حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) اور خدا کی معرفت

خلاصہ: اگر ہمیں خدا کی معرفت حاصل کرنا ہے تو ہمیں خدا کے بھیجے ہوئے نمائندوں کی اتباع کرنا ضروری ہے، کیونکہ وہ لوگ ہی ہم کو خدا کی حقیقی معرفت کی طرف راہنمائی کرسکتے ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم     ہمارا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال اس پوری کائنات کا خالق ہے اور اس دنیا میں موجود ہر چیز پر اس کی عظمت، قدرت اور علم کی نشانیاں جلوہ نما ہے، جو لوگ گناہوں کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہوتے ہیں ان کو یہ نشانیاں نظر نہیں آتیں، کیونکہ قرآن کی آیت کے مطابق: « یقینا ہم نے انسان و جنات کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہّنم کے لئے پیدا کیا ہے کہ ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں اور آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں اور کان ہیں مگر سنتے نہیں ہیں یہ چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور یہی لوگ اصل میں غافل ہیں[سورۂ اعراف، آیت:۱۷۹]»، اگر انسان کو اس غفلت سے نکلنا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اللہ کے بھیجے ہوئے نمائدوں کی تأسی اور اتباع کرے اور ان کی سیرت کا مطالعہ کرے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے، اسی مقصد کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس مقالہ میں حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) خدا کی جو معرفت رکھتی تھیں اس کے ایک ادنی سے گوشہ کو بیان کیا جارہا ہے تاکہ آپ کی سیرت کو دیکھ کر ہمارے اندر بھی خدا کی معرفت میں اضافہ ہو۔     اگر حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کے کردار پر نظر ڈالی جائے تو اس میں سوائے خدا کے جلووں کے اور کچھ بھی نظر نہیں آتا، جیسا کہ ایک دفعہ حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) سے فرمایا: فاطمہ(سلام اللہ علیہا)، جبرئیل کہ رہے ہیں: خدا نے آپ کو سلام کہلوایا ہے اور فرمایا: فاطمہ، سے کہدو کہ جو بھی حاجت ہے وہ طلب کریں، حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) نے تھوڑی دیر فکر کی اور فرمایا: « لا حاجَۀَ لِی غَیرُ النَّظَرِ اِلی وَجهِهِ الکَرِیمِ[۱] میری حاجب اس کے سواء کچھ بھی نہیں ہے کہ میں ہمیشہ خدا کے جمال کو دیکھتی رہو»۔     یہ کلام اسی زبان سے نکل سکتا ہے جس نے حقیقی اور واقعی کمال کو حاصل کر لیا ہو اور مناجات کی لذت کو محسوس کیا ہو اور جس نے اپنے آپ کو خدا کی محبت می فانی کردیا ہو اسی لئے تو جب حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا ) محراب میں کھڑی ہوجاتی تھیں: «زَهَرَ نُورُها لِلمَلائِکَةِ السَّمَاء[۲] ملائکہ کے لئے آپ کی نماز کا نور پھیل جاتا تھا»، آپ کی ذات وہ ہیں جس نے دنیا کی پستوں کی طرف کبھی بھی رجحان پیدا نہیں کیا اور سختی اور تنگدستی نے بھی آپ کے ایمان کو کمزور نہیں کیا اسی لئے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) نے آپ کے بارے میں فرمایا: «إِنَّ ابْنَتِی فَاطِمَةَ مَلَأَ اللهُ قلب ها وَ جوارح ها إِیِمَاناً وَ یَقِینا[۳] میری بیٹی فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کا تمام وجود ایمان اور یقین سے بھرا ہوا ہے»۔     حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) ہمشیہ اپنے چاہنے والوں کو اپنی طرح خدا کا اطاعت گذار اور مطیع بنانے کی کوشش کیا کرتی تھیں، ایک دفعہ آپ کے ایک چاہنے والے نے اپنی بیوی کو آپ کی خدمت میں بھیجا تاکہ یہ جانے کہ اس کا شمار آپ کے شیعوں میں سے ہوتا ہے یا نہیں؟     حضرت زهرا(سلام الله علیها) نے فرمایا: «اِن کُنتَ تَعمَلُ بِما أمَرناکَ وَ تَنتَهی عَما زَجَرناکَ عَنهُ فَأنتَ مِن شیعَتِنا وَ اِلّا فَلا؛ ہم نے جس چیز کا حکم دیا ہیں اگر تم اس پر عمل کرتے ہو اور ہم نے جس چیز سے تم کو منع کیا ہیں اگر تم اس کو انجام نہیں دیتے، تو ہمارے شیعہ ہو»۔     جب اس کے شوہر نے یہ سنا تو بہت زیادہ پریشان ہوگیا اور کہنے لگا کہ میں ہمیشہ جھنم میں ہی رہونگا، اس کی بیوی پریشان ہوگئی اور حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) سے بتایا، حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: اپنے شوہر سے کہدو: اس طرح نہیں ہے، ہمارے شیعہ جنت کے بہترین لوگوں میں سے ہونگے، ہمارے چاہنے والوں کے چاہنے والے اور ہمارے دشمنوں سے دشمنی رکھنے والے سب جنت میں رہینگے! ہاں جو دل اور زبان سے ہم اہل بیت(علیہم السلام) سے محبت کرتا ہے لیکن ہماری اتباع نہیں کرتا ہمارا حقیقی شیعہ نہیں ہوسکتا، اگرچہ کہ یہ گروہ بھی گناہوں کی بخشش کے بعد جنت میں داخل ہوجائیگا اور ہم اس کو ہماری محبت کی خاطر جھنم کی آگ سے نجات دےکر اپنی بارگاہ میں جگہ دینگے [۴]۔نتیجہ:     اگر ہمیں خدا کی حقیقی معرفت کو حاصل کرنا ہے تو ضروری ہے کہ ہم معصومین(علیہم السلام) کی اتباع کریں، اور ان کی اتباع ان کی فرمائشات پر عمل کرکے ہی ہو سکتی ہے٫ اگر صرف دل اور زبان کے ذریعہ ان سے محبت کرینگے اور کردار کو ان کی طرح اپنانے کی کوشش نہیں کرینگے تو جھنم کی سختیوں کو برداشت کرنے کے بعد جنت میں ان کی بارگاہ میں جگہ ملیگی، وہ بھی  معصومین(علیہم السلام) کی محبت کی وجہ سے۔ خدا ہم سب کو اہل بیت(علیہم السلام) سے حقیقی محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔…………………..حوالے:                                    [۱] محمد باقر مجلسی، زندگانی حضرت زہرا(علیھا سلام)[ترجمہ ج۴۳، بحارالانوار]ترجمہ: روحانی، ص۹۲۳، مھام۔[۲] محمد باقرمجلسى، بحار الانوار، ج۲۸، ص۳۸، دار إحياء التراث العربي، بيروت، دوسری چاپ،۱۴۰۳ق.[۳] بحار الانوار، ج۴۳، ص۲۹۔[۴] گذشتہ حوالہ، ج۶۵، ص۱۵۵۔
 
 
 

تبصرے
Loading...