دین کی ابتداء اللہ کی معرفت

دین کی ابتداء اللہ کی معرفت

خلاصہ: نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ کی مختصر تشریح بیان کرتے ہوئے مولائے کائنات حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے اس فقرے کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے جو اس بارے میں ہے کہ دین کی ابتداء اللہ کی معرفت ہے۔ اس مضمون میں مثال کے ساتھ وضاحت کی جارہی ہے کہ دین کو جڑ سے کیوں شروع کرنا چاہیے، ٹہنیوں سے نہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “أَوَّلُ الدِّينِ مَعْرِفَتُهُ”، “دین کی ابتداء اللہ کی معرفت ہے”۔آپؑ کا ارشاد اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ دین کو اللہ کی معرفت سے شروع کرے، کیونکہ اللہ کی معرفت، دین کی اول، ابتدا، جڑ اور بنیاد ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ جب کوئی ٹہنی اور پھَل درخت کی جڑ سے اُگ کر پروان چڑھے تو اس میں حیات اور زندگی ہوتی ہے، ورنہ اگر الگ سے کوئی ٹہنی لاکر درخت پر لگائی جائے تو اس کو کسی اور ٹہنی سے باندھنا پڑے گا، کیونکہ اس ٹہنی میں زندگی اور حیات نہیں ہے۔ دین بھی اسی طرح ہے، اگر اسے اللہ کی معرفت سے شروع کیا جائے تو اس دین میں حیات ہوگی کیونکہ وہ دین اپنی جڑ اور بنیاد پر قائم ہوا ہے جو اللہ کی معرفت ہے، لیکن اگر معرفتِ الٰہی کے بغیر دین پر عمل کیا جائے تو یہ مصنوعی کام اور بناوٹ ہی ہوگا اور بعض اعمال کو دیگر بعض اعمال سے زبردستی باندھنا پڑے گا، اس لیے کہ ان اعمال کا جڑ سے کوئی تعلق نہیں ہیں بلکہ اس جڑ سے اُگے بھی نہیں ہیں کہ انہیں جڑ سے حیات مل سکے۔ لہذا نہ یہ ٹہنی اس درخت کی ٹہنی ہے اور نہ یہ پھَل اس درخت کا پھَل ہے۔انسان کے اخلاقِ حسنہ اور اعمال کو طبعی طور پر اس کے عقیدے اور ایمان کا پھَل بننا چاہیے، اگر پھَل طبعی طور پر بنے تو پھر زحمت اور تکلیف نہیں ہوگی، جیسا کہ ہر طبعی اور فطری کام تکلیف کے بغیر ہوتا ہے۔ بنابریں اگر اللہ کی معرفت سے شروع کیا جائے تو اچھا اخلاق اور اچھا عمل، انسان کے وجود کا طبعی پھَل ہے۔۔۔۔۔۔

 

حوالہ:

[اصل مطالب ماخوذ از: یادداشتہای استاد مطہری]

تبصرے
Loading...