غمِ حسین علیہ الصلاة والسلام

فضائل و امتیاز گریہ سے کوئی غلط مطلب اخذ نہ کیا جائے اور کوئی شخص یہ اعتراض نہ کرے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب کسی عمل کی ضرورت نہیں ہے! اس لئے کہ گریہ خود دعوتِ عمل ہے،گریہ امام حسین علیہ السلام سے ربط کی علامت ہے اور ربطِ حسین علیہ السلام مستقل دعوتِ عمل ہے۔ حسین علیہ السلام کا ربط عمل صالح سے ہے بے عملی سے نہیں ہے۔

گریہ سنتِ رسول(ص) ہے:تین شعبان ، 3 ہجری کو امام حسین علیہ السلام نے دنیا میں قدم رکھا تو فوراً جناب رسول خدا(ص) کو اطلاع دی گئی۔آپ (ص) نے حسین علیہ السلام کے دائیں کان میں اذان دی اور بائیں کان میں اقامت کہی۔نام رکھنے کا وقت آیا تو جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا:یا رسول اللہ (ص)!اللہ تعالی چاہتا ہے کہ اس کا نام نبی ہارون کے بیٹوں کے ناموں پر رکھا جائے۔آپ (ص) نے پوچھا:کہ انکے نام کیا تھے۔ (آپ (ص) کو پتہ تھا فقط رسم دنیا کے لئے سوال کیا)۔جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی:یارسول اللہ (ص)! اسکا نام شبیر تھا۔یہ عبرانی لفظ تھا۔آپ (ص) نے پوچھا: عربی میں کیا ہو گا؟جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی:عربی میں حسین ہو گا۔پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی زبان امام حسین علیہ السلام کے دہن میں رکھ دی اور اپنے لعاب دہن سے پہلی غذا کا بندوبست کیا۔اسی واسطے تو آپ (ص) نے فرمایا تھا:حسین (علیہ السلام) مجھ سے ہے اورمیں بھی حسین (علیہ السلام) سے ہوں،خلّاقِ عالم نے جبرئیل کو حکم دیا کہ میرے حبیب محمد مصطفیٰ(ص) کو میری طرف سے حسین علیہ السلام کی ولادت پر مبارک باد دے دو اور ساتھ ہی ساتھ انکی شہادتِ عظمیٰ سے بھی انہیں مطلع کر کے تعزیت ادا کر دو۔جبرئیل علیہ السلام نے آنحضرت(ص) کی خدمت میں پہنچ کر تہنیت ادا کی اور عرض کی:اے حبیب ربِ کریم!آپ (ص) کی خدمت میں شہادت حسینی کی تعذیت بھی منجانب اللہ پیش کی جاتی ہے۔یہ سن کر آپ (ص) نے کہا کہ تعزیت کی تفصيل بیان کرو۔جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی:ایک دن وہ ہو گا کہ جس دن آپ (ص) کے اس فرزند حسین علیہ السلام کے گلوئے مبارک پر خنجر آبدار رکھا جائیگا اور آپ (ص) کا یہ نور نظر بےیارو مددگار میدانِ کربلا میں یک و تنہا تین دن کا بھوکا پیاسا شہید ہو گا۔یہ سن کر آپ (ص) محوِ گریہ ہو گئے۔ آپ (ص) کے رونے کی خبر جونہی امام علی علیہ السلام اور جناب السیدہ فاطمہ زہرا علیہ السلام کو پہنچی تو وہ بھی رونے لگے۔جناب سیدہ علیہ السلام نے حضور(ص) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی:بابا جان یہ کب ہو گا؟فرمایا:جب نہ میں ہونگا، نہ تم ہو گی ، نہ علی علیہ السلام ہونگے اور نہ حسن علیہ السلام ہونگے۔جناب فاطمہ علیہ السلام نے پوچھا:بابا! میرا بچہ کس خطا پر شہید ہو گا؟فرمایا:بالکل بے جرم و خطاب، صرف اسلام کی حمایت میں شہید ہو گا۔جناب فاطمہ علیہ السلام نے عرض کی:بابا جان!جب ہم میں سے کوئی نہ ہو گا تو پھر اس پر گریہ کون کریگا اور اسکی صفِ ماتم کون بچھائے گا؟ابھی رسولِ خدا (ص) جواب نہ دینے پائے تھے کہ ہاتفِ غیبی کی آواز آئی:اے فاطمہ علیہ السلام!غم نہ کرو ، تمہارے اس فرزند کا غم ابدالأباد تک منایا جائے گا اور اس کا ماتم قیامت تک جاری رہے گا۔حجابِ دوزخ:مولا امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:کوئی ایسا انسان نہیں جو ہمارے مصائب بیان کرے یا اسکے سامنے ہمارے مصائب بیان کیے جآئیں اور اسکی آنکھ سے مچھر کے پرکے برابر آنسو نکل آٸے تو اسکے اجر اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ اللہ تعالی اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنوادے اور پروردگار اسکے اور دوزخ کی آگ کے درميان حجاب کھڑا کر دے۔اشکِ غم کا اثر:مولا امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس آپ علیہ السلام کا ایک محب آیا جسکا نام مسمع تھا۔امام علیہ السلام نے اس سے پوچھا:کیا تم امام حسین علیہ السلام کے غم میں مجالس برپا کرتے ہو اور کیا امام حسین علیہ السلام کے غم میں گریہ و آہ بکا بھی کرتے ہو؟اس نے جواب دیا:جی ہاں مولا علیہ السلام!ہم گریہ بھی کرتے ہیں اور ہمارے چہروں پر آثارِ غم نمایاں ہوتے ہیں۔امام علیہ السلام نے فرمایا:اللہ تعالی تمہارے آنسوؤں کو تمہارے لئے رحمت قرار دے۔پس آگاہ ہو جاؤ:کہ تم ان افراد میں سے ہو جو ہمارے مصائب پر گریہ کرتے ہیں، کہ عنقریب جب موت کا وقت آئے گا گا تو ہمارے جد کو اپنے سرہانے پاؤگے۔ وہ تمہاری طرف متوجہ ہونگے اور ملک الموت کو تمہارے لئے سفارش کر رہے ہونگے۔ ملک الموت اس وقت ماں سے زیادہ مہربان ہو جائے گا۔بحوالہ۔بحارالانوار۔جلد 45کامل الزیارات۔الغدیر۔جلد٢چودہ ستارے۔نقوشِ عصمت۔بشکریہ:العصر:اسلامک سروس

تبصرے
Loading...