امام حسین(علیہ السلام) کا تواضع اور محبت

خلاصہ: امام حسین(علیہ السلام) کی زندگی کا ہر لمحہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے ، اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم اس روشنی سے کس طرح استفادہ کرتے ہیں، چاہے تو اس کے ذریعہ اپنے آپ کو بلند مقامات تک رسائی حاصل کرلیں یا اسے چھوڑ کر تاریک اندہیروں میں چلے جائیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم     امام حسین(علیہ السلام) عصمت و طہارت کا مجسمہ تھے۔ آپ کی عبادت, آپ کے زہد, آپ کی سخاوت، آپ کے کمال اخلاق کے دوست و دشمن سب ہی قائل تھے۔ آپ میں سخاوت اور شجاعت کی صفت کو خود رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے بچپن میں ایسا نمایا پایا کہ آپ نے فرمایا: «اما الحسین فان له جودی و شجاعتی[۱] حسین میں میری سخاوت اور میری جرأت ہے»، چنانچہ آپ کے دروازے پر مسافروں اور حاجتمندوں کا سلسلہ برابر قائم رہتا تھا اور کوئی سائل محروم واپس نہیں ہوتا تھا- اسی لئے آپ کا ایک لقب ابوالمساکین پڑگیاتھا۔     نقل ہوا ہے کہ امام حسین(علیہ السلام) نے کچھ مسکینوں کو دیکھا کہ کے وہ اپنی عباؤں کو بچھا کر سوکھی روٹی کھارہے ہیں، جب ان لوگوں نے امام حسین(علیہ السلام) کو دیکھا تو ان لوگوں نے امام(علیہ السلام) کو دعوت دی، امام(علیہ السلام) ان لوگوں کے ساتھ وہی پر بیٹھ گئے، امام(علیہ السلام) نے اس وقت اس آیت کی تلاوت فرمائی: «َإِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرينَ[سورۂ نحل، آیت:۲۳] وہ متکبرین کو ہرگز پسند نہیں کرتا ہے»، اس کے بعد امام(علیہ السلام) نے ان لوگوں  سے کہا کہ میں نے تمھاری دعوت کو قبول کیا اب تم لوگ بھی میری دعوت کو قبول کرو، ان لوگوں نے کہا بے شک یابن رسول اللہ اس کے بعد  امام(علیہ السلام) ان لوگوں کو لیکر اپنے گھر گئے اور جناب رباب سے کہا کہ گھر میں جو کچھ ہیں وہ ان لوگوں کے لئے مہیا کرو.[۲]      امام حسین(علیہ السلام) دوسرے جگہ اپنے اخلاق کا مظاہرہ اس طرح فرمارہے ہیں۔ انس کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ امام حسین(علیہ السلام) کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا، ایک کنیز داخل ہوئی اور اس نے امام حسین(علیہ السلام) کو ایک پھول ہدیہ دیا امام حسین(علیہ السلام) نے اس کے اس کام کے مقابلے میں اس کنیز کو آزاد کردیا، جب میں نے امام(علیہ السلام) سے کے علت کو دریافت کیا تو امام(علیہ السلام) نے فرمایا: «خداوند متعال نے ہمیں یہ ادب سکھایا ہے جو اس آیت میں فرمارہا ہے: وَ إِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها[سورۂ نساء، آیت:۸۶] ور جب تم لوگوں کو کوئی تحفہ(سلام) پیش کیا جائے تو اس سے بہتر یا کم سے کم ویسا ہی واپس کرو»۔     اس کے بعد امام(علیہ السلام) نے فرمایا: اس کے پھول کے ہدیہ کے بدلے میں اس سے بہتر ہدیہ اس کوآزاد کرنا تھا۔[۳]نکات:۱۔ امام حسین(علیہ السلام) کی زندگی کا ہر لمحہ ہماری تربیت اور اخلاق کو سدھارنے کے لئے ہیں، اگر ہم ان اخلاق کو اپنالیں تو اس میں ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیگے۔۲۔ امام حسین(علیہ السلام) کے چاہنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی کو امام(علیہ السلام) کے کردار کے مطابق بنانے کی کوشش کریں اور غصہ کی حالت میں اپنے اوپر قابو رکھنے کی کوشش کریں، کیونکہ حدیث کے مطابق غصہ دیوانگی کی ایک علامت ہے۔۳۔ تواضع  کے وجہ سے انسان لوگوں کی نظروں میں بلند ہوتا جاتا ہے، مشھور ہے کہ جو جتنا جھکتا ہے خدا اس کو اتنا ہی بلند کردیتا ہے۔نتیجہ:     امام حسین(علیہ السلام) کی اس سیرت کو دیکھ کر ہمیں بھی امام(علیہ السلام) کی سیرت کا اپنانا چاہئے، صرف اپنے آپ کو امام کا غلام کہنے سے کوئی غلام نہیں بن جاتا بلکہ غلامی کے آداب کی رعایت کرنا ضروری ہے، اور غلامی کا ایک اثر اپنے آقا اور مولی کی اتباع کرنا ہے، اور جو وہ کہیں اس کو انجام دینا ہے اپنی رائے کو ان کی رائے پر مقدم کرنا غلامی کے خلاف ہے۔_____________________________حوالے:[۱]بحار الانوار، محمد باقرمجلسى، ج۴۳، ص۲۶۳، دار إحياء التراث العربي – بيروت، دوسری چاپ ۱۴۰۳ق.[۲] وسائل الشیعه، شیخ حرّ عاملی، ج۲۴،ص۳۰۰، مؤسسہ آل البیت(علیہم السلام)،  قم، ۱۴۰۹ .[۳] بحارالانوار، ج۴۴، ۱۹۵.
 
kotah_neveshte: بسم اللہ الرحمن الرحیم     امام حسین(علیہ السلام) عصمت و طہارت کا مجسمہ تھے۔ آپ کی عبادت آپ کے زہد آپ کی سخاوت آپ کے کمال اخلاق کے دوست و دشمن سب ہی قائل تھے۔     نقل ہوا ہے کہ امام حسین(علیہ السلام) نے کچھ مسکینوں کو دیکھا کہ کے وہ اپنی عباؤں کو بچھا کر سوکھی روٹی کھارہے ہیں، جب ان لوگوں نے امام حسین(علیہ السلام) کو دیکھا تو ان لوگوں نے امام(علیہ السلام) کو دعوت دی، امام(علیہ السلام) ان لوگوں کے ساتھ وہی پر بیٹھ گئے، امام(علیہ السلام) نے اس وقت اس آیت کی تلاوت فرمائی: «َ إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرينَ[سورۂ نحل، آیت:۲۳] وہ متکبرین کو ہرگز پسند نہیں کرتا ہے»، اس کے بعد امام(علیہ السلام) نے ان لوگوں  سے کہا کہ میں نے تمھاری دعوت کو قبول کیا اب تم لوگ بھی میری دعوت کو قبول کرو، ان لوگوں نے کہا بے شک یابن رسول اللہ اس کے بعد امام(علیہ السلام) ان لوگوں کو لیکر اپنے گھر گئے اور جناب رباب سے کہا کہ گھر میں جو کچھ ہیں وہ ان لوگوں کے لئے مہیا کرو(وسائل الشیعه،  ج۲۴،ص۳۰۰).۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وسائل الشیعه، شیخ حرّ عاملی، مؤسسہ آل البیت(علیہم السلام)،  قم، ۱۴۰۹.

تبصرے
Loading...