قرآن میں “حبل اللہ”، اللہ کی رسّی سے مراد

خلاصہ: قرآن کریم نے حبل اللہ یعنی اللہ کی رسّی کو تھامنے کا حکم دیا ہے، کسی چیز کو تھامنے کے لئے اس کی پہچان بھی چاہیے، اس مضمون میں روایات کی روشنی میں حبل اللہ کی وضاحت کی جارہی ہے۔

   سورہ آل عمران کی آیت ۱۰۳ میں ارشاد الٰہی ہے: “وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا”، “اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو”۔حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “آلُ مُحَمَدٍ عليهم السلام هُمْ حَبْلُ اللَّهِ الَّذى‌ اُمِرْنا بِالْاعْتِصامِ بِهِ …”، “آل محمد علیہم السلام ہی حبل اللہ ہیں جسے تھامنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے تو (اللہ نے) فرمایا: “اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو”۔ [تفسير العياشي، ج۱، ص۱۹۴]حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے “وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِیعاً ” کے بارے میں ارشاد فرمایا: “نحن الحبل”، “ہم ہیں رسّی”۔حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) سے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپؑ نے ارشاد فرمایا: “علی بن ابی طالب حبل اللّه المتین”، علی ابن ابی طالبؑ، اللہ کی مضبوط رسّی ہیں”۔ [البرہان، ج۱، ص۶۷۱]حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا: “الامام منا لا یکون الا معصوما… فقال: هو معتصم بحبل اللّه، و حبل اللّه هو القرآن …”، “ہم میں سے امام، معصوم کے علاوہ کوئی نہیں، اور عصمت  خلقت کے ظاہر میں (پائی جانے والی چیز) نہیں ہے کہ اس کے ذریعے پہچانا جائے، اور اسی لیے امام کو منصوص ہونا چاہیے، تو آپؑ سے عرض کیا گیا: اے رسول اللہ کے فرزند! تو معصوم کے معنی کیا ہیں؟ تو آپؑ نے فرمایا: وہ اللہ کی رسّی کو تھامنے والا ہے، اور اللہ کی رسّی وہی قرآن ہے، یہ دونوں ایک دوسرے سے قیامت کے دن تک جدا نہیں ہوں گے، اور امام قرآن کی طرف ہدایت کرتا ہے، اور قرآن امام کی طرف ہدایت کرتا ہے، اور یہ اللہ عزّوجل کا فرمان ہے: “یقیناً یہ قرآن اس راستہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے”۔ [معاني الأخبار، ص۱۳۲]۔۔۔۔۔
حوالہ جات:[تفسير العياشي، العياشي، محمد بن مسعود][البرهان في تفسير القرآن، البحراني، السيد هاشم][معاني الأخبار، شیخ صدوق علیہ الرحمہ] 

تبصرے
Loading...