نماز جمعہ

نماز جمعہ وہ دو رکعتی نماز ہے جسے جمعہ کے دن نماز ظہر کے ابتدائی وقت میں جماعت کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔ اسے امام جمعہ سمیت کم سے کم پانچ افراد کی موجودگی میں پڑھا جاتا ہے۔ امام جمعہ کیلئے ضروریی ہے کہ وہ نماز سے پہلے نماز گزاروں کے لئے دو خطبے کہے جن میں سے ایک خطبہ مؤمنین کو تقوا کی دعوت پر مشتمل ہو۔

اس نماز کا فقہی حکم سورہ جمعہ میں بیان ہوا ہے۔ احادیث میں نماز جمعہ کو مساکین کا حج اور گناہوں کی مغفرت کا موجب نیز بعض احادیث نماز جمعہ کے ترک کرنے کو نفاق، اختلاف اور غربت و افلاس کا سبب قرار دیتی ہیں۔ نماز جمعہ امام معصوم کی موجودگی میں واجب اور امامؑ کی غیبت کے زمانے میں موجود اکثر فقہا اسے واجب تخییری سمجھتے ہیں۔

پاک و ہند میں پہلی مرتبہ شیعہ نماز جمعہ سید دلدار علی کی اقتدا میں 27رجب 1200ہجری قمری کو لکھنو میں پڑھا گیا۔

ایران میں نماز جمعہ شاہ اسمعیل صفوی کے دور میں رائج ہوا اور بعد ازاں بہت سے شہروں میں بپا کیا جانے لگا۔ ایران کو اسلامی جمہوریہ قرار دئے جانے کے بعد ملک کے تمام شہروں میں برپا کی جاتی ہے۔

نماز جمعہ اسلام کے اوائل سے لے کر آج تک مسلمانوں کے اہم ترین اجتماعی شعائر میں سے شمار ہوتا ہے نیز مسلمانوں کے اتحاد اور یکجہتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ خطبات کے سیاسی اور معاشرتی پہلؤوں کی بنا پر نماز جمعہ “عبادی اور سیاسی عبادت” کے عنوان سے مشہور ہے۔

اہمیت و منزلت

سورہ جمعہ میں مؤمنین کو صراحت کے ساتھ نماز جمعہ میں شرکت کی دعوت دی گی ہے: جب تمہیں مؤذن کی صدا سنائی دے اور نماز جمعہ کے لئے بلایا جائے تو کاروبار اور تجارت کو ترک کردو[1]

حضرت علی علیہ السلام بعض قیدیوں کو نماز جمعہ میں شرکت کے لئے رہا کیا کرتے تھے۔[2] نیز اسلامی مذاہب کے فقہا سورہ جمعہ کی آیات کی وجہ سے ان اعمال سے اجتناب لازمی سمجھتے ہیں جو نماز جمعہ کی برپائی میں کوتاہی یا اس کو کھو دینے کا سبب بنتے ہیں۔

اسلامی مذاہب کے فقہی مآخذوں میں ابتدا ہی سے نماز کے باب (کتاب الصلوۃ) کی ایک فصل نماز جمعہ سے مخصوص کی جاتی رہی ہے۔[3]
اسلامی مذاہب کے جامع فقہی مآخذوں میں ابتدا ہی سے نماز کے باب میں ایک فصل نماز جمعہ سے مخصوص کی جاتی رہی ہے۔[4]

روایات میں بھی نماز جمعہ کی اہمیت اور منزلت درج ذیل عناوین کے تحت بیان ہوئی ہے:

  • گناہوں کی بخشش

رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں:

چار افراد عمل (اور زندگی) کا از سر نو آغاز کرتے ہیں:ّ
1۔ بیمار جب وہ تندرست ہوجائے؛ مشرک جب وہ جو ایمان لاتا ہے؛ 3۔ حاجی جب وہ مناسک حج سے فراغت پاتا ہے؛ 4۔ وہ شخص جو نماز جمعہ کے بعد پلٹ آتا ہے۔[5]
  • ناداروں کا حج
    ایک با ایمان شخص نے رسول اللہ(ص) سے عرض کیا: میں نے کئی مرتبہ حج بجا لانے کا ارادہ کیا لیکن مجھے توفیق نہ ملی تو آپ(ص) نے فرمایا: تمہیں مسلسل نماز جمعہ میں شرکت کرتے رہنا چاہئے کیونکہ نماز جمعہ ناداروں کا حج ہے۔[6]
  • قیامت کی سختیوں کا کم ہونا
رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں: جو شخص نماز جمعہ کی طرف عزیمت کرے، خداوند متعال قیامت کے اندیشوں کو اس کے لئے گھٹا دیتا ہے اور بہشت کی طرف اس کی راہنمائی کرتا ہے۔[7]خطا در حوالہ: Closing missing for tag
رسول اللہ(ص) نے فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے، نماز جمعہ کی طرف قدم اٹھائے اور امام کے خطبوں کو سن لے تو اس کے ہر قدم کے بدلے میں اس کے لئے ایسے ایک سال کی عبادت لکھی جاتی ہے کہ جیسے وہ صائم النہار اور قائم اللیل رہا ہو۔[8]
  • آتش جہنم حرام ہونا’
امام صادقؑ نے فرمایا: ہرگاہ کوئی نماز جمعہ کے لئے قدم اٹھائے، خداوند متعال اس کے جسم کو دوزخ کی آگ پر حرام قرار دیتا ہے۔[9]
  • جنت کی طرف سب سے آگے
    امام صادقؑ نے فرمایا: خداوند متعال نے روز جمعہ کو دوسرے ایام پر برتری عطا کی ہے اور بےشک جمعہ کے دن جنت کو زیوروں سے آراستہ کیا جاتا ہے اور وہ زینت پاتی ہے ان لوگوں کے لئے جو نماز جمعہ کے لئے چلے جاتے ہیں؛ اور بےشک تم جنت کی طرف آگے نکل جاتے ہو جس قدر کہ نماز جمعہ کی طرف سبقت کرتے ہو، اور بےشک آسمان کے دروازے بندوں کے اعمال کے لئے کھل جاتے ہیں۔[10]
  • معصوم کی معیت میں نماز جمعہ کا ترک کرنا

امام باقرؑ فرماتے ہیں: نماز جمعہ واجب ہے اور معصوم کی امامت میں اس کے لئے اکٹھا ہونا واجب ہے۔ جو شخص کسی عذر کے بغیر تین دن تک نماز جمعہ ترک کرے (گویا) اس نے واجب ترک کیا ہے اور صرف منافق شخص ہی کسی عذر کے بغیر اسے چھوڑتا ہے[11] نیز امیرالمؤمنین علیؑ نے [حدیث مرفوع میں] فرمایا ہے: جو شخص بغیر کسی عذر کے نماز جمعہ کو تین ہفتوں تک ترک کرے وہ منافقین کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔[12]

  • پریشانی اور تنگدستی کا باعث
رسول اکرم(ص) نے فرمایا: خداوند متعال نے نماز جمعہ کو تم پر واجب کیا۔ جو بھی میری حیات میں اور میری وفات کے بعد، اس کو، بےوقت سمجھ کر یا انکار کی رو سے، ترک کرے خداوند متعال اس کو پریشانی میں مبتلا کرتا اور اس کے کام میں برکت نہیں ڈالتا۔ جان لو! اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ جان لو! جان لو! خداوند متعال اس کی زکوۃ کو قبول نہیں کرتا۔ جان لو! اس کا حج مقبول نہیں ہے، جان لو! اس کے نیک اعمال قبول نہیں ہونگے حتی کہ توبہ کرے اور بعدازاں نماز جمعہ کو ترک نہ کرے، بےوقعت نہ سمجھے اور اس کا انکار نہ کرے۔[13]

نماز جمعہ اور تالیفات

حقیقت یہ ہے کہ اس نماز کے بارے میں مستقل فقہی کتب و رسائل کی تالیف کا سلسلہ ابتدائی صدیوں سے فقہ اسلامی سے شروع ہوا جو اسلامی تعلیمات میں اس عبادت کی اہم حیثیت و منزلت کا ثبوت ہے۔ ان تالیفات میں سے بعض کے عناوین حسب ذیل ہیں:

  • کتاب الجمعۃ؛ بقلم: محمد بن ادریس شافعی (متوفی سنہ 204ھ ق)؛
  • کتاب الجمعۃ و العیدین، تألیف احمدبن موسی اشعری (متوفی سنہ [تقربیا] 300ھ ق)؛
  • کتاب الجمعۃ، بقلم: عبدالرحمان نَسائی (متوفی سنہ 303ھ ق)؛
  • کتاب صلاۃ الجمعۃ، بقلم: محمدبن احمد جُعفی المعروف بہ صابونی (متوفی بعد از 339ھ ق)؛
  • کتاب صلاۃ یوم الجمعۃ، بقلم: محمدبن مسعود عیاشی (متوفی بعد از 340ھ ق)؛
  • کتاب الجمعۃ والجماعۃ، بقلم: ابوالقاسم جعفربن محمدبن قولویہ (متوفی سنہ 369ھ ق)؛
  • کتاب الجمعۃ والعیدین، بقلم: احمد بن ابی زاہر اشعری قمی (متوفی سنہ [تقریبا] 262ھ ق)؛
  • کتاب الجمعۃ والجماعۃ، بقلم: شیخ صدوق (متوفی سنہ 381ھ ق)؛
  • کتاب عمل الجمعۃ، بقلم: احمد بن عبدالواحد بن احمد بزاز (متوفی سنہ 423ھ ق)۔[14][15]

صفوی دور میں ایران میں، نماز جمعہ کے قیام کے بعد، اس سلسلے میں شیعہ فقہاء کی رسالہ نویسی کا سلسلہ زیادہ سنجیدگی سے انجام پانے لگا۔[16] بہت سے نامور فقہاء نے نماز جمعہ کے بارے میں عربی یا فارسی میں رسالے لکھے جن میں سے بعض دوسرے رسالوں کی تردید یا دفاع میں لکھے گئے۔[17][18]

فقہی نقطۂ نظر کے لحاظ سے ان رسالوں کی چار قسمیں ہیں: وہ رسالے جو ثابت کرنے چاہتے ہیں کہ نماز جمعہ واجب عینی ہے، وہ جو عصر غیبت میں نماز جمعہ کے جائز ہونے یا اس کے واجبِ تخییری ہونے کو ثابت کرنا چاہتے ہیں، وہ رسالے جو نماز جمعہ کی حرمت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں اور وہ رسالے جن کے مؤلفین کا نقطۂ نظر صحیح طور پر واضح نہیں ہے۔[19]

نماز جمعہ کا فلسفہ

اسلام میں چار بڑے اور اہم اجتماعات پائے جاتے ہیں: وہ اجتماعات جو یومیہ نماز جماعت کے لئے منعقد ہوتے ہیں؛ وہ ہفتہ وار اجتماعات جو جمعہ کی نماز کے لئے منعقد ہوتے ہیں اور فطر اور ضحی کے لئے منعقد ہوتے ہیں اور حج کا اجتماع جو ہر سال خانۂ خدا کے طواف و زیارت کے لئے منعقد ہوتے ہیں۔

نماز جمعہ اہم سیاسی، معاشرتی اور معاشی مسائل کے بیان کی خاطر متعدد اثرات مرتب کرتی ہیں جن میں کچھ یہ ہیں:

  • اسلامی تعلیمات اور اہم سماجی اور سیاسی واقعات کے بارے میں معاشرتی آگہی کا حصول؛
  • مسلمانوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ یکجہتی اور یگانگت کا معرض وجود میں آنا؛
  • دینی روح اور معنوی نشاط کی تجدید؛
  • مسائل و مشکلات کے لئے تعاون کے اسباب کی فراہمی۔

نماز جمعہ کا وجوب

شیعہ اور سنی فقہاء نے نماز جمعہ کے وجوب کے لئے سورہ جمعہ کی آیت 9 اور متعدد احادیث[20][21][22][23] اور اجماع سے استناد کیا ہے۔[24][25][26]

بعض فقہاء نے سورہ جمعہ کی آیت 9 سے استناد کے حوالے سے، نماز جمعہ بپا کرنے کے وجوب کے سلسلے میں بحث اور نزاع کا راستہ اپنایا ہے اور کہا ہے کہ مذکورہ آیت نماز جمعہ کے وجوب کے لئے نازل نہیں ہوئی ہے بلکہ نماز جمعہ کے صحیح قیام کو لازم قرار دیتی ہے اور ان لوگوں پر ملامت کرتی ہے جو صحیح نماز جمعہ کے بپا ہونے کے باوجود، اس میں حاضر ہونے اور شرکت کرنے سے اجتناب کرتے ہیں اور تجارت یا دوسرے امور میں مصروف ہوجاتے ہیں۔[27][28]

نماز جمعہ تمام افراد پر واجب نہیں ہے اور بعض لوگوں کے دوش سے اٹھائی گئی ہے:

  • خواتین؛
  • مسافرین؛
  • بیمار اور شرکت سے عاجز جیسے اندھے اور معمر لوگ؛
  • غلام؛
  • نماز جمعہ میں شرکت جانی اور مالی نقصان کا موجب ہو؛
  • مقام جمعہ سے دو فرسخ[29] کی مسافت پر مقیم لوگ۔[30][31][32]

غیبت کے دوران حکم نماز جمعہ

امام معصوم علیہ السلام کی غیبت کے دوران نماز جمعہ کے جواز یا عدم جواز کا مسئلہ شیعہ فقہاء کے درمیان بحث انگیز بن چکا ہے اور اس کے بارے میں کئی آراء سامنے آئی ہیں جیسے: 1۔ حرمت، 2۔ وجوب تعیینی، 3۔ وجوب تخییری۔[33]

حرمت

قالَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِي لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ(ترجمہ: اے ایمان لانے والو! جب پکارا جائے جمعہ کے دن والی نماز کے لئے تو دوڑ پڑو ذکر خدا کی طرف اور خرید وفروخت چھوڑ دو، وہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو)

بعض متقدم شیعہ فقہاء جیسے سَلاّر دیلمی[34] اور ابن ادریس حِلّی[35] نیز ان کی پیروی کرتے ہوئے بہت سے متأخر فقہاء جیسے فاضل ہندی نے نماز جمعہ کے جواز کو امام معصومؑ کے حضور اور موجودگی یا ایسے فرد کی موجودگی سے مشروط کیا ہے جو امامؑ کی طرف سے امامت جمعہ کے لئے مقرر کیا گیا ہو۔[36]

نماز جمعہ کی حرمت پر مبنی فتوا کے پیروکار کہتے ہیں کہ نماز جمعہ کی صحت کی شرط امام معصومؑ کی اجازت یا پھر امامؑ کا نمائندہ ہونا ہے جبکہ غیبت کے زمانے میں ایسی کوئی اجازت موجود نہیں ہے چنانچہ اس زمانے میں نماز جمعہ جائز نہیں ہے۔[37]

نیز بعض علماء کا کہنا ہے کہ جن امور میں ولی فقیہ کو وسیع اختیارات (بَسطِ ید) کی ضرورت ہے جیسے نماز جمعہ کا قیام اور حکم جہاد، ان میں ولی فقیہ کو معصوم کی نیابت حاصل نہیں ہے۔[38] نماز جمعہ کی حرمت کے قائل افراد جن امور سے استناد کرتے ہیں:

ان میں وہ حدیثیں شامل ہیں جن میں “امام” اور “امامٌ عَدلٌ تَقیٌ” جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ نماز جمعہ کے سلسلے میں امام کی مخالفت ہلاکت اور تباہی کا موجب ہے یا پرہیزگار اور عادل امام کی موجودگی کے بغیر نماز جمعہ بپا کرنا جائز نہیں ہے۔[39]

امام سجادؑ نے صحیفہ سجادیہ میں[40] بھی امامتِ جمعہ کو اللہ کے برگزیدہ افراد کے لئے مخصوص قرار دیا ہے۔ بعض متاخر فقہاء نے ان احادیث میں بروئے کار آنے والی عبارات کا مصداق امام معصوم قرار نہیں دیا ہے اور ان سے ایسا عام مفہوم مراد لیا ہے جس میں امام جماعت بھی شامل ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں ان احادیث میں نماز کے باجماعت انعقاد کی ضرورت پر زور دینا مقصود ہے۔[41]

وجوب تعیینی

دوسری طرف سے دسترسی میں موجود زیادہ تر متقدم فقہی مآخذوں میں بعض احادیث نماز جمعہ کے تاکید وجوب پر مذکور ہوئی ہیں اور امام معصومؑ یا ان کے نائب کی امامت صراحت کے ساتھ شرط قرار نہیں پائی ہے۔[42] بایں حال، بعد کی صدیوں کے تقریبا تمام شیعہ فقہاء نے حاکمِ عادل[43] یا امام عادل کی موجودگی یا اجازت[44] کو نماز جمعہ کی برپائی کی شرطوں میں گردانا ہے۔ امام جمعہ کے لئے عدالت کی شرط فقہائے شیعہ نے لازمی قرار دی ہے اور اہل سنت کے فقہاء اس کے قائل نہیں ہیں۔[45] گوکہ نماز جمعہ کے واجب تعیینی[46] ہونے کا نظریہ غیبت کبری کے آغاز ہی سے کم و بیش فقہاء کے ہاں زیر بحث رہا ہے۔[47]
اور اس کے واجب تعیینی ہونے پر دسویں صدی ہجری میں شہید ثانی نے زیادہ سنجیدگی سے بحث کی۔[48] بعض فقہاء جیسے شہید ثانی کے نواسے اور مدارک الاحکام کے مصنف[49] ـ نے ان کی پیروی کی[50] اور یہ نظریہ صفوی دور میں ـ بطور خاص اس زمانے کے سماجی اور سیاسی حالات کے پیش نظر ـ[51] وسیع سطح پر رائج ہوا۔

بعض فقہاء کی رائے کے مطابق ہرگاہ ـ امام معصومؑ کے حضور کے زمانے میں نماز جمعہ کے لئے حالات فراہم سازگار ہوجائیں اس کا قیام واجب ہے اور اس امر کے لئے امام معصومؑ کی طرف سے نصب عام یا خاص کی ضرورت نہیں ہے۔ نیز کہا گیا ہے کہ نماز جمعہ کا قیام فتوا دینے اور بحیثیت قاضی فیصلے کرنا، عصر غیبت میں فقہاء کے اختیارات اور فرائص میں شامل ہے۔ عصر غیبت میں نماز جمعہ کے وجوب کے قائل فقہاء زیادہ تر اخباری رجحانات رکھتے ہیں، گوکہ شہید ثانی اور بعض دیگر نامور اصولی علما بھی اس نظریئے کے تابع تھے۔[52]

وجوب تخییری

درمیانی اور متاخرہ شیعہ فقہاء میں سے متعدد فقہاء نماز جمعہ کے وجوب تخییری ہونے کے قائل ہیں جیسے مُحقق حلّی،[53] علامہ حِلّی،[54] ابن فہد حلّی،[55] شہید اول،[56] اور محقق کرکی[57]؛ نماز جمعہ کے وجوب تخییر سے مراد یہ ہے کہ مکلّف بروز جمعہ، بوقت ظہر، یا تو نماز جمعہ پڑھے یا نماز ظہر۔[58] نیز دوسرے دلائل جیسے نماز جمعہ بپا نہ کرنے پر مبنی اصحاب ائمہ نیز متقدم فقہاء کی روش نماز جمعہ کے واجب تعیینی نہ ہونے کی دلیل ہے۔[59]

نماز جمعہ کے وجوب تخییری کا نظریہ متاخر فقہاء کے درمیان یعنی تیرہویں صدی ہجری سے مقبول ہوا ہے۔[60] اور مجموعی طور پر اصولی فقہاء کے درمیان نماز جمعہ کے وجوب تخییری کی طرف رجحان زیادہ رائج ہے گو کہ ان میں سے بعض اس کی حرمت کے قائل ہوئے ہیں۔[61]

شرائط

نماز جمعہ میں تمام با جماعت نمازوں کے لازمی مقدمات اور شروط کے علاوہ دوسری شرطیں ہیں جنکی رعایت اس کے وجوب اور صحت کے لئے ضروری ہے:

شرکا کی تعداد
مختلف اسلامی مذاہب کے فقہاء نماز جمعہ کے انعقاد کم سے کم ضروری افراد کی تعداد کے بارے میں اختلاف رائے موجود ہے:
  • اکثر شیعہ فقہاء[62] کی رائے ہے کہ نمازگزاروں کی تعداد کم از کم پانچ[63] جبکہ بعض دوسروں کے ہاں یہ تعداد سات ہونی چاہئے۔
  • احناف کے ہاں یہ تعداد امام جمعہ کے علاوہ تین ہونی چاہئے۔
  • شافعیوں اور حنابلہ کے ہاں یہ تعداد چالیس
  • مالکیوں کی رائے کے مطابق نماز جمعہ کے لئے کم از کم شہر کے اہلیان میں سے 12 افراد کی موجودگی لازمی ہے۔[64]
فاصلے کی رعایت
نماز جمعہ کی صحت کی ایک شرط ـ جس کو شیعہ اور زیادہ تر سنی مذاہب نے ذکر کیا ہے ـ نماز جمعہ کے قیام کے مقامات کے درمیان مناسب فاصلے کی رعایت کرنا یا ایک شہر میں ایک سے زیادہ مقامات پر نماز جمعہ کا عدم قیام ہے اور اگر اس شرط کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو جو نماز پہلے منعقد ہوگی وہ صحیح ہوگی اور متاخرہ نماز باطل ہوگی۔[65]
مقام انعقاد
نماز جمعہ عام طور پر ہر شہر کی مسجد جامع منعقد کی جاتی تھی جسے کبھی مسجد اعظم، مسجد جماعت، مسجد جمعہ اور مسجد آدینہ کہا جاتا ہے۔[66] ان نمازوں کے جامع کہلانے کا سبب یہ تھا کہ ان میں نماز جمعہ جیسے اجتماعات منعقد کئے جاتے تھے۔[67]

کبھی کبھار شہروں کی حدود اور آبادی میں اضافے اور مختلف فرقوں اور مذاہب کی موجودگی اور حکمرانوں کے سیاسی اور سلامتی کے تقاضوں کی بنا پر ایک شہر میں متعدد مقامات پر نماز جمعہ بپا کی جاتی تھی۔[68]

ابن بطوطہ کی روایت کے مطابق، ساتویں صدی ہجری میں، بغداد میں 11 مساجد میں نماز جمعہ بپا کی جاتی تھی؛ ممالیک کی حکومت کے دور میں اس شہر کی آبادی بہت بڑھ گئی تھی چنانچہ نماز جمعہ مقامی مساجد اور مدرسوں میں بھی بپا کی جاتی تھی۔[69]

امام جمعہ کا تقرر
تفصیلی مضمون: امام جمعہ

شیعہ نیز زیادہ تر مذاہب اہل سنت کے فقہاء، [دوسری جسمانی عبادات کی مانند]، نماز جمعہ کی صحت کو حاکم کی موجودگی یا اجازت سے مشروط نہیں کرتے اور وہ عثمان کے محاصرے کے دوران حضرت علی علیہ السلام کی امامت کو بطور ثبوت پیش کرتے ہیں۔[70] اس کے باوجود پوری تاریخ اسلام میں امامت جمعہ سرکاری منصب کے طور پر پہچانی جاتی رہی ہے۔[71]
اہل سنت میں احناف کا عقیدہ ہے کہ نماز جمعہ کی امامت کے لئے، سلطان یا اس کے نائب یا نماز جمعہ بپا کرنے کے لئے سلطان کے اجازہ یافتہ شخص کا ہونا، لازمی ہے، خواہ وہ سلطان ظالم ہی کیوں نہ ہو۔[72]

نماز جمعہ کی کیفیت

نماز جمعہ سے پہلے دو خطبے پڑھے جاتے ہیں بعدازاں نماز جمعہ کی نیت سے دو رکعت نماز با جماعت ادا کی جاتی ہے۔ اس نماز کی پہلی رکعت میں رکوع سے پہلے ایک قنوت اور دوسری رکعت میں رکوع کے بعد قنوت پڑھنا مستحب ہے۔

نماز جمعہ کا آغاز دو خطبوں سے ہوتا ہے جو در حقیقت نماز ظہر کی پہلی دو رکعتوں کے متبادل ہیں۔[73]

خطیب جمعہ کو امام جماعت کی تمام شروط پر پورا اترنے کے علاوہ[74] دوسری کئی خصوصیات کا حامل ہونا چاہئے مثلا اونچی آواز کا مالک ہو، شجاع ہو، حقائق کے بیان میں کھرا، صاف گو اور بے جھجھک ہو اور اسلام و مسلمین کی مصلحتوں سے آگاہ ہو۔ نیز بہتر ہے کہ امام جمعہ عادل ترین اور شریف ترین افراد میں سے منتخب کیا جائے۔[75]

امام رضاؑ ان خطبوں کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:

خطبہ اس لئے روز جمعہ کے لئے وضع ہوا ہے کہ خداوند متعال مسلمانوں کے حاکم کو موقع فراہم کرتا ہے کہ لوگوں کو موعظہ کرے اور انہیں خدا کی اطاعت کی رغبت دلائے، اللہ کی نافرمانی سے ڈرائے، انہیں ان کے دین اور دنیا کی مصلحتوں سے آگاہ کردے، دنیا بھر سے اس کو ملنے والی اہم خبروں اور واقعات ـ جو عوام کے مقدرات کے لئے اہمیت رکھتے ہیں ـ کو ان تک پہنچا دے۔ دو خطبے قرار دیئے گئے ہیں تا کہ ایک خطبے میں اللہ کی حمد و تقدیس کا اہتمام ہو اور دوسرے میں ضروریات سے آگاہ کیا جائے، بعض مسائل کے سلسلے میں ہوشیار اور خبردار کیا جائے، دعاؤں کا اہتمام کیا جائے اور ان اوامر اور اسلامی معاشرے کی صلاح یا فساد سے متعلق احکام ان تک پہنچا دے۔[76]
    • وقت اور مضامین

اکثر مراجع تقلید کی رائے کے مطابق خطبات جمعہ ظہر شرعی سے قبل دیئے جائیں۔[77]

فقہائے شیعہ کا مشہور فتوی یہ ہے کہ خطبہ کم از کم حمد خدا، رسول اللہ(ص) پر صلوات، وعظ و نصیحت، تقوی کی تلقین و ترغیب اور قرآن کی ایک چھوٹی سورت پر مشتمل ہونا چاہئے۔[78]

نمازیوں کو ہر وہ عمل ترک کردینا چاہئے جو انہیں خطبوں کی سماعت سے باز رکھتا ہو جیسے بولنا یا نماز پڑھنا وغیرہ۔[79]

امیرالمؤمنین علیؑ فرماتے ہیں:

نماز جمعہ میں شرکت کرنے والوں کی تین قسمیں ہیں: وہ لوگ جو امام سے پہلے نماز میں حاضر ہوتے ہیں، اور خاموش رہ کر خطبے سنتے ہیں، ان لوگوں کی نماز جمعہ میں شرکت ان کے 10 دنوں کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ بعض وہ لوگ ہیں جو نماز جمعہ میں شرکت کرتے ہیں لیکن بات چیت اور ہلنے جلنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کو نماز جمعہ سے ملنے والا صلہ “دوستوں کے ساتھ گفتگو اور ان کے ساتھ مل بیٹھنا” ہے۔ تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو امام خطبہ دینا شروع کرتا ہے تو وہ نماز میں مصروف ہوجاتے ہیں، وہ بھی سنت کے خلاف عمل کرتے ہیں؛ یہ وہ لوگ ہیں جو اگر خدا سے کچھ مانگیں تو اللہ چاہے تو انہیں عطا کرتا ہے، چاہے تو انہیں محروم کردیتا ہے۔[80]

دو خطبے دیئے جانے کے بعد دو رکعت نماز جمعہ پڑھی جاتی ہے۔ پہلی رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ جمعہ اور دوسری رکعت میں سورہ منافقون یا پہلی رکعت میں سورہ اعلی اور دوسری رکعت میں سورہ غاشیہ پڑھنا مستحب ہے۔ اونچی آواز [یعنی جَہْر] سے سورتوں کی تلاوت بھی مستحب ہے۔[81]

بعض شیعہ فقہاء کے مطابق پہلی رکعت میں رکوع سے پہلے اور دوسری رکعت میں رکوع کے بعد قنوت پڑھنا مستحب ہے۔[82]

[پہلی رکعت میں غائب ہونے کی صورت میں] نماز جمعہ کی دوسری رکعت میں شامل ہونا کافی ہے، یعنی یہ ہوسکتا ہے کہ نماز جمعہ کی ایک رکعت با جماعت اور دوسری رکعت فرادٰی کی صورت میں، ادا کی جائے۔[83]

تاریخی پس منظر

نماز جمعہ بعثت کے 12 سال بعد اور ہجرت سے پہلے مکہ میں تشریع (اور وضع) ہوئی۔ اس سال رسول اکرمؐ کیلئے مکہ میں نماز جمعہ برپا کرنے کا امکان میسر نہ تھا اور آپ نے مُصعَب بن عُمَیر کو مکتوب لکھ کر ہدایت کی کہ نماز جمعہ مدینہ میں بپا کریں۔[84] ددوسری روایت کے مطابق[85] پہلی نماز جمعہ اَسعَد بن زُرارَہ نے مدینہ میں منعقد کروائی اور رسول اللہؐ مدینہ پہنچے تو نماز جمعہ آپؐ کی امامت میں برپا ہوئی۔[86]

مدینہ کے بعد جس علاقے میں سب سے پہلے نماز جمعہ بپا ہوئی وہ بحرین کا “قریۂ عبدالقیس” تھا۔[87]

عصر رسالت کے بعد بھی ـ تاریخی روایات کے مطابق ـ خلفائے راشدین نیز امام علی (سنہ 35 تا 40ھ ق) اور امام حسن مجتبی (سنہ 40ھ ق) علیہما السلام کے زمانے میں رائج تھی۔[88]

بعض شیعہ روایات ـ جیسے رسول اکرمؐ کا خطبہ شعبانیہ اور نہج البلاغہ میں امام علیؑ کے بعض خطباب، ان نمازوں کی یادگاریں ہیں۔

اموی (سنہ 41 تا 132ھ ق) اور عباسیان (سنہ 132 تا 656ھ ق) کے ادوار میں میں بھی خلفا اور ان کے والی اور عوامل نماز جمعہ کا انعقاد کرتے تھے جو خلیفہ وقت کے نام خطبہ پڑھ کر یا اس کے لئے دعا کرکے اس کا ساتھ دیا کرتے تھے۔[89]

خلفا دارالخلافہ کے ائمۂ جمعہ کا تعین کیا کرتے تھے[90] اور دیگر شہروں کے خطبائے جمعہ کا تقرر ان ہی شہروں کے والیوں اور امراء کے ذمے تھا۔[91]

نماز جمعہ میں ائمہ کی شرکت

شیعہ نقطۂ نظر سے حکامِ جور اور ان کی طرف سے مقرر شدہ ائمۂ جمعہ و جماعت کی کوئی شرعی حیثیت نہ تھی لہذا ان کی امامت میں نماز نہیں پڑھی جاسکتی۔ اس کے باوجود بعض روایات کے مطابق ائمۂ شیعہ علیہم السلام اور ان کے پیروکار تقیہ کی رو سے یا دوسری وجوہات کی بنا پر نماز جمعہ میں شرکت کرتے تھے،[92]

بعض اوقات حکومتوں کے مخالفین اپنی مخالفت کے اظہار کے لئے نماز جمعہ میں شرکت سے اجتناب کرتے تھے۔[93]
نماز جمعہ سے غیر حاضری لوگوں کی نگاہ میں معیوب سمجھی جاتی تھی۔[94]

شیعہ نماز جمعہ

شیعہ معاشروں میں نماز جمعہ کے بارے میں منقولہ قدیم ترین روایات میں سے ایک روایت کا تعلق سنہ 329ھ ق میں شیعیان بغداد کی نماز جمعہ سے ہے جو وہ مسجد براثا میں احمد بن فضل ہاشمی کی امامت میں بپا کرتے تھے،[95] اور حتی کہ سنہ 349ھ ق کے فتنے کے دوران بھی ـ جب بغداد میں نماز جمعہ کا انعقاد معطل ہوکر رہ گیا تھا ـ مسجد براثا میں نماز جمعہ کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہا،[96] لیکن سنہ 420ھ ق میں خلیفہ کی جانب سے اس مسجد کے لئے ایک سنی خطیب کا تقرر ہوا تو یہاں نماز کا قیام کچھ عرصے تک تعطل کا شکار ہوا۔[97]
نیز قاہرہ کی جامع ابن طولون میں سنہ 359ھ ق کو اور جامع ازہر میں سنہ 361ھ ق کو نماز جمعہ بپا ہوئی۔[98] بعض تاریخی شہادتوں[99] سے معلوم ہوتا ہے کہ ان شہروں میں ابتدائی ہجری صدیوں میں نماز جمعہ بپا ہوا کرتی تھی۔[100]

صفوی دور
نماز جمعہ کو، شاہ اسمعیل اول صفوی (حکومت از سنہ905 تا 930ھ ق) کے زمانے سے، رفتہ رفتہ ایران کے شیعہ معاشرے میں، فروغ ملا۔ اس امر کا سبب یہ تھا کہ ایک طرف سے حکومت عثمانیہ کی طرف سے اہل تشیع پر یہ اعتراض تھا کہ وہ نماز جمعہ منعقد نہیں کرتے اور دوسری طرف سے محقق کَرَکی (متوفی سنہ 940ھ ق) سمیت شیعہ علماء کی کوشش تھی ایران میں نماز جمعہ کو رواج ملے۔[101] اس کے باوجود کہ، بہت سے فقہاء ـ منجملہ علمائے جبل عامل ـ محقق کرکی کی حمایت کررہے تھے اور صفوی حکومت بھی ان کی پشت پناہی کررہی تھی، لیکن چونکہ نماز جمعہ اہل تشیع کے درمیان وسیع سطح پر رائج نہ تھی، اور متعدد علماء بھی اس کی سختی سے مخالفت کررہے تھے،[102] لہذا ایران کے شیعہ معاشرے میں اس کو رسمی حیثیت تدریجا میسر ہوئی۔[103]
غیبتِ امام معصومؑ میں نماز جمعہ کے [شرعی] حکم اور وجوب یا حرمت کے سلسلے میں بحث و نزاع کا سلسلہ شاہ سلیمان اول صفوی (حکومت از سنہ 1077 یا 1078 تا 1105ھ ق) اس حد تک پہنچا کہ انھوں نے فقہاء کی ایک مجلس ترتیب دی اور اپنے وزیر اعظم کو اس مجلس میں روانہ کیا تا کہ وہ نماز جمعہ کے حکم کے سلسلے میں مشترکہ نتیجے تک پہنچیں۔[104]
شاہ طہماسب اول (حکومت از سنہ 930 تا 984ھ ق) نے محقق کرکی کے مشورے سے ہر شہر کے لئے امام جمعہ مقرر کیا۔[105]
شاہ عباس اول (حکومت از سنہ 996 تا 1038ھ ق) کے زمانے میں امامت جمعہ کا منصب باضابطہ طور پر بنیاد رکھی گئی۔[106]
عام طور پر ہر شہر کا شیخ الاسلام اس منصب کا عہدیدار ہوا کرتا تھا لیکن کبھی کبھار ـ شیخ الاسلام کی عدم موجودگی میں ـ وہ علماء بھی بادشاہ کی درخواست پر امامت جمعہ کی ذمہ داری قبول کیا کرتے تھے جو شیخ الاسلام نہ تھے؛ جس کی ایک مثال ملا محسن فیض کاشانی (متوفی سنہ 1091ھ ق) تھے۔[107]
عصر صفوی میں پہلی نماز جمعہ محقق کرکی نے اصفہان کی جامع مسجد عتیق میں بپا کی۔ اس دور کے دوسرے اہم ائمۂ جمعہ میں شیخ بہائی (متوفی سنہ 1030 یا 1031ھ ق)، میرداماد (متوفی سنہ 1041ھ ق)، محمد تقی مجلسی (متوفی سنہ 1070ھ ق)، محمد باقر مجلسی (متوفی سنہ 1110 یا 1111ھ ق)، محمد باقر سبزواری (متوفی سنہ 1090ھ ق) اور شیخ لطف اللہ اصفہانی (متوفی سنہ 1032ھ ق) شامل ہیں۔[108]
صفوی دور میں نماز جمعہ کے خطبات پر مشتمل کتب کی تالیف رائج ہوئی جن میں مشہور ترین میرزا عبداللہ افندی (متوفی سنہ 1130ھ ق) کی تالیف بساتین الخطباء ہے۔
اس سلسلے کی دوسری اہم کتب میں مولی محسن فیض کاشانی (متوفی سنہ 1091ھ ق) کی کتاب “الخُطَب”، میرداماد (متوفی سنہ 1041ھ ق) کی کتاب “الخطب للجمعۃ والاعیاد” شیخ یوسف البحرانی (متوفی سنہ 1186ھ ق) کی کتاب “الخُطَب”، خطیب عبدالرحیم بن محمد بن نباتہ (متوفی سنہ 374ھ ق) کی کتاب “الخُطَب” اور جمال الدین ابوبکر محمد (متوفی سنہ 768ھ ق) المعروف بہ “ابن نباتہ المصری ـ جو عبدالرحیم بن محمد کے پڑپوتوں میں سے تھے ـ کی کتاب “دیوان الخطب الجمعیہ” شامل ہیں۔[109]
محقق کرکی نے سنہ 921ھ ق میں ـ غیبتِ امام معصوم کے زمانے میں نماز جمعہ کے جواز کے اثبات کے سلسلے میں ایک کتاب تصنیف کی جو در حقیقت ولایت فقیہ کے موضوع کے سلسلے میں ایک رسالہ، سمجھی جاتی ہے۔ محقق کرکی کے بعض ہم عصر علماء اور ان کے بعض شاگردوں نے ان کے نظریئے پر تنقید کرتے ہوئے نماز جمعہ کی حرمت کے اثبات یا اس کے وجوب عینی کی تردید میں رسائل تحریر کئے۔[110]
پاک و ہند
سید دلدار علی کے عتبات عالیہ کے سفر سے واپسی کے بعد لکھنؤ کی عوام نے آپ سے اس شہر میں نماز جمعہ کے اقامہ کی درخواست کی جسے آپ نے انکے اصرار کے بعد قبول کیا ۔اس سے پہلے آپ امام زمانہ کی غیبت میں نماز جمعہ کے اثبات کو آئمہ طاہرین کی تعلیمات کی روشنی میں تحریری صورت میں لکھ چکے تھے۔ نواب شجاع الدولہ کے فرزند نواب آصف الدولہ،نواب مرزا حسن رضا خان،ملا محمد علی فیض آبادی اور علی اکبر صوفی اس کار خیر کا موجب بنے۔1200 ھ ق کے ماہ رجب کی تیرھویں (13) تاریخ کو وزیر اعظم حسن رضا خان کے محل میں پہلی نماز جماعت ظہرین پڑھی گئی اور رجب کی ستائیسویں(27) تاریخ کو لکھنؤ میں مذہب شیعہ کی پہلی نماز جمعہ آیت اللہ سید دلدار علی نقوی کی اقتدا میں پڑھی گئی ۔[111]
عہد قاجار
امامت جمعہ، عہد قاجار (سلسلۂ حکومت از سنہ 1210 تا 1344ھ ق) میں بھی عہد صفوی کی طرح ایک حکومتی اور سرکاری منصب سمجھی جاتی تھی۔[112] اس دور میں مذہبی مناصب کی حیثیت و اعتبار گھٹ جانے کے تناسب سے، امامت جمعہ اپنی دینی اور سیاسی حیثیت کھو گئی۔ عہد قاجار کے اواخر میں، بعض ائمۂ جمعہ، آئینی انقلاب کے حامی اور استبدادی حکومت کے مخالف علماء کے مد مقابل آکھڑے ہوئے۔[113] افشاریہ دور حکومت (1148 تا 1210ھ ق) اور عہد قاجار میں بڑے شہروں کے بہت سے ائمہ جمعہ کے اسماء کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ادوار میں امامت جمعہ کا منصب موروثی بن چکا تھا اور بعض خاندان نسل اندر نسل اس منصب کے عہدیدار ہوتے تھے؛ جن میں ـ تہران میں خاندان خاتون آبادی، اصفہان میں خاندان مجلسی اور یزد میں خاندان محمد مقیم یزدی ـ شامل ہیں۔ [114] دوسرے شہروں میں یہی سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔[115]
پہلوی دور
پہلوی دور (سنہ 1299 تا 1357ھ ش / 1339 تا 1399ھ ق / 1921 تا 1979ع‍) میں ائمۂ جمعہ ـ بطور خاص تہران جیسے شہروں میں ـ حکومت کے ساتھ باضابطہ تعلق کی بنا پر، مقبولیت عامہ سے محروم تھے اور نماز جمعہ کو کچھ زیادہ رونق حاصل نہیں تھی۔[116] یہ امر قابل ذکر ہے کہ بعض علماء نماز جمعہ کے وجوب تخییری یا تعیینی ہونے پر صادرہ فتاوی کے تحت، نماز جمعہ قائم کرتے تھے اور چونکہ ان کی نماز کا حکومت سے تعلق نہیں تھا، لہذا اس کو عوامی مقبولیت حاصل رہی۔[117] ان نمازوں میں ایک آیت اللہ محمد علی اراکی کی نماز تھی جو سنہ 1336 ہجری شمسی سے اسلامی انقلاب کی کامیابی تک قم کی مسجد امام حسن عسکریؑ میں بپا ہوتی رہی۔ آیت اللہ سید محمد تقی غضنفری نے بھی سنہ 1310ھ ق سے لے کر سنہ 1350ھ ق میں اپنی وفات تک، شہر خوانسار میں، نماز جمعہ بپا کرتے رہے ہیں۔
عہد اسلامی جمہوریہ
[سنہ 1357ھ ش / 1399ھ ق / 1979ع‍ میں] انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد، ایران میں ایک بار پھر نماز جمعہ کو فروغ ملا۔ اس دور میں پہلی نماز جمعہ بمورخہ 5 مُرداد 1358ھ ش / 27 جولائی سنہ 1979ع‍‌، بمقام جامعۂ تہران، بامامت آیت اللہ سید محمود طالقانی (متوفی ستمبر 1979ع‍)، بپا ہوئی، جنہیں امام خمینی نے بطور امام جمعہ متعین کیا تھا۔
تہران کے دوسرے امام جمعہ آیت اللہ منتظری (متوفی سنہ 2009ع‍) تھے جو بطور امام جمعہ تعین کے کچھ ہی عرصہ بعد مستعفی ہوکر قم چلے گئے اور امام خمینی کے حکم پر آیت اللہ سید علی حسینی خامنہ ای تہران کے امام جمعہ کے طور پر مقرر ہوئے۔[118]
تہران میں نماز جمعہ کے نئے دور کے آغاز کے بعد دوسرے شہروں کے عوام نے بھی، اپنے لئے ائمہ جمعہ کے تعین کا مطالبہ کیا۔ تہران میں نماز جمعہ کے قیام کی سطح وسیع ہونے کے بعد، امام خمینی نے اس وقت کے صدر جمہوریہ سید علی حسینی خامنہ ای کی تجویز پر نماز جمعہ سے متعلق مسائل کے نظم و نسق کی ذمہ داری قم میں واقع ایک مرکز کے سپرد کی اور سنہ 1371ھ ش میں، یہ ذمہ داری، آیت اللہ خامنہ ـ بطور رہبر انقلاب اسلامی ـ کے حکم پر ایک 9 رکنی کونسل، بعنوان “ائمہ جمعہ پالیسی کونسل” نے سنبھالی۔[119]
ماہ رمضان میں جمعہ کی نمازیں دوسرے مہینوں کی نسبت لوگوں کی زیادہ بڑی تعداد شرکت کرتی ہے اور رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کی ریلیاں منعقد ہوتی ہیں اور نمازگزار رسول اللہؐ کی توہین اور فلسطینی عوام پر صہیونی ریاست کے مظالم اور دوسرے مسائل پر احتجاج کے لئے مظاہرے کرتے ہیں۔
شہدائے محراب
تفصیلی مضمون: شہید محراب

دسمبر 1979 سے اکتوبر 1982ع‍ تک کے عرصے میں [مجاہدین خلق نامی دہشت گرد تنظیم کی] دہشت گردانہ کاروائیوں میں ایران کے کئی مشہور ائمۂ جمعہ نے جام شہادت نوش کیا جن میں آیت اللہ سید محمد علی قاضی طباطبائی (ولادت سنہ 1293 شہادت 1358ھ ش) اور آیت اللہ سید اسد اللہ مدنی (ولادت سنہ 1292 شہادت 1360ھ ش) [دونوں بمقام تبریز]، آیت اللہ سید عبدالحسین دستغیب (ولادت سنہ 1288 شہادت 1360ھ ش [بمقام شیراز])، آیت اللہ محمد صدوقی (ولادت 1287 شہادت 1361ھ ش [بمقام یزد]) اور آیت اللہ عطاء اللہ اشرفی اصفہانی (ولادت سنہ 1279 شہادت 1361ھ ش [بمقام کرمانشاہ]) شامل ہیں۔[120]

فوٹو گیلری

حوالہ جات

مآخذ

بیرونی ربط

تبصرے
Loading...