سید علی حسینی خامنہ ای

سید علی حسینی خامنہ ای

سید علی حسینی خامنہ ای (ولادت 1939ء) شیعہ مرجع تقلید اور اسلامی انقلاب کے دوسرے رہبر ہیں۔ سنہ 1989ء میں رہبر انقلاب کے طور پر منتخب ہونے سے قبل دو بار اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر اور اس سے قبل کچھ عرصے تک مجلس شورائے اسلامی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ امام خمینی نے انہیں تہران کے امام جمعہ کے طور پر مقرر کیا اور یہ ان کے شرعی مناصب میں سے ایک تھا۔ وہ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل مشہد مقدس کے مؤثر ترین علمائے دین میں شمار ہوتے تھے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے افکار و آراء کو حدیث ولایت نامی مجموعے میں اکٹھا کیا گیا ہے۔ ان کے اقوال اور مکتوب پیغامات کو حسب موضوع مختلف کتب کی صورت میں مرتب کرکے شائع کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے کئی کتابیں تالیف کی ہیں اور کئی کتب کا ترجمہ کیا ہے اور یہ کتب شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی مفصل ترین کاوش طرح کلی اندیشہ اسلامی در قرآن اور مشہور ترین ترجمہ کتاب صلح امام حسنؑ ہے۔

قمہ زنی اور عزاداری کی بعض رسومات کی صریح مخالفت اور اہل سنت کے مقدسات کی توہین کی تحریم ان کے مشہور اور مؤثر فتوؤں میں سے ہیں۔ ثقافتی یلغار اور اسلامی بیداری ان کی خاص تخلیقی اصطلاحات ہیں جو ان کے خطابات اور پیغامات کے توسط سے سیاسی ادب کا حصہ بن چکی ہیں۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای ادب میں بھی مہارت رکھتے ہیں اور ادبیات کے مختلف اسالیب سے واقفیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے شاعری بھی کی ہیں اور شاعری میں ان کا تخلص “امین” ہے۔ معتبر تاریخی کتب کا مطالعہ ان کی دائمی مطالعاتی روش کا حصہ ہے، یہاں تک کہ تاریخ معاصر کے موضوعات و مباحث پر مکمل احاطہ رکھتے ہیں۔[1]

اس مضمون میں شامل موضوعات

ولادت اور نسب

آپ مورخہ 19 اپریل سن 1939ء بمطابق 28 صفر 1358 ہجری قمری کو مشہد مقدس کے علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔

والدین

آپ کے والد سید جواد خامنہ ای (متوفی 1365 ش) بھی اپنے زمانے کے علماء اور مجتہدین میں سے تھے جو نجف اشرف میں پیدا ہوئے اور طفولت میں اپنے کنبے کے ہمراہ تبریز چلے آئے۔ سنہ 1336 ہجری قمری کو مشہد ہجرت کرگئے۔ وہ کچھ عرصہ بعد نجف واپس چلے گئے اور میرزا محمد حسین نائینی، سید ابوالحسن اصفہانی اور آقا ضیاءالدین عراقی جیسے اکابرین سے کسب فیض کیا اور اجازۂ اجتہاد حاصل کرنے کے بعد[2] ایران لوٹ آئے اور مشہد میں سکونت اختیار کیں۔ انھوں نے دینی حوزات میں تدریس علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ بازار مشہد کی مسجد صدیقی ہا (مسجد آذربائی جانی ہا) کی امامت بھی سنبھالی۔[3] وہ جامع مسجد گوہر شاد کے امام جماعت بھی تھے۔[4]

آپ کی والدہ ماجدہ “بانو میردامادی” (ولادت 1293 وفات 1368 ہجری شمسی)، ایک زاہدہ عابدہ اور شرعی احکام اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی پابند اور آیات قرآن و احادیث سے واقف، خاتون تھیں۔

اجداد

آپ کے جد اعلی سید محمد حسینی تفرشی ہیں جن کا سلسلۂ نسب “سادات افطسی” سے ہوتا ہوا سلطان العلماء احمد تک پہنچتا ہے جو پانچویں پشت میں امام سجادؑ کی اولاد میں شمار ہوتے ہیں۔

ان کے دادا سید حسین خامنہ ای (پیدائش تقریبا 1259 ہجری قمری، وفات 20 ربیع الثانی سنہ 1325ہجری قمری) آئینی حکومت خواہاں علماء میں سے تھے اور سید حسین کوہ کمرہ ای، فاضل ایروانی، فاضل شربیانی، میرزا باقر شکی اور میرزا محمد حسن شیرازی جیسے بزرگوں کے شاگرد تھے۔[5] وہ نجف سے واپسی کے بعد تبریز کے مدرسۂ طالبیہ کے مدرس اور اس شہر کی جامع مسجد کے امام جماعت مقرر ہوئے۔خطا در حوالہ: Closing missing for tag

آپ کے چچا سید محمد خامنہ ای (ولادت 1293 ہجری قمری، نجف- وفات شعبان 1353 ہجری قمری، نجف)[6]، آخوند خراسانی اور شریعت اصفہانی جیسے اکابرین کے شاگرد تھے۔[7]

آیت اللہ سید ہاشم نجف آبادی (میر دامادی) (ولادت 1303- وفات 1380 ہجری قمری)، آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے نانا، عصر صفویہ کے مشہور فیلسوف میر داماد کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور آخوند خراسانی، محمد حسینی نائینی کے شاگرد تھے۔ وہ مفسرین قرآن اور مسجد گوہر شاد کے ائمۂ جماعت میں سے تھے[8] اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا خاص اہتمام کرتے تھے یہاں تک کہ (رضا شاہ کے دور میں مسجد گوہر شاد میں ہونے والے قتل عام پر تنقید کرنے کے بموجب سمنان جلاوطن کئے گئے۔ [9]۔[10]

والدہ کی طرف سے آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا سلسلۂ نسب سید محمد دیباج بن امام جعفر صادق(ع) تک پہنچتا ہے۔[11]

علمی سفر

حصول علم

سید علی خامنہ ای نے حصول تعلیم کا سلسلہ چار سال کی عمر میں مکتب خانے میں قرآن کریم سیکھ کر، شروع کیا۔ پرائمری اسکول میں تعلیم جاری رکھی اور ساتھ ہی قرائت اور تجوید قرآن کے سلسلے میں مشہد کے بعض قراء کرام سے مستفید ہوئے[12] اور پرائمری اسکول کا مرحلہ مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ دینی مدرسہ سلیمان خان میں دینی علوم کے حصول کا آغاز کیا۔ انھوں نے سطح کا مرحلہ مدرسہ نواب میں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ انھوں نے مقدمات اور سطح میں اپنے والد والد سے بھی کسب فیض کیا۔ ہمزمان با تحصیلات حوزوی، دبیرستان را نیز تا سال دوم متوسطہ ادامہ داد۔[13]

سنہ 1334 ہجری شمسی میں انھوں نے آیت اللہ سید محمد ہادی میلانی کے درس خارج “فقہ” میں شرکت کی اور دو سال بعد سنہ 1336 ہجری شمسی میں اپنے گھرانے کو لے کر نجف چلے گئے اور حوزہ علمیہ نجف کے مشہور اساتذہ کے دروس میں شرکت کی لیکن ان کے والد ان کے نجف میں قیام پر راضي نہ تھے چنانچہ مشہد واپس آئے[14] اور ایک سال تک مزید آیت اللہ میلانی کے درس میں حاضر ہوئے اور سنہ 1337 ش میں حوزہ علمیہ قم کی طرف عزیمت کی۔[15]

آیت اللہ خامنہ ای سنہ 1343 ہجری شمسی میں والد کے بصارت کھو دینے کے باعث والد کی مدد کے لئے ضرورتا قم سے مشہد واپس چلے گئے اور ایک بار پھر آیت اللہ میلانی کے درس میں شرکت کرنے لگے اور حصول تعلیم کا یہ سلسلہ 1349 ہجری شمسی تک جاری رہا۔

تدریس

انھوں نے مشہد میں ابتداء ہی سے فقہ اور اصول کی اعلی سطوح (رسائل شیخ انصاری، مکاسب اور کفایہ) کی تدریس کا اہتمام کیا اور عام لوگوں کے لئے بھی تفسیر قرآن کے دروس رکھے۔ انھوں نے سنہ 1347 ہجری شمسی سے دینی طلبہ کے لئے خصوصی کورسز کا آغاز کیا اور یہ دروس اور اجتماعات سنہ 1356 ہجری شمسی میں ان کی گرفتاری اور ایران شہر جلاوطنی تک جاری رہے۔[16] درس تفسیر کا سلسلہ ان کی صدارت کے زمانے میں کچھ عرصے تک جاری تھا اور سنہ 1369 ش میں انھوں نے خارج فقہ کی تدریس کا آغاز کیا جو تا حال جاری ہے اور اب تک وہ جہاد، قصاص اور مکاسب محرمہ کے ابواب کی تدریس مکمل کرچکے ہیں۔

اساتذ

درس خارج

علمی کاوشیں

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تحقیق و تالیف کا آغاز طالبعلمی کے زمانے سے ہی کیا تھا اور اپنے اساتذہ کا درس لکھ لیتے تھے۔[19] آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے افکار و آراء کو حدیث ولایت نامی مجموعے میں اکٹھا کیا گیا۔ ان کے اقوال اور مکتوب پیغامات کو حسب موضوع مختلف کتب کی صورت میں مرتب کرکے شائع کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ان کی تالیف کردہ اور مترجَم کتب بھی شائع ہوئی ہیں۔

تألیف

ترجمہ

سیاسی و سماجی کردار

مشہد میں شہید نواب صفوی (میر لوحی) سے ملاقات آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی سیاسی فعالیت اور پہلوی سلطنت کے خلاف ان کی جدوجہد کا آغاز ثابت ہوئی۔

سنہ 1962 ہجری میں[20] نیز 1963 عیسوی میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای امام خمینی اور آیت اللہ میلانی کے درمیان پیغامات کے تبادلہ کا ذریعہ تھے۔[21]

انھوں نے بیرجند کا دورہ کرکے حکومت وقت کے خلاف خطابات کئے[22] اسی بنا پر 2 جون سنہ 1963 عیسوی / 1383 ہجری قمری میں 7 محرم کو حراست لئے گئے اور مشہد میں قید کرلئے گئے۔[23] رہائی کے بعد آیت اللہ محمد ہادی میلانی ان سے ملنے گئے۔[24]

وہ ان علماء میں سے تھے جنہوں نے یکم جنوری 1964 کو آیت اللہ طالقانی، مہدی بازرگان، اور ید اللہ سحابی کو ٹیلی گرام بھیجا جو امام خمینی کی حمایت میں جدوجہد کرتے ہوئے قیدخانوں میں بند کئے گئے تھے۔[25]

اسی دور میں حوزہ علمیہ قم کے خراسانی طلبہ نے ان کی ہدایت پر، امام خمینی کی نظربندی جاری رہنے پر اس وقت کے وزیر اعظم حسن علی منصور کو احتجاجی مراسلے لکھ کر شائع کئے جن میں موصوف بذات خود اور ابوالقاسم خز علی اور محمد عبائی خراسانی بھی شامل تھے۔[26]

آیت اللہ العظمی خامنہ ای جنوری سنہ 1964 عیسوی کے اواخر ماہ مبارک رمضان سنہ 1383 ہجری قمری کے موقع پر تبلیغ اور اسلامی تحریک کے خد و خال اور اہداف و مقاصد کی تشریح کے لئے زاہدان چلے گئے۔[27] زاہدان کی مساجد میں ان کی تقاریر کے پیش نظر انہیں حراست میں لیا گیا اور تہران کے قیدخانے قزل قلعہ میں منتقل کئے گئے[28] اور 4 مارچ سنہ 1964 عیسوی کو قیدخانے سے رہا کئے گئے۔[29]

سنہ 1964 عیسوی کے اواخر میں قم سے مشہد لوٹے۔[30]

آیت اللہ العظمی خامنہ ای، عبدالرحیم ربانی شیرازی، محمد حسینی بہشتی، علی فیض مشکینی، احمد آذری قمی، علی قدوسی، اکبر ہاشمی رفسنجانی، سید محمد خامنہ ای اور محمد تقی مصباح یزدی کے ساتھ[31]11 رکنی گروہ کے اراکین میں سے تھے جو پہلوی حکومت کے خلاف جدوجہد کی غرض سے حوزہ علمیہ قم کی اصلاح کی غرض سے تشکیل پایا تھا۔

موصوف نے کچھ عرصہ تہران کی مسجد امیرالمؤمنین میں امام جماعت کے طور پر کردار ادا کیا۔ آیت اللہ مارچ سنہ 1967 عیسوی میں سید حسن قمی کو مشہد کی مسجد گوہرشاد میں حکومت مخالف تقریر کی پاداش میں گرفتار اور جلاوطن کیا گیا تو آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آیت اللہ میلانی سے مطالبہ کیا کہ حکومت کے اس اقدام پر احتجاج کریں۔[32]

مورخہ 3 اپریل 1967 عیسوی میں موصوف کو آیت اللہ شیخ مجتبی قزوینی کے جنازے سے ہی گرفتار[33] اور اسی سال 17 جولائی کو رہا کیا گیا۔[34] وہ کچھ دن بعد تہران گئے اور سیاسی قیدیوں سے ملاقات کی۔[35]

خراسان کے جنوب میں تباہ کن زلزلہ آیا تو مورخہ 31 اگست 1968 عیسوی کو مشہد کے بعض علماء نے آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی سربراہی میں زلزلہ زدہ عوام کو امدام پہنچانے کے لئے شہر فردوس عزیمت کی۔ اس دوران انھوں نے مجالس و منابر اور مذہبی انجمنوں کی طرف سے منعقدہ مجالس میں اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ان کی یہ فعالیت حکومت وقت کو ایک آنکھ نہ بھائی اور فردوس میں ان کے قیام کا خاتمہ کیا گیا۔[36]

ان کا مسلسل تعاقب کیا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ جدوجہد میں شریک علماء ـ منجملہ سید محمود طالقانی، سید محمد رضا سعیدی، محمد جواد باہنر، محمد رضا مہدوی کنی، مرتضی مطہری، اکبر ہاشمی رفسنجانی اور فضل اللہ محلاتی کے ساتھ مشہد اور تہران میں رابطے میں تھے اور مشہد میں رہائش پذیر ہونے کے باوجود تہران کے مجاہد علماء کی مجالس میں شرکت کرتے تھے[37]۔[38]۔[39]۔[40]۔[41]

اسی سال انہیں جدوجہد کے دوران مؤثر موضوعات کی تشریح کے لئے تہران کے فعال سیاسی مراکز ـ منجملہ حسینیہ ارشاد اور مسجد الجواد میں خطاب کی دعوت دی گئی۔[42]

جون 1970 عیسوی میں نجف میں آیت اللہ سید محسن حکیم کا انتقال ہوا تو موصوف نے اعلم مرجع تقلید کے عنوان سے امام خمینی کی مرجعیت کو تقویت پہنچانے کی انتھک کوششیں کیں۔

24 ستمبر سنہ 1970 کو گرفتار ہوئے اور کچھ عرصہ مسلح افواج کے خراسان ڈویژن کے قیدخانے میں محبوس رہے۔[43]

اگست سنہ 1971 عیسوی میں مشہد کی ساواک نے انہیں بلوایا اور کچھ عرصے تک خراسان ڈویژن کے قیدخانے میں قید کیا تاکہ پہلوی حکومت کی طرف سے منعقد ہونے والے 2500 سالہ جشن کے حوالے سے کوئی فعالیت نہ کرسکیں۔[44] امام خمینی نے اس جشن کی مخالفت کی تھی اور اس کو حرام قرار دیا تھا۔[45] رہائی کے بعد اسی برس دو بار پھر حراست میں لئے گئے اور دوسری بار اندرونی امن کے خلاف اقدامات کے الزام میں 3 مہینے قید کی سزا پائی۔[46]

رہائی کے بعد انھوں نے اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کی سطح وسیع تر کردی۔ ان کے درس تفسیر کا سلسلہ مدرسۂ میرزا جعفر، مسجد امام حسن(ع)، مسجد قبلہ نیز ان کی رہائشگاہ میں جاری رہا۔

دسمبر سنہ 1973 عیسوی میں میں انھوں نے نماز جماعت اور درس تفسیر کے اجتماعات کو مسجد کرامت میں منتقل کیا۔[47] کچھ عرصہ بعد حکومت وقت نے انہیں اس مسجد میں بھی نماز جماعت بپا کرنے سے منع کیا۔[48]۔۔[49]

نومبر سنہ 1974 عیسوی میں آیت اللہ محمد مفتح کی دعوت پر تہران کی مسجد جاوید میں خطاب کیا اور جنوری 1975 میں گرفتار کئے گئے اور اس بار تہران میں انسداد دہشت گردی کی مشترکہ کمیٹی کے قیدخانے میں منتقل کئے گئے۔[50] انہیں اس قیدخانے میں ملاقات کی اجازت نہیں تھی اور ان کے اہل خانہ کو ان کی صحت و سلامتی کی خبر نہیں دی جا رہی تھی اور یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ موصوف کہاں اور کس حال میں ہیں۔[51]

موصوف مورخہ 24 اگست سنہ 1975 عیسوی کو قیدخانے سے رہا ہوئے لیکن حفظ امن کے مامورین کے زیر نگرانی تھے اور انہیں حتی اپنے گھر میں نماز جماعت بپا کرنے، خطاب کرنے، تدریس اور تفسیر کے اجتماعات بپا کرنے کی اجازت نہیں دیتے بھے[52]، لیکن وہ تفسیر کے اجتماعات اور انقلابی فعالیت خفیہ طور پر انجام دیتے تھے۔[53]

مورخہ 29 جون سنہ 1977 عیسوی کو علی شریعتی کے انتقال پر آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ان کی تکریم و فاتحہ کی مجلس میں شرکت کی[54] اور امام خمینی کے فرزند آیت اللہ سید مصطفی خمینی کی وفات پر موصوف نے بعض انقلابی راہنماؤں کے ساتھ مل کر 28 اکتوبر کو مسجد ملا ہاشم میں مجلس فاتحہ کا اہتمام کیا۔[55]

وہ خراسان کے سماجی امن کمیشن کی طرف سے تین سال کے عرصے تک ایران شہر جلا وطن کئے گئے[56] اور حفظ امن کے مامورین نے 14 دسمبر سنہ 1977 عیسوی کو ان کے گھر پر ہلہ بول دیا اور انہیں گرفتار کرکے ایران شہر منتقل کیا۔

ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد

شورائے انقلاب میں رکنیت

امام خمینی کی ہجرتِ فرانس کے بعد ان ہی کی ہدایت پر 22 دی ماہ 1357 ہجری شمسی[57] (12 جنوری سنہ 1979 عیسوی) کو شورائے انقلاب (Revolutionary Council) پائی جس کے اراکین تدریجا امام خمینی نے متعین کئے۔[58]

اس شوری کے ابتدائی اراکین سید علی خامنہ ای، مرتضی مطہری، سید محمد حسینی بہشتی، سید عبدالکریم موسوی اردبیلی، محمد رضا مہدوی کنی، محمد جواد باہنر اور اکبر ہاشمی رفسنجانی تھے۔ موصوف نے دی ماہ کے آخری ایام میں اس شوری کے اجلاسوں میں شرکت کی۔[59]

شوری پر اس مرحلے میں جدوجہد کے سلسلے میں اہم فیصلے کرنے کی ذمہ داری عائد تھی، منجملہ: پہلوی حکومت کے حکام غیر ملکی حکام سے ملاقاتیں اور مذاکرات اور امام خمینی کے استقبال کے لئے کمیٹی کی تشکیل[60] اور عبوری وزیر اعظم کے عہدے کے لئے امام خمینی کو مہدی بازرگان کے نام کی تجویز دینا۔[61]

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد شوری کے فرائض میں درج ذیل امور شامل تھے:

قانون ساز ادارے کی غیر موجودگی میں قانون سازی کرنا، جولائی 1979 عیسوی میں عبوری حکومت اور شورائے انقلاب کے ادغام کے بعد بعض انتظامی امور کا بندوبست کرنا اور مورخہ 5 نومبر 1979 عیسوی کو عبوری حکومت کے استعفے کے بعد انتظآمی امور کا باگ ڈور سنبھالنا۔
اس شوری پر اپنے بنیادی فرائص کے علاوہ تازہ ابھرتے ہوئے اسلامی جمہوری نظام کو درپیش مسائل و مشکلات کے حل کرنے اور امام خمینی کو مشاورت فراہم کرنے جیسے فرائض بھی عائد تھے۔[62] آیت اللہ العظمی خامنہ ای 20 جولائی سنہ 1980 عیسوی کو شوری کی تحلیل تک اس شوری کے مستقل رکن رہے۔[63]

انہیں یقین تھا کہ شورائے انقلاب میں معاشرے کے مختلف طبقات کے نمائندگوں کو موجود ہونا چاہئے۔[64]

کردستان، سیستان و بلوچستان اور ملک کے دوسرے علاقوں کے مسائل اور وحدت کے تحفظ کی ضرورت وہ دیگر موضوعات تھے جن کو شورائے انقلاب کی توجہ حاصل تھی۔[65]

حزب جمہوری اسلامی کی تاسیس

آیت اللہ العظمی خامنہ انقلاب اسلامی کے انقلاب کی کامیابی سے قبل اور اس کے بعد،[66] سید محمد بہشتی، اکبر ہاشمی رفسنجانی، سید عبدالکریم اردبیلی اور محمد جواد باہنر کے ساتھ ایک انقلابی تنظیم کی تشکیل کے لئے کوشاں تھے۔[67]

مورخہ 19 فروری اس تنظیم حزب جمہوری اسلامی کے عنوان سے اپنے وجود اور فعالیت کا باضابطہ اعلان کیا تا ہم اس کے قیام کی تاریخ موسم گرما سنہ 1977 کے دوران مشہد مقدس میں منعقدہ اجلاسوں کی طرف پلٹتی ہے۔[68]

موصوف اس جماعت کا منشور مرتب کرنے والوں میں بھی شامل تھے اور جماعت کے اراکین کے فرائض کی تقسیم کے مرحلے میں انھوں نے تبلیغات کی ذمہ داری سنبھالی۔[69] وہ جماعت کی مرکزی شوری کے بانی رکن تھے اور اس کی تاسیس کے مرحلے میں مقاصد کی تشریح اور تعارف کے حوالے سے اہم ترین کردار ان ہی ادا کیا اور جماعت کا موقف ان ہی نے تقاریر، اخبارات و رسائل اور کتابچوں کی صورت میں بیان کیا۔ انھوں نے مشہد میں اس جماعت کے شعبے کے قیام میں بھی کردار ادا کیا اور مورخہ 17 مارچ 1979 عیسوی مشہد میں جماعت کے دفتر کا افتتاح کیا۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای جون اور اگست 1981 میں بہشتی اور محمد جواد باہنر (کی شہادت) کے بعد، حزب جمہوری اسلامی کے تیسرے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔[70] وہ ماہ مئی سنہ 1983 عیسوی میں منعقدہ، حزب کی پہلی کانگریس میں دوسری بار بھی سیکریٹری جنرل، رکن مرکزی شوری،[71] نیز جماعت کی ثالثی کونسل کے رکن[72] کے طور پر منتخب ہوئے۔

وہ صدارت کے پورے دور میں حزب جمہوری اسلامی کے تہران مرکز اور صوبائی شعبوں کے اجلاسوں میں شرکت کی اور جماعت کے اہداف و مقاصد کی تشریح کرتے اور دفاتر اور شعبوں کے اراکین کے سوالات کے جوابات دیتے تھے۔ [73]

تہران کے امام جمعہ

امام خمینی نے 24 جنوری سنہ 1980 عیسوی کو، آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے کارناموں اور علمی و عملی قابلیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں تہران کے امام جمعہ کے طور پر مقرر کیا۔[74] انھوں نے پہلی بار 18 جنوری سنہ 1980 کو نماز جمعہ کی امامت کی۔[75] یہ منصب آج بھی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے پاس ہے۔

اندرون ملک اور عالم اسلام کے ائمۂ جمعہ کے درمیان یکجہتی اور ہم آہنگی کی غرض سے ائمۂ جمعہ کے سیمینار کے انعقاد کی تجویز بھی ان ہی کے اقدامات میں سے ہے اور یہ سیمینار امام خمینی کی منظوری کے بعد قم کے مدرسہ فیضیہ میں منعقد ہوا۔[76]

فارسی میں دوسرے خطبے کے بعد عربی میں خطبہ دینا، ان کے خطبات کی خصوصیت ہے۔

مجلس شورائے اسلامی کے رکن

آیت اللہ خامنہ ای مارچ سنہ 1980 عیسوی میں منعقدہ سید علی خامنہ ای مجلس شورائے اسلامی کے پہلے تقنینی دور کے انتخابات میں علمائے تہران کی جماعت جامعۂ روحانیت مبارز تہران، حزب جمہوری اسلامی اور کئی دوسری اسلامی تنظیموں کی حمایت سے، تہران کے حلقے سے رکن پارلیمان منتخب ہوئے[77] اور پارلیمان میں دفاعی کمیشن کے رکن اور سربراہ تھے۔

انھوں نے اکتوبر سنہ 1980 عیسوی میں صدر اسلامی جمہوریہ ایران کے عنوان سے منتخب ہوئے تو مقننہ کو خیر باد کہہ دیا اور انتظامیہ کی سربراہی سنبھال لی۔

دہشت گردانہ حملے میں زخمی

آیت اللہ العظمی خامنہ ای مورخہ 27 جون سنہ 1981 کو جنوبی تہران کی مسجد ابوذر میں نماز ظہر کے بعد حاضرین سے خطاب کررہے تھے کہ اسی اثناء میں ٹائپ ریکارڈر میں چھپائے گئے بم کے دھماکے میں شدید زخمی ہوئے۔[78] اس دھماکے میں ان کے سنے اور داہنے ہاتھ کو شدید چوٹ آئے۔ اس حادثے کے اثرات نے آج تک ان کا ساتھ دیا ہے اور ان کا داہنا ہاتھ تقریبا معذور ہے۔ غیر رسمی رپورٹوں کے مطابق اس دہشت گردانہ اقدام کی ذمہ داری “مجاہدین خلق” نامی دہشت گرد جماعت پر عائد ہوتی ہے۔[79]

امام خمینی نے آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے نام اپنے پیغام میں ان پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی مذمت کی اور ان کی تعریف و تمجید کی۔[80]

سید علی خامنہ ای مورخہ 9 اگست 1981 کو اسپتال سے فارغ ہوئے اور ایک بار پھر معاشرتی اور سیاسی میدان میں داخل ہوئے اور مورخہ 17 اگست 1981 عیسوی سے مجلس شورائے اسلامی کے اجلاسوں میں حاضر ہونا شروع ہوئے۔[81]

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر

پہلا دور

اسلامی جمہوریہ ایران کے دوسرے صدر محمد علی رجائی کی شہادت کے بعد حزب جمہوری اسلامی کی مرکزی شوری نیز جامعۂ مدرسین حوزہ علمیہ قم نے جناب سید علی کو اپنے صدارتی امیدوار کے طور پر نامزد کیا اور امام خمینی ـ جو اس وقت تک صدارتی انتخابات میں علمائے دین کے نامزد ہونے کی مخالفت کرتے رہے تھے ـ ان کی نامزدگی سے اتفاق کیا۔[82] انتخابات مورخہ 2 اکتوبر سنہ 1981 عیسوی کو منعقد ہوئے اور آیت اللہ العظمی خامنہ ای 11/95 فیصد آراء حاصل کرکے بالغ اکثریت سے صدر منتخب ہوئے۔[83] مورخہ 9 اکتوبر سنہ 1360 عیسوی کو امام خمینی نے ان کے صدارتی فرمان کی تصدیق کردی اور مورخہ 13 اکتوبر سنہ 1981 کو انھوں نے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔[84]

دوسرا دور

اسلامی جمہوریہ ایران کے چوتھے صدارتی انتخابات مورخہ 16 اگست 1986 عیسوی کو منعقد ہوئے اور حق رائے استعمال کرنے کے قابل 14238587 (ایک کروڑ بیالیس لاکھ اڑتیس ہزار پانچ سو ستاسی) افراد میں سے 12205012 (ایک کروڑ بائیس لاکھ پانچ ہزار بارہ) ـ یعنی 85٪ ـ نے آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے حق میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور موصوف دوسری بار بھاری اکثریت سے صدر اسلامی جمہوریہ ایران منتخب ہوئے۔ مورخہ 4 جون سنہ 1989 عیسوی کو امام خمینی رحلت کرگئے تو صدر سید علی خامنہ ای کو رہبر کے عنوان سے منتخب کیا گیا اور جولائی سنہ 1989 عیسوی میں دونوں مناصب پر فائز تھے۔

اس دور میں اور مختلف قوانین کی منظوری میں مجلس شورائے اسلامی اور شورائے نگہبان کے اختلافات کے حل کے لئے امام خمینی نے تشخیص مصلحت نظام اسمبلی کی تاسیس کی منظوری دی۔[85] اور آیت اللہ العظمی خامنہ ای کو اس اسمبلی کے پہلے سربراہ کے طور پر مقرر کیا[86] اور یہ عہدہ دور صدارت کے آخر تک ان کے پاس رہا۔[87]

بیرونی دورے

انھوں نے اپنے پہلے دور صدارت میں 6 سے 11 ستمبر سنہ 1984 کے دوران شام، لیبیا اور الجزائر اور دوسرے دور صدارت میں 13 تا 23 جنوری سنہ 1986 عیسوی کے دوران کئی افریقی اور ایشیائی ممالک ـ پاکستان، تنزانیہ، زمبابوے، انگولا، اور موزمبیق ـ کے دورے کئے۔ انھوں نے 2 تا 6 ستمبر سنہ 1986 عیسوی کے دوران غیر وابستہ تحریک کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی غرض سے ایک بار پھر زمبابوے کا دورہ کیا؛ سربراہی اجلاس سے خطاب کیا اور غیر وابستہ ممالک کے بعض سربراہوں سے بات چیت کی۔[88] 21 تا 25 فروری 1989 عیسوی کے دوران یوگو سلاویہ اور رومانیہ اور[89] اور 9 تا 16 مئی 1989 عیسوی کے دوران چین اور شمالی کوریا کے دورے کئے۔[90]۔[91]
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مورخہ 22 ستمبر 1987 عیسوی کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی مجلس عمومی (General Assembly) میں شرکت کی اور اپنے خطاب میں دنیا کے ممالک کے سربراہوں کی موجودگی میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف بیان کیا۔ یہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلامی جمہوریہ ایران کے کسی سربراہ مملکت کا پہلا خطاب تھا۔[92] قبل ازیں اسلامی جمہوریہ ایران کے وقت کے وزیر اعظم اور سربراہ کابینہ شہید محمد علی رجائی نے مورخہ 18 اکتوبر سنہ 1980 کو نیو یارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس سے خطاب کیا تھا۔[93]

مسلم جدوجہد کاروں کی حمایت

خارجہ پالیسی کے سلسلے میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے دیگر اقدامات میں ایک اہم اقدام پوری دنیا میں جد و جہد کرنے والی تنظیموں سے قریبی رابطہ برقرار کرنا، نیز افغانستان، عراق اور لبنان میں شیعہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ہمآہنگی قائم کرنا، تھا۔ افغانستان میں آٹھ شیعہ تنظیموں کو متحد کرکے حزب وحدت اسلامی نیز عراق میں مجلس اعلائے انقلاب اسلامی کا قیام اس اقدام کے اہم مصادیق ہیں۔

اس دور میں لبنان، فلسطین، عراق اور افغانستان میں جدوجہد کرنے والے مسلمانوں کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت کو وسعت ملی اور ان ممالک میں اسلامی تنظیموں اور جماعتوں کے حاصل ہونے والی ایران کی پشت پناہی نے ان تنظیموں کو عالمی اور علاقائی سطح پر بہتر حیثیت عطا کی۔

دفاع مقدس میں کردار

دفاعی اور عسکری اداروں میں

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے عراق کے ایران پر حملے کی پہلی ساعتوں سے ہی جنگ کی تدبیر میں فعالانہ کردار ادا کیا۔ جنگ شروع ہوئی تو انھوں نے ایران پر عراق کی بعثی افواج کی جارحیت کے بارے میں ایک اطلاعیہ لکھ کر ریڈیو کے ذریعے عوام کو باخبر کیا[94] دوسرے روز مسلح افواج کے مشترکہ اسٹاف مرکز میں عراقی جارحیت کے سلسلے میں منعقدہ اجلاس میں انھوں نے شرکت کی اور جب حالات کا جائزہ لینے کی غرض سے ایک فرد کے محاذ جنگ میں حاضر ہونے کی تجویز دی گئی تو انھوں نے یہ ذمہ داری خود قبول کی۔[95] مورخہ 27 ستمبر سنہ 1980 کو امام خمینی کی اجازت کے بعد عسکری لباس میں محاذ جنگ میں حاضر ہوئے[96] تاکہ محاذ جنگ کی صورت حال اور علاقے میں ایرانی افواج کے وسائل کے بارے میں رپورٹ دیں اور عراقی افواج کی جارحیت کے لئے افواج کو منظم و منضبط کرنے میں مدد دیں[97] چنانچہ وہ جنوبی محاذ چلے گئے اور اپریل 1981 تک وہیں تھے اور بعدازاں مغربی محاذ چلے گئے۔ وہ اس عرصے میں نماز جمعہ کی امامت، امام خمینی کو رپورٹ دینے اور ضروری دوروں اور خطابات کے لئے تہران یا دوسرے شہروں میں چلے آتے تھے اور زیادہ تر عرصہ محاذ جنگ میں گذار لیتے تھے۔[98]

انھوں نے کئی بڑی عسکری کاروائیوں کی منصوبہ بندی میں شرکت کی۔ میدان جنگ میں ہتھیاروں اور دیگر وسائل کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی اور بسیج کو ترسیل ان کی دیگر سرگرمیوں میں سے تھی۔ محاذ جنگ میں ان کا زیادہ تر وقت ڈاکٹر مصطفی چمران کی مجوزہ نا منظم جنگوں کے مرکز کی راہنمائی اورمنصوبہ سازی میں گذرتا تھا۔[99] اس مرکز نے آبادان، سوسنگرد اور دیگر محاذوں کی پشت پناہی میں اہم اور سپاہ پاسداران اور بسیج کی فنی اور عسکری ضروریات پوری کرنے میں وسیع کردار ادا کیا[100] ان کی دیگر ذمہ داریوں میں مختلف محاذوں اور بالخصوص فوجی کاروائیوں کے دوران سپاہ اور مسلح افواج کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنا تھی۔[101]

جولائی سنہ 1979 عیسوی میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای وزارت دفاع کے انقلابی امور کے نائب نیز امن قائم کرنے والی وزات خانوں کے کمیشن کے رکن مقرر ہوئے۔ مؤخر الذکر کمیشن تمام عسکری اور امن قائم کرنے والے اداروں کے انتظام و انصرام کرتا تھا۔[102]

مورخہ 24 نومبر سنہ 1979 عیسوی کو شورائے انقلاب کی طرف سے ان کو سونپی گئی دیگر ذمہ داریوں میں مرکز اسناد (= Documents Center) کے انتظام نیز سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی نگرانی کی ذمہ داریاں شامل تھیں۔[103]

موصوف 24 فروری 1980 عیسوی کو صدارتی انتخابات کے لئے امید وار نامزد ہونے کے باعث سپاہ پاسداران کے نگران کمانڈر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔[104]

اعلی دفاعی شوری میں امام خمینی کی نمائندگی

امام خمینی نے مورخہ 12 اکتوبر 1980 عیسوی کو ایک حکم نامے کے ذریعے انہیں “اعلی دفاعی شوری” (Supereme Defence Council) کی سربراہی کا عہدہ سونپ دیا اور یوں جنگ کے تمام معاملات کی ذمہ داری ان کے حصے میں آئی۔[105] جبکہ امام کے 10 مئی سنہ 1980 کے حکم نامے کے مطابق وہ پہلے ہی سے مذکورہ شوری میں ان کے نمائندے[106] نیز شوری کے ترجمان تھے۔[107] اس عرصے میں موصوف جنگ کے امور و معاملات میں امام خمینی کے مشیر بھی تھے[108] اور اعلی دفاعی شوری کے اجلاسوں کے آخر میں اخباری مکالمہ ترتیب دے کر عوام کو شوری کے فیصلوں سے آگاہ کیا کرتے تھے۔[109]

آبادان کا محاصرہ توڑنے میں کردار

آبادان کا محاصرہ توڑنے کے لئے ہونے والی کاروائی میں[110] براہ راست کردار ادا کیا اور ان کی رائے یہ تھی کہ خرم شہر کو صحیح اور بجا عسکری اقدامات کے ذریعے آبادان کو دشمن کے قبضے میں چلے جانے سے بچایا جاسکتا ہے۔ نیز اس سلسلے میں اس وقت کے صدر اور افواج کے کمانڈر ان چیف ابوالحسن بنی صدر کو مراسلہ لکھا کہ اگر شہر سوسنگرد کے اطراف میں دو بکتر بند بریگیڈ تعینات ہوں تو اس کو دشمن کے قبضے سے بچایا جاسکتا ہے لیکن بنی صدر نے ان کی تدبیر کی طرف توجہ نہ دی۔[111]

جنگ شروع ہوئی تو بعض شخصیات اور بین الاقوامی اداروں نیز بعض ممالک نے دو ملکوں کے درمیان صلح و آشتی قائم کرنے کے لئے اقدامات کا آغاز کیا۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا خیال تھا کہ جب تک عراق ایران کی بنیادی شرطیں پوری نہ کرے ـ عراقی افواج بین الاقوامی سرحدوں تک پسپا نہ ہوں، یہ ملک جارحیت کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ نہ کرے اور جارح کو سزا دینے کا فیصلہ نہ ہو ـ کوئی امن قائم نہیں ہوسکتا اور عراق یہ شرطیں قبول نہ کرے تو اس کو زبردستی اپنی سرزمین سے نکال باہر کریں گے۔ ان کا خیال تھا کہ “ٹھونسا ہوا امن جنگ سے بد تر ہے”۔[112] اس کے باوجود ان کا کہنا تھا کہ بیرونی وفود کے دورے اس لحاظ سے مفید رہے کہ ایران پر صدام اور اس کی افواج کی جارحیت اور ان کے مظالم و جرائم کے مختلف پہلو دنیا والوں کے لئے واضح ہوئے اور ملت ایران کی مظلومیت ثابت ہوئی۔[113]

جنگ، ادوار صدارت کا اہم ترین موضوع

صدارت کے دونوں ادوار میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای، جنگ تمام تر ملکی معاملات پر مقدم تھی۔ سنہ 1981 تا 1985 میدان جنگ میں تبدیلیاں آئیں اور جنگ کا توازن ایران کے حق میں بگڑ گیا اور اعلی دفاعی کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے جناب سید علی نے اعلی سرکاری حکام کے درمیان وحدت فکر پیدا کرکے کامیاب عسکری کاروائیوں کی قیادت کی؛ عراقی افواج ایران کے مقبوضہ علاقوں سے پسپا ہوئیں اور عالمی سطح پر سفارتکاری کے حوالے سے بھی ایران کا کردار وسیع تر ہوا۔

موصوف کی صدارت کے آٹھ سال کے عرصے میں سے سات سال کا عرصہ جنگ کا دور تھا اور انھوں نے اس دور میں زیادہ تر بیرون ملکی مذاکرات نیز بین الاقوامی وفود سے ملاقاتوں میں جنگ کے مسئلے پر بات چیت کی۔ صدارت کے دور میں امام خمینی نے ان کو محاذ جنگ میں مسلسل موجودگی سے منع کیا اور صرف کبھی کبھی ضرورت کے تقاضوں کے مطابق محاذ جنگ میں حاضر ہوا کرتے تھے تا ہم جنگ کے آخر میں اور خاص طور پر اقوام متحدہ کی قرارداد کے قبول کرنے کے بعد، جب محاذ کی صورت حال خراب ہوجانے اور صدام کی افواج کی نئی جارحیتوں کی بنا پر موصوف نے امام خمینی کی منظوری لے کر محاذ جنگ کا رخ کیا تا کہ محاذ میں بڑی تبدیلی کے لئے ماحول فراہم کیا جاسکے۔

نیز آیت اللہ العظمی خامنہ ای صدارت کے دونوں ادوار میں جنگ کو رسد پہنچانے کی اعلی شوری کے سربراہ بھی تھے جو سنہ 1988 عیسوی میں تشکیل پائی تھی۔[114] امام خمینی نے مورخہ 8 فروری 1988 عیسوی کو اس سلسلے میں ان کے خط کا جواب دیتے ہوئے فرمان جاری کیا کہ اس شوری کے فیصلے جنگ کے اختتام تک نافذ العمل ہونگے۔[115]

اسلامی جمہوریہ ایران اور انقلاب اسلامی کی قیادت

مورخہ 4 جون سنہ 1989 عیسوی کو امام خمینی کی رحلت کے بعد خبرگان قیادت اسمبلی نے اسی روز عصر کے وقت اجلاس کا آغاز کیا۔ اجلاس میں ابتدائی طور پر قیادت کے شورائی یا فردی ہونے پر بحث ہوئی جس کے بعد آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا نام قیادت کے لئے سامنے آیا جس کے بعد بعض نمائندوں نے کہا کہ امام خمینی نے قیادت کے لئے موصوف کی صلاحیت کی تصدیق کی تھی۔ اس کے بعد رائے اراکین کی رائے لی گئی اور مجلس خبرگان کی فیصلہ کن اکثریت نے آیت اللہ العظمی خامنہ ای کو اسلامی جمہوریہ ایران اور انقلاب اسلامی کے قائد کے طور پر منتخب کیا۔[116]۔[117]

آئین پر نظر ثانی اور استصواب رائے عامہ (Referendum) کے بعد، مجلس خبرگان نے نئے آئین کے مطابق ایک بار ان کی قیادت کے سلسلے میں رائے شماری کی اور اس بار بھی انہیں غالب اکثریت سے نظام اسلامی کے رہبر کے عنوان سے منتخب کیا۔

سید احمد خمینی، ـ جو امام خمینی کے فرزند اور قریب ترین فرد تھے ـ نقل کرتے ہیں کہ امام خمینی کہا کرتے تھے کہ “حقیقتاً وہ (آیت اللہ العظمی خامنہ ای) قیادت کی اہلیت رکھتے ہیں”۔[118]

امام خمینی کی دختر زہرا مصطفوی نے بیان کیا ہے کہ “امام خمینی نے قیادت کے لئے آیت اللہ خامنہ ای کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے اجتہاد کی تصدیق کی ہے۔[119]

اکبر ہاشمی رفسنجانی نے بھی ـ جو اسلامی جمہوریہ میں با اثر فیصلہ سازوں میں سے تھے ـ نقل کیا ہے کہ “امام خمینی نے مستقبل کی قیادت کے لئے آیت اللہ خامنہ ای کا نام لیا ہے”۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ امام خمینی نے مستقبل کی قیادت کے سلسلے میں منعقدہ ایک خصوصی اجلاس میں آیت اللہ خامنہ ای کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تصریح کی ہے کہ “تمہیں تعطل اور رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، کیونکہ ایسی شخصیت تمہارے درمیان ہیں”۔[120]

انتخاب کے بعد، اسلامی جمہوری نظام کے اعلی حکام، بیت امام خمینی، مراجع تقلید، علماء، دانشوروں، حوزات اور جامعات کے اساتذہ اور طلبہ، شہداء کے گھرانوں اور عوام کے مختلف طبقات نے اس انتخاب کی تائید کی اور نئے رہبر کے ہاتھ پر بیعت کی۔ ان اداروں اور تنظیموں نے بھی ـ جو ملک اور نظام کی قوت سمجھے جاتے ہیں ـ آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی رہبری اور قیادت کی حمایت اور ان کے فرامین اور احکامات کی و اطاعت تعمیل کے لئے مکمل آمادگی کا اعلان کیا۔[121] حاج سید احمد خمینی نے انتخاب کے دن ہی پیغام تہنیت جاری کیا اور ولی فقیہ کے احکامات کو اپنے لئے نافذ العمل قرار دیا۔[122]

عوام نے نئے رہبر کی رہائشگاہ پر، ریلیوں اور جلسے جلوسوں، بیانات اور پیغامات جاری کرکے اور طوماروں پر دستخط کرکے بیعت کی۔[123] امام خمینی کی رحلت کے چالیسویں کی مناسب سے ایران کے گوشے گوشے سے عوام “میثاق با امام بیعت با رہبر” کے عنوان سے قافلوں میں شامل ہوکر تہران کی جانب روانہ ہوئے۔[124] بعض سرحدی اور عسکری و تزویری لحاظ سے اہم علاقوں میں “بیعت با رہبر” کے عنوان سے جنگی مشقوں کا اہتمام کیا گیا[125] نیز “میثاق با امام، بیعت با رہبر” کے عنوان سے سیمیناروں کا انعقاد کیا گیا۔[126]

مرجعیت

سنہ 1994 عیسوی میں آیت اللہ العظمی محمد علی اراکی کی رحلت کے بعد جامعۂ مدرسین حوزہ علمیہ قم اور جامعۂ روحانیت مبارز تہران]] نے آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کو تقلید کی اہلیت رکھنے والے مرجع کے طور پر متعارف کرایا۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایک تقریر کے ضمن میں ـ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ایران کے اندر ان کی مرجعیت کی ضرورت نہیں ہے اور وہ بیرون ملک شیعیان اہل بیت کی درخواست قبول کرتے ہیں ـ بیان کیا کہ اگر مستقبل میں کوئی ہو جو اس فریضے پر عمل کرسکے، وہ اس فریضے کو ترک کردیں گے۔[127]

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے فتوای کی پہلی کتاب اجوبۃ الاستفتائات کے عنوان سے شائع ہوئی ہے جو ان سے ہونے والے استفائات کے جوابات پر مشتمل ہے۔

نظریات

اتحاد بین المسلمین

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا تفکر تقریب بین المذاہب اور اتحاد بین المسلمین پر مبنی ہے اور انہیں یقین ہے کہ مسلمانوں کی کامیابی کا راز ان کے درمیان اتحاد و یکجہتی اور موجودہ اختلافات کو کم کرنے میں مضمر ہے۔ انھوں نے اپنی اسی تفکر کی روشنی میں “مجمع تقریب بین مذاہب اسلامی” کی بنیاد رکھی ہے اور اپنی قیادت کے ان برسوں میں مختلف راستوں سے عالم اسلام کی اہم اور با اثر شخصیات کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے۔

انھوں نے سنہ 2009 عیسوی میں کردستان کے دورے کے دوران مذاہب کے درمیان تقریب اور اتحاد پر زور دیا اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں سے خطاب کرتے ہوئے وحدت کے مخالفین پر تنقید کی۔

قمہ زنی اور بعض عزاداریوں کی مخالفت

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے جون سنہ 1994 عیسوی میں علماء سے خطاب کرتے ہوئے عزاداری کی بعض روشوں ـ بالخصوص تلوار اور چھریوں کے ماتم پر کڑی تنقید کی اور اس کو ایک قسم کی بدعت قرار دیا۔ انھوں نے تین سال آیت اللہ خامنہ ای سنہ 1997 عیسوی میں شہر مشہد میں خطاب کرتے ہوئے کہا: “کمیونسٹ حکومتوں کی طرف سے قمہ زنی اور چھریوں کے ماتم کی ترویج سے اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ عمل ایک انحراف آمیز ہے۔

زوجہ شوہر کے تمام اموال و جائداد کی وارث

جولائی سنہ 2007 میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عورت کے شوہر کی غیر منقولہ جائداد وارث ہونے کے بارے میں اپنی فقہی رائے بیان کی اور کہا کہ زوجہ اپنے شوہر کی جائداد کی قیمت کی وارث ہوسکتی ہے۔ یہ رائے ان فقہاء کی رائے کے برعکس ہے جن کی رائے میں عورت صرف منقولہ اموال میں شوہر کی وارث ہوسکتی ہے۔

ثقافتی یلغار

سنہ 1990 عیسوی کے عشرے کے پہلے برسوں میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے “ثقافتی یلغار” اور “ثقافتی شب خون” جیسی اصطلاحات اور عبارتیں بروئے کار لا کر[128] تہذیب و ثقافت کے میں ہمہ دانوں کو معاشرے میں ثقافتی تبدیلیوں کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ ان کی رائے کے مطابق “ثقافتی یلغار اور ثقافتی تعامل و مبادلے سے تضاد رکھتی ہے[129] اور یہ استعماری طاقتوں کی طرف سے ایک سوچی سمجھی یلغار ہے جس کا مقصد دوسری اقوام کی ثقافت کو تباہ کرنا اور ان پر زیادہ سے زیادہ تسلط جمانا ہے”۔[130]

اہل سنت کے مقدسات کی توہین حرام

آیت اللہ العظمی خامنہ ای غیر شیعہ مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کو جائز نہیں سمجھتے۔ وہ خود بھی اپنی تقاریر میں دوسروں کے مقدسات کی توہین نہیں کرتے۔[131] برطانیہ میں مقیم شخص ياسر الحبیب نے زوجۂ رسول(ص) عائشہ بنت ابی بکر کی شان میں توہین آمیز کلمات کہے تو آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دوسرے مذاہب کے مقدسات اور اکابرین ـ منجملہ تمام انبیاء کی ازواج کی توہین کو حرام قرار دیا۔[132]۔[133]

اسلامی بیداری

مفصل مضمون: اسلامی بیداری

تیونس، مصر، بحرین، لیبیا اور یمن میں کئی عربی حکومتوں کے خلاف انقلابی تحریکوں اور بغاوتوں کے بعد ـ جو بعض حکام کے زوال کا سبب ہوئیں ـ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ان تحریکوں کو اسلامی بیداری کا نام دیا۔[134] عرب نیز مغربی ذرائع ابلاغ نے ان تحریکوں کو “الربيع العربي”، اور “Arab Spring” کا نام دیا۔

اسلامی بیداری کے مستقبل اور سمت کی خاکہ کشی

اگرچہ عالم اسلام میں بعض افسوسناک وقائع و حوادث نے اسلامی بیداری کی تحریکوں کے رک جانے میں اہم کردار ادا کیا اور تبدیلیوں کو جنگ اور دہشت گردی میں تبدیل کیا گیا تاہم آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ستمبر سنہ 2013 عیسوی میں مجلس خبرگان کے سربراہ اور اراکین سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی بیداری کی سرکوبی کو ناممکن سمجھتے ہیں اور امت مسلمہ کو تلقین کرتے ہیں کہ ان واقعات سے جو حاصل ہونے والے تجربات سے اپنے مستقبل کے لئے فائدہ اٹھائے۔ رہبر انقلاب کے نقطۂ نظر سے “اسلامی بیداری محض ایک سیاسی واقعہ نہ تھی”۔[135] چنانچہ محض بعض سیاسی اقدامات ـ منجملہ دہشت گردانہ کاروائیوں اور عسکری بغاوتوں ـ کے ذریعے اس کو کچلا نہیں جاسکتا۔

انھوں نے بعثت رسول(ص) کے سلسلے میں ملکی حکام اور اسلامی ممالک کے سفراء سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر زور دے کر کہا کہ اسلامی نظام اس اسلامی فرمان کے تحت ـ کہ ” کُن للِظّالِمِ خَصماً وَ لِلمَظلومِ عَوناً (ترجمہ: ظالم کے لئے دشمن رہو اور مظلوم کے لئے مددگار)” ـ مظلومین کی حمایت جاری رکھے گا اور اسلامی بیداری کی تحریکیں جاری رہیں گی۔ انھوں نے کہا:

خوش قسمتی سے خطے کی اقوام بیدار ہوچکی ہیں؛ ہاں! انھوں نے وقتی طور پر اسلامی بیدار کو کچل دیا؛ لیکن بیداری کو کچلا نہیں جاسکتا؛ بصیرت کو کچلا نہیں جاسکتا۔ ملت ایران بیدار ہے، علاقے کی بہت سے قومیں بیدار اور ہوشیار ہیں اور اسلامی امت بھی بحمد اللہ بیدار ہورہی ہے ۔۔۔ ہمیں متوجہ اور خبردار رہنا چاہئے کہ ہم امت اسلامی کی ذمہ داریوں کو نہ بھولیں اور امت مسلمہ کی قوت کو نظر انداز نہ کریں“۔[136]

اس نقطۂ نظر میں اسلامی بیداری کی تحریکوں کے مستقبل کا منظر بالکل واضح و روشن ہے اور اس کا تسلسل بلا شک دنیا کے مستقبل کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرے۔

ان کا کہنا ہے:

آج اسلام عالمی معاشرتی اور سیاسی قواعد کے کناروں سے نکل چکا ہے دنیا کے واقعات کے عناصر کے مرکز میں اعلی اور نمایاں مقام و منزلت حاصل کرچکا ہے اور میدان حیات و سیاست اور حکومت نیز معاشرتی تبدیلیوں اور تغییرات میں نئی رائے و نظر پیش کررہا ہے؛ اور یہ حقیقت موجودہ دنیا کے لئے ـ جس کو شیوعیت (Communism) اور لبرالیت (Liberalism) کی شکست کے بعد گہرے فکری اور فکری کا سامنا ہے ـ بہت اہم واقعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ پہلا اثر ہے جو شمالی افریقہ اور عرب خطے کے سیاسی اور انقلابی واقعات نے عالمی سطح پر مرتب کیا ہے اور یہ بذات خود عظیم تر حقائق کی بشارت دیتا ہے جو مستقبل میں رونما ہونگے ۔۔۔ اس مبارک بیداری کی حدود بہت زیادہ وسیع ہیں اور یہ دقیق اور رمزی تسلسل کی حامل ہے؛ لیکن جو کچھ چند شمالی افریقی ممالک میں اس کی نقد حصول یابیوں کی صورت میں دیکھا گیا وہ مستقبل کے عظیم تر اور اہم تر نتائج کے سلسلے میں دلوں کو اطمینان سے ہمکنار کرسکتا ہے۔[137]

موصوف کے خیال کے مطابق دشواریوں کا سامنا کرنا، تجربات سے سبق لینا اور مسلمانوں کی آگہیوں میں اضافہ کرنا اسلامی بیداری کی تحریکوں کی ترقی اور پیشرفت پر منتج ہوسکتا ہے بشرطیکہ اسلامی امت کی “بصیرت” کو سنجیدگی سے تقویت پہنچائی جائے؛ کہتے ہیں:

چیلنجوں اور مسائل کا سامنا ایک مناسب موقع ہے تاکہ اسلام اپنے تاریخی سفر کے مراحل میں مطلوبہ بلندیوں کی طرف گامزن رہ کر انشاء اللہ ایک زینہ اور، ایک حرکت اور ایک مرحلہ اور، آگے کی سمت بڑھے؛ آج صورت حال یہ ہے۔ ہم اسلامی انقلاب سے قبل اور اسلامی بیداری سے قبل، عالم اسلام کو غفلت کی حالت میں دیکھتے تھے؛ آج عالم اسلام آگہی اور بیداری کی حالت میں ہے۔ وہ واقعات بھی جو اسلامی دنیا میں رونما ہو رہے ہیں، اسلامی امت کی بیداری اور آگہی میں مدد دیتے ہیں؛ ہمیں پہلے سے زیادہ آگاہ کرتے ہیں؛ ہمیں زیادہ روشنی عطا کرتے ہیں؛ ہمارے فرائض اور ذمہ داریوں کو ہمارے لئے واضح کردیتے ہیں۔ اسلام دشمن طاقتیں مؤمنین اور امت اسلامی کی بصیرت سے ہراساں ہیں؛ ہمیں اس بصیرت کو روز بروز تقویت پہنچانا چاہئے؛ پہلا مرحلہ یہی ہے کہ ہم ان چیلنجوں کو پہچان لیں“۔[138]

اداروں کی تاسیس

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دینی اہداف کے حصول اور مختلف فکری اور علمی و ثقافتی شعبوں میں اپنی مطلوبہ اصلاحات کی غرض سے کئی اداروں کی بنیاد رکھی۔ یہ ادارے عام طور پر تعلیم و ثقافت کے شعبوں میں فعال ہیں:

عالمی فعالیت

مغربی جوانوں کے نام پہلا خط

سنہ 2014ء کے دوران بھی اور نئے سال کے آغاز پر بھی، فرانس میں تکفیریوں کے ہاتھوں دہشت گردانہ حملے کے بعد آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 21 جنوری 2015ء کو یورپ اور شمالی امریکہ کے جوانوں کے نام ایک پیغام جاری کیا۔ انھوں نے اس پیغام میں مغربی جوانوں کو مشورہ دیا ہے کہ اسلام کی معرفت حاصل کرنے کے لئے اسلام کے اصل متن یعنی قرآن کریم اور سیرت نبوی(ص) کا مطالعہ کریں۔ [139]

بظاہر آج تک پورے عالم تشیع اور عالم اسلام میں علماء کی طرف سے اس قسم کے پیغام کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

ذرائع ابلاغ میں انعکاس

یہ خط ” letter4u ” کے عنوان سے دنیا کی پچاس سے زائد زندہ زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور دنیا کے کونے کونے خاص طور پر مغربی ممالک کے جوانوں تک پہنچانے کی کوشش کی گئی جس کی بے حد تاثیر دیکھنے کو ملی۔ اسی طرح یہ خط وسیع سطح پر کئی زبانوں میں سماجی نیٹ ورکس اور ویب سائٹوں میں نشر ہوا۔

مغربی نوجوانوں کے نام دوسرا خط

ایک بار پھر فرانس کے شہر پیرس میں بم دھماکوں اور جانی نقصان ہونے کے باعث، حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے 29 نومبر 2015ء کو دوسری مرتبہ مغربی نوجوانوں کو خط لکھ کر انہیں دنیا بھر کے دردناک واقعات کے پس پردہ عوامل کی طرف متوجہ کیا ہے۔[142]۔[143]

حوالہ جات

مآخذ

  • آرشیو روزنامہ اطلاعات۔
  • آرشیو روزنامہ جمہوری اسلامی۔
  • آرشیو روزنامہ کیہان۔
  • آرشیو، مجلہ، امید انقلاب۔
  • آرشیو مرکز اسناد انقلاب اسلامی۔
  • آرشیو مرکز پژوہش و اسناد ریاست جمہوری، پروندہ ہای دورہ ریاست جمہوری آیت اللہ خامنہ ای۔
  • آرشیو موسسہ پژوہشی- فرہنگی انقلاب اسلامی۔
  • آشنایی با مجلس شورای اسلامی، بہ کوشش روابط عمومی مجلس شوری اسلامی، تہران، 1360 ہجری شمسی۔
  • آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعہ، قرن 14، تہران، 1388 ہجری شمسی۔
  • اسفندیار، احمد، خاطرات ماندگار، ناشر: میراث ماندگار، تہران۔ 1385 ہجری شمسی۔
  • امام خمینی در آیینہ اسناد بہ روایت ساواک، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تہران، 1386 ہجری شمسی۔
  • بازرگان، مہدی، یادداشت ہای روزانہ، تہران، 1376 ہجری شمسی۔
  • بنی لوحی، علی و ديگران، نبردہای شرق كارون بہ روايت فرماندہان، تہران، 1381 ہجری شمسی۔
  • بہبودی، ہدایت اللہ، شرح اسم، زندگی نامہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای (1318 – 1357)، تہران، 1391 ہجری شمسی۔
  • تاریخ ایرانی۔
  • تاریخ علمای خراسان، بہ کوشش میرزا عبدالرحمان، مشہد، 1341 ہجری شمسی۔
  • تداوم آفتاب، ویژہ نامہ آغاز بیستمین سال رہبری حضرت آیت اللہ خامنہ ای، روزنامہ جام جم، مرداد 1387 ہجری شمسی۔
  • ج‍اس‍ب‍ی‌، ع‍ب‍دال‍ل‍ہ‌، از غ‍ب‍ار ت‍ا ب‍اران؛‌ خ‍اطرات‌ دک‍ت‍ر ع‍ب‍دال‍ل‍ہ‌ ج‍اس‍ب‍ی‌، م‍رک‍ز اس‍ن‍اد ان‍ق‍لاب‌ اس‍لام‍ی‌۔
  • جلالی، غلامرضا، مشہد در بامداد نہضت اسلامی، تہران، 1378 ہجری شمسی۔
  • خامنہ ای، سید علی، رہبر انقلاب اسلامی، فرہنگ و تہاجم فرہنگی: برگرفتہ از سخنان مقام معظم لہ، وزارت ارشاد اسلامی، سازمان مدارک فرہنگی انقلاب اسلامی، تہران، 1375 ہجری شمسی۔
  • خامنہ ای، سید علی، دغدغہ ہای فرہنگی: شرح مزجی یکی از بیانات محوری مقام معظم رہبری، با استفادہ از دیگر بیانات معظم لہ 1373 ہجری شمسی، مرکز صہبا چاپ اول 1390 ہجری شمسی۔
  • در مکتب جمعہ : مجموعہ خطبہ ہاي نماز جمعہ تہران۔
  • دفتر مقام معظم رہبری، حدیث ولایت، مجموعہ رہنمودہای مقام معظم رہبری، سازمان مدارک فرہنگی انقلاب اسلامی، تہران، 1375-1377 ہجری شمسی۔
  • جلالي، غلامرضا، تقویم تاریخ خراسان (از مشروطیت تا انقلاب اسلامی)، تاریخ انتشار: فروردین 1377 ہجری شمسی۔
  • جمعی از روحانیون و فضلای حوزہ علمیہ قم، مرجعیت آیت‌اللہ خامنہ‌ای از دیدگاہ فقہاء و بزرگان، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، 1415 ہجری شمسی۔
  • خامنہ ای، سید علی حسینی، خاطرات و حکایت ہا، موسسہ فرہنگی قدر ولایت، 1378 ہجری شمسی۔
  • خلاصہ‌ی مشروح مذاکرات شورای انقلاب، جلسہ‌ہای مختلف۔
  • رضوی، مسعود، ہاشمی و انقلاب: تاریخ سیاسی ایران از انقلاب تا جنگ، تہران 1376ہجری شمسی۔
  • زنگنہ قاسم آبادی، ابراہیم، مشاہیر مدفون در حرم رضوی، عالمان دینی، مشہد، بنیاد پژوہش ہای آستان قدس رضوی، مشہد، 1382 ہجری شمسی۔
  • ستودہ، امیررضا، پا بہ پای آفتاب، گفتہ‌ہا و ناگفتہ‌ہا از زندگی امام خمینی (س)، ویراستار : رجب‌زادہ – شہرام، تہران، تاریخ نشر : 1381 ہجری شمسی۔
  • شریف رازی، محمد، گنجینہ دانشمندان، تہران، 1354 ہجری شمسی۔
  • صحیفہ امام خمینی (س)۔
  • صفوی، سید رحیم، از جنوب لبنان تا جنوب ایران، خاطرات سردار سید رحیم صفوی، بہ كوشش مجید نجف‌پور، تہران، 1383 ہجری شمسی۔
  • فارسی، جلال الدین، زوایای تاریک، تہران، 1373 ہجری شمسی۔
  • قاسم پور، داود، دہہ سرنوشت ساز، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، تہران۔
  • کامور بخشایش، جواد، خاطرات سید مرتضی نبوی، انتشارات سورہ مہر، بہ کوشش: (کامور۔۔۔)، تاریخ انتشار 1387ہجری شمسی۔
  • کردہ دہ، سائلی، مجید، شورای انقلاب اسلامی ایران، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1384 ہجری شمسی۔
  • کسروی، احمد، قیام شیخ محمد خیابانی، تہران، 1376 ہجری شمسی۔
  • “چگونگی انتخاب رہبر در اجلاس فوق‌العادہ مجلس خبرگان”، روزنامہ کیہان، 21/3/ 1368 ہجری شمسی، شم‍ 633‘ 13۔
  • گفت‌وگو با ہاشمی رفسنجانی، پیشینہ و كارنامہ مجمع تشخیص مصلحت نظام، بہ كوشش عباس بشیری، تہران، 1381 ہجری شمسی۔
  • گلشن ابرار، بہ کوشش جمعی از پژوہشگران حوزہ علمیہ قم، نشر معروف، 1379 ہجری شمسی۔
  • مرکز بررسی اسناد تاریخی وزارت اطلاعات، یاران امام بہ روایت اسناد ساواک، تہران، 1376 – 1382 ہجری شمسی۔

٭ مصاحبہ‌ہا: مجموعہ مصاحبہ‌ہای حضرت آیت‌اللہ سیدعلی خامنہ‌ای در دوران ریاست جمہوری، بہ کوشش سازمان مدارک فرہنگی انقلاب اسلامی، تہران، 1366- 1368 ہجری شمسی۔

  • مؤسسہ فرہنگی قدر ولایت، جرعہ‌نوش کوثر، زندگی‌نامہ رہبر معظم انقلاب اسلامی، تہران، 1384 ہجری شمسی۔
  • ہاشمی رفسنجانی، اکبر، بازسازی و سازندگی، کارنامہ و خاطرات سال 1368، بہ کوشش علی لاہوتی، دفتر نشر معارف انقلاب، تہران، 1391 ہجری شمسی۔
  • وہی، دوران مبارزہ، بہ کوشش محسن ہاشمی، دفتر نشر معارف انقلاب، تہران، 1376 ہجری شمسی۔
  • وہی، کارنامہ و خاطرات سالہای 1357 و 1358، انقلاب و پیروزی، ناشر: دفتر نشر معارف انقلاب – 1383 ہجری شمسی۔
  • وہی، عبور از بحران: کارنامہ و خاطرات 1360، نشر معارف انقلاب، تہران، 1378 ہجری شمسی۔

بیرونی روابط

قمہ زنی:

مقدسات کی توہین:

مغربی نوجوانوں کے نام خط:

http://ur.wikishia.net/view/%D8%A2%DB%8C%D8%AA%E2%80%8C%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81_%D8%AE%D8%A7%D9%85%D9%86%DB%81%E2%80%8C%D8%A7%DB%8C

تبصرے
Loading...