امام کاظم(علیہ السلام) اور نھی عن المنکر

خلاصہ: اچھے کاموں سے لوگوں کو آشنا کروانا اور برے کاموں سے منع کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ اگر کسی کو دیکھیں کہ اپنے وظیفہ پر عمل نہیں کررہا ہے تو اس کو انجام دینے کے لئے آمادہ کرنا چاہئے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم     اسلام اور احکام کی تبلیغ میں کوشش کرنا ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے، اچھے کاموں سے لوگوں کو آشنا کروانا اور برے کاموں سے منع کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ اگر کسی کو دیکھیں کہ اپنے وظیفہ پر عمل نہیں کررہا ہے تو اس کو انجام دینے کے لئے آمادہ کرنا چاہئے۔     لوگوں کو برائی سے روکنے کے خاص طریقے ہیں جن کی رعایت کرنا ہر شخص کے لئے ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص کسی کو برائی سے روکنے کی کوشش کررہا ہو لیکن اس کا برائی سے روکنے کا انداز صحیح نہ ہو، اس کا ایک نقصان یہ ہوسکتا ہے کہ وہ شخص جو برائی کررہا ہے وہ کبھی بھی اس برائی کو ترک نہیں کریگا، اسی لئے ہمیں چاہئے کہ ہم لوگوں کو برائی سے اس طرح روکے جس طرح ہم سے اسلام نے کہا ہے نہ کہ ہم جیسا چاہتے ہیں اس طرح۔ اگر ہمیں  معلوم کرنا ہے کہ اسلام نے لوگوں کو برائی سے کس طرح روکنے کے لئے کہا ہے تو ہمیں معصومین(علیہم السلام) کی سیرت کو دیکھنا ہوگا۔ اسی بات کو معلوم کرنے کے لئے یہاں پر نمونہ کے طور پر ساتویں امام، امام موسی کاظم(علیہ السلام) کے ایک واقعہ کوبیان کیا جارہا ہے کہ امام(علیہ السلام) نے کس طرح ایک گناہگار کی ہدایت فرمائی۔     امام کاظم(علیہ السلام) کی زندگی میں ایسے بہت زیادہ واقعات موجود ہیں کہ کس طرح امام(علیہ السلام) نے اپنے اخلاق کے ذریعہ لوگوں کی ہدایت فرمائی۔ روایت میں نقل ہوا ہے کہ ایک دن امام(علیہ السلام) بشر حافی کے گھر کے قریب سے گذر رہے تھے، اس کے گھر سے گانے بجانے کے آوازیں آرہی تھیں، امام(علیہ السلام) نے دیکھا کہ اس کے گھر سے ایک کنیز کچرا باہر پہینکنے کے لئے آئی ہے۔امام(علیہ السلام) نے اس کنیز سے پوچھا: اس گھر کا مالک آزاد ہے یا بندہ؟کنیز نے کہا: آزاد ہے۔امام(علیہ السلام) نے فرمایا: تو نے سچ کہا اس گھر کا مالک آزاد ہے اسی لئے اس طرح کے گناہ کو انجام دیرہا ہے، اگر بندہ ہوتا تو وہ اپنے  مالک سے ڈرتا۔جب کنیز واپس گھر میں داخل ہوئی، تو بشر حافی نے کنیز سے پوچھا کہ تجھے اتنی دیر کیوں ہوئی؟کنیز نے پورا ماجر اس  کو بیان کیا۔ جب بشر حافی نے امام(علیہ السلام) کے اس کلام کو سنا تو وہ پابرہنہ امام(علیہ السلام) کی خدمت میں دوڑا اور بڑی پشیمانی اور شرمندگی کے ساتھ امام(علیہ السلام) سے معافی طلب  کرتے ہوئے اس نے توبہ کیا[۱]۔
نتیجہ:     امام(علیہ السلام) جو خداوند متعال کی جانب سے لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے تھے، انھوں نے اس کام کو پوری ذمہ داری کے ساتھ انجام دیا۔ آپ نے اپنے اخلاق کے ذریعہ لوگوں کی اس طرح اصلاح فرمائی کہ لوگ آپ کے کردار کو دیکھ کر توبہ کرلیا کرتے تھے۔ ہمیں بھی اپنے امام کی اتباع کرتے ہوئے ان ہی کے بتائے ہوئے انداز اور طریقوں سے لوگوں کی ہدایت کرنا چاہئے جس میں ہماری ذاتی کوئی غرض موجود نہ ہو۔ خدا ہم سب کو دین اسلام کی صحیح طریقی سے سمجھنے اور تبلیغ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
……………………………حوالہ:[۱] منتهی الآمال فی تواریخ النبی و الآل‏، شیخ عباس قمى، ج۳، ص۱۴۷۹،‏ دلیل ما، قم، ۱۳۷۹ش‏۔
 
kotah_neveshte: کوتاہ نوشتہ:     امام(علیہ السلام) نے اپنے اخلاق کے ذریعہ لوگوں کی ہدیت فرمائی۔ روایت میں نقل ہوا ہے کہ ایک دن امام(علیہ السلام) بشر حافی کے گھر کے قریب سے گذر رہے تھے، اس کے گھر سے گانے بجانے کے آوازیں آرہی تھیں، امام(علیہ السلام) نے دیکھا کہ اس کے گھر سے ایک کنیز کچرا باہر پہینکنے کے لئے آئی ہے۔امام(علیہ السلام) نے اس کنیز سے پوچھا: اس گھر کا مالک آزاد ہے یا بندہ؟کنیز نے کہا: آزاد ہے۔امام(علیہ السلام) نے فرمایا: تو نے سچ کہا اس گھر کا مالک آزاد ہے اسی لئے اس طرح کے گناہ کو انجام دیرہا ہے، اگر بندہ ہوتا تو وہ اپنے  مالک سے ڈرتا۔جب کنیز واپس گھر میں داخل ہوئی، بشر حافی نے کنیز سے پوچھا کہ تجھے اتنی دیر کیوں ہوئی؟کنیز نے پورا ماجر اس  کو بیان کیا۔      جب بشر حافی نے امام(علیہ السلام) کے اس کلام کو سنا تو وہ پا برہنہ امام(علیہ السلام) کی خدمت میں دوڑا اور بڑی پشیمانی اور شرمندگی کے  ساتھ امام(علیہ السلام) سے معافی طلب  کرتے ہوئے اس نے توبہ کیا(منتهی الآمال، ج۳، ص۱۴۷۹)۔

تبصرے
Loading...