اس میں ذاتی اور اجتماعی پہلو بھی پایا جاتا ہے اور ایک دوسرے رخ سے جسمانی پہلو کے ساتھ روحی اور نفسیاتی پہلو بھی اس میں موجود ہے      جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مذکورہ پہلوؤں کے لئے مخصوص قوانین کی ضرورت ہے تاکہ ان کے تحت انسان کے لئے زندگی کا صحیح راستہ کھل جائے اور منحرف اور گمراہ کن راستہ بند ہوجائے۔*بحار الانوار، محمد باقر مجسلی، دار إحياء التراث العربي‏، بیروت، ۱۴۰۳ھ۔

تبصرے
Loading...