شفاعت

حدیث شفاعت – مسجد النبی (ص)

شفاعت یا الشفاعۃ مسلمانوں اور آسمانی ادیان کے معتقدین کے عمومی اعتقادات میں سے ہے؛ اور اس کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن اولیاء اللہ گنہگاروں کے ایک گروہ کی شفاعت کریں گے اور انہیں جہنم کے عذاب سے نجات دلائیں گے یا پھر [کسی جنتی] شخص کی شفاعت کرکے اس کے درجات کی بلندی کا باعث بنیں گے۔ مسلمانوں میں صرف وہابیوں کا عقیدہ ہے کہ “صرف خدا سے شفاعت مانگی جاسکتی ہے اور اگر کوئی شافعین سے شفاعت طلب کرے [خاص طور پر ان کی وفات کے بعد] تو اس کا یہ عمل شرک کا مصداق ہے۔ تاہم عام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ خدا نے شفاعت کا حق شافعین کے لئے قرار دیا ہے چنانچہ ان سے شفاعت کی درخواست کی جاسکتی ہے۔ البتہ اس کا عقیدہ یہ ہے کہ “شفاعت در اصل حق اللہ ہے اور اولیاء اللہ کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں کرتے۔

عقیدہ شفاعت کو شیعیان اہل بیت(ع) کے ہاں خاص اور وسیع تر مقام حاصل ہے۔

تعریف

لغوی معنی

لفظ شفاعت مادہ “شَفع” سے مشتق ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو کسی چیز سے ملحق کرنے اور منضمّ کرنے کے ہیں۔[1] نیز “شفیع” کو اس لئے شفیع کہتے ہیں کہ وہ کسی اور شخص کو اپنے آپ سے ملحق کرکے [اور ملا کر] اس کی قلتوں اور کمیوں کی تلافی کرتا اور اس کی نجات کے اسباب فراہم کرتا ہے۔

اصطلاحی معنی

شفاعت’ اصطلاح میں ایک مخلوق کا ـ خواہ دنیا میں خواہ قیامت میں، خیر پہنچانے اور شرّ دفع کرنے کی غرض سے ـ خدا اور دوسری مخلوق کے درمیان واسطہ بننا۔ شفاعت کے معنی مجرم میں تغیر و تبدیلی معرض وجود میں لانے، کے ہیں حتی کہ سزا اور کیفر کا استحقاق سلب ہوجائے اور اس کو سزا کے دائرے سے خارج کیا جاسکے۔ جس طرح کہ توبہ گنہگار شخص کو کیفر و سزا کے دائرے سے خارج کردیتی پے اور اس کو عفو خداوندی کا مستحق بنا دیتی ہے؛ امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

“لا شَفيعَ أنْجَحُ مِنَ التّوبَةِ
ترجمہ: کوئی شفیع توبہ سے زیادہ کامیاب نہيں ہے”۔[2]

شفاعت اور توسل کے درمیان بہت قریبی تعلق ہے: توسل ایک فرد کا کام ہے جو معصوم (علیہ السلام) کی پناہ میں چلا جاتا ہے اور اس سے شفاعت کی درخواست کرتا ہے اور شفاعت معصوم(ع) کا کام ہے جو اللہ سے التجا کرتا ہے کہ شفاعت مانگنے والے کو بخش دے۔

عقیدہ شفاعت ـ سابقہ آسمانی ادیان ـ [یعنی] یہودیت اور عیسائیت میں پایا جاتا ہے۔[3]

شفاعت قرآن کی روشنی میں

رسول اکرم(ص) کی شفاعت قرآن کریم میں مکمل طور پر تائید شدہ ہے اور کوئی بھی مسلمان اصولی طور پر شفاعت کے سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں کرتا اور صرف اس کے احکام اور مقام و منزلت پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آیت شریفہه میں ارشاد ہوتا ہے:

وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَاماً مَّحْمُوداً ۔

ترجمہ: اور رات کے کچھ حصہ میں آپ نماز تہجد پڑھئے۔ جو آپ کے لئے ایک اضافہ ہے نزدیک ہے کہ آپ کو آپ کا پروردگار مقام محمود (اور قابل تعریف موقف) پر کھڑا کرے۔[4]
تمام شیعہ اور سنی مفسرین متفق القول ہیں[5] کہ اس آیت میں مقام محمود سے مراد شفاعت ہی ہے جس کا وعدہ خداوند متعال نے اپنے پیغمبر(ص) کو دیا ہے۔

قرآن مجید میں شفاعت کے سلسلے میں نازل ہونے والی آیات کی چند قسمیں ہیں؛ ان میں سے بعض قیامت کے روز شفاعت کی مکمل نفی کرتی ہیں:

“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لاَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلاَ خُلَّةٌ وَلاَ شَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ”۔

ترجمہ: اے ایمان لانے والو جو کچھ ہم نے تم کو روزی دی ہے اس میں سے خیرات کرو اس سے پہلے کہ وہ د ن آئے جس میں نہ کوئی بکری ہو گی نہ دوستی اور نہ سعی سفارش (شفاعت) اور کافر لوگ خود ہی ظلم کرنے والے ہیں۔[6]

“وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ”۔۔[7]

ترجمہ: اور اس دن سے بچنے کا سامان کرو جب نہ کوئی دوسرے کو کوئی فائدہ پہنچاسکے گا اور نہ کسی کی شفاعت (یا سفارش) قبول ہوگی اور نہ کسی کا کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ انہیں کوئی مدد مل سکے گی۔

بعض دوسری آیات شفاعت کو صرف اللہ کی ذات کے لئے مختص و محدود سمجھتی ہیں:

“اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ”۔

ترجمہ:اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر عرش پر برقرار ہوا اور اسے چھوڑ کر تمہارا نہ کوئی مالک ہے اور نہ کوئی شفاعت کرنے والا تو کیا تم نصیحت قبول نہ کرو گے؟[8]

“قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعاً لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ”۔

ترجمہ: کہئے کہ شفاعت پوری کی پوری اللہ کے قبضے میں ہے اسی کے لیے مخصوص ہے سلطنت آسمانوں اور زمین کی اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔[9]

بعض دیگر آیات شفاعت کو فرمان پروردگار سے مشروط قرار دیتی ہیں:

“مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَاء”۔

ترجمہ:اللہ!نہیں کوئی خدا سوا اس کے جو زندہ ہے، بندوبست کرنے والا، اس پر نہ غنودگی غالب ہوتی ہے اور نہ نیند۔ اس کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ کون ہے وہ جو بغیر اس کی اجازت کے اس یہاں شفاعت کرے؟وہ جانتا ہے اسے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے ذرا پر بھی حاوی نہیں ہیں مگر وہ جتنا چاہے۔ [10]

“وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ”۔

اور اس کے یہاں شفاعت فائدہ نہیں دیتی مگر اس کی جسے وہ اجازت دے، یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے اضطراب دور کر دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ کیا کہا تھا تمہارے پروردگار نے؟ وہ کہیں گے کہ اس نے حق کہا تھا اور وہ اونچا ہے، بہت بڑا۔[11]

“يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَٰى وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ”۔
ترجمہ: اور وہ شفاعت نہیں کرتے مگر اس کے لئے جس سے وہ راضی و خوشنود ہو [اور اس کے حق میں ہونے والی شفاعت کو پسند کرے] اور وہ اس کے خوف سے فکرمند رہتے ہیں۔۔[12] کچھ آیات شفاعت کی نفی کرتی ہیں۔

تمام آیات شفاعت کا جائزہ لے جو نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیات کریمہ شفاعت کی ایک قسم کی تائید کرتی ہیں اور ایک خاص قسم کی شفاعت کو باطل سمجھتی ہیں اور ان کی نفی کرتی ہیں۔ شفاعت کی نفی کرنے والی آیات سے مراد یہ ہے کہ کوئی بھی اللہ کی ذات سے بےنیاز ہوکر مستقل طور پر شفاعت کا حق نہیں رکھتا اور شفاعت کی تائید کرنے والی آیات سے مراد یہ ہے کہ شفاعت اپنی ذات کی حد تک صرف اور صرف اللہ کے لئے ہے اور غیر اللہ کی شفاعت اللہ کے اذن اور اس کی تملیک سے مشروط ہے۔

وَلا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ عَنْدَهُ إِلاّ لِمَنْ أَذِنَ لَهُ”۔
ترجمہ: اور اس کے یہاں شفاعت فائدہ نہیں دیتی مگر اس کی جسے وہ اجازت دے۔[13]

شفاعت احادیث کی روشنی میں

رسول اللہ(ص) اور اہل بیت علیہم السلام کی احادیث میں شفاعت کی حقیقت کو آشکارا مورد تائید قرار دیا گیا ہے اور اس کے مختلف زاویئے بھی بیان کئے گئے ہیں۔

  • رسول اللہ(ص) نے فرمایا: “اعطیتُ خمساً… واعطیتُ الشفاعة، فادّخرتُها لأُمّتی فهی لِمَن لا یشرک باللّه شیئاً۔
    ترجمہ: “خداوند متعال نے مجھے پانچ امتیازی خصوصیات عطا کی ہیں۔۔۔ جن میں سے ایک شفاعت ہے اور میں نے اسے اپنی امت کے لئے ذخیرہ کررکھا ہے، شفاعت ان لوگوں کے لئے ہے جو شرک کا ارتکاب نہ کریں”۔[14]
  • نیز رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں: “ثلاثة يشفعون إلى الله عز وجل فيشفعون: الأنبياء، ثم العلماء، ثم الشهداء”۔
    ترجمہ: تین قسم کے لوگ ہیں جو اللہ کی بارگاہ میں گنہگاروں کی شفاعت کرتے ہیں اور ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے: انبیاء، ان کے بعد علما(ئے دین) اور ان کے بعد شہداء۔[15]

شفاعت کے بارے میں وارد ہونے والی روایات کی تین قسمیں ہیں:

  1. وہ روایات جو کہتی ہیں کہ شفاعت کے بموجب گنہگار شخص دوزخ میں جانے سے معاف کیا جاتا ہے۔
  2. وہ جو کہتی ہیں کہ بعض گنہگار مدتوں تک جہنم میں رہتے ہیں اور اس کے بعد شفاعت کے مستحق قرار دیا جاتا ہے اور عذاب سے چھوٹ جاتا ہے۔
  3. وہ روایات جو کہتی ہیں کہ بعض لوگ پوری طرح شفاعت سے محروم رہتے ہیں اور انہیں ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنا پڑتا ہے۔

پس وہ روایات جو کہتی ہیں کہ “جو شخص ذرہ برابر ایمان رکھتا ہو وہ بالآخر شفاعت سے بہرہ ور ہوتا ہے”، ان روایات کے منافی نہیں ہیں جو کہتی ہیں کہ “جو کوئی نماز سے بےاعتنائی برتے، شفاعت اس کے شامل حال نہيں ہوتی” کیونکہ جو شخص صاحب ایمان ہو وہ بالآخر شفاعت کی نعمت سے بہرہ ور ہوجاتا لیکن ممکن ہے وہ طویل عرصے تک جہنم میں عذاب الہی میں مبتہا رہے حتی کہ اس کی بعض آلودگیاں زائل ہوجائیں اور شفاعت کا لائق ٹہرے۔

شفاعت عقل کی روشنی میں

نقلی دلائل [اور قرآن کریم اور حدیث) کی روشنی شفاعت ایک قطعی اور مسلمہ امر ہے اور اس کے احکام بھی واضح ہیں تاہم مسلم مفکرین نقلی دلائل کے علاوہ شفاعت کے لئے عقلی وضاحت بھی پیش کرتے ہیں؛ شہید مطہری لکھتے ہیں:

“اگر فرض کریں کہ شفاعت کے اثبات کے لئے دلیل نہ ہوتی تو عقل کے راستے ـ منجملہ برہانِ امکان اشرف [کہ اشرف و افضل وجود پست وجود کے لئے خدا کی فیاضی کا وسیلہ ہیں] اور عالم وجود کے نظام کی روشنی میں ـ اس کا قائل ہونا پڑے گا۔

انسان جب خدا کی مغفرت کے وجود کا قائل ہوجاتا ہے تو مستحکم عقلی اصول اس کو مجبور کرتے ہيں کہ اس حقیقت کا قائل ہوجائے کہ مغفرت کو ایک عقل کلی یا نفس کلی یا اس نفس و عقل سے جاری ہونا چاہئے جو مرتبۂ ولایت کلیۂ الہیہ کا مالک ہو، اور یہ ممکن نہيں ہے کہ اللہ کا فیض قانون و حساب و کتاب کے بغیر موجودات تک پہنچ سکے۔[16]

عقلی رائے کے مطابق، شفاعت “عالم تکوین” میں بھی جاری ہے اور اسباب و مسببات کے نظام کا لازمہ ہے۔ [اور عالم تکوین میں بھی اشرف موجودات پست موجودات کے فیضِ وجود کا ذریعہ ہیں]۔

شفاعت کی عقلی تشریح دو امور پر مبنی ہے:[17]

  1. خدا کی رحمت عامہ:
    اللہ کی رحمت عام ہے اور تمام مخلوقات کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔ اور اگر کوئی مخلوق رحمت الہیہ کا کمتر حصہ پاسکی ہو تو اس کا سبب اپنی ظرفیت و قابلیت (اہلیت و استعداد) کے نقائص اور خامیاں ہیں۔ بنیادی طور پر کوئی بھی موجود تنہائی میں اور رحمت الہیہ کے بغیر سعادت و کامیابی تک نہیں پہنچ سکتا اور عذاب سے نجات نہيں پاسکے گا۔
  2. کائنات کی نظام یافتگی:
    عقل کی رو سے کائنات پر ایک نظام اور نظم و ضبط پر استوار ہے۔ نظم و ضبط [یا مراتب و مدارج] کا یہ سلسلہ در حقیقت اسباب مسببات یا وہی علت و معلول (cause & effect) کا سلسلہ ہے۔ [مثال کے طور پر] انسان کی مادی فطری اسباب کے حلقہ وار کردار کے نتیجے میں اس تک پہنچتی ہیں اور یہ سارے اسباب اذن پروردگار سے اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں۔

اللہ کی رحمت و مغفرت بھی ـ اگرچہ عام اور ہمہ گیر ہے لیکن ـ اس قاعدے سے مستثنٰی نہیں ہے اور محال ہے کہ بغیر کسی واسطے کے انجام پائے اور یہ مسئلہ اللہ کی تمام رحمتوں پر صادق آتا ہے۔ مثلا وحی ـ جو اللہ کی رحمت و ہدایت ہے ـ کبھی بھی تمام انسانوں پر نازل نہیں ہوتی بلکہ بعض خاص افراد پر نازل ہوتی ہے اور دوسرے ان ہی خاص افراد کے واسطے سے اس رحمت الہیہ سے فیضیاب ہوتے ہیں؛ کیونکہ انبیاء کے سوا کسی میں بھی یہ اہلیت نہیں ہے کہ وہ اللہ کے براہ راست خطاب کا اہل ٹہرے؛ اور یہی عالم وجود کا سلسلۂ مراتب ہے۔ یا مثال کے طور رپ جب نماز استسقا بجا لائی جاتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ اب و ہوا میں کسی قسم کی تبدیلی کے بغیر بارش برسے، بلکہ خداوند متعال نماز کے نتیجے میں بارش کے اسباب فراہم کرتا ہے یعنی بارش سے قبل بادلوں کو گھنا اور بوجھل و بارآور بناتا یا ہوائیں چلاتا تا ہے:

اللَّهُ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَاباً فَيَبْسُطُهُ فِي السَّمَاء كَيْفَ يَشَاء وَيَجْعَلُهُ كِسَفاً فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ”۔
ترجمہ: اور وہ وہ ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادل کو لاتی ہیں، اس کے بعد اسے آسمان میں جس طرح چاہتا ہے پھیلا دیتا ہے اور اسے مختلف ٹکڑوں کی شکل میں لاتا ہے تو بڑی بڑی بوندوں کے مینہ کو دیکھو گے کہ وہ اس کے اندر سے نکلتا ہے۔[18]

جس طرح کہ نماز استسقاء بارش برسنے کے اسباب فراہم ہونے کا سبب بنتی ہے، شفاعت اور توبہ اور ان جیسے اعمال گنہگار کی حالت تبدیل ہونے کا سبب بنتے ہیں حتی کہ اس کی یہ حالت عفو کی قبولیت یا گناہوں کی تخفیف یا اس کا درجہ بلند ہونے کے نصاب تک پہنچ جاتی ہے۔[19]

اس نظام میں شفاعت کا مقام یہ ہے کہ وہ انسان کی قابلیت اور اہلیت کو بلند کرتی ہے تا کہ وہ رحمت الہیہ کا بیشتر حصہ وصول کرنے کے قابل ہوجائے۔ کیونکہ عقل کا تقاضا ہے کہ اگر کوئی موجود کمال سے محروم ہو تو اس کو یہ کمال ایسے مبدء سے حاصل کرنا چاہئے کہ عیناً کمال ہو اور اگر وہ کمال یابی یا حصول کمال کے تمام امکانات سے محروم ہو تو اس کو اس مبدء کمال سے مدد لینی چاہئے تاکہ اپنی اہلیت کو ضرورت کی حد تک بہتر کردے۔ یہ چیز نہ صرف کسی قانون کی پامالی کا سبب نہیں بنتی بلکہ عقلی قوانین کے عین مطابق ہے۔

چنانچہ ایک شخص کے حق میں شفاعت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ـ اس کے باوجود کہ وہ ضروری صلاحیتوں سے محروم ہے ـ شفاعت اس کے حق میں قبول بھی ہوجائے؛ تشریعی شفاعت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ سزاؤں کا اسلامی قانون باطل کردیا جائے یا کسی سزا کے مستحق مجرم شخص کے اس قانون پر عملدرآمد نہ کیا جائے بلکہ شفاعت کے معنی یہ ہیںکہ مجرم کی حالت کو بدل دیا جائے اور سزا کا استحقاق اس سے سلب کیا جائے اور وہ عفوِ خداوندی کا اہل ہوجائے اور اس کو سزاؤں کے قانون کی حدود سے خارج کردے؛ جس طرح کہ توبہ انسان کو عذاب کے استحقاق سے خارج کردیتی ہے اور عفو الہی کا اہل بنا دیتی ہے؛ اسی بنا پر روایات (و احادیث) میں منوقل ہے کہ “توبہ” بہترین شفیع ہے۔[20]

بالفاظ دیگر حقیقی شفاعت کور باطل اور غلط شفاعت کا فرق یہ ہے کہ حقیقی شفاعت اللہ سے شروع ہوتی ہے اور گنہگار پر ختم ہوتی ہے اور باطل شفاعت [سفارش] میں یہ سلسلہ گنہگار سے شروع ہوتا ہے۔ حقیقی شفاعت میں مشفوع عندہ ینی اللہ خود وسیلہ یعنی شفیع مقرر فرماتا ہے اور باطل شفاعت میں مشفوع لہ یعنی گنہگار، شفیع کو متحرک کردیتا ہے۔ باطل شفاعت میں ـ جس کی مثالیں دنیا میں بہت ہیں ـ شفیع “وسیلہ” ہونے کی صفت مجرم کی جانب سے حاصل کرتا ہے، کیونکہ اسی نے اس وسیلے کو متحرک کرکے شفاعت [یا سفارش] پر آمادہ کیا ہے۔ وہی ہے جس نے وسیلے کو وسیلہ قرار دیا [اور اس کو وسیلے کی حیثیپ دی] ہے جبکہ حقیقی اور درست شفاعتوں میں ـ جن کو انبیاء اور اولیاء اور مقربین درگاہ حق سے نسبت دینا صحیح ہے ـ شفیع کو اللہ تعالی وسیلہ قرار دیتا ہے اور خدا ہی ہے جس نے وسیلے کو وسیلہ قرار دیا ہے۔[21]

شفاعت کی قسمیں

تکوینی اور تشریعی شفاعت

تکوینی شفاعت کے معنی یہ ہیں کہ ہر اثر (تأثیر) اور ہر فعل کا سرچشمہ خداوند متعال کی ذات ہے اور دیگر تمام اسباب و عوامل واسطے ہیں جو اللہ کے اذن اس کی رحمت و فیض کو اپنے ماتحت مراتب تک پہنچا دیتے ہیں۔ یوں دنیا بھر کی تمام علتیں (Causes) اپنے معلولات (Effects) کی شفیع ہیں کیونکہ علتیں (یا اسباب) اللہ کا فیض اور اس کی رحمت کو اپنے بعد کے مراتب کی طرف منتقل کرتی ہیں۔ مثلاً آفتاب دانۂ گندم کا شفیع ہے تا کہ اس کی نشوونما کو ممکن بنائے۔

قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:

لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ”۔
ترجمہ: اس کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ کون ہے وہ جو بغیر اس کی اجازت کے اس کے یہاں شفاعت کرے؟[22]

تشریعی شفاعت کے معنی یہ ہیں کہ خداوند متعال نے رحمت و فیض کی رو سے کچھ قوانین انسان کے لئے نازل فرمائے ہیں جو اس کی ہدایت کا سبب بنتے ہیں اور درحقیقت جنت میں داخلے کے لئے اس کے شفیع بن جاتے ہیں۔ تمام دینی (یعنی شرعی اور اخلاقی) احکام اسی زمرے میں آتے ہیں۔

علامہ سید محمد حسین طباطبائی کا کہنا ہے کہ شفاعت کے معنی “مسبَّبات میں اسباب کی تاثیر” کے ہیں اور شافعین کی دو قسمیں ہیں “تکوینی” اور “تشریعی”؛ تشریعی شافعین میں “توبہ”، “ایمان”، “عمل صالح”، “قرآن”، “انبیاء” ، “ملائکہ” اور “مؤمنین” شامل ہیں۔ علامہ طباطبائی اس کے بعد آن آیات کا حوالہ دیتے ہیں جو گناہوں کی بخشش میں مذکورہ اعمال یا شخصیات کی تاثیر بیان کرتی ہیں؛ اگرچہ ان آیات میں لفظ “شفاعت” مذکور نہیں ہے:[23]۔[24]۔[25]۔[26]۔[27]۔[28]۔[29]۔[30]

صحیح اور باطل شفاعت

شفاعت باطل:
شفاعت باطل وہ ہے کہ مجرم قانون کی خلاف ورزی کرے اور غیر قانونی و ناجائز راستے سے قانون ساز کے ارادے اور قانون کے ہدف و مقصد پر غلبہ پائے۔ اس طرح کی شفاعت (یعنی سفارش) دنیا میں ظلم کے زمرے میں آتی ہے اور آخرت میں ناممکن ہے۔[31] جو اعتراضات شفاعت پر وارد ہیں وہ درحقیقت اسی قسم کی شفاعت سے تعلق رکھتے ہیں اور یہی وہ قسم ہے جس کی قرآن مجید میں بھی نفی ہوئی ہے۔

باطل شفاعت
باطل شفاعت وہ ہے جس کا سرچشمہ عقیدہ تفویض ہے جو ایک غلط اور باطل عقیدہ ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ “خداوند متعال نے خلقت کے بعد اس عالم کا انتظام و بندوبست دوسروں کے سپرد کیا ہے اور وہ خود مزید کوئی کردار ادا نہیں کرتا؛ اور اسی بنا پر دوسرے [جن کو انتظام کائنات سونپ دیا گیا ہے] مستقل طور اور خدا سے بالکل الگ، شفاعت کرسکتے ہیں اور کوئی شفیعوں کا اعتماد حاصل کرسکے تو اس کو مزید خدا کی رضا کمانے کی ضرورت نہيں ہے!

صحیح شفاعت:
صحیح اور قرآنی شفاعت ـ جو شیعہ عقیدے کے عین مطابق ہے اور رسول اللہ(ص) اور ائمہ اطہار(ع) نے بھی اس کی تائید فرمائی ہے ـ وہ ہے “جس کا تعلق صرف خدا سے ہے” اور کوئی بھی اس کے اذن کے بغیر شفاعت نہیں کرسکتا۔ انبیاء(ع) اور ائمہ اطہار(ع) کی شفاعت کا مطلب بھی ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ اس سلسلے میں مستقل کردار کے مالک ہیں یا ان کی شفاعت کے لئے ان اعمال اور لوازم کے سوا دوسرے وسائل و وسائط کی ضرورت ہے جن کا حکم خداوند متعال نے دیا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس، وہ صرف ان لوگوں کی شفاعت کرتے ہیں جن سے خداوند متعال راضی و خوشنود ہو۔

“وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَٰى وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ”.
ترجمہ: اور وہ شفاعت نہیں کرتے مگر اس کے لئے جس سے وہ راضی و خوشنود ہو [اور اس کے حق میں ہونے والی شفاعت کو پسند کرے] اور وہ اس کے خوف سے فکرمند رہتے ہیں۔[32]

شفاعت برائے مغفرت و شفاعت برای بلندی درجات

کبھی شفاعت درجات کی بلندی کے لئے ہوتی ہے اور شفاعت کی یہ قسم تمام اسلامی مذاہب کے نزدیک مقبول اور تسلیم شدہ ہے؛ اور کبھی مغفرت اور گناہوں کی بخشش کے لئے ہوتی ہے اور اس قسم کی شفاعت کو معتزلی اور خوارج قبول نہيں کرتے۔ یہ دو فرقے اپنے عقائد میں گناہ کبیرہ کے مرتکبین کے لئے نیز ان کے لئے جو جہنم میں داخل ہوچکے ہیں، شفاعت قابل قبول نہيں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ “دوزخ میں داخل ہونے والے کبھی اس سے خارج نہيں ہوتے”۔[33]

شفاعت کا تعلق کبھی اخروی امور سے ہوتا ہے جیسے قیامت کے دن رسول اللہ(ص) کی طرف سے گنہگاروں کی شفاعت، اور کبھی اس کا تعلق دنیاوی امور سے ہوتا ہے؛ اور اگر کوئی کام نیک ہو اس میں شفاعت پسندیدہ ہے اور اور گناہ کا کام ہو تو اس میں شفاعت نہ صرف پسندیدہ نہیں ہے بلکہ گناہ کا ایک حصہ بھی شفاعت کرنے والے شخ پر عائد ہوتا ہے: ارشاد ہوتا ہے:

“مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا”۔
ترجمہ: جو اچھی شفاعت (نیکی کی ترغیب اور عمل صالح میں مدد) کرے گا اسے، اس میں سے حصہ ملے گا اور جو بری شفاعت (اور برے کاموں کی ترغیب اور عمل بد میں مدد) کرے گا، اس کا اس میں حصہ ہوگا۔[34]

شفاعت کن لوگوں کی ہوگی

شفاعت درحقیقت اللہ کی رحمت و مغفرت ہی ہے اور اللہ کی رحمت کسی سے بھی روکی نہیں جاتی تاہم بعض لوگ عدم اہلیت اور عدم قابلیت کے باعث رحمت وصول کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں چنانچہ شفاعت میں ـ شفاعت پانے والے شخص کو ـ شفاعت پانے کی اہلیت ہونی کی ضرورت ہے۔

قرآن اور روایات نے شفاعت کے تربیتی پہلو کو مد نظر رکھ کر اور گنہگاروں کے جری و گستاخ ہونے کا سد باب کرنے کی خاطر، شفاعت پانے والے افراد کی تمام شرائط و خصوصیات بیان نہیں کی ہیں لیکن بعض ان کی بعض اہم خصوصیات کی یادآوری ضرور کرائی ہے۔

شفاعت کی اہم ترین شرط اللہ تعالی کی رضآ و خوشنودی ہے:

“وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَٰى”.
ترجمہ: اور وہ شفاعت نہیں کرتے مگر اس کے لئے جس سے وہ راضی و خوشنود ہو [اور اس کے حق میں ہونے والی شفاعت کو پسند کرے]۔[35]

ظاہر ہے کہ جو شخص گناہ کی وجہ سے شفاعتِ مغفرت کا محتاج ہے اس کا عمل اللہ کی خوشنودی کا سبب نہیں ہے چنانچہ اللہ کے راضی ہونے کا مقصد یہ ہے کہ خداوند اس کے دین و عقیدے سے راضی ہو۔

بالفاظ دیگر شفاعت پانے والا شخص اگرچہ گنہگار ہے اور ممکن ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہے لیکن اس کو خدا اور اولیائے دین سے اپنا رابطہ کسی صورت میں بھی منقطع نہیں کرنا چاہئے۔

شفاعت کو درپیش رکاوٹیں

آیات قرآن کریم سے سمجھا جاتا ہے کہ بعض چيزی شفاعت سے بہرہ وری کی راہ میں رکاوٹ ہیں؛ چنانچہ بعض لوگ شفاعت سے کلی طور پر محروم ہیں[36] اور ان کے اعمال و خصوصیات ہی اس محرومی کا سبب ہیں۔
شفاعت سے محروم جماعتیں اور افراد:

چنانچہ کفر و شرک، ظلم، نماز سے بےاعتنائی، رسول اللہ(ص) اور آل رسول اللہ(ص) کی دشمنی اور نواصب کے زمرے مین شمار ہونا، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کی اولاد و ذریت کو ایذاء رسانی، امیرالمؤ‎منین(ع) اور ائمہ(ع) کی ولایت کا انکار، منافقت اور ترک نماز ایسے اعمال ہیں جو اپنے اپنانے والوں کو شفاعت سے محروم کردیتے ہیں۔

شافعین

شفاعت تکوینی جس کے معنی اسباب و مسببات کی اثر گذاری کے ہیں، پورے عالم میں جاری و ساری ہے اور عالم وجود کی تمام اشیاء میں رائج و موجود ہے۔ اسی بنا پر روایات مین افراد اور گروہوں کے علاوہ بعض مقامات کے لئے بھی حق شفاعت قرار دیا گیا ہے؛ اور مراد وہ اثر ہے جو یہ امور انسانوں کی ہدایت میں، مرتب کرتے ہیں۔ تشریعی شفاعت میں انسان کے شفعاء یا تو فرد کے اعمال صالح کے زمرے میں آتے ہیں یا پھر انبیاء(ع) اور اولیاء(ع) ہیں یا دیگر امور۔

علامہ طباطبائی کا قول

علامہ طباطبائی تفسیر المیزان[41] میں لکھتے ہیں:

دنیا کے شافعین
توبہ،[42] رسول خدا(ص) پر ایمان،[43] قرآن کریم،[44] ملائکہ،[45] مؤمنین[46] اور عمل صالح[47] دنیا کے شافعین میں شامل ہیں۔
جبکہ آخرت کے شافعین دو قسم کے ہیں: 1۔ وہ لوگ جو خداوند متعال کے ہاں مقام شفاعت پر فائز ہیں 2۔ وہ اعمال جو قیامت کے دن مجسم ہوکر افراد کی شفاعت کا سبب بنتے ہیں۔
وہ افراد جن کی شفاعت کو اللہ کی رضا اور پسندیدگی حاصل ہے”:
انبیاء(ع)،[48] بطور خاص حضرت رسول خدا(ص)،[49] علی(ع)،[50] فاطمہ(س)، [51] اور ان کے گیارہ معصوم فرزند،[52] قرآن،[53] فرشتے،[54] شہدا،[55] علماء،[56] اقرباء،[57] ہمسائے(پڑوسی)[58]شیعیانِ آل رسول(ص) اور صاحب ایمان افراد۔[59]
وہ اعمال جنہیں روایات میں شفعاء کے عنوان سے متعارف کرایا گیا ہے:
امانت داری،[60] روزہ،[61] حضرت رسول(ص) اور آل رسول(ص) پر درود و صلوات،[62] حضرت رسول خدا(ص) سے توسل کرنا۔[63]

شافع کے لئے شرطیں

قرآنی آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شفاعت کرنے والے کے لئے دو شرطوں پر پورا اترنا پڑتا ہے:

  1. شافع کے لئے اللہ کے ساتھ عہد و پیمان ہونا چاہئے:
    “لَا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَہْداً”.
    ترجمہ: انہیں شفاعت کا کوئی اختیار نہ ہو گا مگر جس کے لیے خدائے رحمن کی طرف سے عہد و پیمان [اور منصب شفاعت] حاصل ہو گیا ہو۔ [64]
  2. شافع کو حقیقت جان کر سچی گواہی دینا ہوگی:
    “وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِہِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَن شَہِدَ بِالْحَقِّ وَہُمْ يَعْلَمُونَ”۔
    ترجمہ: اور جنہیں وہ لوگ پکارتے ہیں اسے چھوڑ کر وہ شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے مگر وہ جو حقیقت کو جان کر، سچائی کے ساتھ گواہی دیتے ہیں۔ [65]

شفاعت کے اثرات

شفاعت کا مقصد گناہ کی ترغیب دلانا ہے نہ ہی گنہگار کو ہری جھنڈی دکھانا ہے؛ نیز یہ پسماندگی نہیں ہے اور دلالی، اڑھٹ (Brokerage) سے بھی مشابہت نہیں رکھتی بلکہ ایک اہم تربیتی مسئلہ ہے جس کے نتائج و ثمارات بہت اہم اور تعمیری ہیں جن میں سے بعض کی طرف یہاں اشارہ کیا جاتا ہے:

1۔ امید افزائی:

غالباً انسان پر ہوائے نفس کا غلبہ بڑے گناہوں کا سبب بنتا ہے جس کے نتیجے میں مایوسی اور ناامیدی اس پر غالب آتی ہے اور یہ ناامیدی اس کو مزید گناہوں کے بھنور میں دھکیل دیتی ہے اور اس کو مزید آلودہ کردیتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اولیاء اللہ کی شفاعت الہی کی امید ہے جو ایک تسدیدی عنصر (Deterrent Factor) کی حیثیت سے انسان کو نوید دیتی ہے کہ اگر وہ اپنے نفس کی اصلاح کرے تو ممکن ہے کہ نیک اور پاک شخصیات کی شفاعت سے اس کے سابقہ آلودگیوں کا ازالہ اور سابقہ گناہوں کی تلافی ہوجائے۔

2۔ اولیائے الہی کے ساتھ روحانی اتصال کی برقراری:

امر مسلّم ہے کہ جو شخص شفاعت کی امید رکھتا ہے اس کی کوشش رہتی ہے کہ یہ ربط و اتصال برقرار ہوجائے اور ایسے اعمال و افعال کو انجام دے جو اللہ اور اللہ کے ان نیک بندوں کی رضا و خوشنودی کا سبب ہوں؛ اس کی کوشش رہتی ہے کہ محبت اور دوستی کا پیوند کبھی منقطع نہ ہو۔ یہ محبت و اتصال زیادہ سے زیادہ نیک اعمال پر منتج ہوتا ہے۔

3ـ شفاعت کی شروط و خصوصیات حاصل کرنے کی کوشش:

جن لوگوں کو شفاعت کی امید ہوتی ہے انہیں اپنے ماضی کے اعمال پر نظر ثانی کرنا پڑتی ہے اور مستقبل کے بارے میں بہتر فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ کیونکہ شفاعت مناسب پس منظر اور انجام نہيں پاتی؛ اس لئے کہ شفاعت ایک قسم کا تفضل ہے جو ـ ایک طرف سے شفاعت پانے والے کی اہلیتوں کی خاطر اور دوسری طرف سے شفاعت کرنے والوں کی آبرو و احترام اور اعمال صالح کی بنا پر ـ حاصل ہوتا ہے۔[66]

وہابی اور شفاعت

اہل سنت کے تمام فرقے حتی وہابی شفاعت پر یقین رکھتے ہیں۔ وہابیوں کا [فکری و اعتقادی] پیشوا ابن تیمیہ کہتا ہے:

“احادیث الشفاعة کثیرة متواترة، منها فی الصحیحین احادیث متعددة، وفی السنن والمسانید ممّا یکثر عدده”۔[67]
شفاعت کی حدیثیں بہت زيادہ اور متواتر ہیں؛ ان حدیثوں میں سے بعض ـ جو متعدد ہیں ـ صحیحین (صحیح بخاری اور صحیح مسلم) میں منقول ہیں اور ان میں کثیر احادیث سنن اور مسانید میں موجود ہیں۔

ابن تیمیہ ہی کا کہنا ہے:
“وَلَهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ – فِی الْقِیامَةِ – ثَلَاثُ شَفَاعَاتٍ… أَمَّا الشَّفَاعَةُ الثَّالِثَةُ: فَیشَفَّعُ فِیمَنْ اسْتَحَقَّ النَّارَ وَهَذِهِ الشَّفَاعَةُ لَهُ وَلِسَائِرِ النَّبِیینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَغَیرِهِمْ فَیشَفَّعُ فِیمَنْ اسْتَحَقَّ النَّارَ أَنْ لَا یدْخُلَهَا وَیشَفَّعَ فِیمَنْ دَخَلَهَا أَنْ یخْرُجَ مِنْهَا”۔
ترجمہ: پیغمبر اکرم(ص) کے لئے روز قیامت تین شفاعتیں ہیں… تیسری شفاعت ان لوگوں کے حق میں ہوگی جو دوزخ کے مستحق ہیں۔ آنحضرت(ص) اور دوسرے انبیاء(ع) اور صدیقین اور دیگر کی شفاعت اس لئے ہے کہ جو افراد دوزخ کے مستحق ہیں وہ دوزخ میں داخل نہ ہوں؛ نیز ان کی جانب سے ان افراد کی شفاعت ہوگی جو دوزخ میں داخل ہوچکے ہیں [تاکہ وہ جہنم سے نجات پائیں]۔[68]

وہ مانتے ہیں کہ انبیاء اور صالحین دنیا میں اور اپنے ایام حیات میں نیز روز قیامت شفاعت کریں گے؛ عبدالرحمن بن حسن بن عبدالوہاب (متوفٰی 1285ہجری) کہتا ہے:
“وأمّا الاستشفاع بالرسول فی حیاته فإنّما هو بدعائه (ص) و دعائه مستجاب وأمّا بعد وفاته فلا یجوز الاستشفاع به”۔؛
ترجمہ: رسول(ص) سے طلب شفاعت، آپ کے ایام حیات میں، آپ کی دعا کے واسطے ہے اور آپ کی دعا مقبول و مستجاب ہے؛ لیکن آپ کی وفات کے بعد آپ سے طلب شفاعت جائز نہیں ہے!!۔[69]

پس اختلاف کہاں ہے؟
وہابیوں اور مسلم مذاہب و مکاتب کے درمیان نزاع و اختلاف عالم برزخ میں اولیا‏‏ئے الہی سے طلب شفاعت کے موضوع پر ہے؛ اور چونکہ وہابی برزخی حیات کو نہیں مانتے لہذا [دنیا سے رخصت ہونے والی شخصیات کی طرف سے] اس قسم کی شفاعت کو جائز نہيں سمجھتے بلکہ اس کو شرک قرار دیتے ہیں۔

عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب کہتا ہے:
ترجمہ: ہم شفاعت کو اپنے اپنے پیغمبر(ص) کے لئے بروز قیامت ثابت کرتے ہیں، جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے۔ نیز ہم اس کو روایات و احادیث کی روشنی میں دوسرے انبیاء(ع)، ملائکہ اور اولیاء و اطفال کے لئے ثابت کرتے ہیں، لیکن ہم شفاعت کو اس کے مالک (خدا) ۔۔۔ سے مانگتے ہیں … شفاعت کو خدا سے طلب کرنا چاہئے نہ کہ شفیعوں سے۔ یعنی انسان یہ نہ کہے کہ “اے رسول خدا(ص)! اے ولی خدا(ص)! ہم آپ سے شفاعت یا اس کے مشابہ کوئی چیز مانگتے ہیں … اور اس قسم کی عبارات بروئے کار نہ لائے جن پر خدا کے سوا کوئی بھی قدرت نہیں رکھتا۔ شفیع سے شفاعت مانگنا ـ ایسے حال میں کہ وہ عالم برزخ میں ہو ـ شرک کی اقسام میں سے ہے۔[70]

اہم ترین وہابی اعتراضات

شفاعت پر وہابیوں کے اہم ترین اعتراضات، ان کی پیش کردہ دلیلیں اور ان کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں:

غیر خدا سے شفاعت مانگنا شرک ہے

شفیع سے شفاعت طلب کرنا غیر اللہ سے دعا کرنے کے مترادف ہے اور یہ “شرک فی العبادہ” ہے۔ کیونکہ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:

” فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَداً”۔۔
ترجمہ: پس تم اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت بلاؤ [مت پکارو یا کسی اور سے دعا مت کرو)۔ [71]

جواب:
توحید اور شرک کی نسبت غلط وہابی تصورات

اس اعتراض کی بنیاد توحید کے معنی اور شرک کے مفہوم کے بارے میں وہابیوں کے غلط تصورات ہیں۔ مفہوم توحید اور شرک کے صحیح مفہوم کا تجزیہ کرکے وضوح کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے کہ غیر اللہ کو آواز دینا اور پکارنا بذات خود شرک کا لازمہ [یا مصداق] نہیں ہے اور حتی حرام بھی نہین ہے کیونکہ شرک اس موقع پر لازم آتا ہے کہ کسی چیز کی الوہیت و ربوبیت پیش نظر ہو اور کسی شخص یا چیز کو خدا سے مستقل دیکھا جائے۔ اور شیعیان آل رسول(ص) سوائے ذات باری تعالی کے، ہرگز اپنے ائمہ(ع) یا کسی بھی دوسرے موجود کے لئے اس طرح کی خصوصیات کے قائل نہيں ہیں۔

بے شک مسلمانوں کو پکارنا اور ان سے مدد کی درخواست کرنا ایک مُجاز اور مشروع امر ہے اور لازم ہے کہ مسلمان امکان کی حد تک مدد مانگنے والے کی مدد کریں؛ اور دوسری طرف سے ہرگاہ ایک فرد کے توسط سے ایک عمل کی انجام دہی مُجاز، جائز اور مشروع ہو یقینا اس امر کی درخواست بھی جائز و مشروع اور مُجاز ہوگی۔ ہرگاہ رسول اکرم(ص) اور دوسرے شفیعوں کی شفاعت روز قیامت حق اور مُجاز ہو اس مجاز امر کی درخواست بھی مُجاز و مشروع ہوگی۔

مسلمانان عالم متفقہ طور پر دوسروں سے دعاء کی درخواست کو جائز سمجھتے ہیں، مثلا ہم کسی سے بھی کہہ سکتے ہیں کہ “أُُدعُ لي”، (میرے لئے دعا کرنا)، چنانچہ خدا کی طرف شفاعت کا اذن رکھنے والے شفیعوں سے شفاعت کی درخواست کرنا بھی مُجاز ہے جس کے لئے درخواست کرتے وقت کہنا پڑے گا: “إشْفَع لي عِندَ اللهِ” (درگاہ خداوندی میں میری شفاعت کرنا)۔

خداوند متعال گناہوں کی مغفرت و بخشش کی خاطر لوگوں کو دعوت دیتا ہے کہ رسول خدا(ص) سے درخواست کریں کہ ان کے لئے طلب مغفرت کریں؛ ارشاد فرماتا ہے:
“اور جب انہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی تھی، اگر آپ کے پاس آتے اور پھر اللہ سے بخشش طلب کرتے اور پیغمبر ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے تو اللہ کو پاتے بڑا توبہ قبول کرنے والا بڑا مہربان۔

“وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّاباً رَّحِيماً”۔ [72]

بعض لوگوں نے اس آیت کی یوں توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے: “انھوں نے رسول اکرم(ص) کی ذات بابرکات کو اذیتیں پہنچائی تھیں اور ان پر آپ سے معافی مانگنا اور معذرت کرنا لازم تھا!”؛ لیکن اگر اسی آیت میں تھوڑا سے غور کیا جائے تو اس بات کی نادرستی کا پتہ چل جاتا ہے: “اگر رسول اکرم(ص) کو اپنے حق سے گذرنا اور اذیت پہنچانے والوں سے درگذر کرنے کا مسئلہ درپیش ہوتا تو آیت میں فرمایا جانا چاہئے تھا کہ “وَغَفَرَ لَهُمُ الرَّسولُ” (اور رسول اکرم(ص) نے انہیں بخش دیا) حالانکہ آیت میں ارشاد رب متعال ہے:

وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسولُ۔
ترجمہ: اور پیغمبر(ص) نے ان کے لیے طلب مغفرت کی۔

اور پھر وہابیوں نے جس آیت کریمہ سے استناد کیا ہے اس میں حکم یہ ہے کہ “خدا کے ساتھ کسی کو نہ پکارو”، اور اس میں معیت سے نہی کا عنصر ہے یعنی کسی کو اللہ کے برابر اور ہم رتبہ اور ہم شان اور متوازی وجود مت سمجھو۔ اس آیت کا خطاب ان مشرکین سے ہے جو واسطوں کے لئے علیحدہ اور مستقل شان و منزلت کے قائل تھے۔ ادھر اگر غیر اللہ سے درخواست شرک ہے تو افراد [شافعین] کی حیات و ممات میں کوئی فرق نہيں ہونا چاہئے اور بوقت حیات بھی رسول خدا(ص) اور دوسروں کو پکارا جائے [اور اگر پکارا جائے تو شرک کے زمرے میں آئے]۔

اہل سنت کی صحیح احادیث میں منقول ہے: ترمذی نے انس بن مالک سے روایت کی ہے:
…عن أنس بن مالك قال: سألت النبي صلى الله عليه وسلم أن يشفع لي يوم القيامة، فقال “أنا فاعل”. قلت يا رسول الله فأين أطلبك ؟ قال “أطلبني أول ما تطلبني على الصراط”، قلت فأن لم ألقك على الصراط، قال “فأطلبني عند الميزان”، قلت فإن لم ألقك عند الميزان؟ قال “فأطلبني عند الحوض”…۔
“ترجمہ: … انس بن مالک کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ(ص) سے التجا کی کہ قیامت کے دن میری شفاعت کریں تو آپ(ص) نے فرمایا: “میں شفاعت کروں گا”، میں نے عرض کیا: میں آپ کو کہاں تلاش کروں؟ فرمایا: مجھے صراط کے اوپر تلاش کرو، میں نے عرض کیا “اگر آپ صراط پر نہ ملے تو!”، فرمایا: تو مجھے میزان کے پاس تلاش کرو”۔ میں نے عرض کیا کہ “اگر آپ میزان کے پاس نہ ملے تو!”، فرمایا: “تو مجھے حوض کے پاس تلاش کرو…”۔[73]

شفاعت صرف اللہ کے لئے مختص ہے

قرآن کریم نے شفاعت کو خدا کا حقّ خاص [اور امتیازی خصوصیت] قرار دیا ہے:

قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعاً۔
کہئے کہ شفاعت پوری کی پوری اللہ کے اختیار میں ہے۔[74]
چنانچہ شفاعت کی درخواست صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات سے ہونی چاہئے۔

جواب:
شفاعت ـ اس لئے کہ عالم وجود میں تاثیر کے زمرے میں آتی ہے، خدا کی ربوبیت کے مظاہر اور جلوؤں میں سے ایک ہے چنانچہ شفاعت اس لحاظ سے خداوند متعال کے لئے مختص ہے لیکن یہ حقیقت ہرگز انبیاء کے لئے حق شفاعت کے قائل ہونے کے منافی نہیں ہے کیونکہ ان کی شفاعت مستقل نہیں ہے بلکہ خدا کے اذن و مشیت سے مشروط ہے؛ جیسا کہ دوسرے امور و معاملات میں بھی یہی قاعدہ جاری و ساری ہے۔ خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

أَنَّ الْقُوَّةَ لِلّهِ جَمِيعا۔
ترجمہ: تمام قوتیں بس اللہ کے لیے ہیں۔[75]

اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ خداوند متعال عالم وجود کی تمام تر قوتوں اور طاقتوں کا مالک ہے اور باقی موجودات اللہ کی مشیت و اجازت سے اس حد تک صاحب قوت ہوجاتے ہیں جس حد تک کہ خداوند متعال نے تعین فرماتا ہے؛ اور جب خداوند متعال ایک مخلوق کو قوت و طاقت عطا کرے، اس کے بندے بھی اس مخلوق سے مدد کی درخواست کرسکتے ہیں۔ ارشاد الہی ہے:

“لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعاً”۔
چنانچہ اگر اللہ تعالی مصلحت جانے اور کسی مخلوق کو شفاعت کرنے کا اذن دے اس مخلوق سے شفاعت کی درخواست کی جاسکتی ہے کہ وہ اللہ کے دیئے ہوئے اس اذن سے اس شخص کے حق میں فائدہ اٹھائے۔

مشرکین کے عمل سے تشابہ

خداوند متعال نے قرآن کریم میں عصر رسالت کے مشرکین کو اس لئے کافر قرار دیا کہ وہ غیراللہ سے شفاعت طلب کرتے تھے:

“وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـؤُلاء شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللّهِ”۔
ترجمہ: وہ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں اور نہ انہیں نفع پہنچا سکتی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے یہاں ہماری شفاعت کرنے والے ہیں۔[76]

جواب:
اس میں شک نہیں ہے کہ عصر رسالت کے مشرکین اپنے بتوں اور معبودوں کے لئے شفاعت کے قائل تھے؛ تاہم اس آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ وہ ان بتوں کی پوجا اور عبادت بھی کرتے تھے اور ان کے لئے مقام شفاعت کے بھی قائل تھے [اور پھر وہ بتوں سے شفاعت مانگتے تھے چنانچہ بتوں سے شفاعت مانگنا اور ان کی پرستش کرنا دونوں قابل مذمت ہیں [اور اگر شفاعت کا عقیدہ بندگی اور عبودیت کے ہمراہ ہو تو یہ شرک ہے]۔

مشرکین بتوں کے لئے غیر مشروط اور بلا دلیل، حقِّ شفاعت کے قائل ہیں حالانکہ خدا نے انہیں اس طرح کا کوئی مقام عطا نہیں کیا ہے۔ دوسری طرف سے وہ بتوں کے لئے الوہیت و ربوبیت کے قائل تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے تاہم اگر حقِّ شفاعت کا عقیدہ ایسی ہستیوں کے بارے میں ہو جنہیں یہ حق اللہ تعالی نے عطا فرمایا ہے اور وہ اللہ کے اذن سے اپنا یہ حق استعمال کرتے ہوں(وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَٰى۔ اور وہ شفاعت نہیں کرتے مگر اس کے لئے جس سے وہ راضی و خوشنود ہو [اور اس کے حق میں ہونے والی شفاعت کو پسند کرے]۔[77])تو اس کا کوئی اعتراض وارد نہ ہوگا؛ اور پھر دنیا کا کوئی بھی مسلمان شفیعوں (شفعاء) کے لئے الوہیت و ربوبیت کا قائل نہیں ہے اور ان کا عقیدہ اور عمل آیت مذکورہ میں متذکرہ مشرکین کے عمل سے مشابہت نہیں رکھتا۔

واضح رہے کہ محض احترام و تکریم یا قبر و ضریح چھومنے جیسے اعمال ـ جبکہ صاحب قبر و ضریح کے لئے الوہیت اور ربوبیت کا عقیدہ بھی موجود نہ ہو ـ عبادت کے زمرے میں نہیں آتے ورنہ والدین کا احترام اور ان کا ہاتھ چھومنا بھی عبادت کے زمرے میں آنا چاہئے!

اہم نکتہ یہ کہ بت لکڑی اور پتھر کے بنے ہوئے ہوتے تھے اور انہیں اللہ کی طرف سے نفع و ضرر پہنچانے کا اذن نہیں ملا تھا اور یہ بت پرستوں کا دعوی تھا جو ان پتھروں اور لکڑیوں کے لئے تاثیر کے قائل تھے اور یہ تصور اللہ کے اذن سے شفیعوں کی شفاعت کی تاثیر سے مکمل طور پر مختلف ہے:

“وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـؤُلاء شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللّهِ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللّهَ بِمَا لاَ يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلاَ فِي الأَرْضِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ”[78]

اس آیت کریمہ میں خداوند متعال بت پرستوں سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے: “تم بتوں کے لئے اس مقام و منزلت کے قائل ہو جو میں نے انہيںدیا، کیا تم اس عمل سے خدا کو کسی چیز (بتوں کی تاثیر) کی خبر دینا چاہتے جس کی اس کو خبر نہيں ہے؟! بے شک یہ عمل اولیائے الہی سے شفاعت مانگنے کے عمل سے مکمل طور پر مغایرت رکھتا ہے۔

آخری بات یہ کہ اس آیت کریمہ میں شفاعت کی درخواست کے بارے میں بات ہی نہیں ہوئی ہے بلکہ موضوع کلام بتوں سے کی شفاعت کا عقیدہ ہے؛ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے:

“وَيَقُولُونَ هَـؤُلاء شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللّهِ”۔
(یہ (بت) اللہ کے یہاں ہماری شفاعت کرنے والے ہیں)؛
یہ نہیں فرمایا کہ:
“یَقُولوُنَ اِشْفَعُوا لَنا عِنْدَ اللّهِ”
(وہ بتوں سے کہتے ہیں کہ “اللہ کے یہاں ہماری شفاعت کرو”)۔

چنانچہ اگر فرض کریں کہ اس آیت سے وہابیوں کا استدلال درست ہے کہنا پڑے گا کہ شفاعت کا عقیدہ مطلقا شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ جبکہ وہابی بنیادی طور پر عقیدہ شفاعت کو تسلیم کرتے ہیں۔

افراد سے درخواستِ شفاعت کی نفی پر مبنی روایات

امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

“اِعْلَمْ أَنَّ اَلَّذِي بِيَدِهِ خَزَائِنُ اَلسَّمَاوَاتِ وَاَلْأَرْضِ قَدْ أَذِنَ لَكَ فِي اَلدُّعَاءِ وَتَكَفَّلَ لَكَ بِالْإِجَابَةِ وَأَمَرَكَ أَنْ تَسْأَلَهُ لِيُعْطِيَكَ وَتَسْتَرْحِمَهُ لِيَرْحَمَكَ وَلَمْ يَجْعَلْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ مَنْ يَحْجُبُكَ عَنْهُ وَلَمْ يُلْجِئْكَ إِلَى مَنْ يَشْفَعُ لَكَ إِلَيْهِ”۔
ترجمہ: جان لو کہ کہ جس کے قبضۂ قدرت میں آسمانوں اور زمین کے خزانے ہیں اس نے تمہیں پکارنے (اور مانگنے) کی اجازت دے رکھی ہے اور [تمہاری دعا) قبول کرنے کا ذمہ لے لیا ہے اور حکم دیا ہے کہ تم اس سے مانگو تاکہ وہ عطا کرے، اور رحم کی درخواست کرو تاکہ وہ تم پر رحم کرے. اس نے اپنے اور تمہارے درمیان دربان کھڑے نہیں کئے جو تمہیں اس سے چھپا دیں۔ اس نے تمہیں مجبور نہیں کیا ہے کہ تم کسی کے پاس جاؤ تا کہ وہ خدا کے یہاں تمہاری شفاعت کرے۔[79]

جواب
اوّلاً: مسئلۂ شفاعت ان مسائل میں سے ہے جس کے ثبوت پر امت اسلامی، حتی کہ وہابیوں کا اتفاق ہے اور قرآن اور روایات نے اس کی ثبوت پر مہر تصدیق ثبت کی ہے؛ خداوند متعال کا ارشادہ ہے:

“مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ”۔
ترجمہ: کون ہے وہ جو بغیر اس کی اجازت کے اس کے ہاں شفاعت کرے؟ [80]

بخاری اپنی سند سے پیغمبر اکرم(ص) سے روایت کرتا ہے:

أُعْطِیتُ خَمْساً لَمْ يعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي: نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِي الأَرْضُ مَسْجِداً وَطَهُوراً، فَأَيمَا رَجُلٍ فِي أُمَّتِي أَدْرَکَتْهُ الصَّلاةُ فَلْيصَلِّ، وَأُحِلَّتْ لِي الْمَغَانمُ وَلَمْ تَحِلَّ لأَحَدٍ قَبْلِي، وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ، وَكان النَّبي يبْعَثُ إلي قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إلي النَّاسِ عَامَّةً”۔
ترجمہ: مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں، میرا رعب ایک مہینے کی مسافت سے پہنچا کر میری مدد کی گئی ہے[یعنی میرا رعب میرے کہیں پہنچنے سے ایک مہینہ قبل پہنچ جاتا ہے]، پوری زمین کو میرے لئے سجدہ گاہ اور باعث طہارت قرار دیا گیا ہے، پس میری امت کے افراد جہاں بھی ہوں نماز کے وقت وہیں نماز ادا کریں، میرے لئے مال غنیمت حلال قرار دیا گیا ہے جبکہ اس سے قبل کسی کے لئے مال غنیمت حلال نہیں کیا گیا تھا؛
مجھے حق شفاعت عطا کیا گیا ہے اور ہر نبی اپنی قوم کے لئے بھیجا جاتا تھا جبکہ مجھے تمام انسانوں کے لئے مبعوث فرمایا گیا ہے۔[81]

یہ جملہ کہ “وَلَمْ یلْجِئْك إلی مَنْ یشْفَعُ لَك إلَیهِ”۔ (ترجمہ: اس نے تمہیں مجبور نہیں کیا ہے کہ تم کسی کے پاس جاؤ تا کہ وہ خدا کے یہاں تمہاری شفاعت کرے)۔ اس نکتے کی طرف اشارہ ہے اللہ کے کام اور بندوں پر اس کی عنایات، بندوں کی مانند نہیں ہیں جو ـ اس لئے کہ بعض افراد کو نہیں جانتے، ایسے افراد سے رجوع کرتے ہیں ایسے لوگوں سے رجوع کرتے ہیں جو ان انجانے افراد کا ان سے تعارف کرائیں اور وہ اپنے مقاصد تک پہنچ سکیں۔ کیونکہ خداوند متعال خفیات و اسرار کا عالم ہے اور تمام انسانوں اور ان کی حاجات کو بغیر کسی واسطے کے، جانتا ہے؛ یہاں تک کہ اگر وہ انسانوں کو اسباب سے رجوع کرنے کی تلقین کرتا ہے، اس کا سبب بھی یہ ہے کہ کائنات اور عالم فطرت اور معنویات کا نظام علت و معلول اور اسباب و مسببات کا نظام ہے اور اس نظام کا تقاضا اور حکمت یہی ہے کہ اسباب سے رجوع کیا جائے۔

خداوند متعال نے انسان کو مجبور و مضطر نہیں کیا ہے کہ وہ شفیع کو تلاش کرے۔ کیونکہ شفیع کی طرف رجوع کرنا اس وقت جبری اور اضطراری ہے جب اصل شخص تک رسائی ـ مدد و شفاعت مانگنے والے شخص کے استحقاق سے عدم واقفیت یا بخل کی بنا پر ـ ممکن نہ ہو، حالانکہ خداوند متعال کی طرف سے نہ کوئی بخل ہے اور نہ ہی کوئی ممانعت؛ بعض عیسائیوں اور مشرکین کے برعکس، جن کا عقیدہ ہے کہ “خدا اور انسان کے درمیان ایک واسطہ ہونا چاہئے”۔

گذرنے والوں سے طلب شفاعت

مفصل مضمون زیارت قبور

وہابی کہتے ہیں: شفیع کے وفات پانے کے بعد اس سے شفاعت کی درخواست کرنا، جائز نہیں ہے کیونکہ یہ شرک ہے اور میت کو کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔

جواب
اگر کوئی عمل شرک ہو تو وہ دنیا میں بھی شرک ہے اور آخرت میں بھی شرک ہے اور دنیا اور اخرت کے حوالے سے اس کے حکم میں کوئی فرق نہيں آئے گا۔ علاوہ ازیں وفات کا تعلق جسم سے ہے جبکہ روح زندہ رہتی ہے اور شفاعت و دعا کی درخواست سننے اور اس کا جواب دینے اور قبول کرنے کا تعلق روح سے ہے نہ کہ جسم سے۔ برزخی حیات کی بحث کے ضمن میں، برزخ میں روحانی حیات کا سیر حاصل جائزہ لیا گیا ہے۔

اہل سنت کی بہت سی حدیثیں رسول خدا(ص) کے وصال کے بعد آپ پر دور یا نزدیک سے، درود و سلام بھیجنے کے سلسلے میں، وارد ہوئی ہیں اور تصریح ہوئی ہے کہ آپ(ص) سلام و درود کو سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں۔[82]

علاوہ ازیں اہل سنت کے تمام فرقے نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کو سلام کرتے ہیں۔

مذہب سلام کی کیفیت
حنفیوں اور حنبلیوں کا سلام ان کے نزدیک بہترین سلام وہ ہے جو رسول اللہ(ص) نے ابن مسعود کو سکھایا اور وہ کچھ یوں ہے:

التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ۔۔۔“۔[83]

مالکیوں کا سلام مالکیہ کی رائے میں بہترین تشہد عمر بن خطاب کا تشہد ہے جو کچھ یوں ہے:
التَّحیّاتُ لِلّهِ، الزّاکِیاتُ لِلّهِ ، اَلصَّلَواتُ لِلّهِ، اَلطیِّباتُ لِلّه ِ،اَلسَّلامُ عَلَیْکَ اَیُّهَا النَّبِىُّ وَ رَحْمَةُ اللّهِ وَ بَرَکاتُهُ، اَلسَّلامُ عَلَیْنا وَ عَلى عِبادِ اللّهِ الصّالحینَ۔۔۔“.[84]
شافعیوں کا سلام ان کے نزدیک بہترین سلام ہے وہ جو ابن عباس سے منقول ہے:
اَلتَّحیّاتُ الُْمبارَکاتُ، اَلصَّلَواتُ الَطیِّباتُ لِلّهِ، اَلسّلامُ عَلَیْکَ اَیُّهَا النَّبِىُّ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَکاتُهُ، اَلسَّلامُ عَلَينا وَ عَلى عِبادِ اللهِ الصالِحينَ“۔[85]
غزالی کا قول ابو حامد محمد غزالی کہتے ہیں: اور اپنے قلب میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اور آپ کا کریم چہرہ حاضر کرو اور کہو:
السلام علیك ایها النبي ورحمة الله وبركاته“۔[86]

شفعاء کو حق شفاعت حاصل، ان سے درخواست شفاعت حرام!

محمّد بن عبدالوہاب کہتا ہے:

فإن قال: النبي(ص) أُعطي الشفاعة وأنا اطلبه ممّا اعطاه الله كَذا۔ فالجواب: انّ الله اعطاه الشفاعة ونهاكَ عن هذا، وقال:

“فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَداً”۔ [87]

ترجمہ: اگر کوئی کہے کہ پیغمبر(ص) کو حق شفاعت عطا کیا گیا ہے اور میں آپ(ص) سے وہی چیز مانگتا ہوں جو اللہ نے آپ(ع) کو عطا کی ہے! تو جواب یہ ہے کہ خدا نے انہیں شفاعت کا حق دیا ہے لیکن تمہیں آپ(ع) سے شفاعت طلب کرنے سے منع کیا ہے! اور فرمایا ہے۔ “پس تم اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو”۔[88]

جواب:
اولاً: مذکورہ آیت کریمہ طلب شفاعت سے نہیں روکتی اور اس کا تعلق ان مشرکین سے ہے جو اللہ کے لئے مستقل اور متوازی شریک کے قائل ہوئے ہیں اور ان کی پرستش کرتے اور ان سے حاجت طلب کرتے تھے چنانچہ یہ قاعدہ موحدین اور یکتا پرستوں پر صادق نہیں آتا۔

ثانیاً:
جس طرح کہ اس سے قبل اشارہ ہوا، اس آیت اور اس قسم کی دیگر آیات جو لفظ “مع” کے ساتھ آئی ہیں، سے مقصود یہ ہے کہ اللہ کے متوازی کسی موجود کو بھی اللہ کے برابر میں مستقل حیثیت کا قائل نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن اگر انسان کا عقیدہ یہ ہو کہ خدا نے کسی کام کے لئے کسی واسطے اور شفیع کو اذن عطا کیا ہے اور تمام امور اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور افعال و اعمال کا سرچشمہ ذات باری تعالی ہے تو اس طرح کا عقیدہ نہ صرف شرک نہیں ہے بلکہ عقیدہ توحید کا تسلسل ہے، جس طرح کہ عیسی علیہ السلام قرآن مجید میں بیماروں کو شفا دینے، اموات کو زندہ کرنے اور حتی کہ مٹی کا پرندہ خلق کرنے جیسے اعمال کو اپنے آپ سے نسبت دیتے ہیں:

“أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْراً بِإِذْنِ اللّهِ وَأُبْرِىءُ الأكْمَهَ والأَبْرَصَ وَأُحْيِـي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ”۔ [89]
ترجمہ: میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے خاص معجزہ لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے لیے مٹی سے پرند کی سی صورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ بحکم خدا پرند بن جاتا ہے اور پیدائشی اندھے اور کوڑھے کو شفا دیتا ہوں اور اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتا ہوں اور تمہیں بتاتا ہوں کہ جو کچھ تم کھاتے ہو اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں سنیت کر رکھتے ہو۔[90]

شفاعت، گناہ کی جرآت کا سبب بنتی ہے!

بعض لوگوں کی نظر میں شفاعت گناہ پر جرئت کا سبب بنتی ہے اور گنہگاروں اور مجرمین میں سرکشی کی روح کو زندہ کرتی ہے؛ لہذا عقیدہ شفاعت اسلامی شریعت اور دیگر شرائع کے ساتھ سازگار نہیں ہے!

جواب
اولاً، اگر ایسا ہو تو “توبہ” ـ گناہوں کی بخشش کے اسباب فراہم کرتی ہے ـ بھی گناہ کی دوبارہ انجام دینے کی ترغیب کا سبب بنے گی! حالانکہ توبہ بنیادی اسلامی اعتقادات میں سے ایک ہے اور (قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے اور] تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے۔

ثانیاً: شفاعت کا وعدہ اس صورت میں بغاوت اور سرکشی کے اسباب فراہم کرے گا جب وہ ہر قسم کی خصوصیات کے حامل تمام مجرمین کا احاطہ کرے گی، جبکہ یہ امور مبہم اور غیر معین ہیں اور معلوم نہيں ہے کہ قیامت کے دن شفاعت کن کن لوگوں کے لوگوں کے شامل حال ہوگی اور کن کن گناہوں کی بخشش کا سبب بنے گی اور قیامت کے کس مرحلے میں شفاعت ہوگی چنانچہ کوئی بھی نہیں جانتا کہ شفاعت کی عظیم نعمت کس کو حاصل ہوگی لہذا یہ گناہوں پر ترغیب کا سبب نہیں ہوتی۔ اور پھر مندرجہ بالا سطور میں کہا گیا کہ اولیاء اللہ کی شفاعت الہی کی امید ہے جو ایک تسدیدی عنصر (Deterrent Factor) کی حیثیت سے انسان کو نوید دیتی ہے کہ اگر وہ اپنے نفس کی اصلاح کرے تو ممکن ہے کہ نیک اور پاک شخصیات کی شفاعت سے اس کے سابقہ آلودگیوں کا ازالہ اور سابقہ گناہوں کی تلافی ہوجائے۔

خدا اور انسان کے درمیان واسطے کی ضرورت نہیں ہے

خداوند متعال انسان سے سے رگ گردن سے زیادہ قریب ہیں[91] اور متعال اپنی مخلوقات پر سب سے زيادہ مہربان ہے، تو پھر ہم کیوں کسی اور کا سہارا لیں اور اس سے کوئی درخواست کریں۔
جواب
یہ صحیح ہے کہ خدا ہم سے ہماری رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہے لیکن خلقت بشر کی حکمت کا تقاضا تھا کہ اللہ تعالی انسان کے ساتھ براہ راست گفتگو کرنے کی بجائے پیغمبروں کو ان کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمائے اور اسی حکمت کا ہی تقاضا تھا کہ ان رسولوں اور ہادیوں کا رتبہ اور ان کی منزلت کو انسانوں کے نزدیک رفعت و بلندی عطا کرے اور نتیجے کے طور پر انہیں خطا و گناہ سے عصمت عطا کی تا کہ انسان مکمل اطمینان اور خاطر جمعی کے ساتھ ان کا اتباع کریں اور انہیں بعض ظاہری مراتب و مدارج بھی عطا فرمائے تا کہ اللہ کی ان حجتوں کے اعلی مقامات و مراتب لوگوں کے دلوں اور نظروں میں زیادہ سے زیادہ واضح و روشن ہو اور ان کے قلوب اللہ کے ان نمائندوں کی جانب مائل ہوں۔

خداوند متعال نے قرآن میں بعض مواقع پر اپنے بندوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی حاجات کے لئے ان افراد کو واسطہ قرار دیں تاکہ مطلوبہ نتیجے تک زیادہ بہتر انداز سے پہنچ سکیں؛ جیسا کہ یوسف(ع) نے اپنے والد کو واسطہ قرار دیا کہ وہ ان کے لئے طلب مغفرت کریں[92] یا خداوند متعال نے فرمایا کہ پیغمبر خاتم(ص) کی دعا و استغفار لوگوں کے اپنے استغفار و دعا سے زیادہ مؤثر ہے؛[93] اور لوگ مریضوں کی شفایابی اور ان کے مسائل حل کرنے کے لئے حضرت عیسی(ع) سے رجوع کرتے تھے [اور وہ ان کی حاجت روائی کرتے تھے]۔[94] چنانچہ ـ انسان سے خدا کے قرب کے باوجود ـ اگر افراد کی طرف سے اپنے اور خدا کے درمیان کسی کو واسطہ قرار دینے کا عمل غلط ہوتا تو خداوند متعال کو انہیں تنبیبہ کرنا چاہئے تھی اور انہیں اس قسم کے عمل سے منع کرنا چاہئے تھے نہ یہ کہ خداوند متعال خود ہی اس راہ کو پسندیدہ راستہ اور اس عمل کو مقبول عمل قرار دیتے۔

یا تو مجرم کو سزا دینا عدل یا شفاعت عدل ہے؟

منکرین شفاعت کا ایک شبہہ یہ ہے کہ “شفاعت عقاب اور کیفر کے خاتمے کا سبب بنتی ہے اور سزا کا خاتمہ یا تو عدل الہی ہے یا پھر ظلم ہے؛ اگر یہ عدل ہے تو پھر اللہ کی جانب سے عقاب و سزا (معاذاللہ) ظلم کے زمرے میں آئے گا؛ اور اگر ظلم ہے اور عِقاب و سزا کا ہونا عدل ہے تو پھر شافعوں کی شفاعت اور ان کی طرف سے عِقاب اور سزا کے خاتمے کے لئے ہونے والا کوئی بھی اقدام ظلم ہوگا!۔
جواب

عِقاب کا خاتمہ “فضل” ہوسکتا ہے اور ظلم و عدل جیسے دو عناوین اس پر صادق نہیں آتے۔ بالفاظ دیگر عِقاب کا اٹھایا جانا فضل ہے جس کا رتبہ عدل سے بالاتر ہے۔ خداوند متعال نے عدل کی بنیاد پر جرائم پیشگان کے لئے عقوبت و سزا کا تعین فرمایا ہے تاہم شفاعت کے نتیجے میں عقوبت یا عِقاب کا اٹھایا جانا فضل و احسان ہے۔ خدائے سبحان نے اپنے بندوں کو سکھایا کہ “عادل” رہیں اور کوشش کریں کہ عدل سے بالاتر یعنی درجۂ فضل پر فائز ہونے کی کوشش کریں:

“إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ”۔
ترجمہ: بلاشبہ اللہ عدالت، حسن سلوک [اور نیکی و احسان] کا حکم دیتا ہے۔ [95] نیز خدا نے اپنے بندوں کو سکھا دیا کہ وہ عدل و انصاف کے تحت تمہارے حق میں بدی کرنے والے شخص کو اتنی ہی سزا دے سکتے ہو جتنی کہ اس نے بدی کی ہے۔ لیکن اگر تم صبر و احسان کی رو سے درگذر کرو تو یہ عدل سے بہتر ہے:
“وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُواْ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرينَ”۔
ترجمہ: اور اگر تم لوگ سزا دو تو ویسی ہی جیسی تمہیں سزا دی گئی تھی اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے۔[96]

حوالہ جات

  1. رجوع کریں: ابن منظور، لسان العرب، ج 15۔
  2. من لا یحضره الفقیه، ج3، ص574، ح4965۔ بحارالانوار ج6 ص19۔
  3. دایرة المعارف کتاب مقدس، ص 411 ۔
  4. سوره الإسراء آیت 79۔
  5. تفسیر الرازی، ج 3، ص 55۔
  6. سورہ بقرہ آیت 254۔
  7. سورہ بقرہ آیت 48۔
  8. سورہ سجدہ آیت 4۔
  9. سورہ زمر آیت 44۔
  10. سورہ بقرہ آیت 255۔
  11. سورہ سباء آیت 23۔
  12. سورہ انبیاء آیت 28۔
  13. سورہ سبأ آیت 23۔
  14. مسند احمد:1/301؛ سنن نسائی:1/209؛ سنن دارمی:ج2 ص873 وغیره۔
  15. محمد بن يزيد القزويني، السنن ج2 ص1443 ح4313 . صدوق، الخصال ج142۔ مجلسی، بحارالأنوار، ج 8، ص 34۔
  16. مطهری، مرتضی، عدل الهی ص 253۔
  17. مطهری مرتضی، عدل الهی، صص 232 تا 236۔
  18. سورہ روم آیت 48۔
  19. جوادی آملی، عبدالله، تفسیر تسنیم، ج4، ص262۔
  20. جوادی آملی، عبدالله، تفسیر تسنیم، ج4، ص262۔
  21. مرتضی مطهری، عدل الهی، زیر عنوان “شفاعت از آن خدا است”۔ص 236؛ رجوع کریں: آثار استاد شهید مطهری، ج‏1، ص261۔
  22. سورہ بقرہ آیت 255۔
  23. مکارم، تفسیر پیام قرآن، بحوالہ: علامہ طباطبائی، تفسیر المیزان۔
  24. سورہ زمر آیت 54۔
  25. سورہ حدید، آیت 28۔
  26. سورہ مائدہ آیت 9۔
  27. سورہ مائدہ آیت 16۔
  28. سورہ نساء آیت 64۔
  29. سورہ مؤمن (غافر) آیت7۔
  30. سورہ بقرہ آیت 286۔
  31. مطهری، مرتضی، عدل الهی، ص234۔
  32. سورا انبیاء آیت 28۔
  33. مقالات الاسلامیین، ج 1، صص 168 و 334؛ الکشاف، زمخشری، ج 1، ص 152۔
  34. سورہ نساء آیت 85۔
  35. سورا انبیاء آیت 28۔
  36. معاد در قرآن ج2/145۔
  37. محمد بن یزید قزوینی(ابن ماجہ)، سنن ابن ماجہ، ج2، ص724؛ نیز رجوع کریں سید حمیری، قرب الاسناد،ص64۔
  38. سورہ انبیاء آیت 28۔
  39. ابن ماجہ، السنن، ج2، ص724؛ ر۔ک: سید حمیری، قرب الاسناد،ص64۔
  40. بعنوان نمونہ رجوع کریں: علم الیقین، ج 2، ص 1325.صحیح بخاری، ج 4، کتاب توحید، باب 24، ص 392، ح 7439بحار، ج 8، ص 362۔
  41. المیزان، ج 1، ص 260، ذیل آیہ 47 و 48۔
  42. سورہ زمر آیت 54۔
  43. سورہ حدید آیت 28۔
  44. سورہ مائدہ آیت 16۔
  45. سورہ مؤمن آیت 7۔
  46. سورہ بقرہ آیت 286۔
  47. سورہ مائدہ آیت 9۔
  48. مجمع البیان، ج 1، ص 104۔
  49. سورہ انبیاﺀ آیت 26 و 27۔
  50. ابن شہرآشوب، مناقب، ج 2، ص 15۔
  51. شیخ صدوق، امالی، ص 291۔
  52. ابن شہر آشوب، مناقب، ج 2، ص 15۔
  53. احمد بن حنبل، المسند، ج 6 ، ص 448۔
  54. محمد بن اسمعیل بخاری، الصحیح، ج 9، ص 160۔
  55. ابن ماجہ، السنن، ج 2، ص 1443۔
  56. شیخ صدوق، خصال، ص 156۔
  57. أحمد بن محمد بن خالد برقی، المحاسن، ص 184۔
  58. وہی ماخذ۔
  59. طباطبائی، المیزان ج1 ص260۔
  60. ابن شہر آشوب، مناقب، ج 2، ص 14۔
  61. مسند احمد، ج 2، ص 165۔
  62. صحیفہ سجادیہ، ص 165۔
  63. وہی ماخذ، ص 229۔
  64. سورہ مریم آیت 87۔
  65. سورہ زخرف آیت 86۔
  66. سلفی گری و پاسخ به شبهات ص 465۔
  67. مجموع فتاوی ابن تیمیة، ج 1، ص 314 ۔
  68. مجموع الفتاوی، ج3،‌ ص147۔
  69. کتاب التوحید وقرّة عیون الموحّدین، ص258۔
  70. “نثبت الشفاعة لنبينا محمد صلی الله عليه وسلم يوم القيامة حسب ما ورد، وكذلك نثبتها لسائر الأنبياء، والملائكة، والأولياء، والأطفال حسب ما ورد أيضا، ونسألها من المالك لها، والإذن فيها لمن يشاء من الموحدين، الذين هم أسعد الناس بها، كما ورد، بأن يقول أحدنا – متضرعا إلی الله تعالی: اللهم شفع نبينا محمدا صلی الله عليه وسلم فينا يوم القيامة، أو: اللهم شفع فينا عبادك الصالحين، أو ملائكتك، أو نحو ذلك، مما يطلب من الله، لا منهم؛ فلا يقال: يا رسول الله، أو يا ولي الله، أسألك الشفاعة، أو غيرها، كأدركني، أو أغثني، أو اشفني، أو انصرني علی عدوي، ونحو ذلك، مما لا يقدر عليه إلا الله تعالی. فإذا طلب ذلك مما ذكر في أيام البرزخ، كان من أقسام الشرك”۔الدرر السنيه، ج1، ص231۔
  71. سورہ جن آیت 18۔
  72. سورہ نساء، آیت 64۔
  73. الصحيح سنن الترمذي، دار إحياء التراث العربي ج5 ص738 ح2433۔ نیز ط دار الفكر للطباعة، بيروت، 1403ه‍ 1983م۔ ج4، ص40 ح2550۔
  74. سورہ زمر آیت44۔
  75. سورہ بقرہ آیت 165۔
  76. سورہ یونس آیت 18۔
  77. سورہ انبیاء آیت 28۔
  78. سورہ یونس آیت 18:ترجمہ: وہ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں اور نہ انہیں نفع پہنچا سکتی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے یہاں ہماری شفاعت کرنے والے ہیں، کہئے کہ کیا تم اللہ کو اطلاع دیتے ہو ایک ایسی چیز کی جس کی خود اسے آسمانوں اور زمین میں کوئی خبر نہیں ہے پاک ہے وہ اور بالاتر ہے اس سے کہ جو یہ شریک قرار دیتے ہیں۔
  79. نهج البلاغه، مکتوب نمبر 31۔
  80. سورہ بقرہ آیت 255۔
  81. صحیح بخاری، ج1، ص86؛ صحیح مسلم، ج2، ص 63۔
  82. سنن ابو داود: ج 2، ص/ 213 ۔
  83. الموسوعة الفقهية الكويتية، الطبعة الأولى ، مطابع دار الصفوة – مصر، ج12،ص35۔
  84. وہی ماخذ، حاشية الدسوقي، ج1،ص 251، ط دار الفكر ؛ وجواهر الإكليل ج1،ص52 دار المعرفة۔
  85. وہی ماخذ، الأذكار ،ص61 ، 62 ؛ وروضة الطالبين، ج 1، ص263۔
  86. محمد غزالی، احیاء العلوم، 1 : 169۔
  87. سورہ جن آیت 18۔
  88. محمد بن عبدالوہاب، كَشف الشبهات، ص25۔
  89. سورہ جن آیت 18۔
  90. آل عمران آیت 49۔
  91. سورہ ق آیت 16 کی طرف اشارہ جہاں ارشاد رب متعال ہے: “وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ”۔ (ترجمہ: اور ہم اس سے رگ گردن سے زیادہ قریب ہیں)۔
  92. سورہ یوسف، آیت 97۔
  93. سورہ نساء، آیت 64۔
  94. آل عمران آیت 49۔
  95. سورہ نحل، آیت 97:“إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاء ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ”۔ (ترجمہ: بلاشبہ اللہ عدالت، حسن سلوک اور صاحبان قرابت کو [مدد]] دینے کا حکم دیتا ہے اور بے شرمی، برائی اور ظلم و تعدی سے منع کرتا ہے)۔
  96. سورہ نحل آیت126۔

مجوزہ منابع

مآخذ

  • قرآن مجید
  • استاد شہید آیت اللہ مرتضی مطہری، عدل الہی۔
  • ابن تیمیہ، مجموع الفتاوی، مجمع الملک فہد لطباعۃ المصحف الشریف، المدینۃ النبویۃ، 1416 ہجری۔
  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ج 15، دار بیروت و دار صادر، 1388 ہجری
  • أبو محمد عبد اللہ بن عبد الرحمن الدارمی، التمیمی السمرقندی، سنن الدارمی، دار المغنی، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، 1412 ہجری۔
  • ابو داود سجستانی، سلیمان بن اشعث، سنن أبی داود، المکتبۃ العصریۃ، بیروت، بی تا.
  • ابو عیسی، الترمذی (المتوفی: 279 ہجری)، سنن الترمذی، شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی – مصر، 1395 ہجری۔
  • احمد بن شعیب، سنن نسائی (السنن الصغری)، مکتب المطبوعات الإسلامیۃ، حلب، 1406 ہجری
  • الدرر السنیۃ فی الاجوبۃ النجدیۃ، علماء نجد، محقق: عبدالرحمان بن محمد، چاپ ششم، 1417 ہجری
  • رضوانی، علی اصغر، سلفی گری و پاسخ بہ شبہات، انتشارات مسجد مقدس جمکران
  • زمخشری محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، دارالکتاب العربی، بیروت، 1407 ہجری
  • سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم: موسسۀ امام صادق (ع)، چاپ اول، 1383 ہجری شمسی.
  • قاموس الکتاب المقدس، قاہرہ، دار الثقافۃ
  • عبد الرحمن بن حسن بن محمد بن عبد الوہاب، کتاب التوحید وقرۃ عیون الموحدین، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، 1411 ہجری
  • مجموع مؤلفات شیخ محمد بن عبدالوہاب، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ
  • محمد بن عبد الوہاب، کشف الشبہات، وزارۃ الشؤون الإسلامیۃ والأوقاف والدعوۃ والإرشاد، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، 1418 ہجری
  • محمدیان، بہرام و دیگران؛ دایرۃ المعارف کتاب مقدس؛ انتشارات روز نو، 1380 ہجری شمسی ، چاپ اول
  • مکارم شیرازی، ناصر، اعتقاد ما (شرح‌ فشردہ‌ای‌ از عقاید شیعہ‌ امامیہ) ‏‫ق‍م‌‏‫: ن‍س‍ل‌ ج‍وان‌‏‫‏، ہجری شمسی
تبصرے
Loading...