شام میں امام سجاد کا خطبہ

شام میں امام سجادؑ کا خطبہ، وہ خطبہ ہے جسے آپ نے واقعہ عاشورا کے بعد شام میں یزید کے دربار میں ارشاد فرمایا۔ امام سجادؑ اور اسیران کربلا کی موجودگی میں یزید کے حکم پر ایک خطیب نے منبر سے بنی امیہ کی مدح اور امام علیؑ اور آپ کے اہل بیت کی مذمت میں ایک تقریر کی۔ امام سجادؑ نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس خطیب کے جواب میں حضرت علیؑ کے فضائل بیان فرمائے۔ یہ خطبہ جس کے اکثر مطالب حضرت علیؑ کی مدح اور فضیلت پر مشتمل ہیں، شام میں ایک وسیع اثرات کا حامل رہا اور یزید کی ظاہری سیاست میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔

شرح خطبہ امام سجاد علیہ اسلام

تاریخ

شام میں اہل بیت کے داخل ہونے کی تاریخ دقیق طور پر معلوم نہیں اسی بنا پر اس خطبے کی تاریخ بھی دقیق طور پر مشخص نہیں ہے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس خطبے کو شام میں اسیران کربلا کی اقامت کے آخری ایام میں ارشاد فرمایا ہے، کیونکہ اس خطبے کے بعد یزید نے اہل بیت کو مزید وہاں رکھنے میں مصلحت نہیں دیکھی اور انہیں مدینہ واپس بھیجنے کے مقدمات فراہم کیا۔

امام سجادؑ اور درباری خطیب

اسرائے اہل بیت کی موجودگی میں یزید نے شام کے مسجد اموی میں ایک محفل منعقد کروایا اور اپنے باطل خیال کے مطابق وہ اس کام کے ذریعے اہل بیت کو رسوا کرنا چاہتا تھا۔ طے شدہ منصوبے کے مطابق ایک خطیب نے ممبر سے یزید اور اس کے آباء و اجداد کی مدح سرائی کرنا شروع کیا۔ اس موقع پر امام سجاد نے مذکوره خطیب سے فرمایا:

“وای ہو تم پر! تم مخلوق کی خشنودی اور رضایت کو خدا کی خوشنودی پر مقدم کیا اور جہنم میں اپنا ٹھکانا معین کیا”۔ [1]

اس کے بعد امام سجادؑ نے یزید کی طرف رخ کر کے تقریر کرنے کی اجازت مانگی، ناسخ التواریخ میں آیا ہے کہ یزید نے امام سجادؑ کی درخواست کو رد کیا لیکن شامیوں کی اصرار پر یزید نے مجبورا امام سجادؑ کی درخواست کو قبول کیا۔

خطبے کا مضمون

ترجمہ و شرح خطبہ حضرت سجاد علیہ السلام

اجمالی تعارف

امام سجادؑ نے اس خطبے کے ابتدائی جملات میں اجمالی طور پر اپنا اور اہل بیت کا تعارف کرایا۔ ان جملات میں اس خاندان کے علم، حلم اور شجاعت کو بیان کرتے ہوئے اس خاندان کے بعض مشہور و معروف شخصیات جیسے حضرت حمزہ اور جعفر طیار وغیرہ کا نام لیا۔

تفصیلی تعارف

فرزند حج

امام سجادؑ نے اس خطبے میں بعض ایسے مسائل کو بیان فرمایا ہے جو شاید پہلی نگاہ میں کچھ بے اہمیت نظر آئے؛ آپ نے فرمایا: میں فرزند مکہ و منا، زمزم و صفا ہوں۔ ان جملات کی توضیح میں درج ذیل احتمالات پائے جاتے ہیں:

  1. ان جملوں کا معنا میں فرزند مناسک حج ہوں ہے۔ اس تفسیر کے ساتھ کہ مناسک حج ایک توحیدی مناسک اور عبادت ہونے کے اعتبار سے آپ کے خون اور گوشت میں رچی بسی ہے، نہ یہ کہ آپ دوسرے مسلمانوں کی طرح فقط مناسک حج کو انجام دیتے ہیں بلکہ جتنا زیادہ حج اور اس کے مناسک کے ساتھ مانوس ہونا ممکن ہے وہ آپ کے وجود میں موجود ہے۔ بعض اوقات لوگ کسی چیز کے ساتھ اپنے شدید انس اور لگاؤ کو بتانے کی خاطر اپنے آپ کو اس امر کا بیٹا یا بیٹی قرار دیتے ہیں۔ یہاں امام سجاد یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اے یزید اور یزیدیو! تم ہمیں دین سے خارج سمجھتے ہو؟ میرا دین کے ساتھ اتنا لگاؤ اور انس ہے کہ گویا میں اس کا فرزند ہوں۔
  2. حج کے مراسم حضرت ابراہیم کی یادگار ہے اور مسلمان ان مناسک کو حضرت ابراہیم کے نام سے جدا ناپذیر سمجھتے ہیں۔ امامؑ یہاں پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ میں فرزند ابراہیم خلیل ہوں، جو شاید امام صادقؑ کے اس قول کی طرف اشارہ ہو جسے آپ نے اپنے گھر کو آگ لگنے کے موقع پر فرمایا۔[2]
  3. ایک اور احتمال یہ بھی ہے کہ امام یہاں پر اپنے آپ کو ایک ایسی شخصیت سے منسوب کرنا چاہتے ہیں جس نے مناسک ابراہیمی کو زندہ کیا یعنی میں فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہوں۔

پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اپنی قرابت

پیغمبر اکرمؐ کی تعارف کا مقصد اسیران کربلا کی آنحضرتؐکے ساتھ موجود قرابت کو لوگوں تک پہنچانا مقصود تھا ورنہ شام کے لوگ پیغمبر اکرمؐکو تو جانتے تھے اس حوالے سے آنحضرت کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا۔ بلکہ یہاں یہ ان اسیروں کی قافلہ کی رسول خدا کے ساتھ موجود نسبت اور قرابت کو بتانا مقصود تھا جسے حکمران جماعت خارجی کے نام سے متعارف کرا رہی تھی۔

حضرت علیؑ کا تعارف

شام میں بنی امیہ کے ہاتھوں امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کی شخصیت اس حد تک تخریب ہو چکی تھی کہ امام سجادؑ کو اس خطبے میں زیادہ تر حضرت علیؑ کا تعارف کرنا پڑا اور یہ بہترین موقع تھا کہ امام سجادؑ بنی امیہ کے ہاتھوں چالیس سال تک تخریب شدہ حضرت علیؑ کی شخصیت کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے بیان کرے۔

حضرت علیؑ کے فضائل شام کے لوگوں کیلئے ایک نئی چیز تھی یہاں پر ہم ان فضائل میں سے بعض کی مختصر توضیح دیتے ہیں۔

دو تلواروں کے ساتھ جنگ کرنا

امام سجادؑ حضرت علیؑ کی بعض فضائل کو بیان کرنے کے بعد اس فضیلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرے دادا نے دو دو تلواروں کے ساتھ جنگ کیا۔ یہاں دو تلوار سے کیا مراد ہے، کچھ احتمالات پائے جاتے ہیں:

  • وہ دو تلواریں جسے پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ کو بخش دی تھی۔ پیغمبر اکرمؐ نے آٹھویں سنہ ہجری کو على ؑ کو منات نامی ایک بت کو توڑنے کیلئے روانہ کیا۔ امام علیؑ نے اس بت کو توڑنے کے بعد اس بت سے متعلق تمام اشیاء کو اٹھا کر پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں لے آیا۔ اس بت سے متعلق اشیاء میں دو تلواریں بھی تھیں جسے حضرت علیؑ نے پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں پیش کیا ان تلواروں کو حارث بن ابى شمر غسانی -پادشاہ غسان- نے اس بت کیلئے ہدیہ کے طور پر دیا تھا۔ ان تلواروں میں سے ایک کا نام مخذم اور دوسرے کا نام رسوب تھا۔ پیغمبر اکرمؐ نے ان دونوں تلواروں کو حضرت علیؑ بخش دیئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک وہی تلوار ہے جو ذو الفقار کے نام سے معروف ہے۔[3]
  • دو تلوار سے مراد تنزیل اور تاویل ہے۔[4] پیغمبر اکرمؐسے ایک حدیث میں آیا ہے کہ:
علی، تاویل کے مطابق جنگ کرینگے جس طرح میں نے تنزیل کے مطابق جنگ کیا۔[5]
  • مراد یہ ہے کہ ایک تلوار کے بعد دوسری تلوار لے کر جنگ کرتے تھے جس طرح یہ کام جنگ احد میں انجام دیا کہ آپ کی پہلی تلوار کے ٹوٹنے کے بعد پیغمبر اکرمؐ نے ذوالفقار نامی تلوار دے دیا تھا۔[6]
  • ممکن ہے آپ کی تلوار یعنی ذولفقار کے دو دھار ہونے کی طرف اشارہ ہو۔[7]
دو بار ہجرت

اس خطبے میں حضرت علیؑ کی ایک صفت “ہاجر ہجرتین‌” کے عنوان سے ذکر کیا ہے [8] جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپؑ نے دو دفعہ ہجرت کی۔

پہلی ہجرت مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت ہے جبکہ دوسری ہجرت کے بارے میں کئی احتملات ہیں:

پہلا احتمال: شعب ابی طالب کی طرف ہجرت۔[9]

دوسرا احتمال: ایک حدیث میں ابن عباس سے منقول ہے کہ امام علیؑ نے اپنے بھائی جعفر کے ساتھ حبشہ ہجرت کی پھر حبشہ سے مدینہ تشریف لے آئے۔[10] لیکن یہ نقل ضعیف ہے کیونکہ کسی بھی معتبر تاریخی منابع میں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں حضرت علیؑ کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ علاوہ براین جس وقت حبشہ ہجرت کرنے والے مہاجرین حبشہ میں زندگی بسر کر رہے تھے حضرت علیؑ مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تھے۔

تیسرا احتمال: مدینہ سے کوفہ کی طرف ہجرت مراد ہے۔[11]

دو بار بیعت

یہ جملہ امام سجادؑ کے خطبے کے علاوہ خودامام علیؑ سے بھی نقل ہوا ہے۔ یہاں پر دو بیعت سے مراد کیا ہے خود امام علی علیہ السلام اس حوالے سے فرماتے ہیں:

  • امام علیؑ نے معاویہ کے ساتھ اپنی مکتوبات میں فرمایا: “میں نے دو بیعت میں شرکت کیا ان میں سے پہلی بیعت کے وقت تو “کافر” تھا اور وہ بیعت رضوان سنہ چھ ہجری صلح حدیبیہ کے موقع پر انجام پائی۔
  • دوسری بیعت فتح مکہ کے بعد واقع ہوئی اگرچہ معاویہ بھی اس میں شریک تھا ولی بعد میں اس نے اس بیعت کو نقض کیا[12]

مناقب میں بعض احادیث نقل ہوئی ہیں جن کے مطابق پہلی بیعت سے مراد بیعت بدر اور دوسری بیعت سے مراد بیعت رضوان ہے۔[13]

جبرئیل کی تأئید اور میکائیل کی امداد

یہ جنگ بدر کی طرف اشارہ ہے جس میں جبرئیل اور میکائیل، حضرت علیؑ کی مدد کیلئے آئے تھے۔
ابن عبد البر “استیعاب فی تمییز لاصحاب” نامی کتاب میں جنگ بدر کے حوالے سے کہتے ہیں: جبرئیل اور میکائیل، حضرت علیؑ کے ساتھ تھے۔[14]

امام حسنؑ بھی اس حوالے سے فرماتے ہیں: رسول خداؐنے جنگ بدر میں پرچم حضرت علیؑ کے دست مبارک میں دیا درحالیکہ جبرئیل آپ کے دائیں طرف اور میکائل بائیں طرف سے آپ کی ہمراہی کر رہے تھے۔[15]

حضرت فاطمہؑ کے ساتھ قرابت کا تذکرہ

چونکہ شام میں فقط حضرت زہراؑ کی شخصیت تخریب سے محفوظ تھی اس لئے امام سجادؑ بھی فقط کے ساتھ اپنی قرابت کا تذکرہ کیا۔[حوالہ درکار]

امام حسینؑ کی مظلومیت

امام سجادؑ نے حضرت علیؑ کے تعارف اور اپنے آپ کو پیغمبر اکرمؐ اور حضرت فاطمہؑ سے منسوب کرنے کے بعد امام حسینؑ کی مظومیت اور آپ کی شہادت کی نوعیت بیان فرمائی۔ امام سجادؑ کی پیغمبر اکرمؐاور حضرت فاطمہؑ کے ساتھ قرابت ثابت ہونے اور حضرت علیؑ کے بارے میں معاویہ اور یزید کے جھوٹے پروپیگنڈے اور امام حسینؑ کی مظلومانہ شہادت سے با خبر ہونا شام کے لوگوں پر کافی اثر انداز ہو سکتا تھا اسلئے امام سجادؑ نے اس خطبے میں اپنے والد گرامی کی مظلومانہ پر بھی کسی حد تک گفتگو فرمائی۔[حوالہ درکار]

خطبے کے اثرات

مزید راز فاش ہونے کا خطرہ

امام سجادؑ کے دوٹوک اور روشنگرانہ خطبے نے حکومت یزید کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیا لذا مزید رسوائی سے بچنے کیلئے یزید نے موذن سے اذان دینے کا کہا اور اس کے درباری مؤذن نے فورا حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اذان دینا شروع کیا۔ لیکن جیسے جیسے مؤذن اذان کے جملات ادا کرتا جاتا امام سجادؑ نیز کوئی نہ کوئی جملہ ارشاد فرماتے یہاں تک کہ مؤذن اشہد ان محمدا رسول اللہ کے جملے پر جب پہنچے۔

جیسے ہی مؤذن نے یہ جملہ ادا کیا تو امام سجادؑ نے موذن کو خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے یزید سے پوچھا: اے یزید! یہ محمد جس کی رسالت کی گواہی اذان میں دی جاتی ہے، تیرا نانا ہے یا میرا نانا؟ اگر تم انہیں تیرا نانا سمجھتے ہو تو بے شک تو جھوٹا ہو لیکن اگر وہ میرا نانا ہے تو ان کی عترت اور اہل بیت پر یہ ظلم کیوں روا رکھا ہے؟[حوالہ درکار]

لوگوں کا رد عمل

امام سجادؑ کے خطبے سے مسجد میں موجود لوگ بہت متأثر ہوئے۔ ریاض القدس نامی کتاب میں آیا ہے کہ یزید نماز پڑھے بغیر مسجد سے باہر چلا گیا یوں یہ اجتماع بھی درہم برہم ہو گیا۔ جب امام ممبر سے نیچے اتر آئے تو لوگ آپ کے اردگرد جمع ہو گئے سب نے اپنے کئے پر امام سے معافی مانگ لی۔[16]

دربار میں موجود ایک یہودی کی حکایت

امام سجادؑ کے خطبے کے بعد محفل میں موجود ایک یہودی نے یزید کو برا بھلا کہا اور اپنے پیغمبر کی بیٹی کے اولاد کو اس طرح مظلومانہ طور پر شہید کرنے پر اس کی یوں مذمت اور سرزنش کی:

خدا کی قسم اگر ہمارے نبی موسى بن عمران کی کوئی اولاد ہمارے پاس ہوتے تو ہمارا یہ گمان ہے کہ ہم ان کی پرستش کی حد تک احترام کرتے۔ لیکن تم لوگ! تمہارا نبی کل اس دنیا سے چلا گیا ہے اور آج ان کی اولاد پر حملہ آور ہوئے ہو اور اسے تہ تیغ کر ڈالے ہو؟ افسوس ہو تم لوگوں پر! [17]

خطبے کا متن اور ترجمہ

دربار یزید میں امام سجادؑ کا خطبہ

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

أَيُّهَا النَّاسُ أُعْطِينَا سِتّاً وَ فُضِّلْنَا بِسَبْعٍ؛
أُعْطِينَا الْعِلْمَ وَ الْحِلْمَ وَ السَّمَاحَةَ وَ الْفَصَاحَةَ وَ الشَّجَاعَةَ وَ الْمَحَبَّةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ.
وَ فُضِّلْنَا بِأَنَّ مِنَّا النَّبِيَّ الْمُخْتَارَ مُحَمَّداً وَ مِنَّا الصِّدِّيقُ وَ مِنَّا الطَّيَّارُ وَ مِنَّا أَسَدُ اللَّهِ وَ أَسَدُ رَسُولِهِ وَ مِنَّا سِبْطَا هَذِهِ الْأُمَّةِ.
مَنْ عَرَفَنِي فَقَدْ عَرَفَنِي وَ مَنْ لَمْ يَعْرِفْنِي أَنْبَأْتُهُ بِحَسَبِي وَ نَسَبِي.
أَيُّهَا النَّاسُ أَنَا ابْنُ مَكَّةَ وَ مِنَى أَنَا ابْنُ زَمْزَمَ وَ الصَّفَا.
أَنَا ابْنُ مَنْ حَمَلَ الرُّكْنَ بِأَطْرَافِ الرِّدَا.
أَنَا ابْنُ خَيْرِ مَنِ ائْتَزَرَ وَ ارْتَدَى.ر
أَنَا ابْنُ خَيْرِ مَنِ انْتَعَلَ وَ احْتَفَى.
أَنَا ابْنُ خَيْرِ مَنْ طَافَ وَ سَعَى.
أَنَا ابْنُ خَيْرِ مَنْ حَجَّ وَ لَبَّى.
أَنَا ابْنُ مَنْ حُمِلَ عَلَى الْبُرَاقِ فِي الْهَوَاءِ.
أَنَا ابْنُ مَنْ أُسْرِيَ بِهِ مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى.
أَنَا ابْنُ مَنْ بَلَغَ بِهِ جَبْرَئِيلُ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى.
أَنَا ابْنُ مَنْ دَنا فَتَدَلَّى فَكانَ قابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى‏.
أَنَا ابْنُ مَنْ صَلَّى بِمَلَائِكَةِ السَّمَاءِ.
أَنَا ابْنُ مَنْ أَوْحَى إِلَيْهِ الْجَلِيلُ مَا أَوْحَى.
أَنَا ابْنُ مُحَمَّدٍ الْمُصْطَفَى أَنَا ابْنُ عَلِيٍّ الْمُرْتَضَى.
أَنَا ابْنُ مَنْ ضَرَبَ خَرَاطِيمَ الْخَلْقِ حَتَّى قَالُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ.
أَنَا ابْنُ مَنْ ضَرَبَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ بِسَيْفَيْنِ وَ طَعَنَ بِرُمْحَيْنِ وَ هَاجَرَ الْهِجْرَتَيْنِ وَ بَايَعَ الْبَيْعَتَيْنِ وَ قَاتَلَ بِبَدْرٍ وَ حُنَيْنٍ وَ لَمْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ.
أَنَا ابْنُ صَالِحِ الْمُؤْمِنِينَ وَ وَارِثِ النَّبِيِّينَ وَ قَامِعِ الْمُلْحِدِينَ وَ يَعْسُوبِ الْمُسْلِمِينَ وَ نُورِ الْمُجَاهِدِينَ وَ زَيْنِ الْعَابِدِينَ وَ تَاجِ الْبَكَّائِينَ وَ أَصْبَرِ الصَّابِرِينَ وَ أَفْضَلِ الْقَائِمِينَ مِنْ آلِ يَاسِينَ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.
أَنَا ابْنُ الْمُؤَيَّدِ بِجَبْرَئِيلَ الْمَنْصُورِ بِمِيكَائِيلَ
أَنَا ابْنُ الْمُحَامِي عَنْ حَرَمِ الْمُسْلِمِينَ وَ قَاتِلِ الْمَارِقِينَ وَ النَّاكِثِينَ وَ الْقَاسِطِينَ.
وَ الْمُجَاهِدِ أَعْدَاءَهُ النَّاصِبِينَ وَ أَفْخَرِ مَنْ مَشَى مِنْ قُرَيْشٍ أَجْمَعِينَ وَ أَوَّلِ مَنْ أَجَابَ وَ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَ لِرَسُولِهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَ أَوَّلِ السَّابِقِينَ وَ قَاصِمِ الْمُعْتَدِينَ وَ مُبِيدِ الْمُشْرِكِينَ وَ سَهْمٍ مِنْ مَرَامِي اللَّهِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ
وَ لِسَانِ حِكْمَةِ الْعَابِدِينَ وَ نَاصِرِ دِينِ اللَّهِ وَ وَلِيِّ أَمْرِ اللَّهِ وَ بُسْتَانِ حِكْمَةِ اللَّهِ وَ عَيْبَةِ عِلْمِهِ.
سَمِحٌ سَخِيٌّ بَهِيٌّ بُهْلُولٌ زَكِيٌّ أَبْطَحِيٌّ رَضِيٌّ مِقْدَامٌ هُمَامٌ صَابِرٌ صَوَّامٌ مُهَذَّبٌ قَوَّامٌ.
قَاطِعُ الْأَصْلَابِ وَ مُفَرِّقُ الْأَحْزَابِ.
أَرْبَطُهُمْ عِنَاناً وَ أَثْبَتُهُمْ جَنَاناً وَ أَمْضَاهُمْ عَزِيمَةً وَ أَشَدُّهُمْ شَكِيمَةً
أَسَدٌ بَاسِلٌ يَطْحَنُهُمْ فِي الْحُرُوبِ إِذَا ازْدَلَفَتِ الْأَسِنَّةُ وَ قَرُبَتِ الْأَعِنَّةُ طَحْنَ الرَّحَى وَ يَذْرُوهُمْ فِيهَا ذَرْوَ الرِّيحِ الْهَشِيمِ.
لَيْثُ الْحِجَازِ وَ كَبْشُ الْعِرَاقِ مَكِّيٌّ مَدَنِيٌّ خَيْفِيٌّ عَقَبِيٌّ بَدْرِيٌّ أُحُدِيٌّ شَجَرِيٌّ مُهَاجِرِيٌّ.
مِنَ الْعَرَبِ سَيِّدُهَا وَ مِنَ الْوَغَى لَيْثُهَا
وَارِثُ الْمَشْعَرَيْنِ وَ أَبُو السِّبْطَيْنِ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ.
ذَاكَ جَدِّي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ
ثُمَّ قَالَ:
أَنَا ابْنُ فَاطِمَةَ الزَّهْرَاءِ أَنَا ابْنُ سَيِّدَةِ النِّسَاءِ
انا ابنُ خَدیجهَ الکبری. (انا ابن الحسين القتيل بكربلا، انا ابن المرمل بالدماء، انا ابن من بكى عليه الجن في الظلماء، انا ابن من ناح عليه الطيور في الهواء) فَلَمْ يَزَلْ يَقُولُ أَنَا أَنَا حَتَّى ضَجَّ النَّاسُ بِالْبُكَاءِ وَ النَّحِيبِ. وَ خَشِيَ يَزِيدُ لَعَنَهُ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ فِتْنَةٌ. فَأَمَرَ الْمُؤَذِّنَ فَقَطَعَ عَلَيْهِ الْكَلَامَ. فَلَمَّا قَالَ الْمُؤَذِّنُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ قَالَ عَلِيٌّ لَا شَيْ‏ءَ أَكْبَرُ مِنَ اللَّهِ. فَلَمَّا قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ شَهِدَ بِهَا شَعْرِي وَ بَشَرِي وَ لَحْمِي وَ دَمِي. فَلَمَّا قَالَ الْمُؤَذِّنُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ الْتَفَتَ مِنْ فَوْقِ الْمِنْبَرِ إِلَى يَزِيدَ فَقَالَ مُحَمَّدٌ هَذَا جَدِّي أَمْ جَدُّكَ يَا يَزِيدُ فَإِنْ زَعَمْتَ أَنَّهُ جَدُّكَ فَقَدْ كَذَبْتَ وَ كَفَرْتَ وَ إِنْ زَعَمْتَ أَنَّهُ جَدِّي فَلِمَ قَتَلْتَ عِتْرَتَهُ
قَالَ وَ فَرَغَ الْمُؤَذِّنُ مِنَ الْأَذَانِ وَ الْإِقَامَةِ وَ تَقَدَّمَ يَزِيدُ فَصَلَّى صَلَاةَ الظُّهْرِ.۔

اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے

لوگو! خدا نے ہمیں چھ امتیازات اور سات فضیلتوں سے نوازا ہے؛
ہمارے چھ امتیازات علم، حلم، بخشش و سخاوت، فصاحت، شجاعت، اور مؤمنین کے دل میں ودیعت کردہ محبت سے عبارت ہیں۔
ہماری ساتھ فضیلتیں یہ ہیں:

  1. خدا کے برگزیدہ پیغمبر حضرت محمد ؐہم سے ہیں۔
  2. صدیق (امیرالمؤمنین علیؑ) ہم سے ہیں۔
  3. جعفر طیار ہم سے ہیں۔
  4. شیر خدا اور شیر رسول خدا حضرت حمزہ سیدالشہداء ہم سے ہیں۔
  5. اس امت کے دو سبط حسن و حسین ؑ ہم سے ہیں۔
  6. زہرائے بتول سلام اللہ ہم سے ہیں اور
  7. مہدی امت ہم سے ہیں۔

لوگو! [اس مختصر تعارف کے بعد] جو مجھے جانتا ہے سو جانتا ہے اور جو مجھے نہیں جانتا میں اپنے خاندان اور آباء و اجداد کو متعارف کرواکر اپنا تعارف کراتا ہوں۔
لوگو! میں مکہ و مِنٰی کا بیٹا ہوں،
میں زمزم و صفا کا بیٹا ہوں،
میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جس نے حجرالاسود کو اپنی عبا کے پلو سے اٹھاکر اپنے مقام پر نصب کیا،
میں بہترینِ عالم کا بیٹا ہوں،
میں اس ‏عظیم ہستی کا بیٹا ہوں جس نے احرام باندھا اور طواف کیا اور سعی بجا لائے،
میں بہترین طواف کرنے والوں اور بہترین لبیک کہنے والوں کا بیٹا ہوں؛
میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جو براق پر سوار ہوئے،
میں ان کا بیٹا ہوں جنہوں نے معراج کی شب مسجدالحرام سے مسجدالاقصٰی کی طرف سیر کی
میں اس ہستی کا بیٹا ہوں جن کو جیرائیل سدرۃالمنتہی تک لے گئے
میں ان کا بیٹا ہوں جو زیادہ قریب ہوئے اور زیادہ قریب ہوئے تو وہ تھے دو کمان یا اس سے کم تر کے فاصلے پر [اور وہ پروردگار کے مقام قرب پر فائز ہوئے]
میں ہوں اس والا صفات کا بیٹا جنہوں نے آسمان کے فرشتوں کے ہمراہ نماز ادا کی؛
میں ہوں بیٹا اس رسول کا جس کو خدائے بزرگ و برتر نے وحی بھیجی؛
میں محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور علی مرتضی (علیہ السلام) کا بیٹا ہوں۔
میں اس شخصیت کا بیٹا ہوں جس نے مشرکین اور اللہ کے نافرمانوں کی ناک خاک میں رگڑ لی حتی کہ کفار و مشرکین نے کلمہ توحید کا اقرار کیا؛
میں اس عظیم مجاہد کا بیٹا ہوں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سامنے اور آپ ؐکے رکاب میں دو تلواروں اور دو نیزوں سے جہاد کیا اور دوبار ہجرت کی اور دوبار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ہاتھ پر بیعت کی؛ بدر و حنین میں کفار کے خلاف شجاعانہ جہاد کیا اور لمحہ بھر کفر نہیں برتا؛
میں اس پیشوا کا بیٹا ہوں جو مؤمنین میں سب سے زيادہ نیک و صالح، انبیاء علیہم السلام کے وارث، ملحدین کا قلع قمع کرنے والے، مسلمانوں کے امیر، مجاہدوں کے روشن چراغ، عبادت کرنے والوں کی زینت، خوف خدا سے گریہ و بکاء کرنے والوں کے تاج، اور سب سے زیادہ صبر و استقامت کرنے والے اور آل یسین (یعنی آل محمد ؐ ) میں سب زیادہ قیام و عبادت کرنے والے والے ہیں۔
میرے داد (امیرالمؤمنین ؑ) وہ ہيں جن کو جبرائیل ؑ کی تائید و حمایت اور میکائیل ؑ کی مدد و نصرت حاصل ہے،
میں مسلمانوں کی ناموس کے محافظ و پاسدار کا بیٹا ہوں؛ وہی جو مارقین (جنگ نہروان میں دین سے خارج ہونے والے خوارج)، ناکثین (پیمان شکنوں اور اہل جمل) اور قاسطین (صفین میں امیرالمؤمنین ؑ کے خلاف صف آرا ہونے والے اہل ستم) کو ہلاک کرنے والے ہیں، جنہوں نے اپنے ناصبی دشمنوں کے خلاف جہاد کیا۔
میں تمام قریشیوں کی سب سے افضل اور برترو قابل فخر شخصیت کا بیٹا ہوں اور اولین مؤمن کا بیٹا ہوں جنہوں نے خدا اور رسول ؐکی دعوت پر لبیک کہا اور سابقین میں سب سے اول، متجاوزین اور جارحین کو توڑ کر رکھنے والے اور مشرکین کو نیست و نابود کرنے والے تھے۔
میں اس شخصیت کا فرزند ہوں جو منافقین کے لئے اللہ کے پھینکے ہوئے تیر کی مانند، عبادت گذاروں کی زبان حکمت ، دین خدا کے حامی و یار و یاور، اللہ کے ولی امر(صاحب ولایت و خلافت)، حکمت الہیہ کا بوستان اور علوم الہیہ کے حامل تھے؛ وہ جوانمرد، سخی، حسین چہرے کے مالک، تمام نیکیوں اور اچھائیوں کے جامع، سید و سرور، پاک و طاہر، بزرگوار، ابطحی، اللہ کی مشیت پر بہت زیادہ راضی، دشواریوں میں پیش قدم، والا ہمت اور ارادہ کرکے ہدف کو بہرصورت حاصل کرنے والے، ہمیشہ روزہ رکھنے والے، ہر آلودگی سے پاک، بہت زیادہ نمازگزار اور بہت زیادہ قیام کرنے والے تھے؛ انھوں نے دشمنان اسلام کی کمر توڑ دی، اور کفر کی جماعتوں کا شیرازہ بکھیر دیا؛ سب سے زیادہ صاحب جرأت، سب سے زیادہ صاحب قوت و شجاعت ہیبت، کفار کے مقابلے میں خلل ناپذیر، شیر دلاور، جب جنگ کے دوران نیزے آپس میں ٹکراتے اور جب فریقین کی اگلیں صفیں قریب ہوجاتی تھیں وہ کفار کو چکی کی مانند پیس دیتے تھے اور آندھی کی مانند منتشر کردیتے تھے۔
وہ حجاز کے شیر اور عراق کے سید و آقا ہیں جو مکی و مدنی و خیفی و عقبی، بدری و احدی و شجر؛ اور مہاجری ہیں جو تمام میدانوں میں حاضر رہے اور وہ سیدالعرب ہیں، میدان جنگ کے شیر دلاور، اور دو مشعروں کے وارث (اس امت کے دو) سبطین “حسن و حسین ؑ” کے والد ہیں؛ ہاں! یہ میرے دادا علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔
امام سجاد علیہ السلام نے مزید فرمایا: میں فاطمہ زہراؑ کا بیٹا ہوں میں عالمین کی تمام خواتین کی سیدہ کا بیٹا ہوں۔
پس امام سجاد ؑ نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اس قدر “انا انا” فرمایا کہ حاضرین دھاڑیں مار مار اور فریادیں کرتے ہوئے رونے لگے اور یزید شدید خوف و ہراس کا شکار ہوا کہ کہیں لوگ اس کے خلاف بغاوت نہ کریں پس اس نے مؤذن کو حکم دیا کہ اذان دے اور اس طرح اس نے امام ؑ کا کلام قطع کردیا۔
مؤذن نے کہا:
الله أكبر الله أكبر
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: خدا سب سے بڑا ہے اور کوئی چیز بھی اس سے بڑی نہیں ہے۔
مؤذن نے کہا:
أشهد أن لاإله إلا الله
امام علي بن الحسین علیہ السلام نے فرمایا: میرے بال، میری جلد، میرا گوشت اور میرا خون سب اللہ کی وحدانیت پر گواہی دیتے ہیں۔
مؤذن نے کہا:
أشهد أن محمدا رسول الله
امام علیہ السلام نے سر سے عمامہ اتارا اور مؤذن سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے مؤذن! تمہیں اسی محمد ؐ کا واسطہ، یہیں رک جاؤ لمحہ بھر، تاکہ میں ایک بات کہہ دوں؛ اور پھر منبر کے اوپر سے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: اے یزید! کیا محمد ؐمیرے نانا ہیں یا تمہمارے؟ اگر کہوگے کہ تمہارے نانا ہیں تو جھوٹ بولوگے اور کافر ہوجاؤگے اور اگر سمجھتے ہو کہ آپ ؐمیرے نانا ہیں تو بتائ کہ تم نے ان کی عترت اور خاندان کو قتل کیوں کیا اور تم نے میرے والد کو قتل کیا اور ان کے اور میرے خاندان کو اسیر کیوں کیا؟
اس کے بعد مؤذن نے اذان مکمل کرلی اور یزید آگے کھڑا ہوگیا اور نماز ظہر ادا ہوئی۔

جن منابع میں یہ خطبہ نقل ہوا

  • ابن شہر آشوب، مناقب، قم، انتشارات علامہ
  • موفق بن احمد خوارزمی، مقتل الحسین، مکتبہ المفید
  • عباسقلی خان سپہر، ناسخ التواریخ، زندگی نامہ امام سجاد علیہ السلام، تصحیح محمدباقر بہبودی، انتشارات اسلامیہ، چاپ دوم
  • حسن بن علی بن محمد طبری، کامل بہائی، چاپ تہران
  • باقر شریف قرشی، حیاہ الامام زین العابدین، دار الكتاب الاسلامی
  • شیخ عباس قمی، نفس المہموم
  • محمدمہدی مازندرانی، معالی السبطین، قم
  • محمدباقر مجلسی، بحارالانوار، مؤسسۃ الوفاء، بیروت، چاپ دوم
  • سید عبدالرزاق موسوی مقرم، مقتل الحسین، دارالکتاب الاسلامى، بیروت

اس خطبے کی شرح

  • نورائی یگانہ قمی، احمد، شرح خطبہ امام سجاد ؑ در مسجد جامع شام، دارالتفسیر، ایران، قم.
  • ترجمہ و شرح كوتاہی بر خطبہ امام سجاد ؑ، علیرضا داورزنی، بیان الحق، ۱۳۸۴.

متعلقہ مضامین

بیرونی روابط

شام میں امام سجادؑ کا تاریخی خطبہ

حوالہ جات

  1. بحارالانوار، ج۴۵، ص۱۷۴؛ عوالم، ج۱۷، ص۴۰۹؛ نفس المہموم، ص۴۵۱؛ حیاۃ الحسین، ص۳۸۶
  2. الکافی، ج‏۱، ص۴۷۳؛ زندگانی حضرت امام جعفر صادق علیہ‌السلام، ص۱۱۶
  3. الأصنام، ترجمہ، ص۱۹
  4. بحار الانوار، ج۳۹، ص۳۴۱
  5. الإنصاف، ص۱۳۲
  6. بحار الانوار، ج۳۹، ص۳۴۱
  7. بحار الانوار، ج۳۹، ص۳۴۱
  8. بحار الانوار، ج۴۵، ص۱۳۸
  9. جعفر عباس، ص۹۸ (پاورقی)
  10. ابن شہر آشوب، مناقب، ج۱، ص۲۹۰
  11. سایت پرسمان دانشجو
  12. بحار، ج۴۴، ص۷۴، الإحتجاج علی أہل اللجاج (للطبرسی)، ج۱، ص: ۲۷۲
  13. مناقب آل أبی طالب علیہم السلام (لابن شہرآشوب)، ج۲، ص: ۵
  14. الاستیعاب، ج‏۳، ص۱۱۰۱
  15. مسند أحمد بن حنبل ج۲، ص۳۴۴
  16. ریاض القدس، ج۲، ص۳۲۹
  17. بحارالأنوار، ج‏۴۵، ص۱۳۹؛ مفضل خوارزمی، ج۲، ص۶۹

مآخذ

  • ابن شہر آشوب، مناقب، نجف، حیدریہ، ۱۳۷۶ ق، ج۱، ص۲۹۰.
  • ابن عبد البر أبو عمر یوسف بن عبد اللہ بن محمد (م ۴۶۳)، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دار الجیل، چاپ اول، ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
  • جعفر عباس الحائری، بلاغہ الحسین، قم، دار الحدیث، ۱۳۸۳ ش.
  • خسروی‏ موسی، زندگانی حضرت امام جعفر صادق علیہ‌السلام‏، اسلامیہ‏، تہران‏، ۱۳۹۸ ق‏، چاپ دوم‏.
  • رسولی محلاتی مترجم، الإنصاف فی النص علی الأئمۃ ع، ص: ۱۳۲.
  • الکلبی، ابو المنذر ہشام بن محمد (م ۲۰۴) کتاب الأصنام (تنکیس الأصنام)، تحقیق احمد زکی باشا، القاہرۃ، افست تہران (ہمراہ با ترجمہ)، نشر نو، چ دوم، ۱۳۶۴ش.
  • کلینی، کافی، اسلامیہ‏، پنج جلدی، تہران، ۱۳۶۲.
  • علامہ مجلسی، بحار الانوار، چاپ بیروت، الوفاء، ج۴۵، ص۱۳۸.
  • سایت پرسمان دانشجو
تبصرے
Loading...