سورہ طور

سورہ طور قرآن کریم کی 52ویں اور مکی سورتوں میں سے ہے اور قرآن کے 27ویں پارے میں واقع ہے۔ اس کی پہلی آیت میں “طور” کی قسم کھائی ہے اسی مناسبت سے اس کا نام “سورہ طور” رکھا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ “طور” سے مراد وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسی پر وحی ہوئی تھی۔ سورہ طور میں کافروں کو عذاب سے ڈراتے ہوئے اس عذاب کی خصوصیات بیان کی گئی ہے۔ اس کے بعد بہشتیوں کے نعمات کا ذکر کرتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ کی نبوت کے منکرین کی توبیخ کی گئی ہے۔ اس سورت کی تلاوت کے بارے میں احادیث میں نقل ہوئی ہے کہ اگر کوئی شخص اس سورت کی تلاوت کرے تو وہ جہنم کی عذاب سے محفوظ رہے گا، بہشت میں جگہ دی جائے گی اور دنیا و آخرت کی تمام خیر و برکات سے نوازا جائے گا۔

تعارف

اس سورت کو اس کی پہلی آیت میں “طور” کی قسم کھانے کی وجہ سے “سورہ طور” کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔[1] علامہ طباطبایی تفسیر المیزان میں لکھتے ہیں: اس سورت میں “طور” سے مراد وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسی پر وحی ہوئی تھی۔[2]

  • محل اور ترتیب نزول

سورہ طور مکی سورتوں میں سے ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے 76ویں جبکہ مُصحَف کی موجودہ ترتیب کے اعتبار سے 52ویں سورت ہے[3] اور قرآن کے 27ویں پارے میں واقع ہے

  • آیات کی تعداد اور دوسری خصوصیات

سورہ طور 49 آیات، 313 کلمات اور 1324 حروف پر مشتمل ہے۔ حجم اور آیتوں کے اختصار کے اعتبار سے اس کا شمار مُفَصَّلات میں ہوتا ہے۔[4]

مضامین

تفسیر المیزان کے مطابق سورہ طور کا اصلی محور حق اور حقیقت کے ساتھ عناد اور دشمنی رکھنے والے انسان کی تہدید ہے۔ اس سورت میں كافروں کو قیامت کے دن ان کے لئے تیار کرنے والے عذاب سے ڈراتے ہوئے ان کے واقع ہونے کی حتمیت پر قسم کھائی گئی ہے۔ اس کے بعد اس عذاب کی بعض خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں۔ اس کے بعد اس کے مقابلے میں بہشتیوں کے نعمات کا ذکر کرتے ہیں۔ آگے چل کر پیغمبر اکرمؐ کی نبوت کے منکرین اور آپ پر تہمت لگانے والوں کی توتبخ کرتے ہیں۔ اس سورت کے آخر میں پیغمبر اکرمؐ کو خدا کی تسبيح و تقدیس کا حکم دیتے ہیں۔[5]

 

 

 

 

قیامت کے بارے میں پیغمبر کی تعلیمات کے منکروں کو انتباہ

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تیسرا گفتار؛ آیہ ۴۴-۴۹
قیامت کے منکروں کے مقابلے میں پیغمبر کی ذمہ داری

 

دوسرا گفتار؛ آیہ ۲۹-۴۳
قیامت کے عذاب کے بارے میں پیغمبر کی تعلیمات کے مخالفوں کو جواب

 

پہلا گفتار؛ آیہ ۱-۲۸
قیامت کا ہونا یقینی ہے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

پہلی ذمہ داری؛ آیہ ۴۴-۴۷
کافروں کو عذاب اللہ کے ذمے ہونا

 

پہلا جواب؛ آیہ ۲۹-۳۱
پیغمبر کاہن، مجنون اور شاعر نہیں ہے

 

پہلا مطلب؛ آیہ ۱-۱۰
قیامت میں عذاب حتمی ہونا

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

دوسری ذمہ داری؛ آیہ ۴۸-۴۹
صبر اور اللہ کی بندگی

 

دوسرا جواب؛ آیہ ۳۲-۳۴
پیغمبر سے انکار کا سبب بےایمانی اور طغیانگری

 

دوسرا مطلب؛ آیہ ۱۱-۱۶
قیامت کے دن دین کے منکروں کو عذاب

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تیسرا جواب؛ آیہ ۳۵-۳۶
کافروں کی خلقت دوسروں سے فرق نہیں وہ بھی عذاب سے دوچار ہونگے

 

تیسرا مطلب؛ آیہ ۱۷-۲۸
قیامت کے دن متقین کو اجر

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

چوتھا جواب؛ آیہ ۳۷-۳۹
پیغمبر کے انتخاب میں کافروں کا کوئی کردار نہیں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

پانچواں جواب؛ آیہ ۴۰
پیغمبر نے تم سے کوئی اجرت نہیں مانگا ہے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

چھٹا جواب؛ آیہ ۴۱-۴۲
پیغمبر کا انکار ایک سازش ہے، علمِ غیب کی وجہ سے نہیں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ساتواں جواب؛ آیہ ۴۳
اللہ کا کوئی شریک نہیں اس کے بھیجے ہوئے پر ایمان لانا ہوگا

طور سیناء کا محل وقوع

طور سینا صحرائے سینا کے جنوب میں واقع ہے اور خود صحرائے سیناء مصر کے شمال مشرقی حصے میں فلسطین، اردن اور سعودی عرب کے باڈر پر واقع ہے۔
اس علاقے میں متعدد پہاڑے سلسلے موجود ہیں اور کوہ طور ان میں سے ایک ہے۔[7]
ابن منظور “طور سیناء” کو شام کی ایک پہاڑے کا نام بتاتے ہیں۔[8]

بعض مورخین نے یہ احتمال دیا ہے کہ شاید “طور سیناء” ایک پہاڑی سلسلے کو کہا جاتا ہے نہ کسی خاص پہاڑ کو اور اس پر رونما ہونے والے واقع میں سے ہر ایک اس کے مختلف حصوں پر واقع ہوئے ہوں۔[9] اسی بنا پر بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ قرآن مجید میں “سیناء” اور “سینین” دو کلمات کا استعمال شاید اسی مذکورہ نکتے کی طرف اشارہ ہو کیونکہ کسی کلمے کی آخر میں “یاء” اور “نون” کا آنا اس کے چھوٹے ہونے پر دلالت کرتی ہے اس بنا پر “طور سینین” حقیقت میں “طور سیناء” کا ایک حصہ ہو گا۔[10]

موجوده دور میں صحرائے سینا کے جنوب میں کوہ سیناء نامی ایک پہاڑ موجود ہے جو “دِیر کاترین مقدس” کے نزدیک واقع ہے۔[حوالہ درکار]

فضیلت اور خواص

تفسیر مجمع البیان میں اس سورت کی تلاوت کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ سے نقل ہوئی ہے کہ اگر کوئی شخص اس سورت کی تلاوت کرے تو وہ جہنم کی عذاب سے محفوظ رہے گا، بہشت میں جگہ دی جائے گی۔[11] اسی طرح ایک اور حدیث میں آپؐ “سورہ طور” کو نماز مغرب میں قرائت فرماتے تھے۔[12] ایک اور حدیث میں امام باقر اور امام صادقؑ) سے نقل ہوئی ہے جو شخص سورہ طور کی تلاوت کرے گا اسے دنیا و آخرت کی تمام خیر و برکات سے نوازا جائے گا۔[13]

متن اور ترجمہ

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

وَالطُّورِ ﴿1﴾ وَكِتَابٍ مَّسْطُورٍ ﴿2﴾ فِي رَقٍّ مَّنشُورٍ ﴿3﴾ وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ ﴿4﴾ وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ ﴿5﴾ وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ ﴿6﴾ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ ﴿7﴾ مَا لَهُ مِن دَافِعٍ ﴿8﴾ يَوْمَ تَمُورُ السَّمَاء مَوْرًا ﴿9﴾ وَتَسِيرُ الْجِبَالُ سَيْرًا ﴿10﴾ فَوَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ ﴿11﴾ الَّذِينَ هُمْ فِي خَوْضٍ يَلْعَبُونَ ﴿12﴾ يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا ﴿13﴾ هَذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ ﴿14﴾ أَفَسِحْرٌ هَذَا أَمْ أَنتُمْ لَا تُبْصِرُونَ ﴿15﴾ اصْلَوْهَا فَاصْبِرُوا أَوْ لَا تَصْبِرُوا سَوَاء عَلَيْكُمْ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿16﴾ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَعِيمٍ ﴿17﴾ فَاكِهِينَ بِمَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ وَوَقَاهُمْ رَبُّهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ ﴿18﴾ كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿19﴾ مُتَّكِئِينَ عَلَى سُرُرٍ مَّصْفُوفَةٍ وَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِينٍ ﴿20﴾ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ ﴿21﴾ وَأَمْدَدْنَاهُم بِفَاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ ﴿22﴾ يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَّا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ ﴿23﴾ وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُونٌ ﴿24﴾ وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءلُونَ ﴿25﴾ قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ ﴿26﴾ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ ﴿27﴾ إِنَّا كُنَّا مِن قَبْلُ نَدْعُوهُ إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ ﴿28﴾ فَذَكِّرْ فَمَا أَنتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَلَا مَجْنُونٍ ﴿29﴾ أَمْ يَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ ﴿30﴾ قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُتَرَبِّصِينَ ﴿31﴾ أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلَامُهُم بِهَذَا أَمْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ ﴿32﴾ أَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ بَل لَّا يُؤْمِنُونَ ﴿33﴾ فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِّثْلِهِ إِن كَانُوا صَادِقِينَ ﴿34﴾ أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ ﴿35﴾ أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بَل لَّا يُوقِنُونَ ﴿36﴾ أَمْ عِندَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ ﴿37﴾ أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُم بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴿38﴾ أَمْ لَهُ الْبَنَاتُ وَلَكُمُ الْبَنُونَ ﴿39﴾ أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ ﴿40﴾ أَمْ عِندَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ ﴿41﴾ أَمْ يُرِيدُونَ كَيْدًا فَالَّذِينَ كَفَرُوا هُمُ الْمَكِيدُونَ ﴿42﴾ أَمْ لَهُمْ إِلَهٌ غَيْرُ اللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿43﴾ وَإِن يَرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَاء سَاقِطًا يَقُولُوا سَحَابٌ مَّرْكُومٌ ﴿44﴾ فَذَرْهُمْ حَتَّى يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي فِيهِ يُصْعَقُونَ ﴿45﴾ يَوْمَ لَا يُغْنِي عَنْهُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ ﴿46﴾ وَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا عَذَابًا دُونَ ذَلِكَ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿47﴾ وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ ﴿48﴾ وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ ﴿49﴾

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

قَسم ہے طور کی۔ (1) اور ایک کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے۔ (2) کھلے ورق میں۔ (3) اور قَسم ہے اس گھر کی جو آباد ہے۔ (4) اور اس چھت کی جو بلند ہے۔ (5) اور اس سمندر کی جو موجزن ہے۔ (6) بےشک تمہارے پروردگار کا عذاب واقع ہونے والا ہے۔ (7) جس کو ٹالنے والا کوئی نہیں ہے۔ (8) جس دن آسمان تھرتھرانے لگے گا۔ (9) اور پہاڑ چلنے لگیں گے۔ (10) پس تباہی ہوگی اس دن جھٹلانے والوں کیلئے۔ (11) جو بےہودہ اور فضول باتوں میں کھیل رہے ہیں۔ (12) جس دن ان کو دھکیل دھکیل کر آتشِ دوزخ کی طرف لایا جائے گا۔ (13) یہی ہے وہ آگ جسے تم جھٹلاتے تھے۔ (14)
کیا یہ(آگ) جادو ہے؟ یا تمہیں نظر نہیں آتا؟ (15) پس اس میں داخل ہو جاؤ! اب تم صبر کرویا نہ کرو دونوں تمہارے حق میں برابر ہیں تمہیں ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسا تم کیا کرتے تھے۔ (16) بےشک پرہیزگار لوگ باغہائے بہشت اور نعمتوں میں ہوں گے۔ (17) وہ خوش و خرم ہوں گے ان نعمتوں سے جو ان کا پروردگار انہیں عطا فر مائے گا اور ان کا پروردگار انہیں دوزخ کے عذاب سے بچائے گا۔ (18) (ارشاد ہوگا) کھاؤ اور پیؤ مبارک ہو! ان اعمال کے صلہ میں جو تم کرتے تھے۔ (19) وہ بچھے ہوئے پلنگوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے اور ہم ان کی حور العین (یعنی گوری رنگت کی کشادہ چشم عورتوں) سے شادی کر دیں گے۔ (20) اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان کے ساتھ ان کی اتباع (پیروی) کی تو ہم ان کی اولاد کو (جنت میں) ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان کے اعمال میں کچھ بھی کمی نہیں کریں گے ہر شخص اپنے عمل کے بدلے میں گروی ہے۔ (21) اور ہم انہیں پسند کے میوے اور گوشت دیتے رہیں گے۔ (22) اور وہ وہاں ایسے جامِ شراب پر چھینا جھپٹی بھی کریں گے جس میں نہ کوئی لغو بات ہوگی اور نہ گنہگار ٹھہرانے کی۔ (23) اور ان کے غلام (خدمت کیلئے) چکر لگا رہے ہوں گے (جو حُسن و جمال میں) گویا چھپے ہوئے موتی ہوں گے۔ (24) وہ (جنتی) ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر باہم سوال و جواب کریں گے۔ (25) وہ کہیں گے کہ ہم اس سے پہلے اپنے گھر بار میں (اپنے انجام سے) ڈرتے رہتے تھے۔ (26) پس اللہ نے ہم پر (اپنا) فضل و کرم فرمایا اور ہمیں گرم لو کے عذاب سے بچا لیا۔ (27) بےشک ہم اس سے پہلے (دنیا میں) بھی اسی سے دعا مانگا کرتے تھے یقیناً وہ بڑا احسان کرنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (28) آپ(ص) یاددہانی کرتے رہیے! کہ آپ اپنے پروردگار کے فضل و کرم سے نہ کاہن ہیں اور نہ مجنون۔ (29) کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک شاعر ہیں (اور) ہم ان کے بارے میں گردشِ زمانہ کا انتظار کر رہے ہیں؟ (30) آپ کہئے! کہ تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ (31)
کیا ان کی عقلیں ان کو ان (فضول) باتوں کا حُکم دیتی ہیںیا یہ سرکش لوگ ہیں؟ (32) یا وہ یہ کہتے ہیں کہ انہوں (رسول(ص)) نے خود قرآن گھڑ لیا ہے بلکہ (اصل بات یہ ہے کہ) وہ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے۔ (33) اگر وہ سچے ہیں تو پھر ایسا کلاملے آئیں۔ (34) آیا وہ بغیر کسی (خالق) کے پیدا کئے گئے ہیںیا وہ خود (اپنے) پیدا کرنے والے ہیں؟ (35) یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ بلکہ وہ یقین ہی نہیں رکھتے۔ (36) یا ان کے پاس آپ(ص) کے پروردگار کے خزانے ہیںیا یہ ان پر حاکم (مجاز) ہیں؟ (37) یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے (جس پر چڑھ کر) وہ (آسمانی خفیہ باتیں) سن لیتے ہیں؟ (اگر ایسا ہے) تو پھر ان کا سننے والا کوئی کھلی ہوئی دلیل پیش کرے۔ (38) کیا اللہ کے لئے بیٹیاں ہیں اور تمہارے لئے بیٹے؟ (39) کیا آپ ان سے کوئی اجرت مانگتے ہیں کہ وہ تاوان کے بوجھ سے دبےجا رہے رہیں؟ (40) یاان کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہ (اس کی بناء پر) لکھتے جاتے ہیں؟ (41) یا وہ کوئی چال چلنا چاہتے ہیں؟ تو جو لوگ کافر ہیں وہ خود اپنی چال کا شکار ہیں۔ (42) یا اللہ کے سوا ان کا کوئی اور خدا ہے؟ پاک ہے اللہ اس شرک سے جو وہ کرتے ہیں۔ (43) اور اگر وہ آسمان سے کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں تو کہتے ہیں کہ یہ تہہ در تہہ بادل ہے۔ (44) پس انہیں (اپنے حال پر) چھوڑ دیجئے یہاں تک کہ وہ اپنے اس دن تک پہنچ جائیں جس میں وہ غش کھا کر گر جائیں گے۔ (45) جس دن ان کی کوئی چال ان کے کسی کام نہ آئے گی اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کی جائے گی۔ (46) بےشک جو لوگ ظالم ہیں ان کیلئے اس سے پہلے (دنیا میں) بھی ایک عذاب ہے لیکن ان میں سے اکثر جانتے نہیں ہیں۔ (47) آپ(ص) اپنے پروردگار کے فیصلے کیلئے صبر کیجئے! آپ(ص) ہماری نظروں (نگہبانی) میں ہیں آپ(ص) اپنے پروردگار کی تسبیح کیجئے اس کی حمد کے ساتھ۔ (48) جس وقت آپ(ص) اٹھتے ہیں اوررات کے کچھ حصہ میں بھی اس کی تسبیح کریں اور ستاروں کے پیچھے ہٹتے وقت بھی۔ (49)

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، تفسير نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۲، ص۴۰۸۔
  2. علامہ طباطبایی، الميزان، ۱۴۱۷، ج‏۱۹، ص۶۔
  3. معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۱۶۶۔
  4. خرمشاہی، دانشنامہ قرآن، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۵۲۔
  5. علامہ طباطبایی، الميزان، ۱۴۱۷ق، ج‏۱۹، ص۵و۶۔
  6. خامہ‌گر، محمد، ساختار سورہ‌ہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
  7. مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ۱۳۶۰ش، ج۵، ص۲۹۳۔
  8. ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۵۰۸۔
  9. مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ۱۳۶۰ش، ج۵، ص۲۹۳۔
  10. مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ۱۳۶۰ش، ج۵، ص۲۹۵۔
  11. طبرسی، مجمع البيان، ۱۳۷۲ش، ج‏۹، ص۲۴۵۔
  12. طبرسی، مجمع البيان، ۱۳۷۲ش، ج‏۹، ص۲۴۵۔
  13. شیخ صدوق، ثواب الأعمال، ۱۴۰۶ق، ص۱۱۶۔

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، محقق و مصحح: میر دامادی، جمال‌الدین، بیروت، دارالفکر، دارصادر، چاپ سوم، ۱۴۱۴ق۔
  • دانشنامہ قرآن و قرآن‌پژوہی، بہ کوشش بہاءالدین خرمشاہی، ج۲، تہران: دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال‏، قم: دار الشریف رضی، ۱۴۰۶ق۔
  • طالقانى سيد محمود، پرتوى از قرآن، تہران، شركت سہامى انتشار، چاپ چہارم، ۱۳۶۲ش۔
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیرالقرآن، قم: انتشارات اسلامی، ۱۴۱۷ق۔
  • طبرسى، فضل بن حسن، مجمع البيان فى تفسير القرآن، تہران: انتشارات ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش۔
  • قمی، على بن ابراہيم، تفسیر القمی، تحقیق: سيد طيب موسوى جزايرى، قم، دارالکتاب، چاپ چہارم، ۱۳۶۷ش۔
  • مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، تہران، بنگاہ ترجمہ و نشر کتاب، ۱۳۶۰ش۔
  • معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بی‌جا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چ۱، ۱۳۷۱ش۔
  • مكارم شيرازى، ناصر، تفسیر نمونہ، ج۱، تہران: دار الكتب الإسلاميۃ، چاپ اول، ۱۳۷۴ش۔

بیرونی روابط

تبصرے
Loading...