ہجرت مدینہ

سیاہ تیر کے نشان والا راستہ وہ ہے، جسے ہجرت کے لیے پیغمبر اکرمؐ نے اختیار کیا.

ہجرت مدینہ،بعثت کے تیرہویں سال حضرت پیغمبر اکرمؐ کا دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ مکہ سے یثرب (مدینہ) کی طرف روانہ ہونے کو کہا جاتا ہے۔ اس مہاجرت کی اصلی وجہ مکہ کے مشرکین کی اذیت و آزار اور یثرب کے لوگوں کی آپؐ سے بیعت تھی آپؐ نے مسلمانوں کے دفاع کی خاطر یہ مہاجرت کی۔ دوسرے خلیفہ کی حکومت کے دور میں رسمی طور پر مسلمانوں کے کیلنڈر کا مبدا قرار پائی۔

یثرب کے قبیلوں کی جنگ

حضرت پیغمبر اکرمؐ کی ہجرت سے پہلے یثربی قبیلوں اوس و خزرج کی آپس میں جنگ تھی۔ اور ان دوقبیلوں کی آخری جنگ نے دونوں کو اس سرزمین کو ترک کرنے پر مجبور کر دیا اور اسی وجہ سے اسلام یثرب میں داخل ہوا[1] اور اس کے دو تین سال بعد یثرب کے کچھ لوگوں نے عقبہ میں حج کے موسم میں (بعثت کے دسویں سے بارہویں سال تک) آپؐ کی بیعت کی اور آخر آپؐ نے دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ یثرب (مدینہ) کی جانب حرکت کی۔[2]

مسلمانوں کی یثرب کی جانب ہجرت کا آغاز

عقبہ کی بیعت کے بعد اور عقبہ کے دوسرے ٧٥ آدمیوں کا بیعت کرنا اور مدینہ سے واپس آنا اور اوس و خزرج نے جو بیعت رسول خداؐ سے کی تھی اس سے قریش کا آگاہ ہونا، ان سب حالات کے تحت مسلمانوں کے لئے مکہ میں زندگی گزارنا بہت سخت ہو گئی، اور اس وجہ سے رسول خداؐ سے ہجرت کا حکم لیا اور رسول خداؐ نے بھی ہجرت کی اجازت دے دی اور فرمایا کہ مدینے کی جانب اپنے انصار بھائیوں کے پاس جائیں اور فرمایا: “خداوند نے وہاں آپ لوگوں کے لئے بہترین دینی بھائی اور امن کی جگہ مہیا کی ہے۔”[3]
روایات کے مطابق، مسلمانوں کے دستے دستے مدینہ کی جانب روانہ ہو گئے اور رسول خداؐ خدا کے حکم کی انتظار میں مکہ میں رہے۔ مسلمانوں کی مدینہ کی طرف ہجرت بعثت کے تیرہویں سال ذی الحجہ کے مہینے میں پیش آئی۔[4]

آیات ہجرت

مدینہ کی جانب ہجرت اور اس سلسلے میں آیات بھی نازل ہوئی جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  1. “وَ إِذْ یمْکرُ بِک الَّذینَ کفَرُوا لِیثْبِتُوک أَوْ یقْتُلُوک أَوْ یخْرِجُوک وَ یمْکرُونَ وَ یمْکرُ اللَّهُ وَ اللَّهُ خَیرُ الْماکرین”(انفال/٣٠)
ترجمہ: وہ وقت یاد کرو جب کافر سوچ رہے تھے کہ تمہیں قید میں ڈال دیں، یا قتل کر دیں، یا مکہ سے باہر نکال دیں۔ وہ بھی سوچ رہے تھے اور خدا وند بھی تدبیر کر رہا تھا اور بے شک خدا بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔
  1. “وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یشْری نَفْسَهُ ابْتِغاءَ مَرْضاتِ اللَّهِ وَ اللَّهُ رَؤُفٌ بِالْعِبادِ” (بقرہ/٢٠٧)
ترجمہ: بعض فداکار اور با ایمان افراد (مانند امام علی علیہ السلام) اپنی جان کو خداوند کی خوشی کی خاطر پیش کرتے ہیں، اور خداوند اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔
  1. “وَ جَعَلْنا مِنْ بَینِ أَیدیهِمْ سَدًّا وَ مِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَیناهُمْ فَهُمْ لا یبْصِرُون” (یسں/٩)
ترجمہ: اور ان کے پیچھے کی جانب اور ان کے آگے کی طرف (سد) پردہ ڈال دیا ہے لہذا کچھ مشاہدہ نہیں کر سکتے۔
  1. “إِلاَّ تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذینَ کفَرُوا ثانِی اثْنَینِ إِذْ هُما فِی الْغارِ إِذْ یقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنا فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَکینَتَهُ عَلَیهِ وَ أَیدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْها وَ جَعَلَ کلِمَةَ الَّذینَ کفَرُوا السُّفْلی وَ کلِمَةُ اللَّهِ هِی الْعُلْیا وَ اللَّهُ عَزیزٌ حَکیمٌ” (توبہ/٤٠)
ترجمہ: اگر اس کی مدد نہیں کریں گے ، خداوند اس کی مدد کرے گا (اور مشکل گھڑی میں خداوند اسے تنہا نہیں چھوڑے گا) اس وقت جب کافروں نے اسے مکہ سے باہر نکالا، تو وہ دو افراد تھے (صرف ایک نفر ہمراہ تھا) اس وقت وہ دونوں غار ثور میں تھے، اور وہ اپنے ہمسفر سے کہہ رہا تھا: غم نہ کھاؤ کہ خدا ہمارے ساتھ ہے۔ اس وقت خداوند نے اپنی طرف سے آرامش اور سکون اس کے لئے بھیجی اور ایسے لشکر سے مدد بھیجی جو نظر نہیں آتا تھا جس نے اسے تقویت دی اور کافروں کے نقشے کو مٹا دیا (اور انکو شکست دی) اور خدا کی بات حق ہے اور وہ عزیز اور حکیم ہے۔
  1. “إِنَّ الَّذِینَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِکةُ ظَالِمِی أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِیمَ کنتُمْ ۖ قَالُوا کنَّا مُسْتَضْعَفِینَ فِی الْأَرْ‌ضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَکنْ أَرْ‌ضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُ‌وا فِیهَا ۚ فَأُولَٰئِک مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِیرً‌ا”(نساء/٩٧)
ترجمہ: جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے، جس وقت فرشتے انکی جان لیں گے تو کہیں گے: کس حال میں تھے؟ تو جواب دیں گے: ہم زمین میں مستضعفین تھے۔ وہ کہیں گے مگر خدا کی زمین وسیع نہیں تھی کہ ہجرت کرتے؟ پس ان کی منزل دوزخ ہے اور دوزخ بہت بری جگہ ہے۔

پہلا مہاجر

اصحاب میں سے پہلا فرد جو مدینہ میں داخل ہوا، رسول خداؐ کی پھوپھی کا بیٹا ابو سلمی عبداللہ بن عبدالاسد بن ہلال بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم تھا جو کہ حبشہ سے واپس مکہ آیا۔ اور جب مکہ میں قریش نے اس کو اذیت و آزار دی تو اسے خبر ہوئی کہ مدینہ میں کچھ لوگ اسلام لائے ہیں تو اس نے عقبہ کی دوسری بیعت سے ایک سال پہلے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔
اور اس کے بعد دوسرے افراد جیسے عامر بن ربیعہ اپنی زوجہ لیلی جو کہ ابو حشمہ عدوی کی بیٹی ہے، عبداللہ بن جحش بن رئاب اسدی نے، اپنی فیملی اور بھائی ابو احمد بن جحش کے ہمراہ ہجرت کی، اور اسی طرح آہستہ آہستہ جحش خالی ہو گیا اور کوئی بھی وہاں نہ بچا۔
ابوسلمہ، عامر، عبداللہ اور اس کا بھائی سب قباء محلے میں بنی عمروبن عوف اور مبشر بن عبدالمنذر کے پاس پہنچ گئے۔
اور اس کے بعد جوق در جق مہاجرین مدینہ میں داخل ہونے لگے۔ جیسے کہ طایفہ بنی غنم بن دودان بن اسد بن خزیمہ کے مردوں اور عورتوں سب نے مہاجرت کی۔
عبداللہ اور اس کے بھائی کے علاوہ: عکاشہ بن محصن، شجاع اور عقبہ وہب کے بیٹے، اربد بن حمیر، منقذ بن نباتہ، سعید بن رقیش، محرز بن نضلہ، یزید بن رقیش، قیس بن جابر، عمروبن محصن، مالک بن عمرو، صفوان بن عمرو، ثقف بن عمرو، ربیعہ بن اکثم، زبیر بن عبیدہ، تمام بن عبیدہ، سخبرہ بن عبیدہ، محمد بن عبداللہ بن جحش، اور عورتوں میں سے: زینب جحش کی بیٹی، جذامہ جندل کی بیٹی، ام قیس محصن کی بیٹی، ام حبیب تمامہ کی بیٹی، آمنہ رقیش کی بیٹی، سخبرہ، تمیم کی بیٹی، حمنہ جحش کی بیٹی، اور اس کے بعد عمر بن خطاب اور عیاش بن ابی ربیعہ مخزومی۔[5]

قریش کا حضرت پیغمبرؐ کو قتل کرنے کا ارادہ

عقبہ کی دوسری بیعت بعثت کے تیرہویں سال ذی الحجہ میں واقع ہوئی اور اس کے بعد تین مہینے کے اندر ہی رسول خداؐ کے اکثر صحابہ مدینہ کی جانب روانہ ہو گئے اور جب قریش نے دیکھا کہ لوگ رسول خداؐ کا ساتھ دے رہے ہیں اور آپ کے ساتھ مل کر دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ ہیں تو رسول خداؐ کی ہجرت سے وحشت زدہ ہو گئے۔ اسی لئے اس ہجرت سے رکاوٹ کے لئے بعثت کے چودویں سال ماہ صفر کے آخری ایام میں دارالندوہ میں اکھٹے ہوئے۔ اور پھر ہر قوم میں سے کچھ افراد منتخب ہوئے تا کہ رسول خداؐ کے بارے میں فیصلہ کریں۔ اس وقت ایک بوڑھا شخص جو کہ دار الندوہ کے دروازے پر کھڑا تھا اس نے کہا مجھے اندر لے جائیں اس سے پوچھا تم کون ہو تو اس بوڑھے مرد نے جواب دیا: میں مصر سے ہوں اورآپ لوگوں کو رائے دینا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد سب داخل ہوئے اور بحث شروع ہوئی اور سب نے فیصلہ کیا کہ رسول خداؐ کو خارج کر دیں لیکن اس بوڑھے مرد نے کہا اگر آپؐ کو نکال دو گے تو وہ لوگوں کو جمع کر کے آپ کے ساتھ جنگ کو تیار ہو جائے گا سب نے کہا: یہ سچ ہے اور یہ رائے مناسب ہےاس کے بعد پھر سب نے مشورہ کیا اور کہا کہ آپؐ کو قید کر لیا جائے دوبارہ اس بوڑھے شخص نے کہا کہ ایسا نہ کریں کیونکہ محمدؐ بہت شیرین زبان شخص ہے اور اس کام سے تمہارے اپنے فرزند اور نوکر تم لوگوں کو مفسد کہیں گے اور اگر تمہارے اپنے ہی فرزند اور نوکر فاسد کہنے لگ گئے تو اس کو قید کرنے کا کیا فائدہ ہو گا؟

پھر سب نے آپس میں مشورہ کیا اور فیصلہ کیا کہ آپؐ کو قتل کیا جائے اور اس کام کے لئے ہر قوم میں سے ایک جوان کو تلوار دیں تا کہ سب مل کر آپؐ کو قتل کردیں۔[6]

لیلة المبیت

بعثت کے چودہویں سال جمعرات کی رات ربیع الاول کی پہلی رات کو رسول خداؐ مکہ سے باہر چلے گئے اور اسی رات حضرت علیؑ نے رسول خداؐ کے بستر پر سوئے اور اسی رات کو لیلة المبیت کہتے ہیں۔

اور اس کی وجہ رسول خداؐ کا مشرکین قریش کی چال سے آگاہ ہونا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ آیہ پیغمبرؐ کو خبر دینے کے لئے ہی ہے۔: وَ إِذْ یمْکرُ بِک الَّذینَ کفَرُوا لِیثْبِتُوک أَوْ یقْتُلُوک أَوْ یخْرِجُوک وَ یمْکرُونَ وَ یمْکرُ اللَّهُ وَ اللَّهُ خَیرُ الْماکرینَ۔(انفال/٣٠)

ترجمہ: جب کافر تمہارے بارے میں حیلہ گری کریں تا کہ تمہیں قید کریں یا تمہیں قتل کریں یا شہر سے باہر نکالیں تو خداوند ان کی حیلہ گری میں داخل ہو گا اور خداوند بہترین حیلہ گر ہے۔

لیلۃ المبیت وہ رات ہے جب پیغمبرؐ نے خدا کے حکم سے مکہ سے مدینہ کی جانب روانہ ہوئے اور چونکہ قریش نے آپؐ کو قتل کا ارادہ کیا ہوا تھا اسی لئے رسول خداؐ نے حضرت علیؑ سے فرمایا کہ آج کی رات آپؐ کے بسترے پر سوئیں تا کہ مشرک آپؐ کی غیر موجودگی سے آگاہ نہ ہوں۔ خداوند نے حضرت علیؑ کی عظمت میں اس آیہ شریفہ کا نزول فرمایا:: «وَمِنَ النَّاسِ مَن یشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ»(بقرہ/٢٠٧)

ترجمہ: اور لوگوں کے درمیان ایسے افراد بھی ہیں جو کہ اپنی جان کو خدا کی خاطر فروخت کریں ، اور خدا اپنے ان بندوں سے واقف ہے۔

رسول خداؐ غار ثور میں

رسول خداؐ ربیع الاول کی پہلی رات کو (سنہ ٦٢٢ میلادی ١٣ ستمبر) غار ثور کی جانب روانہ ہوئے ابو بکر بن ابو قحافہ بھی آپؐ کے ہمراہ تھے اور تین دن غار ثور میں رہے اور ربیع الاول کی چوتھی رات کو مدینہ کی طرف نکلے۔

حضرت علیؑ کے اقدامات

حضرت علیؑ نے رسول خداؐ کے غار ثور میں جانے کے بعد اگلے دن تک صبر کیا تا کہ دوسری رات داخل ہو جائے۔ حضرت علیؑ ہند بن ابی ہالہ کے ہمراہ روانہ ہوئے اور رسول خداؐ کے پاس غار میں پہنچ گئے اور وہاں پر آپؐ نے ہند کو حکم دیا کہ اپنے اور اپنے ہمراہ کے لئے اونٹ خرید کر لے آئے ابو بکر نے کہا: اے رسول خداؐ میں نے اپنے اور آپ کے لئے دو سواری تیار کی ہوئی ہے اور اسی سواری سے مدینہ تک کا سفر طے کریں گے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: میں ان دونوں یا ان میں سے ایک کو بھی قبول نہیں کرتا جب تک کہ ان کی قیمت ادا نہ کر لوں۔ ابوبکر نے کہا جیسا آپ کا حکم ہو اور اس نے علیؑ سے کہا کہ ان اونٹوں کی قیمت ادا کر دیں اور پھر سفارش کی کہ امانت داروں کی امانتیں لوٹا آئیں اور آپؐ کے دوسرے وعدوں کو بھی پورا کر آئیں۔

قریش جاہلیت کے دور میں پیغمبر اکرمؐ کو امین کے نام سے جانتے تھے اسی وجہ سے اپنی امانتیں اور اموال کو آپؐ کے پاس رکھتے تھے۔ اسی طرح جب حج کے موسم میں لوگ مکہ میں داخل ہوتے تو اپنے اموال کو آپؐ کے سپرد کر دیتے اور یہ کام آپؐ کی نبوت کے بعد بھی جاری رہا۔ اسی لئے علیؑ کو حکم دیا کہ مکہ میں ہی رہیں اور لوگوں کی امانتیں لوٹائیں اور آپؐ کے دوسرے امور کو بھی انجام دیں اور فرمایا: “جب ان کاموں کو انجام دے لو تو خدا اور اس کے رسول کی جانب ہجرت کے لئے آمادہ رہنا اور جوں ہی میری طرف سے خط تم تک پہنچے، فوراً حرکت کرنا۔”
علیؑ تین دن رات مکہ میں رہے، اور رسول خداؐ کے پاس لوگوں کی جو امانتیں تھیں انہیں لوٹایا اور جب اس کام سے فارغ ہوئے تو مدینہ کی طرف ہجرت کی اور کلثوم بن ہدم کے گھر میں رسول خداؐ کے ہمراہ اقامت کی۔[7]

پیغمبرؐ کا پیچھا کرنا

جب قریش اپنے مقصد میں ناکام ہو گئے تو پیغمبرؐ کا پیچھا کیا تا کہ آپؐ کو مدینہ میں پہنچنے سے پہلے ہی قتل کر دیں۔ اسی طرح ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک غار میں داخل ہوئے کسی نے ان سے کہا کہ اس غار سے آگے نہیں گئے یا اسی جگہ سے آسمان کی طرف عروج فرما گئے ہیں یا پھر زمین کے اندر چلے گئے ہیں۔
دینی روایات کے مطابق، خداوند نے مکڑی کو حکم دیا کہ اپنے جال سے غار کا منہ بند کر دے جب پیچھا کرنے والوں نے جالے کو دیکھا تو یہ نتیجہ حاصل کیا کہ اس غار میں کوئی داخل نہیں ہوا ہے اسی وجہ سے وہ اس کوشش میں ناکام ہو گئے۔[8]

یثرب کی جانب حرکت

پیغمبر اکرمؐ تین دن غار میں رکنے کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے۔[9]

قبا میں توقف

پیغمبر اکرمؐ بارہ ربیع الاول کی ظہر کو یثرب پہنچے اور قباء کے مقام پر رکے اور نماز پڑھی۔ اور وہاں بنی عمرو بن عوف کے مہمان بنے اور دس دن سے زیادہ اسی مقام پر اقامت کی۔
اس قبیلے کے افراد نے آپؐ کو اس سے زیادہ رہنے پر اسرار کیا لیکن آپؐ نے قبول نہ کیا اور فرمایا کہ علی بن ابی طالب کے منتظر ہیں اور وہیں رہے یہاں تک کہ علیؑ پہنچ گئے۔[10]

مدینے میں داخلہ

منابع کے راویوں نے پیغمبرؐ کے یثرب میں داخل ہونے کو تفصیل سے لکھا ہے۔ جیسے کہ عبدالرحمن بن عویم بن ساعدہ نے لکھا ہے کہ جب سے رسول خداؐ نے مکہ سے حرکت کی تو ہمارا انتظار شروع ہو گیا ہر روز صبح کی نماز کے بعد مدینہ سے باہر آ جاتے اور شہر سے باہر رسول خداؐ کے انتظار میں بیٹھتے اور جب سایہ ختم ہو جاتا اور کوئی سایہ نہ دیکھتے اس وقت واپس مدینہ لوٹ آتے۔

اسی طرح ایک دن جب رسول خداؐ کے انتظار میں مدینہ سے باہر گئے اور سایہ ختم ہونے تک وہاں بیٹھے جب سایہ ختم ہوا تو گرمی کی شدت کی وجہ سے اپنے گھر واپس آ گئے جب ہم اپنے گھر میں تھے، اسی وقت رسول خداؐ داخل ہوئے۔ اور پہلا فرد جس نے آپؐ کو دیکھا وہ یہودی تھا جو کہ ہمارے روز کے کام سے واقف تھا اور جانتا تھا کہ ہم روزانہ انتظار کرتے ہیں اسی لئے اس نے زور سے آواز لگائی اے بنی قیلہ! آپ کا مہمان پہنچ گیا ہے، یہ آواز سنتے ہی ہم گھروں سے باہر بھاگے اور رسول خداؐ کے پاس پہنچ گئے اور ابو بکر بھی آپؐ کے ہمراہ تھے، اور چونکہ ہم میں سے اکثر نے رسول خداؐ کو دیکھا نہیں تھا اور جب رسول خداؐ سے سایا ہٹا اور ابوبکر کھڑے ہوئے اور آپؐ پر سایہ پڑا تو ہم نے اسے پہچانا۔
رسول خداؐ قبا میں کلثوم بن ہدم جو کہ بنی عمروبن عوف کے مردوں سے ہے، کے گھر داخل ہوئے اور لوگوں کی ملاقات کے لئے سعد بن خثیمہ کے گھر گئے کہ جس کے بیوی بچے نہیں تھے اور بغیر بال بچے والے مسلمان مہاجر بھی اس کے گھر میں رکے ہوئے تھے۔[11]

آغاز و انتہاء ہجرت

مبداء تاریخ اسلام

حضرت پیغمبرؐ کی مکہ سے مدینہ ہجرت کو تاریخ کی وجہ سے اہمیت حاصل ہوئی ہے اور یہ کہ اس کو کس نے مبداء تاریخ قرار دیا اس کے بارے میں مختلف قول موجود ہیں:
پہلا قول پیغمبرؐ: طبری نے کہا ہے کہ پیغمبرؐ نے مدینہ میں داخل ہوتے وقت حکم دیا کہ اس تاریخ کو لکھا جائے[12] اور رسول خداؐ کے خط بھی موجود ہیں کہ جن میں آپؐ نے اس کی تاریخ درج کرنے کا حکم دیا۔[13]

قول دوم عمر بن خطاب جس کو حضرت علیؑ نے حکم دیا: دوسرے خلیفہ نے بھی ایک مجلس تشکیل دی تا کہ تاریخ اسلام کا آغاز مشخص کرے۔[14] اس مجلس میں مختلف رائے مطرح ہوئیں کہ جو مورد قبول واقع نہ ہوئیں آخر حضرت علیؑ نے رائے دی کہ رسول خداؐ کی مکہ سے مدینہ کی ہجرت کو تاریخ اسلام میں لکھا جائے اس رائے کو عمر نے پسند کیا اور اس کو پورے شہر میں اعلان کیا۔[15]

حوالہ جات

  1. اس سلسلے میں حضرت عائشہ کی روایت کے لئے مراجعہ کریں: البکری، ج ۱، ص۲۶۰؛ ذہبی، ص۲۸۸۲۸۹
  2. ابن ہشام، ج ۲، ص۷۰ کے بعد؛ ابن سعد، ج ۱، ص۲۱۹۲۲۰؛ یعقوبی، ج ۲، ص۳۷
  3. ابن سعد، ج ۱، ص۲۲۶۔
  4. ابن ہشام، ج ۲، ص۷۶
  5. مسعودی، التنبیہ و الاشراف، ص ۲۰۰ و طبری، تاریخ طبری، ج۲، ص ۳۷۰
  6. ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص ۹۳۶ و عیاشی، تفسیر، ج۲، ص۵۴۔ و صدوق، الخصال، ص۳۶۷، طوسی، أمالی، ص۴۶۳- ۴۶۵، حدیث ۳۵، و قمی، تفسیر، ج ۱، ص۲۷۳- ۲۷۵۔ (قمی:وہ بوڑھا شخص ابلیس تھا)
  7. مسعودی، التنبیہ و الاشراف، ص ۲۰۰
  8. قمی، تفسیر قمی، ج ۱، ص۲۷۳- ۲۷۶؛ طبرسی، اعلام الوری، ص۶۱- ۶۳؛ قطب راوندی، قصص الانبیاء، ص۳۳۵- ۳۳۷؛ الخرائج و الجرائح، ج ۱، ص۴۴ حدیث ۲۳۱
  9. طوسی، امالی، ص۴۶۷- ۴۶۸، مجلسی، بحار الانوار، ج ۱۹، ص۶۳؛ حلیۃ الابرار، ص۹۰
  10. کلینی، روضہ کافی، ص۲۸۰
  11. یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص ۴۱
  12. تاريخ‏ الطبری،ج۲،ص۳۸۸
  13. سید المرسلین، ج۱، ص۶۱۰ و ص۶۰۹«كَتَبَ عَليُّ بْنُ اَبيطالِبٍ بِاَمْرِ رَسُولِ اللّهْ فِي شَهْرِ رَجَبِ سِنَةَ تِسْعٍ مِنَ الْهِجْرَةْ
  14. ابن کثیر،ج۳، ص۲۰۷
  15. یعقوبی،ج۲، ص۱۴۵؛ مسعودی،ج۴، ص۳۰۰

تبصرے
Loading...