فدک پر حضرت علی(علیہ السلام) کی دلیل

خلاصہ: حکم الہی سے فدک کی سرزمین رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ملکیت خاص قرار پائی۔

     خیبر کے مشرق اور مدینه منوره سے ۲۰،فرسخ(۱۲۰ کیلومیٹر) کے فاصلے پر واقع ایک سرزمین کا نام ہے. اس علاقے میں رسول الله(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے دور میں پانی کا چشمه تھا، نخلستان تھا، کھیتی باڑی کے لئے زرخیز خطه بھی تھا اور یہاں رہنے کے لئے ایک رہائشی قلعہ بھی تھا جہاں یہودی رہائش پذیر تھے.    جب ابوبکر نے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی میراث کی نفی والی حدیث کا حوالہ دیا تو علی(علیہ السلام) نے کہا: اور سلیمان(علیہ السلام) داؤد(علیہ السلام) کے وارث ہوئے اور زکریا(علیہ السلام) نے کہا (خداوندا مجھے ایسا ولی عنایت عطا فرما جو) میرا اور آل یعقوب(علیہ السلام) کا وارث بنے اور ابوبکر نے کہا ایسا ہی ہے اور آپ جانتے ہیں جو میں جانتا ہوں. علی(علیہ السلام) نے فرمایا: یہ کتاب خدا ہے جو بول رہی ہے. پس سب خاموش ہوئے اور نشست برخاست ہوئی.[نهج الحقّ و كشف الصدق،  دار الكتاب اللبناني، ۱۹۸۲م، ص۵۱۹]۔*  حسن بن يوسف علامه حلى، نهج الحقّ و كشف الصدق،  دار الكتاب اللبناني، ۱۹۸۲م، ص۵۱۹۔

تبصرے
Loading...