تہذیب نفس میں نمونہ عمل کا کردار

خلاصہ: رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) ہمارے لیے نمونہ عمل ہیں، لہذا ہمیں آنحضرتؐ کی سیرت پر چلنا چاہیے۔

چاہے اپنی تہذیب نفس اور چاہے معاشرے کی تربیت و تہذیب میں “عملی نمونہ” کا خاص کردار ہے۔ اس سے مراد وہ افراد نمونہ عمل ہیں جو ایک دین کے اہداف کا تجسّم ہوں اور وہ اس دین کا ایسا پہلو ہوں جسے آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔قرآن کریم میں کمال اور تزکیہ و تربیت کے اس طرح کے نمونہ عمل کو “اسوہ” کہا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) توحید کے راستے میں جدّوجہد کرنے میں موحّد لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہیں۔ سورہ ممتحنہ کی آیت ۴ میں ارشاد الٰہی ہے: “قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ”، “یقیناً تم لوگوں کیلئے (جنابِ) ابراہیم(ع) اوران کے ساتھیوں میں ایک عمدہ نمونہ ہے”۔اور رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) بھی نمونہ عمل ہیں۔ سورہ احزاب کی آیت ۲۱ میں ارشاد الٰہی ہے: “لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيراً”، “بے شک تمہارے لئے پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ذات میں (پیروی کیلئے) بہترین نمونہ موجود ہے۔ ہر اس شخص کیلئے جو اللہ (کی بارگاہ میں حاضری) اور قیامت (کے آنے) کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے”۔امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی انفرادی اور معاشرتی خصوصیات اور اخلاق کی پیروی کرے اور پیغمبرِ رحمت کو اپنا “اُسوہ اور نمونہ عمل” سمجھے۔
ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔* اصل مطالب ماخوذ از: اخلاق نبوی، جواد محدثی، ص۱۱۔

تبصرے
Loading...