حضرت امام حسین (علیہ السلام) کو کیوں قیام کرنا پڑا؟

خلاصہ: حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی امامت کے زمانے کے حالات کا پہلے اور دوسرے اماموں سے فرق تھا، حالات کے تناظر میں حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے قیام کیا۔

کیا رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی رحلت کے بعد جیسے حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے لوگوں کو نصیحت فرمائی اسی طرح اگر حضرت امام حسین (علیہ السلام) نصیحت فرماتے اور اسلام کے احکام کو محفوظ کرنے کی کوشش کرتے رہتے تو کافی تھا جبکہ حکومت کسی اور کے پاس تھی ؟ کیا ایسا ہوسکتا تھا؟
حضرت امام علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کے زمانے میں پیغمبر اسلام (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے اصحاب ابھی لوگوں میں موجود تھے اور آنحضرتؐ کے ارشادات ان کو یاد تھے، ابھی اسلام کے احکام کی قوت معاشرے میں باقی تھی اور کسی کی جرات نہیں تھی کہ ان سے مخالفت کرے۔ اس زمانے میں جو بعض بدعتیں رکھی گئیں ان پر بھی ایسا رنگ تھا کہ لوگ متوجہ نہیں ہوتے تھے کہ بدعت رکھنے والے اسلامی احکام سے مخالفت کررہے ہیں، ورنہ لوگ ان سے ان کی بات نہ مانتے، کیونکہ انہوں نے آنحضرتؐ کو دیکھا ہوا تھا اور آنحضرتؐ کے ارشادات سنے ہوئے تھے۔جناب عثمان کے زمانے سے رفتہ رفتہ حالات بدل گئے یہاں تک کہ معاویہ کھلم کھلا بادشاہت کرتا تھا، اس کا رویّہ ایران اور روم کے بادشاہوں کی طرح تھا، یعنی اپنے آپ کو مسلمانوں اور اسلامی ملک کا مالک سمجھتا تھا۔ اگر ایسے حالات میں حضرت امام حسین (علیہ السلام) وہ طریقہ کار اپناتے جو حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے خلفاء کے زمانے میں اپنایا تھا تو اس کا کوئی اثر نہ ہوتا اور آپؑ کی باتوں پر کوئی توجہ نہ کرتا۔اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ معاویہ نے مدینہ کے لوگوں سے اس یزید کے لئے بیعت لی جسے سب لوگ جانتے تھے اور اس کے برے صفات کو پہچانتے تھے، اس کے باوجود سوائے چند افراد کے سب لوگوں نے اس سے بیعت کرلی، کیونکہ اسلام کے بارے میں لوگوں کی معرفت اور ایمان کمزور ہوچکا تھا۔رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے سے پچاس سال گزرنے کے بعد نئی نسل آگئی تھی جو اسلام کو صحیح طرح سے نہیں جانتے تھے اور حتی جو کچھ جانتے تھے اس پر بھی عمل نہیں کرنا چاہتے تھے، لہذا حضرت امام حسین (علیہ السلام) پر نئی ذمہ داری آگئی، وہ ذمہ داری قیام عاشورا تھا۔
* ماخوذ از: در پرتو آذرخش، ص۳۳، آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی، قم، موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی رحمہ اللہ، ۱۳۸۱۔

تبصرے
Loading...