مدینہ اور مکہ میں امام حسین (علیہ السلام) کی زبانی دو آیات کی تلاوت

خلاصہ: حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے مدینہ سے روانہ ہوتے ہوئے ایک آیت کی تلاوت فرمائی اور مکہ میں داخل ہوتے ہوئے اس سے اگلی آیت کی تلاوت فرمائی۔

حضرت امام حسین (علیہ السلام) اتوار کے دن جب ماہ رجب سے دو دن باقی رہتے تھے اپنی اولاد اور گھرانے کے ساتھ مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے، جب آپؑ مدینہ کو چھوڑ رہے تھے تو اس آیت کی تلاوت فرمائی جو حضرت موسی ابن عمران (علیہ السلام) کا مصر سے روانہ ہوتے ہوئے اور فرعونیوں سے مقابلہ کرنے کی تیاری کے بارے میں نازل ہوئی ہے: “فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفاً يَتَرَقَّبُ قَالَ رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ”، “تو موسیٰ شہر سے خوفزدہ ہوکر نتیجہ کا انتظار کرتے ہوئے نکلے (اور) کہا اے میرے ربّ! مجھے ظالم لوگوں سے نجات عطا فرما”۔ [سورہ قصص، آیت ۲۱]
آپؑ نے جب پانچ دن کے بعد مدینہ سے مکہ کا فاصلہ طے کرتے ہوئے جمعہ کی رات تین شعبان کو مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تو اس شہر میں داخل ہوتے ہوئے سابقہ آیت کے بعد والی آیت کی قرائت فرمائی جو اس وقت کے بارے میں ہے جب حضرت موسی ابن عمران (علیہ السلام) نے فرعونیوں اوران کے زیرِ حکومت علاقے کو چھوڑ کر مدین کی طرف رخ کیا: “وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاءَ مَدْيَنَ قَالَ عَسَىٰ رَبِّي أَن يَهْدِيَنِي سَوَاءَ السَّبِيلِ”، “اور جب موسیٰ نے (مصر سے نکل کر) مدین کا رخ کیا تو کہا امید ہے کہ میرا ربّ سیدھے راستہ کی طرف میری راہنمائی کرے گا”۔حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے مدینہ سے روانگی اور مکہ میں داخل ہوتے ہوئے ان دو آیات کی تلاوت کیوں فرمائی اور سارے قرآن میں سے ان دو آیات کو منتخب کرنے کی وجہ کیا ہے؟حضرت امام حسین (علیہ السلام) ان دو باہمی متعلق آیات کی تلاوت کرنے سے اور وہ بھی پانچ دنوں کے فاصلے سے، اس بات کی طرف متوجہ ہیں یا اس بات کی طرف توجہ دلوا رہے ہیں کہ جس طرح حضرت موسی (علیہ السلام) کا اپنے مانوس وطن کو چھوڑنا اور غیرمانوس شہر کی پناہ لینا بے مقصد اور بے دلیل نہیں تھا، اسی طرح آپؑ بھی مدینہ سے روانہ ہوتے ہوئے کسی ایسے عظیم مقصد کے تعاقب میں ہیں جس مقصد کا عظیم ہستیاں تعاقب کرتی ہیں اور جب آپؑ مکہ میں داخل ہوئے تو آپؑ کا عظیم مقصد ہے جو اللہ کی خاص ہدایت اور راہنمائی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔
[ماخوذ از: سخنان حسین بن علی (علیہماالسلام) از مدینہ تا کربلا، تصنیف: آیت اللہ محمد صادق نجمی]

تبصرے
Loading...