شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید)

شرح نہج البلاغہ
شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید.jpg
مؤلف: ابن ابی‌الحدید معتزلی
زبان: عربی
موضوع: شرح نہج البلاغہ

شرح نہج‌البلاغہ عربی زبان میں لکھی گئی ایک کتاب ہے جس ساتویں صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین ابن ابی‌الحدید نے نہج البلاغہ پر شرح لکھی ہے جو اس کتاب پر لکھی جانے والی اہم شروحات میں سے شمار ہوتی ہے۔ شیعہ اور سنی مآخذ سے استفادہ کرنے اور کئی پہلو (تاریخی، ادبی اور کلامی) کو مدنظر رکھنا اس کتاب کی خصوصیات میں سے ہے۔

ابن ابی‌الحدید نے اس کتابے کے مقدمے میں اپنے بعض نظریات کو درج کیا ہے؛ وہ امام علیؑ کو دوسرے تین خلیفوں سے افضل سمجھتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اس بات کے قائل ہیں کہ آپ کی خلافت پر پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے کوئی نص نہیں ہے۔ وہ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ خوارج، اصحاب جمل اور شامی لشکر جو علیؑ کے خلاف جنگ میں شرکت کی، وہ سب جہنمی ہیں۔ نیز اس کتاب میں کچھ ایسے مطالب میں پائے جاتے ہیں جو شیعہ عقیدے کے ساتھ سازگار نہیں ہیں؛ جو علیؑ کا پہلا امام مانتے ہیں۔ اسی لئے اس کے خلاف بعض کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔

یہ کتاب 20 جزء پر مشتمل ہے جو دو جلد، چار جلد اور 20 جلد کے مجموعے میں نشر ہوئی ہے۔

مؤلف

عبدالحمید بن ہبۃاللہ المعروف ابن ابی‌الحدید (586-656ھ)،[1] مدائن میں یپدا ہوئے۔[2] ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کی اور وہاں سے اعلی تعلیم کے حصول کے لئے بغداد چلے گئے۔[3]

ابن ابی‌الحدید فقہی اعتبار سے شافعی،[4] اور عقیدے کے حوالے سے معتزلی تھے۔[5] علم کلام، منطق، تاریخ اور شعر میں آپ کی بعض کتابیں ہیں۔[6] شرح نہج البلاغہ اور قصائد سبع علویات آپ کی تالیفات میں سے ہیں۔ آپ کی زیادہ شہرت، شرحِ نہج البلاغہ کی وجہ سے ہے۔[7] کہا جاتا ہے کہ شرح نہج البلاغہ کے مطالب آپ کے ادبیات، کلام، مبانی اخلاق، تاریخ صدر اسلام اور عربی اشعار پر تسلط کی حکایت کرتی ہیں۔[8]

اجمالی خاکہ

جیسا کہ ابن ابی الحدید نے کتاب شرح نہج البلاغہ کے آخر میں لکھا ہے کہ اس کتاب کو لکھنے میں چار سال آٹھ مہینے لگے ہیں جسے حضرت علیؑ کی خلافت کی مدت کے برابر سمجھتے ہیں۔[9] ابن ابی الحدید نے اس کتاب کی تحریر کا آغاز پہلی رجب 644ھ کو کیا اور 649ھ صفر کے آخر میں اختتام کو پہنچایا۔[10]

ابن ابی‌الحدید نے شرح نہج‌البلاغہ کو عباسی حکومت کے شیعہ وزیر ابن علقمی (591-656ھ) کو تقدیم کیا جس کے مقابلے میں نفیس انعامات وصول کیا۔[11]

خصوصیات

شرح ابن ابی‌الحدید کی بعض خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:

  • شیعہ اور سنی مآخذ سے استفادہ: ابن ابی‌الحدید نے شرح نہج البلاغہ کی تدوین میں شیعہ اور سنی کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔[12] مثال کے طور پر قاضی عبدالجبار معتزلی کے عثمان بن عفان کے دفاعیات میں سید مرتضی کی طرف سے قاضی عبدالجبار کو دئے جانے والے جوابات کو ذکر کیا ہے۔[13] اور کہا گیا ہے کہ ابی الحدید چونکہ بغداد لائبریری کے انچارج تھے تو ان کے پاس بہت ساری سہولیات تھیں اور دس ہزار جلد کتابوں پر مشتمل ابن علقمی کی لائبریری بھی ان کے دسترس میں تھی۔اسی لئے بعض ایسی کتابوں سے استفادہ کیا ہے جو تیسری صدی ہجری کے مورخ محمد بن جریر طبری کے دسترس میں نہیں تھیں۔[14]
  • جامعیت: شرح ابن ابی‌الحدید، ادب، کلام، فقہ، اخلاق، تاریخ صدر اسلام، انساب اور عرب کی عام ثقافت کے علوم پر مشتمل ایک انسائکلوپیڈیا سمجھی جاتی ہے۔[15] نہج البلاغہ کے مترجم مہدوی دامغانی کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس شرح میں مختلف معلومات ہیں لیکن ادبی، معاشرتی تاریخ اور کلامی پہلو دوسرے پہلووں پر برتری رکھتے ہیں۔[16] اس کتاب میں پیغمبر اکرمؐ کے دور سے سنہ 623ھ یعنی مغلوں کے ہاتھوں سقوط بغداد سے 13 سال پہلے تک کی تاریخ اسلام پر مشتمل ہے۔[17]تقریبا کتاب کا آدھا حصہ پہلی صدی ہجری کے پہلے آدھے حصے کے واقعات اور حالات پر مشتمل ہے[18] اسی طرح اس کتاب میں تقریبا آٹھ ہزار شعر بھی ذکر ہوئے ہیں۔[19] ابن ابی‌الحدید نے ان لوگوں کا جواب بھی دیا ہے جنہوں نے نہج البلاغ کے سجع اور قافیوں پر اشکال کیا ہے۔[20] اور جن لوگوں نے کہا ہے کہ نہج البلاغہ یا اس کے بعض حصے امام علیؑ سے منسوب نہ ہونے کا کہا ہے اس بات کو رد کیا ہے۔[21] آپ نے امام علیؑ کے کلمات کو ایک بسیط جسم سے تشبیہ دی ہے جس کے مختلف حصے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔[22]
  • مشکل الفاظ کی وضاحت: ابن ابی‌الحدید شروع میں نہج البلاغہ کا بعض متن «اصل» کے عنوان سے ذکر کرتا ہے پھر «شرح» کے عنوان سے بعض وضاحتیں دیتا ہے۔[23] اور الفاظ کی وضاحت کے ذیل میں مشکل الفاظ کی وضاحت کرتا ہے اور متن کی شرح دی ہے۔[24]
  • مولف کے دور کے حالات کی گزارش: ابن ابی‌الحدید چونکہ مغولوں کے معاصر تھے،[25] جس کی وجہ سے مغلوں کے ظہور کا آغاز، فتح ماوراءالنہر، خراسان، عراق، دیگر علاقوں اور ان کا بغداد پر حملے کا تذکرہ کیا ہے۔[26] اسی وجہ سے ابن ابی الحدید کی شرح نہج‌البلاغہ تاریخ کے اہم مآخذ میں سے شمار ہوتی ہے۔[27]
  • سید رضی کے حالات زندگی: ابن ابی‌الحدید نے کتاب کے مقدمے میں امام علیؐ اور سید رضی کا نسب، اور مختصر حالات زندگی بھی ذکر کیا ہے۔[28]

مقدمے میں مولف کے نظریات

ابن ابی‌الحدید نے شرح نہج البلاغہ پر ایک مقدمہ لکھا ہے جس میں امامت، امام علی کے فضائل، آپ کے مقابلے میں قیام کرنے والے اور خوارج کا ذکر کیا ہے۔[29]

  • امام علیؑ کا خلفاء ثلاثہ پر برتری: ابن ابی الحدید کا کہنا ہے کہ خلفا کی افضلیت کے بارے میں معتزلہ کے ہاں تین نظریات ہیں: بعض نے ابوبکر کو افضل سمجھا ہے اور بعض نے اس مسئلے میں سکوت اختیار کرتے ہوئے اور اپنا نظریہ بیان کرنے سے اجتناب کیا ہے۔[30] بغداد کے معتزلیوں کی پیروی کرتے ہوئے ابن ابی‌الحدید، امام علیؑ کو باقی خلفاء ثلاثہ سے افضل سمجھتے ہیں؛ کیونکہ ان کے نیک اعمال زیادہ اور نیک صفات بھی زیادہ ہیں۔[31]اس کے باوجود ابن ابی الحدید کا کہنا تھا کہ امام علیؑ کی خلافت پر پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے کوئی صریح نص موجود نہیں ہے۔[32]
  • اصحاب جمل کا دوزخی ہونا: ابن ابی الحدید اس بات کا معتقد ہے کہ جنگ جمل کو برپا کرنے والے عائشہ، طلحہ اور زبیر کے علاوہ سب جہنمی ہیں۔ اور ان تینوں نے توبہ کیا تھا۔[33] اسی طرح جنگ صفین میں شام کا لشکر اور خوارج بھی جہنمی ہیں؛ کیونکہ انہوں نے بغاوت کرنے پر اصرار کیا ہے۔[34]
  • امام علی کی نظر، سب سے محکم اور آپ کی تدبیر سب سے زیادہ مناسب: ابن ابی الحدید کی نظر میں امام علیؐ نے عمر بن خطاب کو روم اور ایران کے ساتھ جنگ پر جاتے ہوئے مشورہ دیا[35] اور عثمان کو بھی بعض ایسے نکات بیان کئے جس میں ان کی بہتری تھی، اور اگر ان نکات پر عمل کرتے تو وہ واقعات اور حالات پیش نہ آتے۔[36]
  • امام علیؐ کی دیانت: ابن ابی الحدید کا عقیدہ ہے کہ امام علی اپنے دین پر بہت مقید تھے اور اس کے خلاف کام نہیں کرتے تھے، جبکہ دوسرے خلفاء اپنی مصلحت کے مطابق عمل کرتے تھے؛ خواہ شریعت کے مطابق ہو یا نہ ہو۔ ابن ابی الحدید اس بات کا بھی قائل تھے کہ جو شخص اپنی اجتہاد پر عمل کرتا ہے اور کسی قید و بند کا پابند نہیں تو اس کے دنیوی امور بہتر ہوسکتے ہیں۔[37]

کتابیں

ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ پر نقد، خلاصہ یا ترجمہ کرکے بعض کتابیں لکھی گئی ہیں۔ رضا استاد کے کہنے کے مطابق اس کی شرح، ترجمہ اور حاشیہ نویسی پر 20 کتابیں لکھی گئی ہیں۔[38]

نقد پر مشتمل کتابیں

شیعہ علما میں سے بعض نے ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ پر نقد میں بعض کتابیں لکھی ہیں؛ کیونکہ اس کتاب میں بعض ایسے مطالب پائی جاتی ہیں جو امامت اور تاریخی کچھ مسائل کے بارے میں شیعہ عقیدہ سے سازگار نہیں ہیں۔[39] ان کتابوں میں: شیخ یوسف بحرانی (متوفی 1186ھ) کی کتاب «سلاسل الحدید لتقیید ابن ابی‌الحدید»،[40] احمد بن طاووس حلی (متوفی ۶۷۳ھ/۱۲۷۴ء) کی کتاب «الروح فی النقض ما ابرمہ ابن ابی‌الحدید»، علی بن حسن بلادی بحرانی (متوفی۱۳۴۰ھ/۱۹۲۲ء) کی کتاب، «الرّد علی ابن ابی‌الحدید»، شیخ یوسف کوفی کی کتاب «سلاسل الحدید فی الرد علی ابن ابی الحدید»، اور «النقد السدید لشرح الخطبۃ الشقشقیہ لابن ابی‌الحدید».[41]

ترجمے

شرح نہج‌البلاغہ کا فارسی میں ترجمہ ہوا ہے؛ ملاشمس‌الدین بن محمد بن مراد (متوفی ۱۰۱۳ھ) اور نصراللہ بن فتح‌اللہ دزفولی نے اس کا فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔[42] محمود مہدوی‌دامغانی‌ کی کتاب «جلوہ‌ تاریخ‌ در شرح‌ نہج‌البلاغہ‌ ابن‌ابی‌الحدید» اس شرح کا ترجمہ اور ترجمہ اور اس پر حاشیہ آٹھ جلدوں میں جبکہ غلام رضا لایق کا ترجمہ اور بیس جلدوں میں نشر ہوچکا ہے۔ اسی طرح حسین طیبیان کی کتاب «امام علی علیہ‌السلام از دیدگاہ ابن‌ابی‌الحدید معتزلی» بھی اسی شرح نہج البلاغہ سے ماخوذ ہے۔[43]

خلاصے

شرح نہج البلاغہ کے خلاصے مندرجہ ذیل ہیں:

  • فخرالدین عبداللہ المؤید باللہ کی کتاب «العقد النضید المستخرج من شرح ابن ابی‌الحدید»[44]
  • سلطان محمود طبسی نے بھی اس کتاب کا خلاصہ کیا ہے اور شیخ محمد قنبرعلی کاظمی نے اپنی کتاب «التقاط الدرر المنتخب» کو شرح نہج البلاغہ سے استخراج کیا ہے۔[45]

اسی طرح احمد ربیعی کی کتاب «العُذَیق النضید بمصادر ابن ابی‌الحدید فی شرح نہج‌البلاغہ» ان منابع اور مآخذ کے بارے میں لکھی گئی ہے جنہیں ابن ابی الحدید نے استفادہ کیا ہے۔[46] اس کتاب میں ابن ابی الحدید کی طرف سے استفادہ شدہ 222 کتابوں کا ذکر ہوا ہے۔[47]

طباعت

شرح ابن ابی‌الحدید بیس جلدوں میں تالیف ہوئی ہے۔[48] رضا استادی کا کہنا ہے کہ یہ کتاب دو جلد، چار جلد اور بیس جلدوں کی شکل میں اب تک چھپ چکی ہے۔[49] اسی طرح تہران(سنہ۱۲۷۱، ۱۳۰۲-۱۳۰۴ھ)، قاہرہ (۱۳۲۹ھ) اور بیروت (۱۳۷۸ھ) میں چھپ چکی ہے۔[50]

اس کتاب کا ایک نسخہ مشہد میں امام رضاؑ کے حرم کی لائبریری میں موجود ہے[51]جس کے بارے میں یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ شاید اس دور میں لکھی گئی ہے جب مولف خود بقید حیات تھے۔[52]

یہ کتاب محمد ابوالفضل کی تصحیح کے ساتھ ابن ابی الحدید کی تقسیم بندی کے مطابق 6460 صفحات پر مشتمل بیس جلدوں میں چھپ چکی ہے۔خطا در حوالہ: Closing missing for tag اسی طرح عبدالکریم نمری کی تصحیح کے ساتھ 11 جلدوں میں انتشارات دارالکتب العلمیہ بیروت سے چھپ چکی ہے۔[53]

حوالہ جات

  1. ابن فوطی، مجمع الآداب فی معجم الالقاب، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۲۱۴.
  2. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۱۳، ص۱۹۹.
  3. مہدوی دامغانی، جلوہ تاریخ در شرح نہج‌البلاغہ، ۱۳۷۹ش، مقدمہ مترجم، ص7.
  4. ابن خلکان، وفیات الاعیان، ۱۹۹۴م، ج۷، ص۳۴۲.
  5. فکرت، «ابن ابی‌الحدید»، ص۶۴۲-۶۴۱.
  6. ملاحظہ کریں: ابن خلکان، وفیات الاعیان، ۱۹۹۴م، ج۷، ص۳۴۲.
  7. فکرت، «ابن ابی‌الحدید»، ص۶۴۲-۶۴۱.
  8. مہدوی دامغانی، جلوہ تاریخ در شرح نہج‌البلاغہ، ۱۳۷۹ش، مقدمہ مترجم، ص 7
  9. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۲۰، ص۳۴۹.
  10. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۲۰، ص۳۴۹.
  11. ہندوشاہ، تجارب السلف در تواریخ خلفا و وزای ایشان، ۱۳۵۷ش، ص۳۴۹.
  12. مہدوی دامغانی، جلوہ تاریخ در شرح نہج‌البلاغہ، ۱۳۷۹ش، مقدمہ مترجم، ص 15.
  13. سبحانی‌نیا، «شرح نہج‌البلاغہ ابن ابی‌الحدید»، ص۵۹.
  14. مہدوی دامغانی، جلوہ تاریخ در شرح نہج‌البلاغہ، ۱۳۷۹ش، مقدمہ مترجم، ص 15.
  15. مہدوی دامغانی، جلوہ تاریخ در شرح نہج‌البلاغہ، ۱۳۷۹ش، مقدمہ مترجم، ص 17۔
  16. مہدوی دامغانی، جلوہ تاریخ در شرح نہج‌البلاغہ، ۱۳۷۹ش، مقدمہ مترجم، ص 14.
  17. حسینی، مصادر نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۳.
  18. مہدوی دامغانی، جلوہ تاریخ در شرح نہج‌البلاغہ، ۱۳۷۹ش، مقدمہ مترجم، ص 14.
  19. مہدوی دامغانی، جلوہ تاریخ در شرح نہج‌البلاغہ، ۱۳۷۹ش، مقدمہ مترجم، ص18
  20. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۱۲۶-۱۳۰.
  21. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱۰، ص۱۲۸و۱۲۹.
  22. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱۰، ص۱۲۸و۱۲۹.
  23. ملاحظہ کریں: ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۵۷-۵۸.
  24. حسینی، مصادر نہج البلاغہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۴.
  25. حسینی، مصادر نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۳.
  26. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۸، ص۲۱۹-۲۴۳.
  27. فکرت، «ابن ابی‌الحدید»، ص۶۴۱.
  28. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۱۱-۴۲.
  29. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۶-۱۱.
  30. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۷-۸.
  31. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۹.
  32. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۵۹.
  33. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۹.
  34. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۹.
  35. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۲۸.
  36. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۲۸.
  37. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۲۸.
  38. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ۱۳۵۹ش، ص۳۷-۳۹.
  39. مثال کے طور پر مشاہدہ کریں:ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ج۲، ص۵۹.
  40. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۸ق، ج۱۲، ص۲۱۰.
  41. حسینی، مصادر نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۷-۲۳۸؛ استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ۱۳۵۹ش، ص۳۷-۳۹.
  42. حسینی، مصادر نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۸.
  43. «امام علی علیہ‌السلام از دیدگاہ ابن‌ابی‌الحدید معتزلی/ نگارندہ حسین طیبیان.»
  44. حسینی، مصادر نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۸.
  45. حسینی، مصادر نہج‌البلاغہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۸.
  46. ربیعی، العُذَیق النضید بمصادر ابن ابی‌الحدید فی شرح نہج‌البلاغہ، مقدمہ، ۱۴۰۷ق، ص ۵-۶.
  47. سبحانی‌نیا،«شرح نہج‌البلاغہ ابن ابی‌الحدید»، ص۵۹.
  48. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۱۳، ص۱۹۹.
  49. استادی، کتابنامہ نہج‌البلاغہ، ۱۳۵۹ش، ص۳۷.
  50. فکرت، «ابن ابی‌الحدید»، ص۶۴۲.
  51. آستان قدس، فہرست، ج۵، ص۱۱۲-۱۱۳: بہ نقل از فکرت، «ابن ابی‌الحدید»، ص۶۴۲.
  52. فکرت، «ابن ابی‌الحدید»، ص۶۴۲.
  53. «شرح نہج البلاغۃ 1-11 مع الفہارس »

مآخذ

  • ابن ابی‌الحدید، عبدالحمید، شرح نہج‌البلاغۃ، تصحیح محمدابوالفضل ابراہیم، قم، آیۃ‌اللہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ھ۔
  • ابن خلکان، شمس‌الدین احمد بن محمد، وفیات الاعیان و انباء الزمان، تحقیق احسان عباس، بیروت، دارصادر، ۱۹۹۴ء۔
  • ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۷ھ۔/۱۹۸۶ء۔
  • ابن فوطی، عبدالرازق بن احمد، مجمع الآداب فی معجم الالقاب، تحقیق محمد الکاظم، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۳۵ق/۱۳۷۴شمسی ہجری۔
  • استادی، رضا، کتابنامہ نہج البلاغہ، تہران، بنیاد نہج البلاغہ، ۱۳۵۹شمسی ہجری۔
  • آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، قم و تہران، اسماعیلیان و کتابخانہ اسلامیہ، ۱۴۰۸ھ۔
  • «امام علی علیہ‌السلام از دیدگاہ ابن‌ابی‌الحدید معتزلی/ نگارندہ حسین طیبیان.»، سازمان اسناد و کتابخانہ ایران، مشاہدہ ۳۰ دی ۱۳۹۸شمسی ہجری۔
  • حسینی، عبدالزہراء، مصادر نہج‌البلاغۃ و اسانیدہ، بیروت، دار الزہراء، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۸ء۔
  • ربیعی، احمد، العُذَیق النضید بمصادر ابن ابی الحدید فی شرح نہج البلاغہ، بغداد، عبدالمجید حسین الربیعی، ۱۴۰۷ھ۔
  • سبحانی‌نیا، محمدتقی، «شرح نہج‌البلاغہ ابن ابی‌الحدید»، دوفصلنامہ حدیث اندیشہ، شمارہ ۶، پاییز و زمستان ۱۳۸۷شمسی ہجری۔
  • فکرت، محمدآصف، ابن ابی‌الحدید، در دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج۲، تہران، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ۱۳۷۴شمسی ہجری۔
  • مہدوی دامغانی، محمود، جلوہ تاریخ در شرح نہج البلاغہ، تہران، نشر نی، ۱۳۷۹شمسی ہجری۔
  • ہندوشاہ بن سنجر، تجارب السلف، بہ کوشش عباس اقبال آشتیانی، تہران، ۱۳۵۷شمسی ہجری۔
تبصرے
Loading...