بعثت کا مقصد، اللہ کے حکم اور مقدرات کا جاری ہونا

حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرمایا: “اِبْتَعَثَهُ اللّهُ اِتْماماً لِأمْرِهِ، وَ عَزِيمَةً عَلَى إِمْضَاءِ حُكْمِهِ، وَ إِنْفَاذاً لِمَقَادِيرِ حَتْمِهِ”، “آپؐ کو اللہ نے مبعوث کیا اپنے امر کی تکمیل کے لئے، اور اپنے حکم کو جاری کرنے کے ارادے کے لئے، اور اپنے حتمی مقدرات کے نفاذ کے لئے”۔ [الاحتجاج، ج۱، ص۱۳۳]۔
آپ ؑنے ارشاد فرمایا ہے: “وَ عَزِيمَةً عَلَى إِمْضَاءِ حُكْمِهِ”، “اور اپنے حکم کو جاری کرنے کے ارادے کے لئے”:یعنی اور اللہ نے آنحضرتؐ کی بعثت کے ذریعے اپنے اس ازلی حکم کو امضاء کیا، یعنی اس ازلی حکم کو جاری کیا۔ مخلوقات خلق ہوئیں یہاں تک کہ انسان خلق ہوا، پھر لوگ خلق ہوئے اور شریعتیں یکے بعد دیگرے آئیں اور سابقہ شریعت کو مکمل کیا، یہاں تک کہ پیغمبر خاتم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) تشریف لائے اور دین اسلام آیا، اور جو کچھ ازل سے مقرر ہوا تھا آپؐ کے آنے سے جاری ہوا۔یہاں ایک غور طلب نکتہ یہ ہے کہ معصوم ہستیاں جو اپنے بیانات کے ذریعے لوگوں کی ہدایت کرتی ہیں، اس کے علاوہ ان کا پیکر بھی لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہے، یعنی معصوم ہستیاں اپنے اس روحانی جاذبہ کے ذریعے لوگوں کو جذب کرتی ہیں اور انہیں اپنے نقش قدم پر گامزن کرتی ہیں۔
آپ ؑنے ارشاد فرمایا ہے: “وَ إِنْفَاذاً لِمَقَادِيرِ حَتْمِهِ”، “اور اپنے حتمی مقدرات کے نفاذ کے لئے”:یعنی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی بعثت کے ذریعے یہ چاہا ہے کہ اپنے حتمی مقدرات کو جاری ہے۔یہاں غورطلب نکتہ یہ ہے کہ “مقادیر” موصوف ہے جو اپنی صفت “حتمہ” کی طرف اضافہ ہوا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)، اللہ کے حتمی مقدرات میں سے تھے اور آنحضرتؐ کا مبعوث ہونا، اللہ تعالیٰ کی حتمی تقدیر تھی۔
* احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳۔* ماخوذ از: شرح خطبہ حضرت زہرا علیہا السلام، جلسہ ۵، بیانات آیت اللہ مجتبیٰ تہرانی۔

تبصرے
Loading...