عشق،اقبال اور امام حسینؑ

عشق،اقبال اور امام حسینؑ

بقلم  علی عامر

شہادت امام حسینؑ کے نئے پہلوؤں پربھرپورتخلیقی اظہار علامہ اقبال کے کلام میں ملتا ہے۔ علامہ اقبال امام حسینؑ سے روشنی لے کر ملت کی شیرازہ بندی کرنا چاہتے تھے۔غریب وسادہ ورنگین ہے داستان حرمنہایت اس کی حسینؑ ، ابتدا ہے اسماعیلؑ۔۔۔صدق خلیل بھی ہے عشق، صبرحسین بھی ہے عشقمعرکہ وجود میں، بدروحنین بھی ہے عشق علامہ اقبال کربلا اور امام حسینؑ کوقربانی اسماعیلؑ کاتسلسل جانتے ہیں بلکہ ’’ذبح عظیم‘‘ کامصداق قرار دیتے ہیں جس کااظہار انھوں نے اپنے فارسی کلام میں بھی کیا ہے۔اللہ اللہ بائے بسمہ اللہ پدرمعنی ذبح عظیم آمد پسریعنی کہ حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کوجس عظیم قربانی سے بدل دیا گیا تھا وہ امام حسینؑ کی قربانی ہے اوریہ نکتہ کوئی آگاہ شخص ہی بیان کرسکتا ہے اوریہ قربانی مفہوم کی دلربا تفسیر بھی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ قربانی حسینؑ کااسلام میں کیامقام ہے اورمنشاء ایزدی میں قربانی حسینؑ کب سے جلوہ گرتھی۔اقبال کی شاعری میں یہ اشعار بھی ملتے ہیں۔حقیقت ابدی ہے مقام شبیریبدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی۔۔۔

 

قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں گرچہ ہے دابدار، ابھی گیسوئے دجلہ وفرات’’بال جبرائیل ‘‘ میں علامہ ’’فقر‘‘کے عنوان سے ایک مختصر نظم میں جس میں فقر کی اقسام بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔اک فقر سکھاتا ہے صیاد کومخچیریاک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیریاک فقر سے قوموں میں مسکینی ودلگیریاک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیریاک فقر ہے شبیری ، اس فقر میں ہے امیریمیراث مسلمانی ، سرمایہ شبیریعلامہ اقبال برصغیر کے مسلمانوں خصوصاً علماء کرام اورحجروں میں بند بزرگان دین کودعوت فکر دیتے ہیں۔

نکل کرخانقاہوں سے اداکررسم شبیریکہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری(ارمغان حجاز)جس وقت علامہ نے یہ بات کی توپوری امت محمدیؐ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی مگر علامہ انھیں رسم شبیری اداکرنے کاکہہ رہے ہیں اقبال کی فکر کتابوں میں رہ جاتی مگر ایران میں ایک مرد جلیل نے رسم شبیری اداکرکے اس فکر کودنیا میں جیتا جاگتا مجسم کردیا ہے آ ج جہاں بھی مسلمان مجبور ہیں وہ رسم شبیری اداکررہے ہیں یااسی فکرکو اپنانے کی فکرمیں ہیں لیکن اقبال یہ فکردینے میں فوقیت حاصل کرگئے۔علامہ اقبال کاکچھ کلام باقیات اقبال کے نام سے شائع ہوا ہے جسے علامہ اقبال نے اپنے کلام کومرتب کرتے وقت نظر انداز کردیا تھااس میں سے دوشعر پیش ہیں۔

 

جس طرح مجھ کو شہید کربلا سے پیار ہےحق تعالیٰ کویتیموں کی دعا سے پیار ہےرونے والا ہوں شہیدکربلا کے غم میں کیا دُر مقصود نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے علامہ اقبال نے اپنے کلام کووسعت اورزندہ وجاوید رکھنے کے لئے جہاں آفاقی نظریات پیش کئے وہاں فارسی زبان میں بھی اظہار خیال فرمایا ۔ علامہ کے فارسی کلام کوپڑھے بغیر ان کے نظریات بالخصوص ’’نظر خودی‘‘ سے مکمل آگاہی لا حاصل ہے۔علامہ اقبال نے رموز بے خودی میں’’درمعنی حریت اسلامیہ وسیر حادثہ کربلا‘‘کے عنوان سے امام عالی مقام کوخراج عقیدت پیش کیا ہے اس علامہ اقبال اسلام کی خصوصٰات بیان کرتے ہوئے کربلاکاتذکرہ کرتے ہیں شروع کے کچھ اشعار عقل وعشق کے ضمن میں ہیں اس کے بعد اقبال جب اصل موضوع پرآئے ہیں تو صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کردار حسینؑ کوکس نئی روشنی میں دیکھ رہے ہیں اورکن پہلوؤں پرزور دینا چاہتے ہیں حسینؑ کے کردار میں انھیں عشق کاوہ تصور نظرآتا ہے جوان کی شاعری مرکزی نقطہ ہے اوراس میں انھیں حریت کاوہ شعلہ بھی ملتا ہے جس کی تب وتاب سے وہ ملت کی شیرازہ بندی کرنا چاہتے تھے آئیے ان فارسی اشعار کامطالعہ کرتے ہیں۔

 

ہرکہ پیماں باھُوَالمَوجود بست گردنش از بندہرمعبود رست’’جوشخص قوانین خداوندی کی اتباع کومقصود زندگی قرار دے لے اوراسی طرح اپنا عہدوپیمان اللہ سے باندھ لے اس کی گردن میں کسی آقا کی غلامی اورمحکموی کی زنجیر نہیں رہتی۔‘‘پہلے شعر کے بعد علامہ نے عشق وعقل کاخوبصورت موازنہ پیش کیا ہے۔ یہ موازنہ پیش کرکے اقبال بتانا چاہتے ہیں کہ امام حسینؑ اورکربلا کوسمجھنے کے لئے عقل کافی نہیں بلکہ عشق کی نظر چاہئے امام عالی مقام کایہ کارنامہ عقل کی بنا پرظہور پذیر نہیں ہوا بلکہ عشق کی قوت کارفرماتھی۔ اس لئے ایسے لوگ جوعقلی دلائل پرواقعہ کربلا کی توضیح کرتے ہیں وہ ہمیشہ شک وتردید کااظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جوعشق کی نظر سے دیکھتے ہیں توپھر وہ اس نتیجہ پرجاپہنچتے ہیں جہاں علامہ اقبال پہنچ گئے ہیں۔

عقش را آرام جاں حریت است ناقہ اش را ساربان حریت است’’عشق کوکامل سکون اوراطمینان آزادی ملتا ہے اس کے ناقہ کی ساربان حریت ہے۔‘‘آن شنیدیستی کہ ہنگام نبرد عشق باعقل ہوس پرورچہ کرداقبال تمہیدی اشعار کے بعد واقعہ کربلا کی طرف آتے ہیں اورکہتے ہیں’’تم نے سنا ہے کہ کربلا کے میدان میں عشق نے عقل کے ساتھ کیاکیا۔‘‘آں امام عاشقان پور بتولؑ سرد آزادے زبستان رسولؐاللہ اللہ بائے بسمہ اللہ پدر معنی ذبح عظیم آمد پسرعاشقوں کے امام حضرت فاطمہ ؑ کی اولاد اورحضورؐ کے گلستان کے پھول ہیں حضرت علیؑ ان کے والد بزرگوار ہیں اس میں’’اللہ اللہ‘‘وہ کلمہ تحسین ہے جومرحبا اورشاباش کے معنوں میں آتا ہے اس کے بعد حضرت علی ؑ کو‘‘بائے بسمہ اللہ‘‘ سے یادکیاگیا ہے یہ خود علامہ اقبال کی اہل بیتؑ شناسی پرایک دلیل ہے امام حسینؑ کو’’ذبح عظیم‘‘ کامصداق قرار دیا ہے علامہ اقبال قربانی امام حسینؑ کوقربانی اسماعیل ؑ کاتسلسل قرار دیتے ہیں۔

 

بہرآں شہزادہ خیرالملل دوش ختم المرسلین نعم الجمل روایت میں ہے کہ ایک دن نبی اکرمؐ اپنے دونوں نواسوں کوکندھوں پرسوار کرکے کھیلا رہے تھے آپؐ نے اس وقت فرمایا کہ تمہارا اونٹ کیسا اچھا ہے اوراس کی سواریاں کیسی خوب ہیں ’’نعم الجمل‘‘ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔سرخ رو عشق غیور از خون او شوخی ایں مصرع از مضمون اوامام حسینؑ کے خون کی رنگینی سے عشق غیور سرخ رو ہے کربلا کے واقعہ سے اس موضوع میں حسن اوررعنائی پیدا ہوگئی ہے

 

۔درمیاں امت آں کیواں جناب ہمچو حرف قل ھواللہ درکتاب امت محمدیہؐ

میں آپؑ کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے قرآن مجید میں سورۂ اخلاص کی ہے سورۂ اخلاص میں توحید پیش کی گئی جوکہ قرآنی تعلیمات کامرکزی نکتہ ہے اسی طرح امام حسینؑ کوبھی امت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔موسیٰ وفرعون وشبیر ویزید ایں دوقوت از حیات آید پدیدزندہ حق از قوت شبیری است باطل آخر داغ حسرت میری استدنیا میں حق وباطل کی کشمکش شروع سے چلی آرہی ہے اس کشمکش میں مجاہدین کی قوت بازو سے حق کاغلبہ ہوتا ہے اورباطل شکست ونامرادی سے دوچار ۔۔۔چوں خلافت رشتہ از قرآن گسیخت حریت رازہراندرکام ریختخاست آں سرجلوہ خیرالامم چوں سحاب قبلہ باراں درقدمبرزمین کربلا بارید ورفت لالہ درویرانہ کارید رقتجب خلافت کاتعلق قرآن سے منقطع ہوگیااور مسلمانوں کے نظام میں حریت فکرونظر باقی نہ رہی تواس وقت امام حسینؑ اس طرح اٹھے جیسے جانب قبلہ سے گھنگھور گھٹااٹھتی ہے یہ بادل وہاں سے اٹھا کربلا کی زمین پربرسا اوراسے لالہ زار بنادیا۔

 

تاقیامت قطع استبداد کرد موج خون او چمن ایجاد کرد

آپؑ نے اس طرح قیامت تک ظلم واستبداد کے راستے بندکردیئے اوراپنے خون کی سیرابی سے ریگزاروں کوچمنستان بنادیا۔بہرحق درخاک وخوں غلطیدہ است پس بنائے لاالٰہ گرویدہ استآپؑ نے حق کے غلبہ کے لئے جان دے دی اوراس طرح توحید کی عمارت کی بنیاد بن گئے بنائے ’’لاالٰہ‘‘میں تلمیح ہے خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے اس مصرع کی طرف:’’حقا کہ بنائے لاالٰہ ھست حسینؑ ‘‘مدعایش سلطنت بودے اگر خودنکردے باچنیں سامان سفردشمناں چو ریگ صحرا لاتعد دوستان او بہ یزداں ہم عدداگر آپؑ کامقصد حصول سلطنت ہوتا تواس بے سروسامانی میں نہ نکلتے بلکہ دیگر سامان واسباب سے قطع، ساتھیوں کی تعداد کے اعتبار سے دیکھئے تویہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ مخالفین کالشکر لاتعداد تھامگر آپؑ کے ساتھ صرف بہتر(72)نفوس تھے

 

یہاں علامہ نے یزداں کے عدد’’72‘‘ کاحوالہ دیا ہے۔

سرابراہیمؑ واسماعیلؑ بود یعنی آں جمال راتفصیل بودکربلا کے واقع میں قربانی اسماعیلؑ کی تفصیل ہے۔تیغ بہرعزت دین است وبس مقصد اوحفظ آئین است وبسمومن کی تلوار ہمیشہ دین کے غلبہ واقتدار کے لئے اٹھتی ہے ذاتی مفاد کے لئے نہیں اس کامقصد آئین اورقانون کی حفاظت ہوتا ہے۔ماسوا اللہ را مسلمان بندہ نسبت پیش فرعونی سرش افگندہ نسبتمسلمان اللہ کے سوا کسی کامحکوم نہیں ہوتا اس کاسرکسی فرعون کے سامنے نہیں جھکتا۔خون او تفسیر ایں اسرار کرد ملت خوابیدہ رابیدار کردامام حسینؑ کے خون نے ان اسرار ورموز دین کی تفسیر کردی اورسوئی ہوئی ملت کاجگایا۔تیغ لا چوازمیاں بیروں کشید از رگ ارباب باطل خوں کشیدانھوں نے جب’’لا‘‘ کوبے نیام کیاتوباطل کے خداؤں کی رگوں سے خون جاری ہوگیا۔

 

نقش الا للہ برصحرا نوشت سطر عنوان نجات ما نوشتباطل کے خداؤں کومٹانے کے بعد انھوں نے سرزمین کربلا پرخدا کی توحید کانقش ثبت کردیا وہ توحید جوہماری نجات کاسرعنوان ہے۔رمز قرآن از حسینؑ آموختیم بہ آتش او شعلہ ھا اندوختیمہم نے قرآن کے رموز واسرار امام حسینؑ سے سیکھے ہیں ان کی حرارت ایمانی سے ہم نے شعلہ ہائے حیات کوجمع کیا ہے۔شوکت شام وفربغداد رفت سطوت غرناطہ ہم از یاد رفتتار ما ازخمہ اش لرزاں ہنوز تازہ از تکبیر اوایمان ہنوزمسلمانوں کی کئی سلطنتیں قائم ہوئیں اورمٹ گئیں بنی امیہ کی سلطنت دمشق میں بھی اوراندلس میں بھی،بنی عباس کی حکومت ،یہ اپنے پورے عروج کے بعد ختم ہوگئیں لیکن داستان کربلا ابھی تک زندہ ہے ہمارے تارحیات میں پوشیدہ نغمے اسی مضراب سے بیدار ہوتے ہیں امام حسینؑ نے تکبیر کی جوآواز بلندکی تھی اس سے ہمارے ایمانوں میں تازگی پیدا ہوجاتی ہے۔

 

اے صبا اے پیک دور افتادگاں اشک ما برخاک پاک او رساں(اے صبا!توہماری نم آلود آنکھوں کا سلام مرقد امام حسینؑ تک پہنچادے۔)

بشکریہ:۔ عزمِ نو۔۔۔۔۔۔

تبصرے
Loading...