اللہ سے صفات کو نفی کرنے کا مطلب

خلاصہ: نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ کی مختصر تشریح بیان کرتے ہوئے مولائے کائنات حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے اس فقرے کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے جو اللہ کے صفات کی نفی کے بارے میں ہے۔

نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “وَكَمَالُ الاِخْلاَصِ لَهُ نَفْيُ الصِّفَاتِ عَنْهُ”، “اور اس کے لئے اخلاص کا کمال اس سے صفات کی نفی کرنا ہے”۔سب مادّی مخلوقات، خارجی اَجزاء کی حامل ہیں، لیکن اللہ کی پاک ذات کے نہ خارجی اَجزاء ہیں اور نہ عقلی اَجزاء، وہ ذات خارج میں بھی تجزیہ سے پاک ہے اور ہمارے فہم و ادراک میں بھی، اور جو شخص اس حقیقت پر توجہ نہ کرے اس نے خالص توحید کو نہیں پایا۔ یہاں آپؑ کے اس ارشاد کہ “اس کے لئے اخلاص کا کمال اس سے صفات کی نفی کرنا ہے” سے واضح ہوتا ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ سے کمالیہ صفات کی نفی کی جائے، کیونکہ علم، قدرت، حیات اور دیگر سب صفاتِ کمال، اللہ کے ہی ہیں، بلکہ اس سے مراد مخلوقات کے صفات ہیں کہ وہ جہاں بھی ہوں ان میں نقص پایا جاتا ہے۔ مخلوقات علم اور قدرت کی حامل ہیں، لیکن ناقص اور محدود علم و قدرت جن میں جہالت، کمزوری اور ناتوانی پائی جاتی ہے، حالانکہ اللہ کی ذات ایسے علم و قدرت سے پاک و منزّہ ہے۔اس بات کی دلیل خود  حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے کلام میں پائی جاتی ہے جو آپؑ اسی خطبہ میں ملائکہ کے بارے میں فرماتے ہیں: “لاَ يَتَوَهَّمُونَ رَبَّهُمْ بِالتَّصْوِيرِ، وَ لاَ يُجْرُونَ عَلَيْهِ صِفَاتِ الْمَصْنُوعِينَ”، “وہ (شکل و) صورت کے ساتھ اپنے ربّ کا تصور نہیں کرتے، اور اس پر مخلوقات کے صفات کو جاری نہیں کرتے”۔نیز مخلوقات کے صفات، ہمیشہ ان کی ذات سے الگ ہوتے ہیں۔  انسان الگ چیز ہے اور اس کا علم و قدرت الگ چیز ہے اور اس طرح سے انسان کا وجود ان دو سے ترکیب ہوا ہے، جبکہ اللہ کے صفات اس کے عینِ ذات ہیں اور اس میں کسی قسم کی کوئی ترکیب  نہیں ہے۔ [ماخوذ از: پیام امام، ج۱، ص۸۶، ۸۷]۔۔۔۔۔۔۔۔ماخوذ از:[پیام امام، آیت اللہ مکارم شیرازی]

تبصرے
Loading...