امام حسنؑ کی صلح کا امام حسینؑ کے قیام میں بنیادی کردار

خلاصہ: لوگوں کی عوامانہ سوچ یہ ہے کہ حضرت امام حسن (علیہ السلام) نے صلح کیوں کرلی جبکہ امام حسین (علیہ السلام) نے قیام کیا، جبکہ یہ لوگ اس بات سے غافل ہیں کہ حضرت امام حسن (علیہ السلام) کی صلح ہی باعث بنی کہ امام حسین (علیہ السلام) قیام کرسکیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
قیام عاشورا، درحقیقت پہلے حسنی ہے اور پھر حسینی۔ یہ وہ قیام اور جنگ ہے جس کی بنیاد امام حسن (علیہ السلام) نے دشمن کی صلح کو قبول کرتے ہوئے، رکھی اور امام حسین علیہ السلام نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ امام حسن (علیہ السلام) کی دشمن پر فتح اس کام پر منحصر تھی کہ آپؑ حقیقت کو اپنے صبر اور حکمت کے ذریعہ واضح کریں اور اسی وضاحت کی روشنی میں ہی حضرت امام حسین (علیہ السلام) وہ باعظمت فتح حاصل کرپائے۔ گویا امام حسنؑ اور امام حسینؑ نے اموی حکومت کی اسلام کے خلاف سازشوں کو بے نقاب کرنے اور لوگوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کرنے کے لئے، مل کر اس منصوبہ کی بنیاد رکھی تاکہ دونوں اماموں میں سے ہر ایک امام، الگ الگ کردار ادا کریں، مگر امام حسنؑ کا کردار، حکیمانہ صبر و تحمل تھا اور امام حسینؑ کا کردار کھلم کھلا انقلاب اور قیام تھا، ان دو کرداروں سے ہی واحد مقصد وجود میں آیا۔ دوسرے لفظوں میں اگر امام حسنؑ کی صلح نہ ہوتی تو خود امام حسنؑ کے زمانہ میں اسلام کے مزید نقصانات ہوتے، اور نیز امام حسینؑ کے قیام عاشورا کے لئے راستہ فراہم نہ ہوپاتا، نتیجہ یہ ہوتا کہ نہ عاشورا ہوتا اور نہ کربلا، نہ مسلمانوں کی بیداری ہوتی نہ اسلام کی عظیم درسگاہ۔امامؑ چونکہ مقام عصمت پر فائز ہوتے ہیں اور اللہ تعالی کے حکم سے ہی ہر کام کرتے ہیں تو امام حسنؑ کی صلح سے اس حقیقت کی طرف نشاندہی ہوتی ہے کہ آپؑ نے وقت کے حالات کے پیش نظر جو صلح کو قبول کیا یقیناً معاویہ کی شیطانی پالیسیوں کو ناکام کرنے پر اثرانداز ہوئی، اگر آپؑ صلح کو قبول نہ کرتے تو معاویہ کے ہی مقاصد پورے ہوجاتے وہی شیطانی سلسلہ جو برسوں سے چلا آرہا تھا اور حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے کسی دور میں اس کے سامنے خاموشی اختیار کی اور کبھی تلوار اٹھا کر جنگ کی، یہ خاموشی اور جنگ، سب اس شیطانی سلسلہ سے جنگ تھی جس کو نابود کرنا، جڑیں اکھاڑنا اور تختہ الٹنا کسی انسان کا کام نہیں تھا سوائے امام معصوم کے۔ یہ سلسلہ اتنا مضبوط ہوچکا تھا، اتنی ریشہ دوانیاں کرچکا تھا اور خلافت کے نظام کو بادشاہت کے تخت کی شکل میں بدل چکا تھا کہ اس کی حقیقت کو واضح کرنا کسی عام انسان کی سوچ و ادراک اور قوت و توانائی سے بالکل ماورا تھا، صرف معصوم امام اس عظیم تحریک پر قادر ہے جس کی پشت پناہ طاقت، اللہ تعالی کی قدرت کاملہ ہو، اس کا علم، اللہ تعالی کے عطاکردہ علم غیب سے منسلک ہو، اس کے پورے وجود میں خداوند متعال کی محبت، اخلاص اور عبودیت ٹھاٹیں مار رہی ہوں، جو اپنی تمامتر توانائیوں کو اللہ کے حکم پر عمل کرنے میں لگا دے ورنہ عام انسان جو معصوم امام سے ہدایت لیے بغیر شیطانی حکومتوں کا مقابلہ کرنا چاہے وہ نہ صبر کرتے ہوئے ان کی پالیسیوں کے سامنے تاب لاسکتا ہے اور نہ ہی شجاعت دکھاتے ہوئے ان پر فتح حاصل کرسکتا ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ یا اس منحوس سلسلہ سے متحد ہر کر اپنے آپ کو بیچ ڈالے گا یا ان کے ہاتھوں ذلت کی موت مر کر ہمیشہ کے لئے مٹ جائے گا، جس کی تاریخ میں مثالیں لاتعداد نظر آتی ہیں، کیونکہ انہوں نے معصوم امام کی ہدایات اور راہنمائی کی روشنی میں قدم نہیں اٹھایا تو اپنی جہالت کے اندھیروں میں ہی بھٹک گئے اور ان کا خون رائگان چلا گیا بلکہ دوسرے لفظوں میں ان کے قیام اور جنگ یا بیجا خاموشی نے دشمن کی ایک طرح سے مدد کردی، جیسا کہ اگر امام حسن (علیہ السلام) ان حالات میں قیام کرتے تو اسلام کو نقصان ہوتا اور دشمن کو مدد ملتی، نیز اگر امام حسین (علیہ السلام) یزید کے دور کے حالات میں صلح یا خاموشی اختیار کرتے اور قیام نہ کرتے تو یقیناً دشمن کو مدد مل جاتی اور وہ اپنے شیطانی اہداف کی تکمیل میں مزید کامیاب ہوجاتا۔ یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ صرف امام ہی اسلامی معاشرے کو دین کے دشمنوں سے بچاسکتا ہے، اگر خاموشی یا صلح کی کیفیت اختیار کرے تو دین کی بقا اسی میں ہے اور اگر قیام کرے تو دین کی بقا اسی قیام میں ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ شیعہ مذہب کے اعتقاد کے مطابق امام، معصوم ہوتا ہے اور امام کا جو موقف ہو، وہ بہترین موقف ہوتا ہے، چاہے لوگوں کے افکار اس کو نہ سمجھ سکیں اور امام کے موقف سے الگ نظریات کے قائل ہوجائیں۔ امام حسن مجتبی (علیہ السلام) نے معاویہ کی جو صلح قبول کی، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے لئے برابر طور پر تلخ تھی، لیکن کسی کام کو پسند نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا انجام بھی پسند نہ ہو، کیونکہ اس صلح پر راضی ہونا، اس کے نتائج پر امید رکھنے کے لحاظ سے ہے۔ نیز اس بات پر امام حسنؑ یا امام حسینؑ یا دیگر ائمہ طاہرین (علیہم السلام) میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں ہے، جیسا کہ حضرت امام باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ “خدا کی قسم، جو کام حسن ابن علی (علیہ السلام) نے کیا، وہ ہر اس چیز سے کہ جس پر سورج کی روشنی پڑے، اس امت کے لئے بہتر تھا”[1]ائمہ معصومین (علیہم السلام) کے ادوار میں دشمنوں کی ستم ظریفی اور لوگوں کے ساتھ نہ دینے سے ایسے حالات پیش آتے رہے جب ان حضراتؑ نے خاموشی کو بہتر سمجھا۔ جیسا کہ خطبہ شقشقیہ میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کا ارشاد ہے: خدا کی قسم! فرزند ابوقحافہ نے پیراہن خلافت پہن لیا۔ حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیلی کا ہوتا ہے۔ میں وہ بلند پہاڑ ہوں جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گرجاتا ہے اور مجھ تک پرندہ پر نہیں مارسکتا۔ (اس کے باوجود) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اُس سے پہلو تہی کرلی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اُس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہوجاتا ہے اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرین عقل نظر آیا۔ لہذا میں نے صبر کیا۔ حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوہ کی) خلش تھی اور حلق میں (غم و رنج کے) پھندے لگے ہوئے تھے۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خلافت ابن خطاب کو دے گیا۔[2]امام المتقین کے ان بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ قیام کرنا حالات پر موقوف ہوتا ہے، چاہے انسان فاتح خیبر ہی کیوں نہ ہو، لیکن اسی قیام کے لئے کچھ شرائط کے پائے جانے کی ضرورت ہے، ورنہ اگر وہ شرائط نہ پائی جاتی ہوں اور حالات مناسب نہ ہوں تو قیام کرنا، حکمت عملی کے خلاف ہوگا۔ بنابریں امام حسن (علیہ السلام) معاویہ کے خلاف قیام اور جنگ کرنا چاہتے تھے جیسا کہ آپؑ نے بہت کوشش کی اور لوگوں کو اس سے جنگ کرنے کے لئے تیار کیا، لیکن ادھر سے معاویہ لوگوں کو پیسوں سے خرید لیتا تھا اور لوگ آنحضرتؑ کا ساتھ چھوڑ دیتے تھے، اگر وہی لوگ ثابت قدم رہتے، امامؑ کے حکم کو اللہ کا حکم سمجھتے اور امامؑ کی اطاعت کو اپنی یقینی ذمہ داری جانتے تو امام حسن مجتبی (علیہ السلام) ضرور معاویہ سے جنگ کرتے۔ کیا امام حسن (علیہ السلام) اپنے بابا امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کے ساتھ مل کر جنگ صفین میں، معاویہ کے خلاف جنگ نہ کرتے رہے؟! اسی طرح امیرالمومنین (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد امام حسن (علیہ السلام) نے جنگ کرنا چاہا، لیکن رکاوٹوں نے قیام کرنے کو بے اثر کردیا، آپؑ کا معاویہ سے جنگ نہ کرپانا اسی طرح ہے جیسے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اپنی حیات طیبہ کے آخری حصہ میں بھی کوشش کرتے رہے کہ معاویہ سے جنگ کرتے ہوئے اس کا خاتمہ کریں، لیکن حالات کی وجہ سے نہ کرپائے۔نتیجہ: بعض اوقات خاموشی ایسی حکمت عملی کا آسرہ لیتی ہے جس میں مستقبل کی فتح کو مدنظر رکھا جاتا ہے، کیونکہ زمانہ کا گزرنا لوگوں کے لئے حق و باطل کو واضح کردیتا ہے، حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) نے بھی یہی سوچا کہ اگر ایسے بے مددگار حالات میں اور دھوکہ باز دشمن کے سامنے قیام کیا جائے تو نہ فتح ہوگی اور نہ دین اسلام کا تحفظ ہوپائے گا، لہذا صلح کو قبول کرتے ہوئے قیام کے لئے اس وقت کا انتظار کرنا شروع کیا جب دشمن موت کے گھاٹ اتر جائے اور نیز اس دورانیہ میں اس کی مکاریاں اور غداریاں لوگوں کے لئے واضح ہوجائیں، تب قیام ممکن ہوگا جسے حضرت سیدالشہدا حسین ابن علی (علیہماالسلام) نے جامہ عمل پہنا کر اپنے امام بھائی کی حکمت عملی کو وقوع پذیر کردیا یہاں تک کہ عاشورا میں امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی اسلامی سیاست اور حکیمانہ اقدامات نے دین اسلام کو محفوظ کرلیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حوالہ جات[1] با کاروان حسینی از مدینه تا مدینه، ج1، تصنیف: علی الشاوی بنقل از کافی، ج 8، ص 330۔[2] نہج البلاغہ، خطبہ 3، اردو ترجمہ علامہ مفتی جعفر حسین، ص83۔

تبصرے
Loading...