فضل بن حسن بن فضل طبرِسی

 

فضل بن حسن بن فضل طبرِسی

 

حسن طبرسی کی مشہور تصنیف،تفسیر مجمع البیان

فضل بن حسن بن فضل طبرِسی (468 یا 469ھ-548ھ) کی کنیت ابو علی اور لقب امین الاسلام ہے۔ آپ معروف شیعہ عالم دین، مفسّر، محدّث، فقیہ، متکلّم، ادیب، لغت دان اور ماہر ریاضیات ہیں۔ چھٹی صدی ہجری کے معروف ترین شیعہ علما میں سے مانے جاتے ہیں۔ تفسیر مجمع البیان انہی کی لکھی ہوئی تالیف ہے اور تفاسیر کے مآخذوں میں سے گنی جاتی ہے۔
طبرسی تفرش سے منسوب ہے اور اس کا تلفظ طَبرسی ہے جو تَفرشی کے وزن پر ہے کیونکہ اگر یہ طبرستان سے منسوب ہوتا تو اسے طبرسی نہیں بلکہ طبری ہونا چاہئے تھا نیز ان کے معاصر بیہقی نے اپنی کتاب تاریخ بیہقی میں انہیں تفرش کے رہائشی قرار دیا ہے۔

تعارف

طبرسی سنہ 468ھ یا 469ھ کو مشہد میں پیدا ہوئے۔ان کے بیٹے ابونصر حسن بن فضل بن حسن طَبرِسی، مکارم الأخلاق نامی کتاب کے مصنف ہیں اور ان کے پوتے ابوالفضل علی بن حسن بن فضل طبرسی نثر اللئالی اور مشکاة الانوار کے مصنف ہیں جو کتاب مکارم الاخلاق کی تکمیل کی غرض سے لکھی گئی۔

تلفظی اختلاف

اس لفظ کے تلفظ میں اختلاف منقول ہے۔بعض نے اسے طبرستان سے اسم منسوب کی بنا پر طَبَرسی پڑھا ہے۔ میرزا عبداللہ افندی نے ریاض العلماء اور محمدباقر خوانساری نے روضات الجنات میں اس پر زیادہ تاکید کی ہے۔
لیکن اکثر نے کہا ہے کہ اگر یہ طبرستان سے منسوب ہوتا تو طبرسی کی بجائے طبری یا طبرانی یا طبرستانی ہونا چاہئے تھا۔
صاحب مجمع البیان کے مصنف کا نام عربی میں طَبْرسی ہے جسے تَفرِشی سے تبدیل کیا گیا ہے۔تفرش نام کا ایک شہر ایران میں قم اور اراک کے قریب واقع ہے اور فضل بن حسن طبرسی اسی شہر سے منسوب ہیں۔[1] [2]

وفات

 

مشہد میں فضل بن حسن طبرسی کا مزار

مشہور قول کی بنا پر فضل بن حسن طبرسی نے اپنی عمر کے آخری 25 سال سبزوار میں گزارے اور سنہ 548ھ میں وفات پائی۔
آفندى اصفہانی اور محمد باقر خوانسارى نےان کی شہادت کی تصریح کی ہے۔ حاجى نورى نے لکھا ہے: جنہوں نے ان کے حالات زندگی لکھے انہوں نے ان کی شہادت کی کیفیت بیان نہیں کی ہے۔ شاید انہیں زہر سے شہید کیا گیا۔ اسی وجہ سے وہ شہید کے عنوان سے معروف نہیں ہوئے۔[3] ان کی وفات کے بعد ان کے پیکر کو مشہد میں حضرت امام رضاؑ کے حرم میں اسی جگہ منتقل کیا گیا جواس زمانے میں قتلگاہ کے نام سے معروف تھی۔آج کل حرم رضوی کی شمالی جانب ایک سڑک ان کے مقبرے کے قریب سے گزرتی ہے جو ان کی نسبت سے خیابان طبرسی کے نام سے مشہور ہے۔

مشائخ

امین الاسلام طبرسی نے ان بزرگان سے روایت نقل کی ہے:

شاگرد

جن علما نے ان سے روایت نقل کی ہے ان کے اسما درج ذیل ہیں:

تالیفات

طبرسی بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔ان میں سے بعض مشہور ہیں:

  • مجمع البیان،10جلدوں میں لکھی گئی یہ تفسیر شیعہ تفاسیر کے اصلی ماخذوں میں سے سمجھی جاتی ہے ۔خود مصنف نے اس تفسیر کے مقدمے میں لکھا ہے کہ اس کی تالیف میں شیخ طوسی کی التبیان سے استفادہ کیا ہے۔

دوسری چند تصنیفات کے نام:

بعض علما احتجاج کو بھی انہی کی تصنیف شمار کرتے ہیں مگر ابن شہر آشوب نے معالم العلماء میں تصریح کی ہے کہ یہ درست نہیں ہے بلکہ احتجاج احمد بن علی بن ابی طالب طبرسی کے آثار میں سے ہے۔[7]

عجیب واقعہ

صاحب ریاض العلماء سے منقول ہے:

طبرسی کی حرکت قلب بند ہو گئی تو لوگوں نے گمان کیا کہ وفات پا گئے ہیں لہذا انہوں نے طبرسی کو دفن کر دیا۔ طبرسی کو ہوش آیا تو خود کو قبر میں پایا۔ انہوں نے وہیں نذر کی کہ اگر خدا نے انہیں اس مصیبت سے نجات دی تو وہ ایک تفسیر قرآن لکھیں گے۔ اتفاقا ایک کفن چور نے کفن چوری کرنے کی نیت سے ان کی قبر کھودی اور طبرسی نے کفن چوری کرتے ہوئے اس شخص کے ہاتھوں کو پکڑ لیا۔ وہ شخص ڈر گیا۔ طبرسی نے اسے اپنی سرگزشت سنائی۔ لہذا اس کفن چور نے آپ کو کندھے پر اٹھا کر ان کے گھر پہنچایا۔ طبرسی نے اپنا کفن اور مال اسے ہدیہ کر دیا۔اس کفن چور نے اپنے اس گھناؤنے فعل سے توبہ کر لی۔ پھر امین الاسلام نے مجمع البیان تالیف کی۔[8]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

 

  1. طبرسی کی شہرت اور تلفظ کے متعلق بعض نے نہایت تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ رجوع کریں: جوامع الجامع چاپ رحلی پر آیت اللہ شہید قاضی طباطبائی کا مقدمہ ، میرزا محمدباقر مازندرانی کی شرح شواہد مجمع البیان تألیف میرزا طاہر قزوینی، ڈاکٹر حسین کریمان کی كتاب طبرسی و مجمع البیان ، و ڈاکٹر ابوالقاسم گرجی کا جوامع الجامع چاپ دانشگاه تہران کا مقدمہ۔
  2. فصلنامہ پژوہش ہای قرآنی۔
  3. ترجمہ الآداب الدینیہ،ص206-207۔
  4. سید محسن امین، ج8، ص398 – 399۔
  5. سید محسن امین، ج8، ص399۔
  6. اسی نام سے ان کے پوتے فضل بن حسن طبرسی نے کتاب لکھی ہے وہ کتاب زیادہ مشہور ہوئی۔
  7. سید محسن امین، ج8، ص399-400۔
  8. سید محسن امین، ج8، ص400۔

 

مآخذ

تبصرے
Loading...