شہادت امام حسین

شہادت امام حسین ؑ وہ دلخراش واقعہ ہے جو 61ویں ہجری کو کربلا کی سر زمین پر رونما ہوا جس میں فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کو تین دن کی بھوک اور پیاس کی حالت میں شہید کیا گیا ۔ یہ سانحہ یزید بن معاویہ جیسے فاسق و فاجر شخص کی طرف سے بیعت لینے اور حضرت امام حسین ؑ کے انکار بیعت اور اسلام کے اہم ترین بنیادی اصول امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے پر عمل کے نتیجے میں پیش آیا ۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ تاریخ اسلام کا کوئی معمولی واقعہ نہ تھا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی زبان اقدس سے آپ کی شہادت کی خبر کئی دفعہ اصحاب نے سنی ۔ اس شہادت کی روایات اہل سنت اور شیعہ کے تمام اہم مصادر میں پائی جاتی ہیں یہانتک کہ اہل سنت کے نزدیک معتبر ترین مصادر صحاح ستہ اور شیعہ حضرات کی کتب اربع میں ان کا ذکر موجود ہے ۔

لغوی اور اصطلاحی معنی

مقاییس اللغۃ :لفظ شہادت شہد کے مادے سے ہے ۔ اس کے معنی حضور (یعنی موجود ہونا حاضر ہونا) ، علم اور إعلام ہیں۔اسی سے شہادت آتا ہے ۔

مصباح اللغۃ:-موم میں موجود عسل (شِہد) کو شَہد کہتے ہیں ۔ شہدت الشی‏ء:میں اس پر مطلع ہوا، میں نے اس کا معائنہ (یعنی دیکھا) کیا۔میں نے جان لیا ۔

مفردات راغب:- شہود و شہادة: حس ظاہری( آنکھ) یا بصیرت ( حس باطنی) کے ساتھ دیکھتے ہوئے حاضر ہونا۔[1]

فقہ اسلامی میں نبی، امام یا انکے نائب خاص کے حکم قتال کے سبب میدان جنگ میں کوئی مسلمان قتل ہو جائے تو اسے شہید کہا جاتا ہے ۔[2]۔ فقہ کی کتابوں میں اس کے مخصوص احکام بیان کئے گئے ہیں ۔

مقام اور مرتبہ

  • وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ [البقرة: 154]ترجمہ:اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جاتے ہیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم (انکی زندگی کا) ادراک نہیں رکھتے ہو۔
  • وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ [آل عمران: 169]ترجمہ: جو لوگ راہ خدا میں مارے گئے ہیں قطعا انہیں مردہ نہ سمجھنا بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق پا رہے ہیں۔
  • رسول اللہ نے فرمایا: نیک شخص سے بلند ( مرتبہ) نیکی موجود ہے لیکن جو شخص راہ خدا میں قتل ہو جائے اس سے بلند( مرتبہ) کوئی نیکی نہیں ہے ۔
  • جو شخص راہ خدا میں مارا جائے اللہ اس کی کسی برائی کو نہیں پہچانتا(حساب نہیں کرتا) ہے ۔
  • رسول خدا نے فرمایا : خدا کے نزدیک اسکی راہ میں بہائے جانے والے قطرۂ خون سے زیادہ کوئی محبوب ترین چیز نہیں ہے۔[3]

امام حسین ؑ

تفصیلی مضمون: امام حسین


حضرت امام حسین علیہ السلام حضرت علی علیہ السلام کے فرزند ہیں ۔ آپ کی والدۂ گرامی حضرت فاطمہ بنت محمد ؐ ہیں ۔ آپ کی ولادت ہجرت کے تیسرے یا چوتھے سال مشہور قول کی بنا پر 3 شعبان کو مدینہ میں ہوئی۔ آپ کی زندگی کے اہم ترین اور شخصیت کو نمایاں کرنے والے واقعات میں سے قرآن پاک کی بعض آیات کا نازل ہونا ہے ۔ ان میں سے آیت تطہیر،آیت مباہلہ، سورۂ الانسان (دہر) نہایت اہم ہیں۔ رسول خدا سے مروی احادیث کی بنا پر آپؐ کا سلسلۂ نسب آپ کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا سے چلے گا نیز احادیث میں حضرت امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو “ابنی”(اپنا بیٹا) کہا گیا ہے ۔ رسول اللہ نے آپ کی فضیلت میں بہت سی احادیث بیان فرمائیں جنہیں محدثین نے کسی تفریق کے بغیر نقل کیا ہے ۔حضرت امام حسین ؑ کی نسبت احادیث رسول اللہ کا ایک خاص پہلو وہ احادیث پیغمبرؐ ہیں جن میں آپؐ نے حضرت امام حسین کی مظلومانہ شہادت کی خبر دی ہے ۔آپ کی شہادت میدان کربلا میں 10 محرم 61 ہجری کو ہوئی۔

شہادت کی پیش گوئی

ضریح امام حسین علیہ السلام
  • ……حضرت علی ؑؑ رسول خدا کے پاس آئے تو آپکی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔ حضرت علی ؑنے پوچھا تو آپ نے جواب دیا:أخبرني جبريل أن حسينا يقتل بشاطئ الفرات مجھے جبرائیل نے خبر دی ہے ہے کہ حسین کو فرات کے کنارے قتل کیا جائے گا….. ۔[4]
  • ام سلمۃ کہتی ہیں:رسول اللہ ایک روز میرے گھر میں تھے ۔ آپ نے فرمایا: کوئی میرے پاس نہ آئے ۔میں منتظر رہی۔ اسی دوران حسینؑ آپ کے پاس آئے۔ تو میں نے رسول اللہ کی درد بھری آواز میں رونے کی آواز سنی تو مجھے معلوم ہوا حسین آپ کی گود میں ہیں اور آپ رو بھی رہے ہیں اور اس کی پیشانی کو چھو رہے ہیں۔میں نے کہا :خدا کی قسم !مجے اسکے آنے کا علم نہیں تھا،آپؐ نے فرمایا: جبرائیل ہمارے ساتھ تھا ۔ اس نے سوال کیا : کیا تم اس سے محبت کرتے ہو ۔اس نے کہا: إن أمتك ستقتل هذا بأرض يقال لها : كربلاءآپکی امت اسے کربلا نامی جگہ قتل کرے گی ۔ جبرائیل نے اس جگہ کی مٹی آپکو دکھائی ۔قتل کے وقت جب آپکا گھیراؤ کیا تو آپ نے پوچھا اس جگہ کو کیا کہتے ہیں ۔انہوں نے جواب دیا کربلا۔ تو یہ سن کر آپؑ نے جواب میں فرمایا :اللہ اور اس کے رسول سچ کہا کرب و بلاہے۔ایک روایت میں ہے رسول اللہ نے سچ کہا زمین کرب و بلا ہے۔[5]
  • عائشہ یا ام سلمۃ سے روایت ہے :رسول اللہ نے عائشہ یا ام سلمۃ سے فرمایا :گھر میں فرشتہ آیا اس سے پہلے کوئی نہیں تھا۔ اس نے مجھے کہا : تمہارا یہ بیٹا حسین قتل کیا جائے گا ،اگر تم چاہو تو میں تمہیں اس زمین کی مٹی دکھاؤں جہاں اسے قتل کیا جائے گا پس اس نے سرخ رنگ کی مٹی نکالی۔ہیثمی نے کہا اس روایت کو احمد نے نقل کیا ہے اور اسکے تمام راوی صحیح ہیں۔[6]

ابن کثیر نے اس روایت کے بعد کہا ہے :یہ روایت ام سلمۃ کے علاوہ دوسروں سے بھی منقول ہے ۔اسے طبرانی نے ابو امامۃ سے نقل کیا اور اس میں ام سلمۃ کا واقعہ منقول ہے ۔اسے زینب بنت جحش اور عباس کی زوجہ لبابہ ام الفضل نے بھی نقل کیا ہے نیز ایک سے زیادہ تابعین نے مرسلہ ذکر کیا ہے ۔[7]

  • محمد بن علی رسول اللہ سے نقل کرتے ہیں :جو شخص میری زندگی کی طرح زندہ رہنا اور میری موت کی طرح مرنا پسند کرتا ہے اسے چاہئے کہ وہ علی کو دوست رکھے …..اور میرے دشمنوں سے بیزاری اختیار کرے …..میں اپنے پروردگار سے اپنی عترت کے ان دشمنوں کا شکوہ کروں گا جنہوں نے ان کی فضیلت ماننے سے انکار کیا ،میرے صلہ رحم کو قطع کیا، خدا کی قسم وہ میرے بیٹے کو قتکل کریں گے پھر وہ میری شفاعت نہیں پائیں گے۔[8]
  • حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہ کی گود میں حضرت حسین بن علی کوجود تھے اور آپ انہیں کھلا رہے تھے اور ہنسا رہے تھے ۔تو حضرت عائشہ نے کہا :یا رسول اللہ آپ اس بچے کس قدر پیار کرتے ہیں ۔آپ نے جواب میں فرمایا :کیوں نہ ہو یہ تو میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ لیکن میری امت اسے قتل کرے گی ۔جو شخص اس کی زیارت کو جائے گا اللہ اسے میرے ایک حج جتنا ثواب دے گا ۔حضرت عائشہ نے تعجب سے کہا آپکے حجوں میں سے ایک جتنا ۔ آپ نے جواب دیا : میرے دو حجوں جتنا ۔حضرت عائشہ نے پھر تعجب سے کہا دو کے برابر ۔ آپ نے تعداد میں اضافہ کیا۔ اسی طرح وہ تعجب کرتی رہیں آپ تعداد میں اضافہ کرتے رہے یہانتک کہ آپ نے 90 حجوں تک اس تعداد کو بیان کیا ۔[9]
  • عمر بن ہبیرہ کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہ کی گود میں حسن اور حسین تھے۔ آپ ؐ ایک بار حسن ایک بار حسین کا بوسہ لیتے ہیں اور حسین کیلئے کہتے ہیں :ہلاکت اور بربادی ہے اس شخص کیلئے جو تمہیں قتل کرے گا ۔[10]

شہادت کی کیفیت

حضرت امام حسین ؑاول محرم الحرام[11] 2 محرم الحرام[12] یا دس محرم الحرام[13] ہجری کو وارد کربلا ہوئے 7 محرم الحرام کو آپ ، آپ کے اہل خانہ اور اصحاب پر پانی کی بندش لگا دی گئی اور بالآخر 10 محرم الحرام کے دن آپ کو اصحاب سمیت یزید بن معاویہ کے مقرر کردہ کوفے کے حاکم عبید اللہ بن زیاد کے بھیجے ہوئے لشکر نے پیاس کی حالت میں شہید کر دیا ۔ آپ کی شہادت کی کیفیت اسلامی مصادر کے ماخذوں میں مفصل یا مختصر دو طرح سے تحریر ہوئی ہے ۔

صبح عاشور

روز عاشورہ حضرت امام حسین ؑ نے نماز صبح کے بعد اپنے لشکر کو اور اسی طرح عبید اللہ ابن زیاد کے بھیجے گئے لشکر کی کمانڈ کرنے والے عمر بن سعد نے بھی اپنے لشکر کو ترتیب دیا اور حضرت علی بن حسین کی روایت کے مطابق آپ نے خدا کی بارگاہ میں یوں نیایش کی:

لَمَّا صَبَّحَتِ الْخَیلُ الْحُسَینَ علیه السلام رَفَعَ یدَیهِ وَ قَالَ:اللَهُمَّ أَنْتَ ثِقَتِی فِی کلِّ کرْبٍ، وَأَنْتَ رَجَآئِی فِی کلِّ شِدَّة، وَأَنْتَ لِی فِی کلِّ أَمْرٍ نَزَلَ بِی ثِقَة وَعُدَّة. کمْ مِنْ هَمٍّ یضْعُفُ فِیهِ الْفُؤَادُ، وَتَقِلُّ فِیهِ الْحِیلَة، وَیخْذُلُ فِیهِ الصَّدِیقُ، وَیشْمُتُ فِیهِ الْعَدُوُّ؛ أَنْزَلْتُهُ بِک، وَشَکوْتُهُ إلَیک، رَغْبَه مِنِّی إلَیک عَمَّنْ سِوَاک؛ فَفَرَّجْتَهُ عَنِّی، وَکشَفْتَهُ، وَکفَیتَهُ.فَأَنْتَ وَلِی کلِّ نِعْمَة، وَصَاحِبُ کلِّ حَسَنَة، وَمُنْتَهَی کلِّ رَغْبَة.


صبح جب لشکر آپکے پاس آیا توآپ نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور بارگاہ خداوندی میں دعا کرتے ہوئے کہا:اے پروردگار!ہر مصیبت میں تم ہی میرا اعتماد ،ہر سختی میں تم میری امید ہو اور مجھ پر نازل ہونے والے ہر امر میں تم ہی میرے لئے محل وثوق اور اعتماد ہو۔کتنی ہی ایسی مشکلات ہیں جن میں دل کمزور ہو جاتے ہیں ، ان سے رہائی کے راستے کم پڑ جاتے ہیں،دوست تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور دشمن اس میں خوشحال ہوتے ہیں؛میں تمہارے پاس آیا ہوں اور میں تم سے اسلئے ان کا شکوہ کرتا ہوں چونکہ میں غیروں کی نسبت تجھے زیادہ دوست رکھتا ہوں پس تو (مجھے) ان سے آسودگی عطا کر،ان سے دوری نصیب فرمااور تو ہی ان کے لئے کافی ہے۔ تم ہر نعمت کے ولی ،ہر اچھائی کے مالک اور ہر چاہت کی انتہا ہو۔[14]

خطبہ

حضرت امام حسین ؑ نے نبی اکرمؐ اور والد کی طرح کوفیوں کی ہدایت کیلئے ایک خطبہ ارشاد فرمایا ۔جس میں انہیں نصیحت کی ،اپنے آنے کا مقصد بیان کیا اور انہیں ان کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کرنے سے باز رہنے کی تلقین کی ۔نیز اتمام حجت کی خاطر اپنا خاندانی تعارف کروایا اور اپنا نسب بیان کیا۔اپنی نسبت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے جاری ہونے والی بعض احادیث[15] بیان کی اور اپنی صداقت اور سچائی کی گواہی کیلئے بعض اصحاب رسول اللہ[16] کا نام لیا کہ ان سے سوال کرو کہ کیا انہوں نے یہ اپنے نبی کی زبان سے نہیں سنا ہے [17]۔جنگ میں حضرت امام حسین ؑ نے پہل نہیں کی بلکہ جنگ کی ابتدا لشکر عمر بن سعد کی طرف سے ہوئی اور پہلے آپ کے اصحاب با وفا نے آپ پر جان نثار کی اور پھر بنی ہاشم کے جوانوں نے امام پر جانیں نثار کیں۔اس دوران نمازظہرین آپ کے اصحاب نے آپکی اقتدا میں ادا کی ۔

امام حسین ؑ اپنے اصحاب اور بنی ہاشم کے جوانوں کی شہادت کے بعد اپنی سورای پر سوار ہو کر قوم اشقیا کے سامنے آئے اور ایک اور خطبہ[18] ان کے سامنے ارشاد فرمایا نیز چند اشعار رجز کی صورت بیان فرمائے:

انا ابن علي الخير من آل هاشم كفانى بهذا مفخرا حين افخر
میں آل ہاشم میں سے علی کا بیٹا سب سے بہتر ہوں۔ میرے فخر کرنے کیلئے یہی کافی ہے۔
وجدي رسول الله اكرم خلقه ونحن سراج الله في الارض يزهر
مخلوق میں سے سب سے زہادہ قابل تکریم میرے جد رسول اللہ ہیں۔ ہم ایسے چراغ الہی ہیں کہ جن سے زمین منور ہوتی ہے۔
وفاطم امي من سلالة احمد وعمي يدعى ذاالجناحين جعفر
احمد مصطفی کی نسل میں سے فاطمہ میری والدہ ہے۔ میرے چچا جعفر کو ذو الجناحین کہا جاتا ہے
وفينا كتاب الله انزل صادقا وفينا الهدى والوحي بالخير يذكر
ہمارے ہی گھر میں صادق ترین کتاب خدا نازل ہوئی۔ ہم میں ہی وحی و ہدایت کو یاد کیا جاتا ہے۔[19]

بعض نے اس مقام[20] پر چند اور اشعار بھی ذکر کئے ہیں۔

جنگ

امام کے ساتھ تین یا چار اصحاب باقی رہ گئے تو آپ نے میدان جنگ میں جانے سے پہلے اپنے جامہ کو کچھ جگہوں سے پھاڑ لیا تا کہ ان کے شہید ہو جانے کے بعد ان کے لباس کو نہ لوٹا جائے لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام کے شہید ہونے کے بعد ابجر بن کعب نے اسے لوٹا اور امام کے جسم اطہر کو عریاں کر دیا ۔اس مکروہ کام کے بعد ابجر کے دونوں کے ہاتھ گرمیوں میں خشک لکڑی کی مانند سوکھ جاتے اور سردیوں میں دوبارہ تروتازہ ہو جاتے اور ان سے پیپ اور گندا خون بہنے لگتا ۔[21]

امام کے باقی بچے ہوئے تین ساتھی سپاہ کے سامنے آئے ۔اپنے اور امام سے دفاع کرنے لگے بالآخر وہ بھی شہید ہو گئے ۔آپ زخموں سے چور ہو چکے تھے اس کے باوجود آپ اپنی ذوالفقار سے جب ان پر حملے کرتے تو وہ دور بھاگتے ۔شمر نے جب اپنی سپاہ کی یہ حالت دیکھی تو انہیں حکم دیا کہ حسین کے پیچھے سے جا کر تیروں کی بارش کرو۔انہوں نے اسی طرح کیا اور امام پر اس قدر تیر برسائے کہ آپ کی کمر تیروں سے اس طرح پُر ہو گئی جس طرح خار پشت (جانور) کی کمر کانٹوں سے بھری ہوتی ہے ۔[22]

جو بھی امام کے مقابلے میں آیا وہ ہلاک ہوا ۔ بہت سے افراد کو امام نے ہلاک کیا ۔ یہانتک کہ مالک بن نسَیر[23] مقابلے میں آیا اس نے امام کے سر مبارک پر وار کیا جس سے امام کے سر پر موجود ٹوپی[24] پارہ ہو گئی اور امام کا سر مبارک زخمی ہو گیا ۔ امام حسین نے اس سے فرمایا : امید رکھتا ہوں تم اس ہاتھ سے نہ کھاؤ گے نہ پیؤ گے اور اللہ تمہارا حشر ستم کاروں کے ساتھ کرے ۔اس زخم کی وجہ سے بہت زیادہ خون بہنا شروع ہو گیا اور کلاہ خون سے پُر ہو گیا ۔ امام نے اس کلاہ دار جبے کو اتار دیا اور اسکی جگہ سر پر عمامہ باندھ لیا۔ آپ نہایت خستہ حال ہو چکے تھے ۔

اسی دوران شمر بن ذی الجوشن ایک گروہ کے ساتھ آپ کے سامنے آیا۔ امام نے ان سے جنگ کی۔ وہ امام اور خیام کے درمیان حائل تھے ۔انہوں نے خیام کا رخ کیا تو امام نے بلند آواز میں فرمایا :

وَیحَکمْ یا شیعَةَ آلِ اَبی سُفیان ! اِنْ لَمْ یکنْ لَکمْ دینٌ وَ کنْتُمْ لاتَخافُونَ المَعادَ فَکونُوا اَحراراء فی دُنیاکم…. اے آل ابو سفیان کے پیروکاروں !اگر تمہارے پاس دین نہیں ہے اور قیامت سے خوفزدہ نہیں ہو تو کم سے کم اپنی دنیا میں ہی آزاد رہو اور اپنی عربی حمیت و غیرت کی طرف لوٹ آؤ جیسا کہ تم اپنے آپ کو عرب گمان کرتے ہو ۔[25]

شمر نے بلند آواز میں کہا : حسین کیا کہتے ہو ؟ امام نے جواب دیا: میں تمہارے ساتھ جنگ کر رہا ہوں مجھ سے جنگ کرو خواتین کا کیا قصور ہے ۔یہ سن کر شمر نے کہا : سچ کہا ہے اور پنے ساتھیوں کو خیام دور ہونے کا حکم دیا اور کہا:اس پر حملہ کرو ۔پس کوفیوں نے ہر طرف سے امام پر حملہ کیا ۔ ان کوفیوں میں سے ابو الجنوب ،قشعم بن عمر ،صالح بن وہب ،سنان بن انس ،خولی بن یزید ہیں۔ شمر ابو الجنوب کے پاس سے گزرا تو کہا حملہ کیوں نہیں کرتے ؟ اس نے کہا تم خود حملہ کیوں نہیں کرتے ؟شمر :مجھ سے اس طرح بات نہ کرو ۔ انہوں نے باہمی ایک دوسرے کو برا بھلا کہا ۔ابو الجنوب نے شمر کو کہا : خدا کی قسم !چاہتا ہوں نیزہ تمہاری آنکھوں میں ماروں اور آنکھیں باہر نکال دوں ۔شمر نے جواب دیا : اگر میں کچھ کرنے کی قدرت رکھتا تو میں کر گزرتا۔

شمر نے پیادہ سپاہیوں کے ہمراہ امام پر حملہ کیا ۔ امام نے ان سے مقابلہ کیا اور انہیں اپنے آپ سے دور ہٹایا یہانتک کہ انہوں نے امام کو گھیرے میں لے لیا ۔[26]

عبد اللہ بن حسن[27]

اسی دوران ایک نابالغ بچہ چاند کی مانند دمکتے چہرے کے ساتھ عبد اللہ بن حسن خیام سے برآمد ہوا [28]اور امام حسین ؑ کے ساتھ آ کر کھڑا ہو گیا ۔ حضرت زینب اس بچے کے پیچھے خیام سے باہر آئیں تو امام نے آپ سے خطاب کیا:بہن اسے سنبھالو لیکن بچے نے جانے سے انکار کیا اور وہاں مقاومت اختیار کی اور کہا : خدا کی قسم اپنے چچا سے ہر گز جدا نہ ہوں گا۔ابجر بن کعب نے امام پر تلوار سے حملہ کیا تو بچے نے کہا : یا بن الخبیثہ!اَتقتل عمی؟ اے خبیثہ عورت کی اولاد! کیا تو میرے چچا کو قتل کرے گا ؟اس نے تلوار سے امام پر وار کیا تو عبد اللہ نے امام کو بچانے کیلئے اپنا ہاتھ سامنے کیا ہاتھ تن سے جدا ہو گیا اور گوشت کے سہارے لٹکنے لگا۔عبد اللہ نے آواز دی : اے اماں جان!۔ امام نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا نیز کہا: اے برادر عمو ! جو کچھ تمہارے ساتھ ہوا اس پر صبر کرو خدا تمہیں تمہارے بہترین باپ، رسول خدا ، علی بن ابی طالب چچا حمزہ کے ساتھ ملحق کرے ۔امام نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کئے اور یوں بد دعا کی : خدایا ! انہیں باران رحمت سے دور رکھ اور زمین کی محروم رکھ ۔اگر ایک مدت تک نعمتوں سے استفادہ کیا ہے تو ان کے درمیان تفرقہ ڈال اور انہیں مختلف گروہوں میں تقسیم کر دے ۔ ان کے حاکموں کو ان سے نا خوش رکھ کیونکہ انہوں نے ہمیں بلایا تا کہ ہماری مدد کریں لیکن انہوں نے ہم پر ظلم کیا اور ہمارے قتل کے در پے ہو گئے ہیں ۔ [29]

حضرت امام حسین علیہ السلام پر پیاس نے غلبہ کیا تو آپ فرات کے نزدیک ہوئے۔ حُصَین بن تمیم(نُمَیر)نے تیر پھینکا جو امام کے منہ پر لگا اور خون جاری ہوا ۔آپ نے خون (چلو میں) لیا اور اسے آسمان کی طرف پھینک دیا اور خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: خدایا!انہیں نابود اور انہیں ہلاک کر ۔ان میں سے کوئی بھی زندہ نہ رہے ۔[30]

ایک اور روایت کے مطابق آپ نے جب فرات کا ارادہ کیا تو بنی ابان بن دارم کے ایک شخص نے کہا : ہلاک ہو جاؤ! حسین تک پانی نہ پہنچنے پائے۔ یہ کہہ کر اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی ۔ اسکے ساتھیوں نے بھی اسکی پیروی کی اور وہ حسین کو پانی تک پہنچے سے مانع ہوئے۔ کسی نے تیر پھینکا جو آپکی گردن کے نچلے حصے میں ہنسلی کی ہڈی کے قریب پیوست ہو گیا ۔خون بہنے لگا ۔آپ نے خون ہتھیلیوں میں لیا اور کہا: بار الہا!میں تم سے اس بات کی شکایت کرتا ہوں کہ انہوں نے تمہارے نبی کے بیٹے کے ساتھ کَیا کیا ۔[31]

امام جنگ سے رک گئے۔ سپاہ انکے سامنے صف باندھ کر رک گئے۔اسی دوران زینب علیا خیمے کے دروازے پر آئیں اور کہہ رہی تھیں : کاش آسمان زمین پر آجائے ! عمر بن سعد سے یوں مخاطب ہوئیں:

اے عمر بن سعد !تم پر وائے ہو ! ابو عبد اللہ قتل ہو جائیں گے اور تم یونہی دیکھتے رہو گے ؟اس نے کوئی جواب نہیں دیا ۔راوی کہتا ہے : میں اس کے آنسوؤں کو اسکے چہرے اور محاسن کو تر کرتا ہوا دیکھ رہا تھا ۔ پھر زینب سلام اللہ علیہا نے کہا : کیا تم میں کوئی مسلمان نہیں ہے ؟کسی نے کوئی جواب نہیں دیا ۔اتنے میں شمر نے آواز دی :ہلاکت ہو تم پر! تمہاری مائیں تمہارے غم میں روئیں! تم کس کے منتظر ہو ؟

سعد بن عبیدہ کہتا ہے کہ کوفے کے کچھ بزرگ میدان کربلا کے ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر یہ منظر دیکھتے ہوئے رو رہے ہیں اور دعا کر رہے تھے : بار الہا!حسین کیلئے نصرت نازل فرما۔یہ سن کر میں نے کہا :اے دشمنان خدا !تم اس کی مدد کیلئے کیوں نہیں جاتے ہو ۔[32]

حُمَید بن مسلم کے بقول اس روز امام حسین خز کا بنا جبہ پہنے ہوئے تھے اور ڈاڑھی خضاب سے رنگین تھی۔ وہ قتل سے پہلے کہہ رہے تھے: کیا تم لوگوں کو میرے قتل پر ابھارتے ہو؟ خدا کی قسم !تم میرے بعد کسی ایسے شخص کو قتل نہیں کرو گے کہ جس پر خدا میرے قتل سے زیادہ ناراض ہو۔خدا کی قسم!میں اللہ سے امیدوار ہوں کہ تمہاری توہین کی خاطر وہ مجھے اکرام بخشے گا اور میری وجہ سے تم سے انتقام لے گا کہ جس کا تم شعور نہیں رکھتے ہو گے۔قسم بخدا!اگر تم نے مجھے قتل کیا تو اللہ تمہارے درمیان حرج و مرج ڈالے گا اور وہ تمہارا خون بہائے گا پھر وہ تم سے راضی نہیں ہو گا یہانتک کہ تمہیں دردناک عذاب سے دوچار کرے گا۔دن کا کافی حصہ گزر چکا تھا ۔اگر لوگ حسین کو قتل کرنا چاہتے تو قتل کر سکتے تھے لیکن وہ اسے قتل کرنے سے بچ رہے تھے۔ تا اینکہ شمر نے بلند آواز میں کہا :ہلاک ہو جاؤ! اس شخص کو کیا دیکھتے ہو۔تمہاری مائیں تمہارے غم میں روئیں!ہر جانب سے حسین پر حملے شروع ہوئے۔زرعہ بن شریک تمیمی نے آپ کے بائیں ہاتھ پر اور دوسرا وار گردن پر کیا (جسکی وجہ سے آپ) منہ کے بل گرے ۔عمرو بن طلحہ نے پشت سے آپ کے کاندھے پر وار کیا[33]
سنان بن انس نخعی نے نیزے سے ایسا وار کیا کہ آپ نیچے گر گئے۔اس نے خولی بن یزید اصبحی سے کہا:اس کا سر تن سے جدا کرو۔اس نے ارادہ کیا لیکن اس پر لرزہ تاری ہو گیا۔ شمر نے یہ دیکھ کر کہا :خدا تیرے بازو شل کرے کیوں لرز رہے ہو؟پس وہ خود نیچے اترا اور اس نے امام کا سر تن سے جدا کیا اور اسے خولی کے حوالے کیا۔[34]

شیخ صدوق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں:

جب حضرت امام حسین علیہ السلام کے تمام یار وانصار شہید ہو گئے تو آپ نے دائیں بائیں نگاہ دوڑائی ۔کسی کو اپنا حامی و ناصر نہ پایا تو بارگاہ الہی میں ہوں دعا کی:خدایا !تو دیکھ رہا ہے کہ فرزند رسول کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟بنو کلاب پانی تک رسائی سے رکاوٹ ہیں۔اسی دوران ایک تیر آیا اور امام کے گلے میں پیوست ہو گیا ۔آپ نے تیر کو کھینچ کر باہر نکالا اور اسے دور پھینک دیا۔اس تیر کی وجہ سے آپ سنبھل نہ سکے اور زمین پر آ رہے ۔آپ نے چلو میں خون لیا اور اسے اپنی سر و صورت پر ملا اور فرمایا :اے بار الہا!میں اس وقت مظلومیت کے عالم میں ہوں اور میں خون سے غلطاں ہوں اور میں اسی عال میں خدا کے حضور پیش ہوں گا۔امام اسی عالم میں بائیں کروٹ خاک کربلا پر گر گئے ۔دشمنان خدا سنان بن انس ایادی ،شمر بن ذی الجوشن اور کچھ شامی آگے بڑھے اور امام مے قریب پہنچ کر کھڑے ہو گئے۔ایک دوسرے سے کہتے اب کس چیز کے منتظر ہو؟اس دوران سنان بن انس زیادی لعنۃ اللہ علیہ سوری سے نیچے اترا۔ حضرت کے محاسن کو ہاتھ میں پکڑ کر امام کی گردن پر تلوار کا وار کیا جس سے آپ کا سر تن سے جدا ہو گیا ۔یہ عمل انجام دیتے ہوئے کہہ رہا تھا :خدا کی قسم !میں یہ جانتے ہوئے کہ تم فرزند رسول ہو نیز ماں اور باپ کے لحاظ سے مخلوق میں افض ترین شخص ہو ، میں ہی تمہارے سر کو جدا کروں گا۔[35]

امام حسین علیہ السلام کی شجاعت اور بہادری کا تذکرہ کرتے ہوئے حُمَید بن مسلم کہتا ہے :

خدا کی قسم !میں نے دشمنوں کے نرغے میں گھرے ہوئے شخص کو حسین جیسا مضبوط دل ،جرات مند اور مطمئن شخص نہیں پایا کہ جسکے بیٹے، اہل بیت اور اسکے اصحاب قتل کر دئے گئے ہوں اور وہ پھر بھی ایک بپھرے ہوئے بھیڑیے کی مانند دشمن کی فوج پر جس طرف حملہ ور ہوتااسی طرف دشمن بھیڑوں کے گلے کی مانند اسکے آگے آگے دوڑتا ہوا نظر آتا۔[36]

جسد مبارک کی پامالی

حضرت امام حسین ؑ کے روضۂ مبارک کا ایک دلکش منظر

حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد ان اشقیا نے امام کے لاشے کو پامال کرنے کا منفور ترین کام انجام دیا جو اہل بیت سے انکی کینہ توزی اور دشمنی کی انتہا کا بیانگر ہے ۔اکثر قدیمی مآخذوں میں اس کا تذکرہ مختصر یا تفصیل کے ساتھ موجود ہے ۔ابو الفرج اصفہانی کے بقول حضرت امام حسین کے جسد مبارک کو پامال کرنے کا حکم عبید اللہ بن زیاد نے دیا تھا [37]۔بیان ہوا ہے کہ عمر بن سعد نے اعلان کیا کہ کون حضرت امام حسین علیہ السلام کے لاشے کو پامال کرے گا ؟10/آدمیوں نے اس کام کے کرنے پر رضامندی ظاہر کی جن میں سے إِسْحَاق بْن حياة حَضْرَمِی ہے جس نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی قمیص لوٹی تھی اور اخنس بن مرثد ہیں۔پس وہ گھڑ سوار گئے اور انہوں نے فرزند رسول کے لاشے کو پامال کیا۔[38]ابن کثیر نے پہلے جسد کی پامالی کی خبر درست نہ ہونے کا کہا لیکن پھر”کہا جاتا ہے” کہہ کر جسد کی پامالی کو ذکر کیا ہے[39] اسی طرح مجلسی[40] نے اصول کافی کی ایک روایت کی بنا پر جسد کی پامالی کی نفی کی اور اسے غیر ممکن شمار کیا ہے لیکن اسے تاریخی مسلّمات[41] میں سے مانا گیا ہے۔

دفن

کربلا کا معرکہ ختم ہونے کے بعد عمر بن سعد نے اپنے مارے جانے والے لشکریوں کو دفن کیا اور اگلے روز راہی کوفہ ہوا ۔ غاضریہ کے مقیم قبیلۂ بنی اسد کے لوگ آئے اور انہوں نے حضرت امام حسین (ع) کے اہل بیت اور انکے اصحاب کے لاشوں پر نماز پڑھی ۔حضرت امام حسین کو اسی مقام پر دفن کیا جہاں آج ان کی قبر مبارک ہے ۔[42]


حوالہ جات

  1. التحقيق في كلمات القرآن الكريم، ج‏6، ص: 128
  2. شہید ثانی،روض الجنان(ط ق)111۔سید علی طباطبائی،ریاض المسائل ج 2 ص147
  3. کلینی،الکافی ج 5ص 53
  4. ابن سعد ، ترجمۂ الامام الحسین فی الطبقات ص .ابن عساکر،تاریخ مدینۂ دمشق ج14 ص18948
  5. طبرانی، معجم الکبیر ج 23 ص289۔ہیثمی،مجمع الزوائد 9 ص189 باب مناقب الحسین ۔ہیثمی نے کہا :اس روایت کو طبرانی نے مختلف اسانید سے ذکر کیا ہے جن میں ایک کی سند تما راوی ثقہ ہیں۔
  6. ہیثمی ،مجمع الزوائد ج 9 ص 188۔احمد، مسند احمد ج 6 ص 294۔
  7. ابن کثیر،البدایہ و النہایہ ج 8 ص 217۔
  8. ابن قولویہ،کامل الزیارۃ ص149
  9. ابن قولویہ،کامل الزیارۃ ص143
  10. ابن قولویہ،کامل الزیارۃ ص147 نیز اس مضمون کی دیگر احادیث بھی موجود ہیں کامل الزیارہ کے باب 22 کا مطالعہ کریں ۔
  11. دینوری ،الاخبار الطوال375۔
  12. بلاذری،انساب الاشراف 3/385؛طبری،تاریخ طبری5/409؛شیخ مفید ، الارشاد2/84؛خوارزمی ،مقتل الحسین1/237۔ یہ قول ہشہور ہے ۔
  13. عمرانی، محمد علی(580) ، الانباء فی تاریخ الخلفاء 15۔یہ قول شاذ مانا جاتا ہے
  14. شیخ مفید ، الارشاد2/96
  15. الحسن و الحسین سیدا شباب اہل الجنہ
  16. جابر بن عبد اللہ انصاری ،ابو سعید خدری،انس بن مالک، سہل بن سعد ساعدی،زید بن ارقم۔
  17. طبری، تاریخ طبری ج 4 صص 321؛شیخ مفید الارشاد ج 2 ص 92؛بلاذری انساب الاشراف ج 3 ذیل مقتل الحسین۔
  18. اعثم کوفی الفتوح 5/116؛ابن شہر آشوب 4/119۔ابن عساکر، ترجمہ الامام الحسین می تاریخ دمشق ص216،218۔بعض نے اسے ابتدائے روز عاشورہ میں اور بعض نے اسے وقت ذکر کئے بغیر نقل کیا ہے ۔
  19. ان رجزوں کو اعثم کوفی نے الفتوح 5/116 میں نقل کیا ہے نیزاربلی نے کشف الغمہ2/229؛ابن شہر آشوب نے مناقب 4/88 نقل کیا ہے ۔
  20. خوارزمی ، مقتل الحسین، ج 2 ص 33
  21. شیخ مفید،الارشاد،2/112
  22. شیخ مفید،الارشاد،2/112
  23. بلاذری اور طبری نے اس کا نام مذکورہ نام ذکر کیا ہے ۔انساب الاشراف ج 3 ص 408۔تاریخ طبری ج 5 ص 448۔شیخ مفید نے مالک بن نسر۔الارشاد ج 2 ص 110۔دینوری نے مالک بن بِشر۔الاخبار الطوال 381۔ابن کثیر نے مالک بن انس ذکر کیا ہے ۔البدایۃ و الہایۃ ج 8 ص 202۔
  24. شیخ مفید الارشاد ج 2 ص 110۔ بعض نے کلاہ والی عبا یا جبہ ذکر کیا ہے
  25. طبری تاریخ طبری ج 5 ص450۔ابن اعثم کوفی ،الفتوح ج 5 ص117۔
  26. طبری ، تاریخ الامم والملوک ج 5 ص 450۔ بلاذری ، انساب الاشراف ج 3 407 ، 408۔
  27. طبری نے اسے نوجوان کہا اور اس کا نام ذکر نہیں کیا ۔ابن طاؤس اور شیخ مفید نے اسکا نام عبد اللہ بن حسن ذکر کیا ہے ۔لہوف ص 173، الارشاد ج2 ص110۔
  28. ابن کثیر ،البدایۃ و النہایۃ ج 8 ص 203
  29. شیخ مفید ، الارشاد ج 2 ص 110 و111۔ تاریخ طبری طبری ج 5 ص 451
  30. بلاذری، انساب الاشراف ،1/مقتل الحسین ص428۔طبری،تاریخ طبری 3/300 طبع: دار الكتب العلميہ – بيروت.
  31. ابو مخنف ازدی(تحقیق غفاری)،مقتل الحسین،189/190،مطبعہ العلمیہ قم۔
  32. إن أشياخنا من أهل الكوفہ…..بلاذری،انساب الاشراف،1/مقتل الحسین ص428۔طبری،تاریخ طبری 3/300 طبع: دار الكتب العلميہ – بيروت.
  33. اعثم کوفی،کتاب الفتوح،5/118۔
  34. شیخ مفید ،الارشاد،2/111،…..۔ طبری،تاریخ طبری،3/334،334….۔
  35. شیخ صدوق،الامالی،مجلس30، ص226۔
  36. شیخ مفید ،الارشاد،111
  37. اصفهاني،مقاتل الطالبيين118۔ دار المعرفہ، بيروت
  38. ۔مسعودي،مروج الذهب،1/375۔طبری،تاريخ الأمم والرسل والملوك3/335۔بَلَاذُري،جمل من أنساب الأشراف،دار الفكر – بيروت،1417،3/204۔
  39. ابن کثیر،البدایہ والنہایہ 8/ 189 و 190۔طبع مکتبۃ المعارف بیروت۔
  40. مجلسی،بحار الانوار45/60۔
  41. مہدی پیشوائی،مقتل جامع سید الشہدا،1/893۔
  42. شیخ مفید،الارشاد،2/114۔

تبصرے
Loading...