شہید ثانی

شہید ثانی

زین الدین بن نور الدین علی بن احمد عاملی جُبَعی معروف شہید ثانی (۹۱۱-۹۵۵ یا ۹۶۵ق) علامہ حلی کی نسل سے ہیں اور دسویں صدی ہجری کے نامور شیعہ علماء اور فقہاء میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ فقہ اسلامی کے عظیم ترین علماء میں سے ہیں اور کثیر کتب کے مؤلف ہیں۔ الروضۃ البہیہ فی شرح اللمعۃ الدمشقیہ ان کی مشہور ترین فقہی کاوش ہے۔ وہ سنہ 965 ہجری میں جام شہادت نوش کرگئے۔ انھوں نے بہت سے علمی سفر کئے، بہت سے اساتذہ سے فیض حاصل کیا اور بہت سے شاگردوں کی تربیت کی۔

ولادت

شہید ثانی 13 شوال سنہ 911 ہجری کو لبنان کے شیعہ علاقے جبل عامل کے نواحی گاؤں جُبَع میں پیدا ہوئے۔[1]

خاندان

شہید ثانی کے خاندان کے تمام افراد شیعہ علماء کے زمرے میں شمار ہوتے تھے حتی کہ ان کا خاندان “سلسلۃ الذہب” کے عنوان سے مشہور ہوا:

تعلیمی مراحل

شہید ثانی نے 9 سال کی عمر میں ناظرہ قرآن سے فراغت حاصل کی اور قرآن کو ختم کیا اور اس کے بعد حصول تعلیم میں مصروف ہوئے۔ ان کے پہلے استاد ان کے والد علی بن احمد عاملی تھے جن سے شہید نے عربی ادب میں محقق حلی کی کتاب مختصر النافع، شہید اول کی کتاب اللمعۃ الدمشقیہ اور بعض دیگر کتابیں پڑھ لیں۔

وہ سنہ 925 ہجری قمری میں والد کی وفات کے بعد تعلیم جاری رکھنے کی غرض سے جبل عامل کے گاؤں “میس” چلے گئے اور ارشاد بن عبدالعالی میسی نے جو شہید کے خالو بھی تھے، آٹھ سال تک انہیں محقق حلی کی کتاب شرائع الاسلام اور علامہ حلی کی کتابیں ارشاد الاذہان اور قواعد الاحکام کی کتابیں پڑھائیں اور ان ساری کتابوں کا موضوع فقہ ہے۔

سفر و سیاحت

اس عظیم شیعہ عالم نے اپنی زندگی میں مختلف علاقوں کی طرف علمی سفر کیا اور سفر کے دوران بہت سے علماء سے فیض حاصل کیا۔

انھوں نے جبل عامل کے بعد کرک نوح کا سفر اختیار کیا اور نحو اور اصول کو سید جعفر کرکی سے حاصل کیا اور جبیع میں تین سال تک قیام کے بعد سنہ 937 ہجری قمری کو دمشق چلے گئے اور حکیم و فلسفی شیخ محمد مکی کو طب اور ہیئت کی بعض کتب پڑھ کر سنائیں اور شیخ احمد جابر کے درس میں حاضر ہوئے اور قرائت و تجوید کی کتاب شاطبیہ انہیں پڑھ کر سنائی اور تائید حاصل کی۔ شہید ثانی نے صحیح مسلم اور صحیح بخاری شمس الدین طولون کو پڑھ کر سنائی۔

انھوں نے سنہ 942 ہجری قمری میں مصر کی طرف عزیمت کی اور عربی علوم، اصول فقہ، معانی، بیان، عروض، منطق، تفسیر قرآن اور دیگر علوم کے حصول کے لئے وہاں کے 16 اساتذہ سے استفادہ کیا۔

شہید ثانی نے شوال 944 ہجری قمری میں زیارت خانۂ خدا کی توفیق پائی اور سنہ 646 ہجری قمری میں عراق جاکر ائمۂ اطہار (ع) کی زيارت کا شرف حاصل کیا۔ وہ ہر سفر سے وطن لوٹ کر اپنے آبائی گاؤں جبع میں قیام کرتے تھے۔

سنہ 948 ہجری قمری کو شہید نے بیت المقدس کا سفر اختیار کیا اور شیخ شمس الدین بن ابی اللطیف مقدّسی سے روایت کا اجازت نامہ حاصل کیا اور اپنے وطن پلٹ کر آئے۔

بعد از اں وہ روم شرقی کے سفر کی غرض سے روانہ ہوئے اور سنہ 949 ہجری قمری میں قسطنطنیہ پہنچے۔ شہید نے اس سفر میں اپنا رسالہ ـ جو دس علوم کے بارے میں تھا ـ قاضی عسکر محمد بن محمد بن قاضی زادہ رومی کے پاس بھجوایا اور ان سے ملاقات اور علمی مباحثہ کرنے کے بعد، قاضی رومی نے انہیں تجویز دی کہ اپنی پسند کے کسی بھی مدرسے میں تدریس کریں۔ شہید ثانی نے استخارہ کرنے کے بعد بعلبک کے مدرسہ نوریہ کو تدریس کے لئے منتخب کیا اور مذکورہ قاضی کی طرف سے اس مدرسے کا انتظام انہیں سونپ دیا گیا۔

شہید بزرگوار سنہ 953 ہجری قمری میں ائمۂ اطہار (ع) کے مراقد منورہ کی زیارت کے بعد جبع واپس چلے گئے اور اپنے موطن میں دائمی قیام کا فیصلہ کیا اور وہاں تدریس اور علمی کتب کی تالیف میں مصروف ہوئے۔[4]

مرجعیت

شہید ثانی بعلبک میں سکونت پذیر ہونے کے بعد، اپنی علمی شہرت کے سائے میں، علمی مرجعیت کے رتبے پر فائز ہوئے اور اس علاقے کے نامی گرامی علماء اور فضلاء دور افتادہ ترین علاقوں سے، علمی فیض کے حصول کے لئے ان کی طرف رجوع کیا اور ان کی علمی اور اخلاقی برکات سے بہرہ ور ہوئے۔ انھوں نے اس شہر میں جامع تدریس کا آغاز کیا؛ بایں معنی کہ، چونکہ وہ علمی لحاظ سے پنجگانہ مذاہب ـ جعفری، حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی ـ سے پوری آگاہ تھے اور ان پر عبور کامل رکھتے تھے چنانچہ وہ پانچوں مذاہب کے مطابق شاگردوں کی تربیت کرتے تھے اور وہ درحقیقت فقہ مقارن اور تقابلی عقائد کی تدریس کرتے تھے۔ عام لوگ بھی اپنے اپنے مذاہب کے مطابق اپنے استفتائات کا جواب ان سے وصول کرتے تھے۔

مشاہیر اور علماء کا کلام

شیخ حر عاملی (متوفٰی 1104 ہجری قمری) شہید ثانی کے بارے میں لکھتے ہیں: ان کی شخصیت وثوق، علم و فضل اور زہد و پارسائی، عبادت اور پرہیزگاری، تحقیق و مہارت، جلالت قدر اور عظمت شان اور تمام فضائل و کمالات کے لحاظ سے، اس سے کہیں زيادہ مشہور ہے اس کا ذکر کرنے کی ضرورت پیش آئے اور ان کی خوبیاں اور اوصاف حمیدہ اس سے کہیں زيادہ ہیں کہ انہیں شمار کیا جاسکے اور ان کی تصانیف بھی مشہور ہيں۔[5]

شیعہ عالم رجال جناب تفرشی ان کے احوالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: شہید ثانی مکتب شیعہ کے تابندہ چہروں میں سے چمکتا دمکتا چہرہ اور ان کے موثق علماء میں سے ہیں۔ ان کی محفوظات کثیر اور مکتوبات پاکیزہ ہیں۔[6]

اساتذہ

شاگرد

  1. شہید کے داماد، نور الدین علی بن حسین موسوی عاملی؛
  2. سید علی حسینی جزینی عاملی، المعروف بہ صائغ؛
  3. شیخ بہائی کے والد شیخ حسین عبدالصمد عاملی؛
  4. علی بن زہرہ جبعی؛
  5. سید نورالدین کرکی عاملی؛
  6. بہاء الدین محمد بن علی عودی جزینی، المعروف بہ ابن العودی؛
  7. شیخ محی الدین بن احمد میسی عاملی؛
  8. سید عزالدین حسین بن ابی الحسن عاملی؛
  9. شیخ تاج الدین بن ہلال جزائری۔[8]

تألیفات

شہادت اور شہادت کی کیفیت

آپ کی شہادت کے بارے میں دو روایات نقل ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ شہید ثانی نے دو افراد کے درمیان تنازعے میں ایک فریق کے خلاف فیصلہ سنایا تو جس کے ضرر میں فیصلہ ہوا تھا وہ شخص صیدا کے قاضی کے پاس جاتا ہے اور یہ قاضی روم کے سلطان (سلطان سلیمان) سے مطالبہ کرتا ہے کہ شہید کو بدعت ایجاد کرنے اور اہل سنت کے چاروں مذاہب سے خارج ہونے کی جرم میں گرفتار کیا جائے۔ اس روایت کو بعض نے رد کیا ہے۔ [حوالہ درکار]

دوسری روایت یہ ہے کہ بعض اہل سنت سلطان سلیمان کے وزیر اعظم رستم پاشا کے پاس جاکر کہتے ہیں کہ شیخ زین الدین (شہید ثانی) اجتہاد کا دعویدار ہے اور بہت سارے شیعہ علما آپ کے پاس جاتے ہیں اور امامیہ کتابیں ان کے پاس پڑھتے ہیں اور ان کے اس کام کا مقصد شیعہ مذہب کی ترویج اور تبلیغ ہے۔ اسی لیے رستم پاشا بعض لوگوں کو آپ کی گرفتاری پر مامور کرتا ہے جبکہ اس وقت شہید مکہ میں تھے۔ یوں آپ کو مکہ میں گرفتار کرکے استنبول لے گئے اور اور سرکاری گماشتوں نے انہیں سلطان کے پاس لے جانے کے بجائے خودسرانہ طور پر ان کا سر تن سے جدا کیا اور آپ کا جسم تین دن تک دفن کئے بغیر رکھا اور بعد از اں سمندر میں پھینک دیا۔[12] آپ کی تاریخ شہادت 5 ربیع الاول سنہ 965 ہجری ذکر کی گئی ہے۔[13]

شہادت کا خواب

شیخ بہائی کے والد شیخ حسین بن عبد الصمد حارثی کہتے ہیں: ایک دن میں شہید ثانی کے پاس پہنچا اور آپ کو اپنے آپ میں گم پایا۔ جب اس کی وجہ پوچھی تو کہا: برادرا! میرا خیال ہے کہ میں دوسرا شہید ہونگا، کیونکہ خواب میں سید مرتضی علم الہدی کو دیکھا انہوں نے ایک مجلس کا اہتمام کیا تھا جس میں شیعہ علما اور دانشور شریک تھے۔ جب میں مجلس میں پہنچا تو سید مرتضی اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے اور مجھے تبریک پیش کی اور حکم دیا کہ میں شہید اول کے ساتھ بیٹھ جاوں۔[14]

حوالہ جات

 

  1. امین العاملی، اعیان الشیعہ، ج7، ص143.
    الاعلام، ج3، ص64۔
  2. اعیان الشیعہ، ج7، ص144۔
  3. مفاخر اسلام، ج4، ص484۔
  4. امین العاملی، اعیان الشیعہ، ج7، ص147 – 152۔
  5. شیخ حر عاملی، امل الآمل، ج1، ص85۔
  6. تفرشی، نقد الرجال، ج2، ص292۔
  7. امین العاملی، اعیان الشیعہ، ج7، ص153 و 154۔
  8. امین العاملی وہی ماخذ، ج7، ص154۔
  9. امین العاملی، وہی ماخذ، ج7، ص145۔
  10. حر عاملی، امل الآمل، ج1، ص87۔
  11. حرم عاملی، امل الآمل، ج1، ص87.
    آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج1، ص193، ج2، ص296، ج3،ص 58، ج4، ص433 و 452، ج5، ص278، ج11، ص126 و 275، ج20، ص378۔
  12. حر عاملی، امل الآمل، ج1، ص90 و 91۔
  13. امین العاملی، اعیان الشیعہ، ج7، ص143
  14. امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۵۷.

مآخذ

  • تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دار الاضواء، 1403 ہجری قمری۔
  • امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دارالتعارف، بی‌ تا.
  • تفرشی، مصطفی بن حسین، نقد الرجال، قم، آل البیت، 1418 ہجری قمری۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، امل الآمل، بغداد، مکتبہ الاندلس، بی‌ تا.
  • دوانی، علی، مفاخر اسلام.
تبصرے
Loading...