وقف

وقف اسلامی عقود میں سے ہے جس کے معنی کسی مال کو اس کے منافع سے استفادہ کرنے کیلئے بغیر کسی عوض کے بخش دینا ہے۔ وقف کا لفظ قرآن میں نہیں آیا لیکن بہت ساری احادیث میں اس کے مستحب ہونے اور اس کے احکام کی طرف اشارہ موجود ہے۔ وقف کسی شخص یا مخصوص گروہ کیلئے بھی ہو سکتا ہے یا بطور عموم بھی۔

معانی

وقف فقہاء کی اصطلاح میں کسی معین مال کو حبس کر کے اس کے منفعت اور ثمرے سے بغیر کسی عوض کے استفادہ کرنے کو کہا جاتا ہے۔[1] یہاں اصل مال کو حبس کرنے سے مراد وقت کرنے کے بعد مذکورہ مال کی نقل و انتقال اور اسے ضایع ہونے سے روکنا اور اس کے منافع کو معینہ اہداف میں استعمال کرنا ہے۔ اسی وجہ سے چہ بسا وقف کو صدقہ جاریہ بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کے منافع ہمیشہ باقی رہتے ہیں۔[2]

وقف کے چار رکن ہیں:

  1. صیغہ؛ یعنی وہ لفظ جو وقف پر دلالت کرے۔
  2. واقف؛ یعنی وہ شخص جو اپنا مال وقف کرتا ہے اور اس کے بدلے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتا۔
  3. موقوف علیہ؛ یعنی وہ فرد، افراد یا مقصد جس کیلے وقف کیا گیا ہے۔
  4. عین موقوفہ؛ یعنی وہ مال یا سرمایہ‌ جسے وقف کیا گیا ہے۔[3]

منزلت اور اہمیت

قرآن میں وقف پر دلالت کرنے والی کوئی صریح آیت موجود نہیں لیکن آیات الاحکام پر مبنی منابع میں وقف کو سُکنی(کسی مال کے منافع کو معینہ مدت کیلئے استفادہ کرنا)، صدقہ اور ہبہ وغیرہ کے ساتھ عطایائے مُنجّزہ(وہ اموال جو کسی عوض کے بغیر دوسرے کو دیا جاتا ہے) کے عنوان کے تحت موجود ہے۔[4] مثال کے طور پر سورہ آل عمران کی آیت نمبر 92 میں آیا ہے: لَن تَنالُوا البِرَّ حَتّىٰ تُنفِقوا مِمّا تُحِبّونَ(ترجمہ: لوگو! تم ہرگز اس وقت تک نیکی (کو حاصل) نہیں کر سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے کچھ راہِ خدا میں خرچ نہ کرو۔)۔[5] اسی طرح سورہ مزمل کی آیت نمبر 20 اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر 177 میں وقت کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔[6]

احادیث میں صراحتا وقف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؛ اگرچہ حدیثی منابع میں صدقہ کا عنوان زیادہ رائج‌ ہے اور وقف کا لفظ بہت کم‌ استعمال ہوا ہے۔[7] وقت کے باب میں موجود احادیث دو کلی حصوں میں قابل تقسیم ہیں:

  1. استحباب وقف سے مربوط احادیث۔[8]
  2. احکام وقف سے مربوط احادیث۔[9]

اقسام

وقف کو اس کے معینہ اہداف کو مد نظر رکھتے ہوئے تین قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے:

  • کسی معین شخص یا اشخاص کے لئے؛
  • ایک عمومی عنوان یا گروہ کیلئے مثلا “فقرا”؛
  • کسی خاص مقصد کیلئے: مثلا تبلیغ دین اور معصومین کی عزاداری برپا کرنے کیلئے؛[10]

فقہی کتابوں میں وقف کو وقف عام اور وقف خاص میں تقسیم کیا جاتا ہے اور درج بالا مثالوں کو ان دو اقسام میں سے کسی ایک کے ساتھ مختص قرار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ وقف چہ بسا کسی خاص شخص یا گروہ کیلئے ہے اور کبھی کسی خاص شخص یا گروہ سے متخص نہیں بلکہ عام لوگوں کیلئے ہے۔[11]

احکام

وقف ابواب فقہ کی ایک شاخ ہے جس سے معاملات کے باب میں بحث کی جاتی ہے۔ وقف کے بعض اہم احکام درج ذیل ہیں:

  • ضروری ہے کہ واقف بالغ اور عاقل ہو نیز قصد اور اختیاط رکھتا ہو اور شرعاً اپنے مال میں تصرف کرسکتا ہو۔[12]
  • وقف کا صیغہ ایسے الفاظ میں ہونا چاہئے جو وقف کے معانی سے قریب ہو۔[13] کسی مخصوص لفظ کو وقف کے صیغے کے طور پر پڑھنے سے متعلق کوئی دلیل موجود نہیں۔[14]
  • بعض فقہا وقف کو عبادات میں شمار کرتے ہوئے اس میں قصد قربت کو شرط قرار دیتے ہیں۔ لیکن بعض معتقد ہیں کہ کافر سے بھی وقف قبول کی جا سکتی ہے اور قصد قربت ثواب حاصل کرنے کیلئے ہے نہ کہ شرط۔[15]
  • مال موقوفہ کے حدود و قیود معین ہونا چاہئے۔[16] اس بنا پر مقدار معین کئے بغیر بعض اموال کو وقف کرنا صحیح نہیں ہے۔[17]
  • موقوف علیہ بھی مشخص ہونا چاہئے[18] اس بنا پر متعلقہ افراد کو معین کئے بغیر بعض افراد کے لئے وقف کرنا بھی صحیح نہیں ہے۔[19]
  • کسی چیز کا وقف اس وقت صحیح ہے کہ مال موقوفہ کچھ مدت باقی رہنے کے قابل ہو۔ اس بنا پر پھولوں کی خوشبو کو وقف کرنا صحیح نہیں ہے۔[20]
  • کسی معینہ مدت کیلئے یا مشروط طور پر وقف کرنا بھی صحیح نہیں ہے۔[21]
  • کتاب اور اسلحہ وغیرہ کو اس طرح وقف کرنا کہ ان کی عین باقی رہے اور ان کے منافع سے استفادہ کیا جائے، صحیح ہے۔[22]
  • کسی گناہ میں معاونت کی نیت سے وقف کرنا جائز نہیں۔[23]
  • اگر مسلمانوں کے لئے وقف کیا گیا ہو تو اس سے مراد وہ تمام افراد ہونگے جو شہادتین زبان پر جاری کرتے ہیں۔ لیکن اگر مؤمنین کیلئے ہو تو اس سے مراد صرف شیعہ اثنا عشریہ ہیں۔[24]
  • اگر کسی نے اپنے خاندان اور رشتہ دار وغیرہ کیلئے وقف کیا ہو تو مصادیق کی تشخیص عرف پر موقوف ہے۔[25]
  • مال موقوفہ کو جب تک موقوف علیہ کی تحویل میں نہ دیا ہو اس وقت تک اس کا مالک واقف ہی ہے۔ اگر واقف مال موقوفہ کو موقوف علیہ کی تحویل میں دینے سے پہلے مر جائے تو جس مال کو وہ وقف کرنا چاہتا تھا وہ اسکے ورثاء کی ملکیت میں آئے گی۔[26]
  • واقف اپنے آپ یا کی اور کو مال موقوفہ پر بطور نگران معین کر سکتا ہے اصطلاح میں اس شخص کو متولی کہا جاتا ہے۔[27] اسی طرح واقف اس متولی پر بھی کسی کو نگران مقرر کر سکتا ہے۔ نگرانوں کے اختیارات کو واقف طے کر سکتا ہے۔[28]
  • اگر واقف یہ شرط لگائے کہ ضرورت کی صورت میں مال موقوفہ دوبارہ اس کی ملکیت میں واپس آئے گا تو وقف باطل ہے۔ لیکن اس کے اس عمل ک اصطلاح میں حبس مال کہا جائے گا جو اگر نیت کے ساتھ ہو تو ثواب ملے گا۔[29]
  • مسجد کی نیت سے اگر وقف کرے تو یہ اس صورت میں تکمیل ہو گا جب اس میں نماز پڑھی جائے۔ اسی طرح قبرستان کی نیت سے وقف کرے تو یہ اس وقت کامل ہو گا جب اس میں کسی مردے کو دفن کیا جائے۔[30]
  • مال موقوفہ کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے۔[31]
  • اگر مال موقوفہ خراب ہو رہا ہو یا خراب ہو چکا ہو تو اسے ایک ایسے مال میں تبدیل کرنا جائز ہے جس سے موقوف علیہ کیلئے زیادہ منافع ہو۔[32]

حوالہ جات

  1. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۲۷۹۔
  2. مشکینی، مصطلحات الفقہ، ۱۴۱۹ق، ص۵۶۶- ۵۶۷۔
  3. مشکینی، مصطلحات الفقہ، ۱۴۱۹ق، ص۵۶۷۔
  4. فاضل مقداد، کنز العرفان، ۱۳۷۳ش، ج۲، ص۱۱۳۔
  5. فاضل مقداد، کنز العرفان، ۱۳۷۳ش، ج۲، ص۱۱۳۔
  6. فاضل مقداد، کنز العرفان، ۱۳۷۳ش، ج۲، ص۱۱۳۔
  7. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۲۷۹۔
  8. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۳۰ق، ج۱۶، ص۳۶۴- ۳۶۷۔
  9. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۳۰ق، ج۱۶، ص۳۶۸- ۴۰۵۔
  10. مشکینی، مصطلحات الفقہ، ۱۴۱۹ق، ص۵۶۷۔
  11. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۳۱۲؛ محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱و۲، ص۴۵۷؛ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۳۰ق، ج۱۶، ص۳۶۸۔
  12. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۳۱۲؛ محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱و۲، ص۴۵۷۔
  13. محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱و۲، ص۴۵۵۔
  14. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۲۸۰۔
  15. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۲۸۲۔
  16. محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱و۲، ص۴۵۶۔
  17. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۳۱۰۔
  18. محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱و۲، ص۴۵۸۔
  19. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۳۱۹۔
  20. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۳۱۱۔
  21. محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱و۲، ص۴۶۲۔
  22. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۳۱۱۔
  23. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۳۲۰۔
  24. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۳۲۶؛محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱و۲، ص۴۵۹۔
  25. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۳۲۸۔
  26. محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱و۲، ص۴۶۲۔
  27. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۳۴۰۔
  28. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۳۴۴۔
  29. محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱و۲، ص۴۶۲۔
  30. محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱و۲، ص۴۶۳۔
  31. محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱و۲، ص۴۶۴۔
  32. محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱و۲، ص۴۶۶۔

مآخذ

  • حر عاملی، وسائل الشيعۃ، قم، موسسۃ‌ النشر الاسلامی، ۱۴۳۰ق۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، کنز العرفان فی فقہ القرآن، تہران، مکتبۃ المرتضویۃ، ۱۳۷۳ش۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، قم، موسسۃ‌ النشر الاسلامی، ۱۴۲۰ق۔
  • مشکینی، علی، مصطلحات الفقہ، قم، الہادی، ۱۴۱۹ق۔
  • محقق حلی، نجم الدین، شرایع الاسلام، قم، اسماعیلیان، ۱۴۰۸ق۔
تبصرے
Loading...