سورہ نجم

سورہ نجم قرآن کی 53ویں اور مکی سورتوں میں سے ہے جو قرآن کے 27ویں پارے میں واقع ہے۔ یہ سورت واجب سجدہ والی چار سورتوں میں سے ہے جو عزائم کے نام سے معروف‌ ہیں۔ اس سورت میں پیغمبر اکرمؐ کی معراج کا واقعہ، مشرکین کی بت پرستی کی مذمت اور معاد جیسے موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے۔

اس سورت کی مشہور آیات میں آیت نمبر 3 اور 4 ہے جن میں پیغمبر اکرمؐ کے گفتار کو وحی کے عین مطابق قرار دی گئی ہے۔ اسی آیت سے آپؐ کی عصمت پر بھی استدلال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح آیت نمبر 8 اور 9 بھی اس سورت کی مشہور آیات میں سے ہیں جن میں معراج کی رات پیغمبر اکرمؐ اور خدا یا جبرئیل کے درمیان فاصلے کو دو کمان کے برابر توصیف کی گئی ہے۔ اس کی تلاوت کے بارے میں آیا ہے کہ جو شخص سورہ نجم کی تلاوت کرے گا وہ لوگوں میں محبوب ہو گا۔

تعارف

اس سورت کا نام “نجم” (ستارہ) رکھا گیا ہے چونکہ اس کی ابتداء میں خدا نے اس کی قسم کھائی ہے۔[1]

  • ترتیب اور محل نزول

سورہ نجم مکی سورتوں میں سے ہے۔ ترتیب نزول کے اعتبار سے 23ویں جبکہ ترتیب مُصحَف کے اعتبار سے 53ویں سورت ہے اور قرآن کے 27ویں پارے میں واقع ہے۔[2] بعض مفسرین کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے اعلانیہ طور پر اسلام کی دعوت دینے کے بعد آپ نے سب سے پہلے اسی سورت کو بلند آواز کے ساتھ حرم میں تلاوت فرمائی۔[3]

  • آیات کی تعداد اور دوسری خصوصیات

سورہ نجم 62 آیات 359 کلمات اور 1432 حروف پر مشتمل ہے۔ اس سورت کا شمار مُفَصلات میں ہوتا ہے اور حجم کے اعتبار سے یہ سورت تقریبا نصف حزب کے برابر ہے۔[4]

واجب سجدہ کا حامل

سورہ نجم ان چار سورتوں میں سے ایک ہے جن میں واجب سجدہ پایا جاتا ہے،[5] یعنی ان میں موجود مخصوص آیات کی تلاوت یا ان کے سننے پر سجدہ کرنا واجب ہے۔ اصطلاح میں انہیں عزائم یا “عَزائِمُ السُجود” کہا جاتا ہے۔[6] اس سورت کی آیت نمبر 62 کی تلاوت یا اسے سننے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے۔[7] ان سورتوں کے حوالے سے بعض دیگر احکام بھی ہیں جن میں جنابت کی حالت میں ان کی تلاوت کا حرام ہونا ہے۔[8]

مضامین

سورہ نجم کے مضامین کو یوں خلاصہ کیا جا سکتا ہے:

  • وحی کی حقیقت، پیغمبر اکرمؐ کا جبرئیل سے براہ راست رابطہ اور آپؐ کو وحی کے بغیر لب کشائی کرنے سے مبرا قرار دینا؛
  • پیغمبر اکرم کی معراج کا واقعہ؛
  • بتوں اور فرشتوں کی پوجا کرنے پر مشرکین کی مذمت؛
  • مشرکین کیلئے بھی توبہ کا دروازہ کھلا ہونا اور ہر ایک کا اپنے اعمال کا جواب دہ ہونا؛
  • معاد اور اس کی دلیل؛
  • حق کے ساتھ عناد اور دشمنی میں اصرار اور لجاجت کرنے والے گذشتہ امتوں کی داستانیں۔[9]

 

 

 

 

مشرکیں کا فرشتوں کی شفاعت سے بہرہ مند نہ ہونے میں پیغمبر کی باتوں کی حقانیت

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تیسرا گفتار؛ آیہ ۵۶-۶۲
کافروں کی عذاب کے بارے میں قرآن کی حقانیت

 

دوسرا گفتار؛ آیہ ۱۹-۵۵
فرشتوں کی شفاعت کے بارے میں مشرکیں کا غلط تصور

 

پہلا گفتار؛ آیہ ۱-۱۸
پیغمبر کی تمام باتیں اللہ کی طرف سے ہیں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

پہلا مطلب؛ آیہ ۵۶-۵۸
انسان سے صرف اللہ ہی عذاب دور کرسکتا ہے

 

پہلا جواب؛ آیہ ۱۹-۲۳
بت اللہ کی بیٹیوں کے مجسمے نہیں ہیں

 

پہلا مطلب؛ آیہ ۵-۱۸
پیغمبر کی تمام باتیں وحی الہی ہیں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

دوسرا مطلب؛ آیہ ۵۹-۶۲
قیامت کے بارے میں قرآنی تعلیمات پر یقین نہ کرنا اور انہیں سبک شمار کرنا

 

دوسرا جواب؛ آیہ ۲۴-۲۶
فرشتوں کی شفاعت اللہ کے اذن سے مشروط ہے

 

دوسرا مطلب؛ آیہ ۵-۱۸
پیغمبر وحی کے فرشتے کو دیکھتے ہیں اور ان سے تعلیم حاصل کرتے ہیں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تیسرا جواب؛ آیہ ۲۷-۳۰
فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دینا مشرکوں کی جہالت کی علامت ہے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

چوتھا جواب؛ آیہ ۳۱-۳۲
انسان کو سزا اور جزا صرف اللہ ہی دیتا ہے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

پانچواں جواب؛ آیہ ۳۳-۴۱
ہر شخص سے اس کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

چھٹا جواب؛ آیہ ۴۲-۵۵
ہر کام کی تدبیر اللہ کے ہاتھ میں ہے

تاریخی واقعات

سورہ نجم کی آیت نمبر 7 سے 18 تک میں پیغمبر اکرمؐ کی معراج‌ کا واقعہ بیان ہوا ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ کا سدرۃ المنتہی اور جنۃ المأوی کے قریب پہنچنے اور خدا کی بعض نشانیوں کا مشاہدہ کرنے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ اسی طرح آیت نمبر 50 سے 53 میں قوم عاد، قوم ثمود، قوم نوح اور قوم لوط کے ہلاک ہونے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔

مشہور آیتیں

اور یہ کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے
  • وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى(ترجمہ: اور وہ (اپنی) خواہشِ نفس سے بات نہیں کرتا۔ وہ تو بس وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔) (آیت 3-4)

تفسیر نمونہ کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کا وحی کے علاوہ کچھ نہ کہنا صرف قرآن کی آیتوں تک محدود نہیں بلکہ یہ بات آپؐ کی سنت (گفتار اور رفتار) کو بھی شامل کرتی ہے؛[11] اسی بناء پر بعض فقہاء اس آیت کو پیغمبر اکرمؐ کی سنت کے معتبر ہونے پر دلیل سمجھتے ہیں ۔[12] اسی طرح آپؐ کی عصمت پر بھی اس آیت کے ذریعے استدلال کیا جاتا ہے۔[13] تفسیر البرہان میں مختلف احادیث نقل کی گئی ہیں جن کے مطابق جب پیغمبر اکرمؐ نے امام علیؑ کے مقام و منزلت اور آپؑ کی جانشینی کے بارے میں گفتگو فرمائی تو بعض نے کہا کہ محمدؐ اپنے چچا زاد بھائی کے بارے میں اپنی طرف سے کہہ رہا ہے(نہ کہ خدا کی جانب سے)۔ اس مقام پر سورہ نجم کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں۔[14]

  • ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ(ترجمہ: پھر وہ قریب ہوا اور زیادہ قریب ہوا۔ (8) یہاں تک دو کمان کے برابریا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا) (آیت 8-9)

اس سورت کی دوسری مشہور آیتوں میں آیت نمبر 8 اور 9 بھی ہیں جن میں معراج کے واقعے میں پیغمبر اکرمؐ اور خدا یا جبرئیل کے درمیان دو کمان یا اس سے بھی کم فاصلے کی طرف اشارہ کی گئی ہیں۔ بعض کے مطابق یہ اس سے مراد پیغمبر اکرمؐ اور جبرئیل کے درمیان فاصلہ ہے۔[15] جبکہ بعض اس سے پیغمبر اکرمؐ اور خدا کے درمیان معنوی فاصلہ مراد لیتے ہیں۔[16]

  • وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ(ترجمہ: اور یہ کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے) (آیت 39)

تفسیر میں آیا ہے کہ آخرت میں انسان کا شفاعت، استغفار اور خیراتِ سے بہرہ مند ہونا بھی اس دنیا میں اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ اگر کوئی شخص اس دنیا میں ایمان نہیں لائیں گے تو نہ اس کے لئے کسی کی شفاعت نصیب ہوگی اور نہ کوئی اس کیلئے استغفار کریں گے۔[17] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اس آیت میں جد و جہد کو استحقاق کا معیار قرار دیا گیا ہے نہ کہ کسی عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانا پس اگر کوئی شخص کوشش کرنے کے باوجود کسی نتیجے تک نہ پہنچے تو بھی خدا اس کی جد و جہد کی بنا پر اسے ثواب عطا کرے گا۔[18] در بحث جبر و اختیار، از این آیہ برای اثبات اختیار و آزادی انسان استفادہ شدہ است۔[19]

فضیلت اور خواص

سورہ نجم کی تلاوت کی فضلیت کے بارے میں احادیث میں آیا ہے کہ اس کی تلاوت کرنے والا لوگوں میں محبوب ہو گا[20] اور یہ کہ جو شخص اس سورت کی ہر رات یا ہر روز تلاوت کرے گا یہ شخص لوگوں کے درمیان شائستہ زندگی گزارے گا اور وہ لوگوں میں محبوب ہو گا۔[21]

متن اور ترجمہ

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى ﴿1﴾ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى ﴿2﴾ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى ﴿3﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى ﴿4﴾ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى ﴿5﴾ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَى ﴿6﴾ وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَى ﴿7﴾ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى ﴿8﴾ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى ﴿9﴾ فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى ﴿10﴾ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى ﴿11﴾ أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَى ﴿12﴾ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى ﴿13﴾ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى ﴿14﴾ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَى ﴿15﴾ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى ﴿16﴾ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى ﴿17﴾ لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى ﴿18﴾ أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى ﴿19﴾ وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى ﴿20﴾ أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْأُنثَى ﴿21﴾ تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى ﴿22﴾ إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاء سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنفُسُ وَلَقَدْ جَاءهُم مِّن رَّبِّهِمُ الْهُدَى ﴿23﴾ أَمْ لِلْإِنسَانِ مَا تَمَنَّى ﴿24﴾ فَلِلَّهِ الْآخِرَةُ وَالْأُولَى ﴿25﴾ وَكَم مِّن مَّلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِن بَعْدِ أَن يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَن يَشَاء وَيَرْضَى ﴿26﴾ إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ لَيُسَمُّونَ الْمَلَائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنثَى ﴿27﴾ وَمَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ﴿28﴾ فَأَعْرِضْ عَن مَّن تَوَلَّى عَن ذِكْرِنَا وَلَمْ يُرِدْ إِلَّا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ﴿29﴾ ذَلِكَ مَبْلَغُهُم مِّنَ الْعِلْمِ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اهْتَدَى ﴿30﴾ وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاؤُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى ﴿31﴾ الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى ﴿32﴾ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي تَوَلَّى ﴿33﴾ وَأَعْطَى قَلِيلًا وَأَكْدَى ﴿34﴾ أَعِندَهُ عِلْمُ الْغَيْبِ فَهُوَ يَرَى ﴿35﴾ أَمْ لَمْ يُنَبَّأْ بِمَا فِي صُحُفِ مُوسَى ﴿36﴾ وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّى ﴿37﴾ أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ﴿38﴾ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى ﴿39﴾ وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَى ﴿40﴾ ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاء الْأَوْفَى ﴿41﴾ وَأَنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنتَهَى ﴿42﴾ وَأَنَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى ﴿43﴾ وَأَنَّهُ هُوَ أَمَاتَ وَأَحْيَا ﴿44﴾ وَأَنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى ﴿45﴾ مِن نُّطْفَةٍ إِذَا تُمْنَى ﴿46﴾ وَأَنَّ عَلَيْهِ النَّشْأَةَ الْأُخْرَى ﴿47﴾ وَأَنَّهُ هُوَ أَغْنَى وَأَقْنَى ﴿48﴾ وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَى ﴿49﴾ وَأَنَّهُ أَهْلَكَ عَادًا الْأُولَى ﴿50﴾ وَثَمُودَ فَمَا أَبْقَى ﴿51﴾ وَقَوْمَ نُوحٍ مِّن قَبْلُ إِنَّهُمْ كَانُوا هُمْ أَظْلَمَ وَأَطْغَى ﴿52﴾ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى ﴿53﴾ فَغَشَّاهَا مَا غَشَّى ﴿54﴾ فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكَ تَتَمَارَى ﴿55﴾ هَذَا نَذِيرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْأُولَى ﴿56﴾ أَزِفَتْ الْآزِفَةُ ﴿57﴾ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّهِ كَاشِفَةٌ ﴿58﴾ أَفَمِنْ هَذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ ﴿59﴾ وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ ﴿60﴾ وَأَنتُمْ سَامِدُونَ ﴿61﴾ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا سجدة واجبة﴿62﴾

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

قَسم ہے ستارے کی جبکہ وہ ڈوبنے لگے۔ (1) کہ تمہارا یہ ساتھی (پیغمبرِ اسلام(ص)) نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔ (2) اور وہ (اپنی) خواہشِ نفس سے بات نہیں کرتا۔ (3) وہ تو بس وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔ (4) ان کو ایک زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے۔ (5) جو بڑا صاحبِ قدرت (یا بڑا دانا و حکیم) ہے پھر (وہ اپنی اصلی شکل میں) کھڑا ہوا۔ (6) جبکہ وہ آسمان کے بلند ترین کنارہ پر تھا۔ (7) پھر وہ قریب ہوا اور زیادہ قریب ہوا۔ (8) یہاں تک دو کمان کے برابریا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ (9) پس اس (اللہ) نے اپنے بندہ (خاص) کی طرف وحی کی جو وحی کی۔ (10) (رسول(ص) کے) دل نے جھوٹ نہیں کہا (جھٹلایا نہیں) جو کچھ (مصطفٰی(ص) کی) آنکھ نے دیکھا۔ (11) کیا تم لوگ آپ(ص) سے اس بات پر جھگڑتے ہو جو کچھ انہوں نے دیکھا۔ (12) اور آپ(ص) نے ایک بار اور بھی۔ (13) اترتے ہوئے سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھا۔ (14) جہاں جنت الماوی (آرام سے رہنے کا بہشت) ہے۔ (15) جب کہ سدرہ پر چھا رہا تھا (وہ نور) جو چھا رہا تھا۔ (16) نہ آنکھ چندھیائی اور نہ حدسے بڑھی۔ (17) یقیناً آپ(ص) نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ (18) کیا تم نے کبھی لات و عزیٰ۔ (19) اور تیسرے منات کو کبھی دیکھا ہے (ان کی اصلیت میں غور کیا ہے؟) (20) کیا تمہارے لئے لڑکے ہیں اور اس(اللہ) کے لئے لڑکیاں؟ (21) یہ تقسیم تو بڑی ظالمانہ ہے۔ (22) یہ نہیں ہیں مگر صرف چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادانے رکھ لئے ہیں جس پر اللہ نے کوئی دلیل (سند) نہیں نازل کی یہ لوگ محض وہم و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور خواہشاتِ نفس کی حالانکہ ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے ہدایت و رہنمائی آچکی۔ (23) کیا انسان کو وہ چیز مل سکتی ہے جس کی وہ تمنا کرتا ہے؟ (24) پس اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے آخرت بھی اور دنیا بھی (یعنی انجام بھی اور آغاز بھی)۔ (25) اور آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں جن کی سفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتی مگر بعد اس کے کہ اللہ جس کے لئے چاہے اجازت دے اور پسند کرے۔ (26)
بےشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو عورتوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ (27) حالانکہ انہیں اس کا کوئی علم نہیں ہے وہ مخصوص ظن و گمان کی پیروی کرتے ہیں اور ظنِ حق کے مقابلہ میں ذرا بھی کام نہیں دے سکتا۔ (28) (اے رسول(ص)) آپ اس سے رُوگردانی کیجئے! جو ہمارے ذکر سے رُوگردانی کرتا ہے اور جو زندگانئ دنیا کے سوا اور کچھ نہیں چاہتا۔ (29) ان لوگوں کامبلغ علم یہی ہے (ان کے علم کی رسائی کی حد یہی ہے) آپ(ص) کا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے راستہ سے بھٹکا ہوا کون ہے؟ اور وہی بہتر جانتا ہے کہ راہِ راست پر کون ہے؟ (30) اور جو آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ اللہ ہی کا ہے تاکہ وہ برا کام کرنے والوں کو ان کے (برے) کاموں کا بدلہ دے اور نیک کرنے والوں کو اچھی جزا عطا کرے۔ (31) جو کہ بڑے گناہوں اور بےحیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں مگر یہ کہ کچھ ہلکے گناہ سر زد ہو جائیں۔ بےشک آپ کا پروردگار وسیع مغفرت والا ہے وہ تمہیں (اس وقت سے) خوب جانتا ہے جب اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں جنین کی صورت میں تھے پس تم اپنے آپ کی پاکی کے دعوے نہ کرو۔ وہ (اللہ) بہتر جانتا ہے کہ واقعی پرہیزگار کون ہے؟ (32) (اے رسول(ص)) کیا آپ(ص) نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے رُوگردانی کی۔ (33) اس نے تھوڑا سا (مال) دیا اور پھر ہاتھ روک لیا۔ (34) کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے پس وہ دیکھ رہا ہے؟ (35) کیا اسے اس بات کی خبر نہیں پہنچی جو موسیٰ (ع) کے صحیفوں میں ہے۔ (36) اور اس ابراہیم (ع) کے صحیفوں میں جس نے وفاداری کا حق ادا کر دیا۔ (37) کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (38) اور یہ کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ (39) اور اس کی سعی و کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔ (40) اور پھر اسے پوری جزا دی جائے گی۔ (41) اور یہ کہ سب کی انتہا آپ(ص) کے پروردگار کی طرف ہے۔ (42) بےشک وہی ہنساتا ہے اور رلاتا ہے۔ (43) اور وہی مارتا ہے اور جِلاتا ہے۔ (44)
اور یہ کہ اسی نے نر اور مادہ کے جوڑے پیدا کئے۔ (45) (وہ بھی) ایک نطفہ سے (جو رحم میں) ٹپکایا جاتا ہے۔ (46) اور بیشک دوبارہ پیدا کرنا اسی (اللہ) کے ذمہ ہے۔ (47) اور یہ کہ وہی سرمایہ دار بناتا ہے اور وہی فقیر و نادار بناتا ہے۔ (48) اور یہ کہ وہ شعریٰ نامی ستارے کا پروردگار ہے۔ (49) اور یہ کہ اسی نے عادِ اول (قومِ ہود) کو ہلاک کیا۔ (50) اور ثمود کو بھی اس طرح ہلاک کیا کہ کسی کو باقی نہیں چھوڑا۔ (51) اوران سب سے پہلے قومِ نوح(ع) کو بھی (برباد کیا) بےشک وہ بڑے ظالم اور بڑے سرکش تھے۔ (52) (لوط (ع)) کی الٹی ہوئی ان (بستیوں) کو بھی دے مارا۔ (53) پس ان (بستیوں) کو ڈھانک لیا اس (آفت) نے جس نے ڈھانک لیا۔ (54) پس تو اے مخاطب اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں میں شک کرے گا۔ (55) یہ (رسول(ص)) بھی ڈرانے والا ہے پہلے ڈرانے والے (رسولوں(ع)) سے۔ (56) قریب آنے والی (قیامت) قریب آگئی ہے۔ (57) اللہ کے سوا اس کا کوئی ہٹانے والانہیں ہے۔ (58) کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو؟ (59) اور ہنستے ہو اور روتے نہیں۔ (60) اور تم غفلت میں مدہوش ہو۔ (61) پس اللہ کے لئے سجدہ کرو اور(اسی کی) عبادت کرو۔ (62)

حوالہ جات

  1. معرفت، التمہید فی علوم القرآن ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۳۱۳۔
  2. معرفت، التمہید فی علوم القرآن ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۲۳۷۔
  3. مکارم شیرازی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ۱۳۸۲ش، ج۴، ص۵۷۵۔
  4. دانشنامہ قرآن و قرآن‌پژوہی، ج۲، ص۱۲۵۳۔
  5. سیوطی، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور ۱۴۰۴ق، ج۶، ص۴۲۴۔
  6. خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن‌پژوہی، ج۲، ص۱۴۵۱
  7. بنی‌ہاشمی، توضیح المسائل مراجع، ج۱، ص۶۱۵-۶۱۷
  8. البتہ اس کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے: بعض کہتے ہیں کہ حالت جنابت میں ان سورتوں کی کوئی بھی آیت نہیں پڑھی جا سکتی؛ جبکہ ان کے مقابلے میں بعض کہتے ہیں کہ یہ حکم فقط سجدہ والی آیت کے ساتھ مختص اور اور باقی آیات اس حکم سے مستثنا ہیں۔ (بنی‌ہاشمی، توضیح المسائل مراجع، ج۱، ص۲۲۵-۲۲۷)، بنی‌ہاشمی، توضیح المسائل مراجع، ج۱، ص۲۷۶
  9. مکارم شیرازی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ۱۳۸۲ش، ج۴، ص۵۷۵ و ۵۷۶۔
  10. خامہ‌گر، محمد، ساختار سورہ‌ہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج۲۲، ص۴۸۱۔
  12. شہابی، ادوار فقہ، ج۱، ص۴۰۴۔
  13. ر۔ک: سبحانی، مفاہیم القرآن، ج۵، ص۳۹۔
  14. بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۵، صص ۱۸۷–۱۹۱۔
  15. طبرسی، ترجمہ تفسیر مجمع البیان، بی‌تا، ج۲۳، ص۳۸۱۔
  16. مکارم شیرازی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ۱۳۸۲ش، ج۴، ص۵۷۹۔
  17. طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۹، ص۷۵۔
  18. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۲، ص۵۵۰۔
  19. سبحانی، «اختیار و آزادی»، ص۲۱؛ سبحانی، «جبر و اختیار از دیدگاہ وحی و خرد»، ص۱۵۔
  20. بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۵، ص۱۸۵۔
  21. طبرسی، ترجمہ تفسیر مجمع البیان، بی‌تا، ج۲۳، ص۳۷۰۔

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
  • بحرانی، ہاشم بن سلیمان، البرہان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسہ البعثہ، قسم الدراسات الاسلامیہ، ۱۳۸۹ش۔
  • بنی‌ہاشمی خمینی، سید محمد حسن، توضیح المسائل مراجع، دفتر نشر اسلامی،چاپ سوم، ۱۳۷۸ش۔
  • سبحانی، جعفر (آیت‌اللہ)، مفاہیم القرآن، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، ۱۴۲۷ق۔
  • سبحانی، جعفر (آیت‌اللہ)، «اختیار و آزادی»، مجلہ مکتب اسلام، سال ۲۳، شمارہ ۱۱، بہمن ۱۳۶۲۔
  • سبحانی، جعفر (آیت‌اللہ)، «جبر و اختیار از دیدگاہ وحی و خرد»، شمارہ ۴۵، آذر ۱۳۶۶۔
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌‌بکر، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، قم، کتابخانہ عمومی آیت‌اللہ العظمی مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ق۔
  • شہابی، محمود، ادوار فقہ، تہران: وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۳۶۶ش۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۳ق۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ترجمہ محمدباقر موسوی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۳۷۴ش۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ہاشم رسولی، تہران، فراہانی، بی‌تا۔
  • معرفت، محمدہادی، التمہید فی علوم القرآن، قم، مؤسسہ فرہنگی انتشاراتی التمہید، ۱۳۸۸ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، برگزیدہ تفسیر نمونہ، تہران،دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۸۲ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۱ش۔

بیرونی روابط

تلاوت سورہ نجم

تبصرے
Loading...