امام محمد باقر(علیہ السلام) اور تربیت

خلاصہ: اولاد کی تربیت، اس دور کا سب سے اہم مسئلہ ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنی اولاد کی صحیح طریقہ سے تربیت کریں، تو ہمیں چاہئے کہ ہم اس کام کے لئے معصومین(علیہم السلام) کو اپنے لئے مشعل راہ قرار دیں، تاکہ ہماری تربیت میں کوئی کمی نہ رہ جائے اور کل خدا کی بارگاہ میں اسے جواب دے سکیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم     معصومین(علیہم السلام) ایک مجسم قرآن ہے، یہی وہ شخصیات ہیں جن کی اتباع کرکے ہم خدا کی قربت حاصل کر سکتے ہیں، اسی لئے ہم کو چاہئے کے ہم ان کے ہر عمل کو اپنانے کی کوشش کریں، تاکہ ان کے کردار کو اپناکر ہم خداوند متعال کی قربت حاصل کرسکیں، کیونکہ خدا کی قربت صرف اور صرف ان کی اتباع کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔     اسی بات کو مدّنظر رکھتے ہوئے، اس مضمون میں امام محمد باقر(علیہ السلام) کی تربیت کے بعض پہلوؤں کو بیان کیا جارہا ہے، تاکہ ہم امام(علیہ السلام) کے بتائے ہوئے طریقہ سے اپنی اولاد کی تربیت کرسکیں۔     امام(علیہ السلام) نے قرآن کی آیات کو مدّنظر رکھتے ہوئے لوگوں کی تربیت کی، آپ کے ایک صحابی محمد ابن مسلم نقل کرتے ہیں: میں امام(علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر تھا، اسی وقت امام(علیہ السلام) کے فرزند امام صادق(علیہ السلام) داخل ہوئے، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ کھیلتے تھے، امام باقر( السلام) نے بڑی خوشی کے ساتھ آپ کا استقبال کیا اور آپ کو اپنے سینہ سے لگایا اور فرمایا: آپ کے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں، اس لکڑی سے بیکار کاموں کو انجام نہ دینا، پھر آپ میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے محمد میرے بعد یہ تمھارا امام ہوگا، میرے بعد اس کی اتباع کرنا، اس کے علم سے استفادہ کرنا، خدا کی قسم یہ وہی صادق ہے جس کی تعریف میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: اس کے شیعہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہونگے[۱]۔     امام باقر(علیہ السلام) کے اس کردار سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جب محفل میں آپ کا فرزند داخل ہوجائے تو اس کا احترام کرو اور پیار و محبت کے ساتھ اس کے ساتھ پیش آؤ، کیونکہ اس کے ذریعہ وہ خوش ہونگے، اور ہمیں چاہئے کہ ہم بچوں کو ہمیشہ خوش رکھنےکی کوشش کریں۔     بچوں کی تربیت میں محبت اور احترام میں زیادتی نہیں کرنا چاہئے، نہ ان کو پوری طریقہ سے آزاد چھوڑ دینا چاہئے کہ جو ان کے دل میں آئے اس کو انجام دیں اور نہ اتنا قید کرنا چاہئے کہ وہ خود سے کسی بھی فیصلہ کو نہ کرسکیں، والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت میں اعتدال کے ساتھ برخورد کریں۔     امام باقر(علیہ السلام) تربیت اور محبت کو اعتدال کے ساتھ لیکر چلتے تھے اور کبھی بھی اس میں کمی یا زیادتی نہیں کرتے تھے، جس کے بارے میں  خود امام(علیہ السلام) اس طرح فرمارہے ہیں: « شَرَّ الْآبَاءِ مَنْ دَعَاهُ الْبِرُّ إلَى الْإِفْرَاطِ[۲] بدترین والدین وہ ہیں جو اپنی اولاد کے ساتھ نیکی کرنے میں زیادتی کرتے ہیں»۔     اگر اولاد کے درمیان فرق ہوں، مثلا ایک بہت زیادہ زیرک اور ہوشیار ہوں لیکن دوسرا اس طرح نہ ہو، تب بھی ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرنا چاہئے، جس کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام) اپنے والد بزرگوار سے نقل فرماتے ہیں: خدا کی قسم، میں اپنی بعض اولاد سے محبت کا اظھار بغیر رغبت کے کرتا ہوں، حالانکہ میری یہ محبت کا مستحق میرا دوسرا فرزند ہے، میں اس طرح اس لئے کرتا ہوں، تاکہ ان کے شر سے میرا دوسرا فرزند محفوظ رہے، اور وہ لوگ اس طرح کا کردار پیش نہ کریں جس طرح حضرت یوسف(علیہ السلام) کے بھائیوں نے ان کے ساتھ کیا تھا[۳]۔     حضرت یوسف(علیہ السلام) کے بھائیوں نے حسد کی بناء پر اس طرح کا کردار پیش کیا، یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کو اس طرح کی حسد میں گرفتار ہونے سے محفوظ رکھیں، کیونکہ حسد ان کی پوری زندگی کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔نتیجہ:     ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی اولاد کی تربیت کے لئے پوری طریقہ سے معصومین(علیہم السلام) کی اتباع کریں، تاکہ ہم ان کے دلوں میں حسد کے پیدا ہونے کا سبب نہ بنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حوالے:[۱]بحار الانوار ، علامه مجلسى‏،  ج۴۷، ص۱۵، ح۱۲، دار إحياء التراث العربي‏، بيروت‏، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق۔[۲]تاريخ اليعقوبى، احمد بن أبى يعقوب،ج۲، ص۳۲۱، دار صادر، بيروت ، بى تا.[۳]تفسير نورالثقلين، عبد على ابن جمعه‏، ج۲، ص۴۰۸، انتشارات اسماعيليان‏، قم‏، ۱۴۱۵ق‏۔
 

تبصرے
Loading...