آیت مباہلہ کی مختصر وضاحت

خلاصہ: مباہلہ کے پیش آنے کی وجہ اور اس کا طریقہ اور اس میں آنے والے گروہوں کا مختصر طور پر تذکرہ بیان کیا جارہا ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورہ آل عمران میں آیات 35 سے 60 تک حضرت عیسی (علیہ السلام) کے بارے میں گفتگو ہورہی ہے۔ ان 26 آیات میں حضرت عیسی (علیہ السلام) کی پیدائش، آپؑ کے مقامات، آپؑ کی والدہ ماجدہ کی شخصیت، حضرت مریم (سلام اللہ علیہا) کے فضائل، ان کی ملائکہ سے گفتگو، آسمانی کھانا اور دیگر مسائل کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔ ان طویل مطالب کے بعد اللہ تعالیٰ61 ویں آیت میں حضرت عیسی (علیہ السلام) کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ارشاد فرماتا ہے کہ ان سب باتوں کو بیان کرنے اور دلائل پر مبنی بحثوں کے بعد بھی اگر عیسائی تسلیم نہیں ہوتے اور اسلام نہیں لاتے تو ان سے برتاؤ کا کوئی اور راستہ اختیار کریں کہ جو “مباہلہ” ہے تاکہ حق ان کے لئے واضح ہوجائے۔”فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ”: اے پیغمبرؐ! عیسی ابن مریم (علیہماالسلام) کے بارے میں اتنی بحثوں اور مضبوط دلائل کے بعد نصاری (عیسائیوں) میں سے جو کوئی اپنی ضد کو جاری رکھے اور حق اور حقیقت تک پہنچنے میں اس کی دشمنی اور ضد اس کے لئے رکاوٹ اور پردہ بن جائے تو انہیں حق کی طرف مزید دعوت دینے کے لئے ایک اور راستہ اختیار کیجیے جو “مباہلہ” ہے۔”فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ”: آیت کے اس حصہ میں ان افراد کو مقرر کیا جارہا ہے جنہوں نے مباہلہ میں آنا ہے۔اے پیغمبرؐ! ان سے کہیں کہ مباہلہ کے فریقین کے ہر ایک فریق میں سے چار گروہوں کو مباہلہ میں آنا چاہیے:۱۔ مسلمانوں کے راہنما یعنی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور نجران کے عیسائیوں کا راہنما۔۲۔ ہمارے بیٹے اور تمہارے بیٹے۔۳۔ ہماری عورتیں اور تمہاری عورتیں۔۴۔ ہماری جانیں اور تمہاری جانیں۔”ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ”: جب طرفین میں سے یہ چار گروہ مباہلہ کے لئے آجائیں تو مباہلہ ایسے ہوگا کہ جو جھوٹ بولے اور اپنے دعوی میں جھوٹا ہو، وہ اللہ کی لعنت اور عذاب میں مبتلا ہوجائے تاکہ اس ذریعے سے لوگوں کے لئے حقیقت واضح ہوجائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حوالہ جات:[ماخوذ از: آیات ولایت در قرآن، آیت اللہ مکارم شیرازی]

تبصرے
Loading...