زمانہ غیبت میں فقہاء کی طرف رجوع کرنا

اٴَمَّا الْحَوٰادِثُ الْوٰاقِعَةُ فَارْجِعوُا فیهٰا إِلٰی رُوٰاةِ حَدیثِنٰا، فَإِنَّهُمْ حُجَّتِي عَلَیْكُمْ وَ اٴَنَا حُجَّةُاللهِ عَلَیْهِمْ؛”لیکن ہر زمانہ میں پیش آنے والے حوادث (اور واقعات) میں ہماری احادیث بیان کرنے والے راویوں کی طرف رجوع کرو، کیونکہ وہ تم پر ہماری حجت ہیں اور میں ان پر خدا کی حجت ہوں“۔[اعلام الوری، ج2، ص271]یہ حدیث ان مطالب کا ایک حصہ ہے جس کو امام زمانہ علیہ السلام نے اسحاق بن یعقوب کے سوالات کے جواب میں ارشاد فرمایا ہے۔

شرح: مندرجہ بالا حدیث شریف میں امام علیہ السلام زمانہ غیبت میں اپنے شیعوں کو رونما ہونے والے حوادث کے موقع پر ان کی ذمہ داری کی طرف اشارہ فرماتے ہیں۔امام مھدی علیہ السلام اپنے شیعوں کو شرعی یا معاشرتی مسائل کو سمجھنے کے لئے روایان حدیث (کہ جو فقھائے شیعہ ہیں) کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتے ہیں؛ کیونکہ یھی حضرات حدیث کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، اور خاص و عام، محکم و متشابہ اور صحیح و باطل کو پہچانتے ہیں۔امام زمانہ علیہ السلام کی نظر میں ”راویان حدیث“ وہ لوگ نہیں ہیں جو فقط روایت کو نقل کرتے ہیں بغیر اس کے اس کو صحیح طور پر سمجہے ہوئے ہوں؛ کیونکہ ایسے افراد شرعی و غیر شرعی مشکلات کو حل نہیں کرسکتے۔عصر غیبت میں فقہاء کی طرف رجوع کرنا کوئی مستحب کام نہیں ہے بلکہ ایک واجب شرعی ہے؛ کیونکہ فقھائے کرام امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے اس کام کے لئے مقرر ہوئے ہیں اور امام علیہ السلام کے فرمان کی مخالفت نہیں کی جاسکتی۔ماخذ:کمال الدین، ج2، ص484، ح10، الغیبة، شیخ طوسی، ص291، ح247، احتجاج، ج2 ، ص284،اعلام الوری، ج2، ص271، کشف الغمة، ج3، ص338، الخرائج و الجرائح، ج3،ص1114، بحار الانوار، ج53، ص181، ح10، وسائل الشیعہ، ج27، ص140، ح33424۔

تبصرے
Loading...