نہج البلاغہ

نہج البلاغہ.jpg
مؤلف: سید محمد بن حسین رضی(متوفا406ہجری)
زبان: عربی
تعداد مجلد: 1
ناشر: مرکز افکار اسلامی
ترجمہ
مترجم: مفتی جعفر حسین(مرحوم)

امیرالمؤمنینؑ:

إِنَّ أَََمْرَنَا صَعْبٌ مُسْتَصْعَبٌ، لاَ يَحْمِلُہُ إِلا عَبْدٌ مُؤْمِنٌ امْتَحَنَ اللَّہُ قَلْبَہُ لِلْإِيمَانِ، وَلاَ يَعِي حَدِيثَنَا إِلا صُدُورٌ أَمِينَة وَأَحْلاَمٌ رَزِينَة

ترجمہ: ہمارا امر بہت سخت و دشوار ہے اور اسے برداشت کرنا ممکن نہیں ہے سوائے صاحب ایمان بندہ جس کا قلب خدا نے ایمان کے لئے آزما لیا ہے اور ہماری حدیث کو کوئی بھی نہ سیکھے گا سوائے امانتدار سینوں اور بردبار عقول کے۔

نہج البلاغہ، خطبہ 189۔

امیرالمؤمنینؑ:

اتَّقُوا اللَّہَ فِي عِبَادِہِ وَبِلاَدِہِ فَإِنَّكُمْ مَسْئُولُونَ حَتَّى عَنِ الْبِقَاعِ وَالْبَہَائِمِ

ترجمہ: اللہ کا خوف کرو خدا کے بندوں اور حتی کہ شہروں، زمینوں اور چوپایوں کے حق میں۔

نہج البلاغہ، خطبہ 167۔

نہج البلاغہ امام علیؑ کے منتخب خطبات، خطوط اور اقوال کا مجموعہ ہے جو چوتھی صدی ہجری میں سید رضی نے تدوین کیا۔ ادبی فصاحت و بلاغت کو معیار اور میزان قرار دیتے ہوئے سید رضی نے امام علی کے کلام کا انتخاب کیا۔ وہ اپنے زمانے کے معروف شاعر اور ادیب تھے جبکہ مشہور تالیفات کے مؤلف ہونے کی وجہ سے اس زمانے میں مکتب تشیع کی ایک جانی پہچانی شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ خود نہج البلاغہ کی تالیف کو اپنے لئے دنیا اور آخرت کا سرمایہ سمجھتے اور اس مجموعے پر فخر کرتے تھے۔ پہلے درجے کا عربی ادب نہج البلاغہ کے بہت زیادہ تحت تاثیر رہا۔

نہج البلاغہ مجموعی طور پر تین حصوں خطبات، مکتوبات اور کلمات قصار پر مشتمل ہے۔ حضرت علی نے اپنے اکثر خطبات میں لوگوں کو احکام الہی کی بجاآوری اور خدا کے نزدیک ناپسندیدہ امور سے روکنے کی ترغیب دی ہے۔ مکتوبات کا اکثر حصہ ان نصیحت آموز خطوط پر مشتمل ہے جو آپ نے اپنے گورنروں کو لکھے۔ ان خطوط میں لوگوں کے حقوق کی رعایت کی سفارش اور دیگر ضروری اقدامات ذکر کیے ہیں جبکہ کلمات قصار میں حضرت علی کے حکیمانہ اور نصیحت آموز جملے ہیں جو ادبی لحاظ سے بلاغت کی نہائی حدوں کو چھوتے ہیں۔
نہج البلاغہ میں بلاغت نے اوج کمال کو چھوتے ہوئے اسلام کے بنیادی عقائد، خلقت کائنات کی خوبصورتیوں، مختلف جانداروں کی تخلیق میں موجود پوشیدہ اسرار سے پردے اٹھائے۔ انہی وجوہ کے پیش نظر علما نے اسے مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا نیز اہل سنت اور شیعہ علما نے اس کی بہت سی شروحات لکھیں۔

تاریخ، سبب تألیف اور وجہ تسمیہ

آقا بزرگ تہرانی کے مطابق سید رضی نے 400 ہجری قمری میں اس کی تالیف مکمل کی۔[1]

سید رضی نہج‌البلاغہ کے مقدمے میں لکھتے ہیں:

میں نے عالم شباب کے دوران ایام طراوت اور شجر حیات کی تازگی کے دنوں میں کتاب خصائص الائمہ کی تالیف کا اہتمام کیا جو ائمہؑ کی اخلاقی خصوصیات اور صفات پر مشتمل اور ان سے منقولہ محاسن اخبار اور جواہر کلام پر مبنی تھی …. کتاب کے آخر میں امیرالمؤمنینؑ کے مواعظ، حکمتوں اور امثال و آداب پر مشتمل مختصر، نہایت عمدہ اور فصیح و بلیغ فصل تھی لیکن یہ انکے تفصیلی خطبوں اور خطوط پر مشتمل نہیں تھی۔بعض دوستوں اور بھائیوں نے اس فصل کے مضامین کو پسند کیا اور انہیں تحسین کی نگاہ سے دیکھاجبکہ وہ سب اس قدر بدیع الفاظ اور بلند و تابندہ معانی سے حیرت زدہ تھے۔انھوں نے مجھ سے کہا کہ ایک کتاب کی تالیف کا آغاز کردوں جو آپؐ کے منتخب کلام کی تمام اقسام خطبات،مکتوبات اور مواعظ حسنہ پر مشتمل ہو۔ لہذا میں نے اس کی اس خواہش کا جواب نہج البلاغہ کی صورت میں دیا۔[2]

لفظ نَہج ( نون پر فتح اور ہا پر سکون) کا معنا “واضح اور آشکار راستہ” ہے[3] لہذا نہج البلاغہ بلاغت کے واضح راستے کے معنا میں ہے۔

سید رضی کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں:

میں نے اسے نہج البلاغہ کا نام دیا کیونکہ یہ بلاغت کے دروازے ہر اس شخص پر کھول دیتی ہے جو اس میں نظر کرنا چاہتا ہے اور طالبان بلاغت کو اس کی جانب بلاتی ہے؛ دانشور بھی اس کے محتاج ہیں، طالبان دانش کو بھی اس کی ضرورت ہے، یہ اہلیان بلاغت کے لئے بھی مطلوب اور پسندیدہ ہے اور اہل زہد و پارسائی کے نزدیک بھی منظور نظر۔ اس کے ضمن میں توحید اور عدل اور مخلوقات سے مشابہت سے باری تعالی کی تنزیہ پر مبنی عمدہ اور حیرت انگیز اقوال ہیں ان عبارات کے زمرے میں، جو تشنہ لبوں کو سیراب کرتے ہیں، بیماروں کو شفا دیتے ہیں اور ہر شک و شبہے کو دلوں سے زائل کردیتے ہیں۔[4]

مصر کے سابق مفتی اور نہج البلاغہ کے اہل سنت شارح شیخ محمد عبدہ اپنی شرح کے مقدمے میں لکھتے ہیں:

میں کسی بھی ایسے نام سے واقف نہیں ہوں جو اپنے معنی پر دلالت کرنے کے حوالے سے اس سے زیادہ مناسب ہو۔ یہ میرے بس کی بات نہيں ہے کہ اس کتاب کی اس طرح سے توصیف کروں جس طرح کہ یہ نام اس پر دلالت کرتا اور اس کا تعارف کرواتا ہے….۔[5]

مضامین

سید رضی نے نہج البلاغہ میں امام علیؑ کے کلام کو درج ذیل تین حصوں میں مرتب کیا:

  • خطبات، احکامات، وغیرہ،
  • مکتوبات و رسائل وغیرہ،
  • کلمات قصار(حِکَم اور مواعظ)۔

نہج البلاغہ کے مختلف قلمی نسخوں میں اختلاف کے پیش نظر نہج البلاغہ کے خطبوں، خطوط اور مواعظ کی ترتیب اور نمبروں میں معمولی اختلاف پایا جاتا ہے۔ کتاب المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ کے مطابق خطبات 241، مکاتیب 79 اور کلمات قصار 480 کی تعداد میں ہیں۔[6] اسی طرح کتاب کے مقدمے میں مذکور ہے کہ مختلف فصول کے درمیان عدم یکسانیت کا لحاظ کئے بغیر ترتیب دیا گیا ہے ۔ کلام امیر المومنین میں صرف موجود بلاغت اور پسندیدگی کی بنا پر اسے جمع کیا گیا ہے لہذا یہی وجہ ہے کہ فصول کے درمیان عدم یکسانیت یا نظم نہیں پایا جاتا ہے۔ اسی طرح بعض کلمات میں شک و تردید کی وجہ سے انہیں مختلف عناوین کے تحت ذکر کیا گیا ہے۔[7]

امام علی علیہ السلام:

النَّاسُ أَعْدَاءُ مَا جَہِلُوا

ترجمہ: لوگ دشمن ہیں ان چیزوں کے جنہیں وہ نہیں جانتے۔

نہج البلاغہ، کلمات قصار، حکمت نمبر 172۔

خطبات

نہج البلاغہ اسلامی فرہنگ اور تعلیمات کا ایک ایسا اسلامی دائرۃ المعارف ہے جو خداشناسی توحید، ملائکہ کی دنیا، خلقت کائنات، انسانی فطرت، امتوں، نیکوکار اور ستمگر حکومتوں پر بحث کرتا ہے تاہم اصل نکتہ یہ کہ اس پورے کلام سے امیرالمؤمنین علیہ السلام کا مقصد طبیعیات، حیوانیات، فلسفی یا تاریخی نقاط کی تفہیم اور تدریس مقصود نہیں تھا۔[8]

کلام امیر المومنین اس طرح کے موضوعات بیان کرنے میں قرآن کریم کی مانند ہے جسطرح قرآن پاک ان موضوعات کو موعظت اور نصیحت کی زبان میں محسوس یا معقول بیان کے ساتھ روشن اور قابل ادراک نمونوں کی صورت میں پڑھنے والے کے سامنے پیش کرتا ہے اور پھر قدم بقدم اگے بڑھ کر اسے اپنے ساتھ اس سرمنزل یعنی اللہ کی درگاہ کی جانب آستان پروردگار یکتا کی جانب لے جاتا ہے جہاں اسے پہنچنا چاہئے۔

جہاں آسمان، زمین و آفتاب اور چاند، تاروں اور پہاڑوں کی خلقت کی بات آتی ہے، آپؑ نصیحت کی زبان میں سکھا دیتے ہیں کہ جو کچھ خالق نے مخلوقات کو عطا کیا ہے، خیر ہی خیر ہے لیکن ناشکرا انسان اتنی ساری نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا اور راہ خدا کو چھوڑ کر راہ شیطان کی طرف بھاگتا ہے اور اللہ کی بخشش و عطاء کو شرانگیزیوں اور فتنہ انگیزیوں میں صرف کر دیتا ہے اور چونکہ اس میں گذشتہ قوام و امم کی داستانوں کا تذکرہ ہے، چنانچہ آپ ان کے توسط سے حاضرین کو تعلیم دیتے ہیں کہ زمانہ آئینۂ عبرت ہے جس میں ماضی کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ عبرت حاصل کرنے والا کون ہے؟ دیکھو دنیا سے گذرنے والی اور زیر خاک سوجانے والی امتوں کو، کیا دیکھا انھوں نے اور کیا کیا انھوں نے، ان کے نیک کاموں کی تقلید کرو اور ان بھونڈے افعال سے پرہیز کرو جو ان کی نابودی کا سبب ہوئے۔[9]

ان نصائح کے ضمن میں کبھی اپنے اصحاب پر نظر ڈالتے ہیں اور ان کے حال اور کردار کے بارے میں متفکر ہوجاتے ہیں؛ اچانک غم و اندوہ اور افسوس کا بھاری بھرکم پہاڑ آگرتا ہے اور یہ وہ موقع ہے جب آپ اپنی حقیقت بین نگاہیں اپنے منبر تلے بیٹھے سامعین پر سے پلٹا کر دور کے افق پر جمالیتے ہیں، عصر محمدیؐ کے افق پر، جہاں آپؐ کے پاکدل اصحاب خدا اور روز قیامت پر یقین کی بنا پر نصرت دین کو اپنے دنیاوی مفادات پر مقدم رکھتے تھے، ایک بار حاضرین و سامعین کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے اور دیکھتے تھے کہ اس دور سے اب تک 30 سال سے زیادہ مدت نہیں گذری ہے، یہ اچانک کیا ہوا کہ اس مختصر سی مدت میں نام کے مسلمان حقیقی مسلمانوں کے مسند پر براجماں ہوئے ہیں؟ وہ لوگ، جنہوں نے دنیا کو بانہیں اپنی جانب پھیلا کر مسکراتے ہوئے دیکھا تو خدا کو فراموش کرکے اپنے امام کی نافرمانی کر بیٹھے! وہ لوگ ـ جو سر اٹھا کر فخر کرتے اور کہا کرتے تھے کہ “ہم نے خدا کی راہ میں شہیدوں کی قربانی دی ہے اور ہم بھی شہادت کے آرزومند ہیں”، ـ کہاں چلے گئے؟ یہ میرے گرد جمع ہونے والے تن آسانی اور راحت طلبی کو راہ خدا میں مارے جانے پر ترجیح کیوں دینے لگے ہیں؟ اور وہ یہ دینی فریضہ دوسروں پر عائد کرنے کی کوششیں کیوں کرنے لگے ہیں؟ [یہ دیکھ کر] آپ صدر اول کے مسلمانوں کے ایثار اور مساوات [و مواسات] کے مناظر کی جانب پلٹتے ہیں جو دوسروں کو اپنے اوپر مقدم رکھتے تھے اور مال دنیا کی آلودگیوں پاک رہنے کی تدبیروں میں مگن نظر آتے تھے؛ [اور اپنے آپ سے پوچھتے تھے کہ] یہ سب اس قدر مال اندوز اور دنیا پرست کیوں ہوئے ہیں؟ یہ نمونے اور دسوں دوسرے نمونے امیرالمؤمنینؑ کے خطبات کے مضامین و محتویات کو تشکیل دیتے ہیں۔[10]

مکتوبات

امیرالمؤمنینؑ:

رَأْيُ الشَّيْخِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ جَلَدِ الْغُلَامِ

ترجمہ: بوڑھے کی رائے مجھے جوان کی ہمت اور دلیری سے زیادہ پسند ہے۔

نہج البلاغہ، کلمات قصار، حکمت نمبر 86۔

مکتوبات یا خطوط و مراسلات کا مجموعہ زیادہ تر حکام کا دستور العمل ہے کہ وہ عوام کے مختلف طبقوں کے ساتھ کیسا رویہ رکھیں، قومی خزانے کا کیونکر تحفظ کریں، اخراجات اٹھاتے ہوئے معاشرے کی خیر و صلاح کو کس طرح مد نظر رکھیں؛ تاہم مکتوبات کا مضمون و مواد اس زمانے کی نصف قابل سکونت دنیا کے فرمانروا کا حکم نہیں ہے جو وہ اپنے ماتحت عاملین کو دے رہا ہے بلکہ ایک مہربان، عمر رسیدہ اور زمانے کا تلخ و شیریں چشیدہ باپ کا نوشتہ ہے جو اپنے نورس فرزندوں کو پڑھا رہا ہے کہ وہ زندگی کی جنگ میں مشکلات کا کس انداز سے سامنا کریں۔[11]

کلمات قصار

اس حصے میں امیرالمؤمنینؑ کے منتخب حکمت آمیز اقوال و نصائح، سوالات کے جوابات اور مختصر خطبے نقل ہوئے ہیں۔[12]

تراجم

اردو

دیگر زبانوں کی طرح مختلف زمانوں میں نہج البلاغہ کے اردو زبان میں کئی ترجمے ہوئے۔ ان میں سے چند ایک کے نام ذکر کئے جاتے ہیں:

ہم یہاں پر اب تک اردو میں ہوے ترجموں کا مختصر تعارف بیان کر تے ہیں:

غیر موجود تراجم

نمبر شمار نام مترجم خصوصیات
1 نہج البلاغہ (الاشاعۃ) سید اولاد حسن بن محمد حسن سلیم ہندی امروہوی معاصر سید علی نقی نقوی ۔ تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان میں ان کاتذکرہ ہوا ہے۔[13]
2 سلسبیل فصاحت (نہج البلاغہ) سید ظفرمہدی گوہر ابن سید وارث حسین جائسی مدیر تحریر مجلہ”سہیل یمن“ ان کی ایک دوسری کتاب بھی ہے جو اللہ اللہ کے نام سے موسوم ہے یہ کتاب انہوں نے اہل سنت کے جواب میں لکھی ہے اور ہندوستان میں دو جلدوں میں شایع ہوئی ہے۔[14]
3 نہج البلاغہ سید علی اظہر کھجوی ہندی متوفی ۱۳۵۲ھ۔ اس کا ترجمہ سطروں کے درمیان لکھا اور چھپا ہے۔[15]استاد سید عبدالعزیر طباطبایی الذریعہ کے تعلیقہ موسوم بہ اضواء علی الذریعہ میں کہتے ہیں : اس کتاب کے مترجم کے متعلق میں نے علامہ سعید اختررضوی سے پاکستان میں ایک خط لکھ کر معلوم کیا تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ یہ ترجمہ سید علی اظہر کا نہیں ہے بلکہ ان کے بیٹے سید علی حیدر کا ہے (۱۳۰۳۔۱۳۸۰ھ) اور غلطی سے ان کے والد کی طرف نسبت دیدی گئی۔[16]
4 نہج البلاغہ سید یوسف حسین ہندی امروہوی، متوفی ۱۳۵۲ھ۔ یہ ترجمہ ۱۹۲۶ء میں ہندوستان کے بہترین پریسوں میں چھپ کر منظر عام پر آیا تھا۔[17]
5 نہج البلاغہ یوسف حسین بن نادر حسین صدر الافاضل لکھنوی آپ کی تالیفات کا تذکرہ کرتے ہوئے نہج البلاغہ کے ترجمہ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔[18]
6 نہج البلاغہ سیدمحمد صادق خلیق احمد نظامی نے نہج البلاغہ سے متعلق ایک مقالہ لکھا ہے جس میں اس کے متعلق بیان کیاہے اور اس ترجمہ کو اپنے مجلہ ”المجمع العلمی الہندی“ کے پہلے شمارہ میں چھاپا ہے۔[19]
7 نہج البلاغہ حسن عسکری ہندی حیدرآبادی یہ ترجمہ ۱۹۶۶ء میں حیدرآباد دکن میں شائع ہوا۔[20]
8 نہج البلاغہ سید سبط حسن رضوی پاکستانی ہنسوی ان کی سوانح حیات کی تفصیل کتاب ”مطلع الانوار“ کے صفحہ ۲۵۰پر بیان ہوئی ہے۔[21]
9 نیرنگ فصاحت (نہج البلاغہ) سید ذاکر حسین اختر ابن سید فرزند علی ہندی دہلوی واسطی (۱۳۱۵۔۱۳۷۲ھ) آپ کی سوانح حیات تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔[22]
10 نہج البلاغہ صدرالافاضل سید مرتضی حسین لکھنوی موصوف لاہور کے مشہور عالم گزرے ہیں(۱۳۴۱۔۱۴۰۷ھ)۔
11 نہج البلاغہ یوسف حسین و محمد زکی سرود یہ ترجمہ دو لوگوں نے مل کر انجام دیا جیسے خطبوں کا ترجمہ : میرزا یوسف حسین، خطوط اور کلمات قصار کا ترجمہ : غلام محمد زکی سرود کوئی،یہ ترجمہ ”حمایت اہل بیت“ کی طرف سے ۱۳۹۴ھ میں شائع ہوا۔ اس ترجمہ پر بہت سے علماء نے مقدمہ لکھے جیسے سید علی نقی نقوی، سید محمد صادق لکھنوی، محمد بشیر ،ظفر حسن،مرتضی حسین اور ظل حسنین ۔
12 نہج البلاغہ گروہی ترجمہ اس ترجمہ کو چند حضرات: سید رئیس احمد جعفری، نائب حسین نقوی، عبدالرزاق ملیح آبادی اور مرتضی حسین میں سے ہرایک نے ایک ایک حصہ کے ترجمہ کی ذمہ داری قبول کر رکھی تھی اور یہ ترجمہ پاکستان میں شائع ہواہے۔[23]

مذکورہ تراجم کے موجود نہ رہنے کی وجوہات شاید یہ رہی ہوں: کسی میں اغلاط بہت زیادہ تھے اور کسی میں عبارت آرائی نے ترجمہ کے حدود کو باقی نہیں رکھا نیز حواشی میں کبھی خالص مناظرانہ انداز کی بہتات ہوگئی اور کبھی اختصار کی شدت نے ضروری مطالب نظر انداز کردئے۔

موجود تراجم

نام مترجم خصوصیات
نہج البلاغہ مفتی جعفر حسین لاہوری یہ ترجمہ ۱۸ رجب المرجب ۱۳۷۵ھ مطابق ۱۹۵۶ء کو مکمل ہوا۔برصغیر پاک و ہند میں بہت زیادہ مشہور اور رائج ہے۔ اس کے کئی اچھے ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ لاہور کے کتب خانہ مغل حویلی سے بڑے ایڈیشن میں اس کے ایک صفحہ پر عربی متن اور دوسرے صفحہ پر اردو ترجمہ طبع ہوا اور دوسرا ایڈیشن ”امامیہ پبلیکشنز“ پاکستان سے ۱۹۸۵ء میں چھپا۔[24] اکثر خطبات اور مکتوبات میں ضروری حواشی کے طور پر مخالفین کے اعتراضات اور جوابات نیز کلمات قصار میں بھی ضروری اور مختصر وضاحت جیسی خصوصیات کی بنا پر اردو ترجموں میں سب سے اچھا ترجمہ شمار کیا جاسکتا ہے۔
نہج البلاغہ سید ذیشان حیدر جوادی مترجم اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: اس کتاب میں ایک طرف الفاظ کا مفہوم درج کیا گیا اور دوسری طرف خطبات و کلمات کے مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔[25]

فارسی

مختلف زبانوں کی طرح فارسی زبان میں بھی نہج البلاغہ کے کئی ترجمے ہو چکے ہیں۔ بعض کے اسما درج ذیل ہیں:

نام مترجم وضاحت
نہج البلاغہ عزیز اللہ جوینی پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کا فارسی ترجمہ جس میں اصطلاحات کی وضاحت، متن کی درستگی اور تقابلی جائزہ شامل ہے۔[26]
شرح نہج البلاغہ غلام رضا لائقی ابن ابی الحدید معتزلی(656ھ.ق) کی شرح نہج البلاغہ کا ترجمہ ہے [27]
شرح نہج البلاغہ قربان علی محمدی مقدم، علی اصغر نوائی یحیی زادہ یہ کمال الدین میثم علی بن میثم بحرانی کی شرح کا ترجمہ ہے [28]
نہج البلاغہ سید جعفر شہیدی[29]
نہج البلاغہ امیر المومنین علی علیہ‌السلام عبد المحمد آیتی۔[30]
ترجمہ و شرح نہج البلاغہ علی نقی فیض الاسلام۔[31]
نہج البلاغہ امام علی علیہ‌السلام‏ محمد مہدی فولاد وند[32]
نہج البلاغہ مولا علی بن ابی طالب امیر المومنین ؑ اسد اللہ مبشری۔[33]

شرحیں

نہج البلاغہ پر کثیر شرحیں لکھی گئی ہیں جن میں سے کئی شرحیں آج کے زمانے میں نایاب ہیں۔ فہرست نگاروں نے بہت سی شرحوں کے نام ذکر کئے ہیں۔ “کتابنامہ نہج البلاغہ” میں نہج البلاغہ کو موضوع بنا کر تالیف کردہ آثار اور کاوشوں کی تعداد 300 بتائی گئی ہے جبکہ راقم کے نزدیک یہ فہرست جامع نہیں ہے [اور پورے آثار کا احاطہ نہیں کرسکی ہے]۔[34] ذیل میں نہج البلاغہ کی بعض عربی اور فارسی شرحوں کا حوالہ دیا گيا ہے جو آج بھی دستیاب ہیں:

نام شارح وضاحت
پیام امام امیر المومنین (ع) آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی نئی اور جامع شرح شمار ہوتی ہے
ترجمہ و تفسیر نہج البلاغہ محمد تقی جعفری یہ ایک مبسوط شرح ہے جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے
ترجمہ و شرح نہج البلاغہ ملا محمد صالح قزوینی
شرح نہج البلاغ مرزا محمد باقر نواب لاہیجی
نمبر شمار نام مؤلف وضاحت
1 معارج نہج البلاغہ ظہیر الدین علی بن زید بیہقی (متوفی 565 ھ) اس کی تحقیق و تقدیم کا کام محمد تقی دانش پژوہ نے انجام دیا۔ [35]
2 منہاج البراعہ فی شرح نہج البلاغہ قطب الدین راوندی (متوفی 573 ھ) تحقیق: عزیز اللہ العطاردی۔[36]
3 حدائق الحقائق فی شرح نہج البلاغہ ‏‫قطب الدین کیذری بیہقی ‏‫تحقیق عزیز اللہ العطاردی۔[37] اس شرح کی تحریر کا کام سنہ 576 ہجری قمری میں مکمل ہوا ہے۔[38]
4 اعلام نہج البلاغہ علی بن ناصر سرخسی (قرن 6ہجری) عزیز اللہ العطاردی نے متن کی تحقیق اور ضبط کا کام انجام دیا۔[39]
5 شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید محمد ابو الفضل ابراہیم نے اس کی تحقیق کی ہے۔ [40]اہل سنت کے معتزلی عالم دین کی ایک نہایت مبسوط شرح ہے۔ شیعہ حضرات کے نزدیک اس شرح نے بہت شہرت حاصل کی۔
6 شرح نہج البلاغہ کمال الدین میثم بن علی میثم بحرانی۔[41] چار جلدوں پر مشتمل مختصر اور مفید شرح کہا جا سکتا ہے۔
7 اختیار مصباح السالکین من کلام مولانا و امامنا امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ (شرح نہج البلاغہ الوسیط) میثم بن علی بن میثم البحرانی محمد ہادی امینی نے اسکی تحقیق کی اور اس پر تعلیقے لگائے۔ [42]
8 منہاج البراعہ فی شرح نہج البلاغہ حبیب اللہ ہاشمی خوئی (1268ہجری-1324ہجری شمسی)۔[43] چند جلدوں پر مشتمل ہے۔
9 بہج الصباغہ فی شرح نہج البلاغہ محمد تقی تستری (1374-1282ہجری شمسی)۔[44]
10 نخبہ الشرحین فی شرح نہج البلاغہ سید عبد اللہ شبر (1826-1774 عیسوی) ابن میثم اور ابن ابی الحدید کی شرحوں سے انتخاب ہے۔[45]
11 نہج البلاغہ شرح محمد عبده (1849-1905عیسوی) عبد العزیز سید اہل نے تحقیق کے بعد اسے طبع کروایا۔[46]

اسناد

اہل سنت کے بعض علماء نے نہج البلاغہ کی سند میں شک و شبہے کا اظہار کیا ہے۔ ابن خلکان (متوفٰی 681ہجری) ان ہی علماء میں سے ہیں۔ ابن خلکان کا کہنا ہے:

“لوگوں کے درمیان امام علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے اقوال و کلمات سے تالیف شدہ کتاب “نہج البلاغہ” کے بارے میں اختلاف واقع ہوا ہے کہ کیا اس کے مؤلف سید مرتضی ہیں یا ان کے بھائی سید رضی؟ اور ان لوگوں نے کہا ہے کہ یہ کلام علیؑ کا نہیں ہے؛ اور جس نے یہ کلام اکٹھا کیا ہے اس کے تخلیق کار بھی وہی ہیں! واللہ الاعلم”۔[47]

ان کے بعد ذہبی (متوفٰی 748ہجری) نے یقین کے ساتھ کہا ہے:

سید مرتضی نہج البلاغہ کے کے مؤلف ہیں، جس کے الفاظ کو امام علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا گیا ہے اور اس نسبت کے لئے کوئی سند موجود نہیں ہے؛ اور ان اقوال و کلمات میں سے بعض باطل ہیں اور بعض صحیح ہیں۔ تاہم اس میں بعض اقوال وہ ہیں کہ دور ہوں امام، انہیں زبان پر لانے سے،۔۔۔؛ اور کہا گیا ہے کہ یہ مجموعہ ان کے بھائی سید رضی نے اکٹھا کیا ہے۔[48]

544ہجری قمری کے قلمی نہج البلاغہ کاایک صفحہ

جس طرح کہ ابن خلکان نے “لوگوں کے شک و تردد” کا ذکر کیا ہے ابن ابی الحدید (متوفا 656ہجری) بھی اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ میں خطبۂ شقشقیہ، کی شرح کے بعد ایک حکایت نقل کرتے ہیں جو عوام کے درمیان نہج البلاغہ کے سلسلے میں شک و تردد پر مبنی ہے؛ تاہم وہ خود اس شک و تردد کا نہایت فیصلہ کن انداز سے جواب دیتے ہیں اور کہتے ہیں:

میں نے سنہ 603ہجری میں اپنے شیخ (استاد) مصدق بن شبیب واسطی سے سنا جو کہہ رہے تھے: “میں نے یہ خطبہ (یعنی خطبۂ شقشقیہ) عبداللہ بن احمد المعروف ابن خشاب کو پڑھ کر سنایا،… اور ان سے کہا: کیا آپ اس خطبے کی امام علی سے نسبت کو جعلی سمجھتے ہیں؟ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں کہ یہ امام علی کا کلام ہے جیسا کہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ بھی اس کے مصدق ہیں (یعنی اس کی تصدیق کرنے والے ہیں)۔ چنانچہ میں نے ان سے کہا: بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ خطبہ سید رضی رحمہ اللہ تعالی، کا ہے۔ تو انھوں نے کہا: “رضی کہاں اور رضی جیسے دوسرے کہاں اور یہ اسلوب کلام کہاں!؟” بے شک ہم رضی کے رسائل سے واقف ہیں اور نثری کلام میں ان کا طریقہ اور فن جانتے ہیں، رضی نے اس میں کسی اچھے یا برے کا اضافہ نہيں کیا ہے۔ انھوں نے کہا: خدا کی قسم! میں نے یہ خطبات ان کتابوں میں بھی دیکھے ہیں جو سید رضی کی ولادت کے 200 سال قبل لکھی گئی ہیں؛ میں نے ان خطبات کو ایسے خط میں لکھا ہوا پایا جنہیں میں جانتا ہوں اور جانتا ہوں کہ کن علماء اور ادباء نے یہ خطبات مسطور کئے ہیں قبل اس کے سید رضی کے والد نقیب ابو احمد دنیا میں آجائیں”۔[49]

ابن ابی الحدید کہتے ہیں:

میں نےاس خطبے کا بڑا حصہ اپنے استاد اور بغداد کے معتزلہ کے امام ابوالقاسم بلخی کی تصانیف میں لکھا ہوا پایا جو رضی کی ولادت سے بہت عرصہ قبل (عباسی بادشاہ) مقتدر عباسی کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ نیز ان میں سے بہت سے خطبات کو میں نے امامیہ کے متکلم ابو جعفر بن قبہ کی کتاب “الانصاف” میں دیکھا ہے۔ اور یہ ابو جعفر ہمارے استاد شیخ ابوالقاسم بلخی کے شاگردوں میں سے تھے اور اسی دور میں وفات پاچکے ہیں جبکہ ابھی رضی رحمۃ اللہ تعالی علیہ موجود نہ تھے۔[50]

نہج البلاغہ کی شرحوں کے ضمن میں ابن ابی الحدید سمیت بہت سے محققین نے اس کتاب کے تمام اقوال و کلمات کی اسناد کے سلسلے میں مستقبل کتب تالیف کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کتب میں امیرالمؤمنینؑ کا کلام سید رضی سے قبل، ان کے ہم عصر نیز ان کے بعد کی ان کتب سے مستند کیا گیا ہے اور ان اقوال کو سید رضی اور سید مرتضی کے بغیر دوسرے علماء سے نقل کیا گیا ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ کلام علیؑ کی سند میں شک و تردد بالکل بےجا ہے؛ اور اس حقیقت میں بھی شک و شبہہ بے جا ہے کہ یہ کتاب سید رضی نے تالیف کی ہے نہ کہ ان کے بھائی سید مرتضی نے۔ ذیل میں نہج البلاغہ کی اسناد اکٹھی کرنے والے بعض منابع کا حوالہ دیا جاتا ہے:

  1. استناد نہج البلاغہ، تالیف امتیاز علی خان عرشی؛ ترجمہ، تعلیقات اور حواشی از مرتضی آیت اللہ زادہ شیرازی۔[51]
  2. مصادر نہج البلاغہ و اسانیدہ، سید عبد الزہراء الحسینی الخطیب۔[52]

مستدرکات

نہج البلاغہ اگرچہ امیرالمؤمنینؑ کا منتخب کلام ہے لیکن یہ اسلامی منابع میں منقول پورے کلام علیؑ پر مشتمل نہيں ہے لہذا بعض محققین نے آپ کے دیگر اقوال کو جمع کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ ان تالیفات میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

  • تمام نہج البلاغہ مما اوردہ الشریف الرضی اثر مولانا الامام امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام: تحقیق و تتمیم و تنسیق صادق موسوی؛ توثیق کتاب: محمد عساف؛ مراجعہ و تصحیح نصوص: فرید السید۔[53]
  • نہج السعادہ فی مستدرک نہج البلاغہ، باب الکتب والرسائل: تالیف محمد باقر محمودی؛ تصحیح عزیز آل طالب۔[54]
  • نہج السعادہ فی مستدرک نہج البلاغہ، باب الخطب والکلم، تالیف محمد باقر محمودی، تصحیح عزیز آل طالب۔[55]
  • مستدرک نہج البلاغہ …، ہادی کاشف الغطاء۔[56]

عربی ادب پر کلام علیؑ کے اثرات

عرب خطیب اور مترسلین (نامہ نگار و مراسلہ نویس) پہلی صدی ہجری ہی سے کلام کی پختگی اور بات کی حسن و جمال سے آراستگی اور بےجا اصطلاحات سے پاکیزگی اور لفظ کی متانت و سنجیدگی کی خاطر بارہا و بارہا کلامِ امیرالمؤمنینؑ کا مطالعہ کرتے تھے اور اس کے فقروں کو بروئے کار لاتے تھے تا کہ ان کے قول یا ان کی خطابت یا کتابت میں بلاغت کی قوت حاصل ہو اور ان کا کلام سب کے نزدیک مقبول واقع ہو۔[57] ہر گاہ ایک محقق عرب ادیبوں کے کسی خطبے یا رسالے یا حتی کہ طلوع اسلام کے بعد کے عرب شعراء کے کلام کا جائزہ لیتا ہے، دیکھ لیتا ہے کہ کم ہی کوئی شاعر و ادیب ہوگا جس نے کوئی ایک معنی کلام علیؑ سے اخذ نہ کیا ہو یا آپ کا کوئی قول اپنے مکتوب یا قول و کلام یا شاعری میں تضمین نہ کیا ہو۔[58]

عبدالحمید

عبدالحمید بن یحیی عامری (متوفی 132ھ)، آخری اموی/مروانی حکمران مروان بن محمد کا کاتب ہے۔ کہا گیا ہے کہ فن کتابت کا آغاز عبدالحمید سے شروع ہوا ہے۔ عبدالحمید خود کہتا ہے:

میں نے “اصلع”[59] کے ستر خطبے ازبر کئے اور یہ خطبے میرے ذہن میں پے در پے (چشمے کی مانند) پھوٹے۔[60]

جاحظ

امیرالمؤمنینؑ:
“‌قِیمَةُ كُلُّ امرءٍ مَا یُحسِنُهُ
ترجمہ: ہر شخص کی قیمت وہ ہنر ہے جس میں وہ خوب مہارت رکھتا ہے۔
سید رضی: یہ ایسا انمول جملہ ہے کہ نہ کوئی حکیمانہ بات اس کے ہم وزن ہے اور نہ کوئی جملہ اس کا ہم پایہ ہوسکتا ہے۔

نہج البلاغہ، کلمات قصار، حکمت نمبر 81۔

ابوعثمان جاحظ (متوفٰی. 255ہجری)، جنہیں عربی ادب کا امام کہا گیا ہے اور مسعودی انہیں سلف کا فصحیح ترین قلمکار سمجھتے ہیں، امیرالمؤمنینؑ کا فقرہ قِيمَةُ كُلِّ امْرِئٍ مَا يُحْسِنُهُ[61] نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

اگر اس کتاب (بظاہر ان کی اپنی کتاب “البیان والتبیین” مقصود ہے) میں اسی ایک فقرے کے سوا کچھ بھی نہ ہوتا تو بھی ہم اس کتاب کو کافی و شافی، مکتفی اور بے نیاز کردینی والی کتاب پاتے۔ بلکہ ہم اسے کفایت کی حد سے بھی بڑھ کر غایت و مراد پر منتج ہونے والی پاتے ہیں اور سب سے احسن کلام وہ ہے جس کا اختصارتجھے کثرت و تفصیل سے بے نیاز کردے اور اس کے معنا اس کے ظاہری لفظ میں ہوں۔[62]

انھوں نے “‌البیان والتبیین” میں امیرالمؤمنینؑ کے کئی خطبے نقل کئے ہیں۔[63]

جاحظ نے سید رضی سے پہلے امیرالمؤمنینؑ کے 100 اقوال منتخب کئے ہیں جن پر رشید وطواط، ابن میثم بحرانی اور دیگر نے شرحیں لکھی ہیں۔ وہ ان اقوال کے بارے میں لکھتے ہیں:

ان میں سے ہر قول ایک ہزار عمدہ عرب اقوال و کلمات کے برابر ہے۔[64] جاحظ کی تالیفات میں ایک کتاب کا عنوان “‌مائۃ من امثال عليؑ”[65] بھی ہے جو بظاہر یہی کتاب ہے۔

ابن نباتہ

سیف الدولہ کے دور میں حلب میں خطابت کے منصب پر فائز اور دنیائے عرب کے مشہور خطیب ابن نباتہ کے نام سے معروف عبدالرحمن بن محمد بن اسمعیل معروف (متوفا سنہ 374 ہجری) کہتے ہیں:

تقاریر کا ایک خزانہ ازبر کرلیا کہ اس میں سے جتنا بھی اٹھاؤں اس میں کمی نہیں بلکہ اضافت آئے گی، اور جو کچھ زیادہ تر ازبر کیا وہ علی بن ابی طالب کے مواعظ کی ایک سو فصلیں ہیں۔[66]

ابواسحاق صابی

زکی مبارک اپنی کتاب “‌النّثر الفنّی” (فنی نثری) میں ـ جہاں ابواسحٰق صابی (متوفٰی 380ہجری) کے اسلوب کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں ـ ابواسحٰق صابی کا ایک فقرہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اگر ہم اس عبارت کا موازنہ ان عبارتوں سے کریں جو شریف رضی نے کلام علیؑ کو جمع کرتے ہوئے لکھی ہیں تو دیکھیں گے کہ صابی اور شریف رضی ایک ہی گھاٹ سے سیراب ہوئے ہیں۔[67]

ابن ابی الحدید

ابن ابی الحدید امیرالمؤمنینؑ کی فصاحت کے بارے میں کہتے ہیں:

… فہو عليہ السلام إمام الفصحاء، وسيد البلغاء، وفي كلامه قيل: دون كلام الخالق و فوق كلام المخلوقين و منه تعلم الناس الخطابة والكتابة۔
ترجمہ: آپ علیہ السلام فصحاء کے امام اور بلغاء کے سردار ہیں، اور آپؑ کے کلام کے بارے میں کہا گیا: کلام خالق کے بعد اور مخلوقات کے کلام سے بالاتر ہے۔ لوگوں نے خطابت و کتابت آپؑ سے سیکھی ہے۔[68]

فارسی ادب پر اثرات

پورے اطمینان کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ایرانی ادیبوں، خطیبوں اور مؤلفین و مصنفین نے قرآن کریم کے بعد کسی بھی کلام سے اتنا استفادہ نہیں کیا، جتنا علیؑ کے کلام سے کیا ہے۔ وہ اس کے علاوہ اس قدر عمدہ کلام اور بیش بہا زیور سخن نہیں پاسکے کہ جسے وہ اپنے کلام اور مکتوبات کا معیار اور پیمانہ قرار دے سکیں۔ کسی بھی تعصب کے بغیر اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے مکاتیب اور اقوال قرآن کریم کے بعد نثر مصنوع کہ عالی ترین نمونہ ہیں۔ فصحا اور بلغا ایک ہزار سال سے زیادہ ہو گیا کہ وہ نہج البلاغہ کا اقرار کرتے آئے ہیں۔[69] اسی طرح دری زبان کے فروغ کے بعد ہم کم ہی کوئی دیوان یا کتاب دیکھ سکتے ہیں جس کے شاعر و مؤلف نے اپنے دیوان و کتاب کو علیؑ کے کسی فقرے یا متعدد فقروں سے مزین نہ کیا ہو۔[70]

فارسی شاعری کے اکابرین میں سے ایک فردوسی ہیں [71] جنہوں نے شاہنامہ میں امیر الکلام حضرت علیؑ کے کلام سے استفادہ کیا ہے۔ناصر خسرو قبادیانی (متولد 394 متوفا481 ہجری) اسماعیلیہ مذہب کے بزرگ متکلم، شاعر اور مؤلف تھے اور خاندان رسالت سے خاص عقیدت رکھتے تھے۔ ان کے دیوان میں ایسے بہت سے مضامین اور نصائح دیکھے جاسکتے ہیں جو مولا امیر المؤمنین علیہ السلام کے کلام کا ترجمہ یا اس کلام سے ماخوذ ہیں۔[72] ڈاکٹر سید جعفر شہیدی کہتے ہیں: جہاں تک میں نے ناصر خسرو قبادیانی کے دیوان کا غائرانہ مطالعہ کیا ہے، انھوں نے اپنے پورے دیوان میں 60 سے زائد مقامات پر امیر المؤمنینؑ کا کلام بعینہ شاعری کے سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ سنائی غزنوی، عطار نیشابوری اور مولانا جلال الدین بلخی (مولانا روم) جیسے عرفانی شعراء کا حال بھی مختلف نہيں ہے۔[73] بہرام شاہ غزنوی کے منشی خواجہ نصر اللہ بن محمد بن عبدالحمید کی تحریر اور “کلیلۂ و دمنۂ بہرامشاہی” کے نام سے مشہور کلیلہ و دمنہ جوحقیقت میں عربی کلیلہ و دمنہ کا ترجمہ ہے۔ یہ کتاب سنہ 538 تا 540 ہجری میں لکھی گئی ہے۔ اس میں کئی مقام پر نہج البلاغہ و قرآن کے حوالے سے لکھا گیا ہے۔
[74]

سافٹ ویئرز

  • دانشنامۂ جامع نہج البلاغہ: تہران: کمپیوٹرائز ریسرچ سنٹر، حوزہ علمیہ اصفہان۔‏
خصوصیات: 1۔ یہ سافٹ وئر صوتی(آڈیو) اور تصویری (ویڈیو کی) صورت میں رہنمائی۔2۔ نہج البلاغہ کی سینکڑوں مجلد شرحیں اور دنیا بھر کی زندہ زبانوں کے تراجم کی عربی متن کے ساتھ تطبیق۔3۔ ہزاروں موضوعات کو درخت کی شکل میں رسائی۔4۔ متن کے اندر ہی ایک فعال (Active) لغت نامہ (Dictionary) موجود ہے جس میں فعال صورت میں مصادر و امثال کی نمائش ممکن بنائی گئی ہے۔5۔ قلمی نسخے کی نمائش بھی ہوتی ہے۔6۔… [75]
  • منہج النور: دانشنامۂ علوی، قم: تحقیقاتی کمپیوٹر مرکز برائے اسلامی علوم۔
خصوصیات 1 سافٹ وئر میں پانچ نسخوں کے مطابق نہج البلاغہ کی نمائش اور تقابلی نمائش کا امکان۔2۔ مشکل الفاظ، صریح اور مضمر ناموں، کی وضاحت۔3۔ عربی اور فارسی میں ضرب الامثال اور نہج البلاغہ کے مصادر کی نمائش، فہرست آیات، اشعار، دعاؤں، امثال، اعلام و مصادر کی فہرست۔4۔ نہج البلاغہ کے بارے میں 281 جلدوں پر مشتمل 110 کتب کے کتب خانے،… نیز پروگرام سے متعلق متنوع بازیابیوں (Reoveries) کے قابل تفصیلی کتب خانے پر مشتمل ہے۔ [76]

متعلقہ مآخذ

مزید مطالعہ

  • نہج البلاغہ، ترجمہ مفتی جعفر حسین۔[1]

حوالہ جات

مآخذ

  • نہج البلاغہ، ترجمہ سیدجعفر شہیدی، تہران: علمی و فرہنگی، 1377ہجری شمسی۔
  • نہج البلاغۃ، ترجمہ عبدالمحمد آیتی، بی‌جا: دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1377ہجری شمسی۔ (کتب خانہ اہل بیتؑ برقی کتب خانے کی دوسری ایڈیشن میں موجودہ نسخہ)۔
  • ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج1، تحقیق: محمد أبو الفضل إبراہیم، دار إحیاء الکتب العربیۃ – عیسی البابی الحلبی وشرکاہ، 1378ہجری/1959عیسوی۔
  • استادی، رضا، کتابنامہ نہج البلاغہ، تہران: بنیاد نہج البلاغہ، 1359ہجری شمسی۔
  • الحسینی الخطیب، السید عبد الزہراء، مصادر نہج البلاغۃ وأسانیدہ، ج1، بیروت: دار الزہراء، 1409ہجری۔ 1988عیسوی۔
  • ابن خلکان، وفیات الأعیان وأنباء أبناء الزمان، ج3، تحقیق: إحسان عباس، لبنان: دار الثقافۃ، بی‌تا.
  • الذہبی، سیر أعلام النبلاء، ج17، تحقیق وتخریج وتعلیق: شعیب الأرنؤوط، محمد نعیم العرقسوسی، بیروت: مؤسسۃ الرسالۃ، 1406ہجری/1986عیسوی۔
  • شہیدی، سیدجعفر، بہرہ ادبیات از سخنان امام علی علیہ السلام|علی علیہ‌السلام، در یادنامہ ‏کنگرہ ‏ہزارہ نہج‏ البلاغہ، بی‌جا: بنیاد نہج البلاغہ، 1360ہجری شمسی۔
  • شہیدی، سیدجعفر، بہرہ ‏گیری ادبیات فارسی از نہج البلاغہ، در یادنامہ ‏دومین‏ کنگرہ ‏نہج ‏البلاغہ، تہران: وزارت ارشاد اسلامی و بنیاد نہج البلاغہ، 1363ہجری شمسی۔
  • الجاحظ، البیان والتبیین، مصر: المکتبۃ التجاریۃ الکبری لصاحبہا مصطفی محمد، 1345ہجری۔/1926ہجری۔ (کتب خانہ اہل بیتؑ برقی کتب خانے کی دوسری ایڈیشن میں موجودہ نسخہ)۔
  • عبدہ، محمد، شرح نہج البلاغۃ، تصحیح: محمدمحیی الدین عبدالحمید، قاہرہ: مطبعۃ الاستقامہ‍. (دانشنامۂ علوی کے سافٹ ویئر دانشنامۂ علوی “منہج النور”، میں موجودہ نسخہ)۔
  • محمدی، سیدکاظم، دشتی، محمد، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، قم: نشر امام علیؑ، 1369ہجری شمسی۔
تبصرے
Loading...