امام علیہ السلام کے ظہور میں تاخیر کی وجہ

تاریخ کے پیش نظر یہ بات واضح ہے کہ جب تک لوگ نہ چاھیں اور سعی و کوشش نہ کریں تو حق اپنی جگہ قائم نہیں ہوپاتا، اور حکومت اس کے اہل کے ہاتھ وں میں نہیں آتی۔ حضرت علی ، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کی تاریخ اس بات پر بہترین دلیل ہے۔

اگر لوگ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت پر اصرار کرتے تو پھر آج تاریخ کا ایک دوسرا رخ ہوتا، لیکن اس وقت کے لوگوں میں دنیا طلبی اور خوف و وحشت وغیرہ اس بات کا سبب بنی کہ ہمیشہ دنیا والوں مخصوصاً شیعوں کو ظلم و ستم کے علاوہ کچھ دیکھنے کو نہ ملا۔ افسوس کہ ہماری کوتاھی اور ہمارے بُرے کام اس بات کا سبب ہوئے کہ وہ محرومیت اب تک چلی آرہی ہے۔حدیث کے مطابق امام زمانہ علیہ السلام کے ظھور کی تعجیل کے سلسلہ میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اور اپنے رشتہ داروں پر امام علیہ السلام کو مقدم کریں، اور اسلامی احکام کو جاری کریں اور اسلام کی تبلیغ کے ذریعہ دنیا والوں کے سامنے امام زمانہ علیہ السلام کا تعارف کرائیں، اور دلوں کو امام کی طرف متوجہ کریں، تاکہ خدا کی مشیت سے بہت جلد ہی لوگوں میں امام زمانہ علیہ السلام کو قبول کرنے کا زمینہ ہموار ہوجائے۔وَلَوْ اٴَنَّ اٴشْیٰاعَنٰا (وَ فَّقَهُمُ اللهُ لِطٰاعَتِهِ) عَلَی اجْتِمٰاعٍ مِنَ الْقُلُوبِ فِي الْوَفٰاءِ بِالْعَهْدِ عَلَیْهِمْ لَمٰا تَاٴَخَّرَ عَنْهُمُ الْیُمْنَ بِلِقٰائِنٰا۔۔۔۔۔اگر ہمارے شیعہ (خدا ان کو اطاعت کی توفیق دے) اپنے عھد و پیمان کو پورا کرنے کی کوشش میں ہمدل ہوں تو پھر ہماری ملاقات کی برکت میں تاخیر نہیں ہوتی، اور ہمارے دیدار کی سعادت جلد ھی نصیب ہوجاتی، ایسا دیدار جو حقیقی معرفت اور ہماری نسبت صداقت پر مبنی ہو، ہمارے مخفی رھنے کی وجہ ہم تک پھنچنے والے اعمال کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے جبکہ ہمیں ان سے ایسے اعمال کی امید نہیں ہے۔[احتجاج، ج2، ص315]اس حدیث مبارک سے چند چیزیں معلوم ہوتی ہیں:۱۔ خداوندعالم نے شیعوں سے عھد و پیمان لیا ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی پیروی کریں اور یھی پیروی امام زمانہ علیہ السلام کی ملاقات کے شرف کا سبب ہے۔۲۔ شیعوں کے بُرے اعمال اپنے امام سے دوری کا سبب بنے ہیں؛ لہٰذا ہمارے نیک اعمال امام زمانہ علیہ السلام سے رابطہ میں موثر واقع ہوسکتے ہیں۔ماخذ:أبي منصور أحمد بن علي بن أبي طالب الطبرسي،احتجاج،ناشر: الشريف الرضي-إيران، تأريخ اشاعت:1380هـ.، ج2، ص315۔

تبصرے
Loading...