دنیا امام علی النقی(علیہ السلام) کی نظر میں

خلاصہ: امام علی النقی(علیہ السلام) نے دنیا کو بازار سے تشبیہ دی ہے، جو اس میں خدا کی اطاعت کریگا وہ کامیباب ہوگا اور جو اس کی نافرمانی کریگا اس کا شمار گھاٹہ اٹھانے والوں میں ہوگا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     دنیا کے بارے میں اہل(علیہم السلام) سے مختلف قسم کی تعبیریں نقل ہوئی ہیں، جس میں سے ایک روایت امام علی القی(علیہ السلام) سے نقل ہوئی ہے، جس میں آپ نے دنیا کو ایک بازار سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا: «اَلدُّنيا سُوقٌ رَبِحَ فيها قَومٌ وخَسِرَ آخَرونَ[۱] دنیا ایک بازار ہے بعض لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور بعض لوگ نقصان»۔     اس حدیث میں امام(علیہ السلام)، دنیا کو ایک بازار سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمارہے ہیں، جس نے اس دنیا میں مشکلات کا سامنہ کرتے ہوئے صبر کا مظاہرہ کیا اور خدا کی بارگاہ میں کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں کی، بے شک اس نے اس دنیا سے فائدہ اٹھایا، لیکن جس نے یہاں کی مشکلات میں صبر کے بجائے بے تابی کی اور خدا سے شکایتیں کیں، اس نے اس دنیا سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا، جو جس طرح یہاں خدا کی اطاعت کریگا اس کو آخرت اسی کا پھل ملنے والا ہے جیسا کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارشاد فرمارہے ہیں: «الدُّنیا مَزْرَعَة الآخِرَة[۲] دنیا آخرت کی کہیتی ہے».     امام علی النقی(عليہ السلام) کی اس حدیث کو دیکھ کر ہمارے ذھن میں یہ سوال آتا ہے کہ وہ لوگ کون ہیں جو اس دنیا سے فائدہ اٹھانے والے ہیں، اور وہ کونسے لوگ ہیں جو اس سے گھاٹہ اٹھانے والےہیں۔ ان دونوں سوالات کے جوابات خداوند متعال قرآن مجید میں فرماچکا ہے، جو لوگ فائدہ اٹھانے والے ہیں ان کے بارے میں خدا اس طرح ارشاد فرمارہا ہے: «يَاأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ هَلْ أَدُلُّكمُ‏ْ عَلىَ‏ تجِارَةٍ تُنجِيكمُ مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ  تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ تجُاهِدُونَ فىِ سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكمُ‏ْ وَ أَنفُسِكُمْ  ذَالِكمُ‏ْ خَيرٌ لَّكمُ‏ْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُون‏[سورۂ صف، آیات:۱۰-۱۱] ایمان والو کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت کی طرف رہنمائی کروں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچالے، اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور خدا کے راستہ میں اپنی جان و مال سے جہاد کرو کہ یہی تمہارے حق میں سب سے بہتر ہے اگر تم جاننے والے ہو»۔     بے شک وہی لوگ جھنم کی آگ سے نجات حاصل کرنے والے ہیں جو لوگ اللہ کے اوپر ایمان لیکر آئے اور اللہ کے راستہ میں اس کی معرفت حاصل کرنے کے لئے جدّ و جھد کی۔     خداوند متعال بلافاصلہ ان دو آیتوں کے بعد ان لوگوں کو جس نے اللہ کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کی کوشش کی ان کی کوشش کے عوض میں انھیں کیا عطا کرنے والا ہے، اس کو بیان کیا: « يَغْفِرْ لَكمُ‏ْ ذُنُوبَكمُ‏ْ وَ يُدْخِلْكمُ‏ْ جَنَّاتٍ تجرِى مِن تحَتهِا الْأَنهْارُ وَ مَسَاكِنَ طَيِّبَةً فىِ جَنَّاتِ عَدْنٍ  ذَالِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيم‏[سورۂ صف، آیت:۱۲] وہ تمہارے گناہوں کو بھی بخش دے گا اور تمہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور اس ہمیشہ رہنے والی جنّت میں پاکیزہ مکانات ہوں گے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے»۔     اور جو لوگ گھاٹہ اٹھانے والے ہیں ان کے بارے میں خداوند متعال اس طرح ارشاد فرمارہا ہے: «أَرَضيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ فَما مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا فِي الْآخِرَةِ إِلاَّ قَليل‏[سورۂ توبه، آیت:۳۸] کیا تم آخرت کے بدلے زندگانی دنیا سے راضی ہوگئے ہو تو یاد رکھو کہ آخرت میں اس متاع زندگانی دنیا کی حقیقت بہت قلیل ہے»، اور دوسری جگہ ارشاد فرمارہا ہے: «لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُواْ فىِ الْبِلَادِ  مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَئهُمْ جَهَنَّمُ  وَ بِئْسَ المِهَادُ[سورۂ آل‌عمران، آیات: ۱۹۶-۱۹۷] خبردار تمہیں کفّار کا شہر شہر چکر لگانا دھوکہ میں نہ ڈال دے یہ حقیر سرمایہ اور سامانِ تعیش ہے اس کے بعد انجام جہّنم ہے اور وہ بدترین منزل ہے»۔
نتیجه :     خداوند عالم نے ہم کو جو  اس زندگی کی نعمت سے نوازا ہے، اب ہمارے ہاتھ میں ہیں یا تو ہم اس سے فائدہ اٹھا کر جنت کو حاصل کرلیں یا اسی کی وجہ سے جھنم کی راہ کو ہموار کرلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حوالے:[۱] بحار الانوار ، علامه مجلسى‏،  ج۷۵، ص۱۵، دار إحياء التراث العربي‏، بيروت‏، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق۔[۲] کافی، محمد ابن یعقوب کلینی،ج۳، ص۳۸، دارالحدیث،قم،۱۴۲۹۔

تبصرے
Loading...