اللَّهُمَّ الْعَنْ قَتَلَةَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِين‏

خلاصہ: وہ لوگ جو امام علی(علیہ السلام) کے قتل میں آگے آگے تھے ان لوگوں کا شمار امیرالمؤمنین(علیہ السلام) کے قاتلوں میں ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم     «اللَّهُمَّ الْعَنْ قَتَلَةَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِين‏؛ خدایا امیرالمؤمنین(علیہ السلام) کے قاتلوں پر لعنت کر»[بحار الانوار، ج۹۸، ص۱۸۱]     حضرت علی(علیہ السلام) کی شھادت کے ایام میں «اللَّهُمَّ الْعَنْ قَتَلَةَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِين‏» کہنے کے لئے بہت زیادہ سفارش کی گئی ہے     خدایا امیرالمؤمنین(علیہ السلام) کے قاتلوں پر لعنت کر اور ان لوگوں کو اپنی رحمت سے دور کر۔      یہان پر ہم حضرت علی(علیہ السلام) کے قاتلوں پر لعنت بھیج رہے ہیں حالانکہ ایک شخص کے علاوہ کسی نے امام(علیہ السلام) کو مسجد کوفہ میں ضربت نہیں لگائی۔      پھر ہم ان کے قاتلوں پر لعنت کیوں بھیج رہے ہیں؟     اس دعا سے انسان یہ درس لے سکتا ہے، ضروری نہیں ہے کہ کسی حادثے میں انسان خود حاضر ہوں تاکہ وہ حادثہ اس کی طرف منسوب کیا جائے، بلکہ وہ لوگ جو اس حادثہ میں تأثیر رکھتے ہیں ان سب کا شمار امام(علیہ السلام) کے قاتلوں میں ہوگا۔     اس دن سے جب حکمیت کا فیصلہ جنگ صفین میں زبر دستی امام (علیہ السلام) کو قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ بعض لوگ قرآنوں کو نیزوں پر دیکھ کر دھوکہ کھاگئے اور اپنے دھوکے کو اتنی اہمیت دینے لگے کے اس کو حق سمجھنے لگے، یہاں تک کہ ان لوگوں میں اتنی جرئت پیدا ہوگئی تھی کہ وہ لوگ انسان کامل حضرت علی(علیہ السلام) جیسی شخصیت کو زبر دستی حکمیت کو قبول کرنے پر مجبور کریں۔     اس دن جو لوگ اس مسئلہ میں آگے آگے تھے ان لوگوں کا شمار امیرالمؤمنین(علیہ السلام) کے قاتلوں میں ہیں، اور وہ لوگ جن لوگوں نے امام(علیہ السلام) کی قدر نہیں جانی اور وہ لوگ جن لوگوں نے ان کی مدد نہیں کی یہ سب لوگ اس شخصیت کو قتل کرنے میں شامل ہیں۔     خدا ان سب پر لعنت کرے۔*بحار الانوار، محمد باقر مجسلی، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ۱۴۰۳ق۔

تبصرے
Loading...