سنت

سنت، ایک دینی اصطلاح ہے جس کا اطلاق معصوم کے کردار، گفتار اور تقریر پر ہوتا ہے۔ ادلہ اربعہ میں سے قرآن کے بعد دین اسلام کے عملی اور اعتقادی امور کا دوسرا منبع سنت ہے۔ البتہ اس کی حجیت کے حوالے سے مسلمانوں میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ پیغمبراکرم(ص) کی سنت کو تمام مسلمان حجت سمجھتے ہیں۔ لیکن پیغمبر کے بعد اہل تشیع صرف 12 معصوم اماموں کی سنت کو ججت سمجھتے ہیں جبکہ اہل سنت غیر معصوم صحابہ کی سنت کو بھی حجت سمجھتے ہیں۔

معصوم کا کسی کام کو انجام دینا کم از کم اس کام کے جایز ہونے کی دلیل ہے اسی طرح تقریر معصوم بھی اس کام کے جواز کی نشاندہی کرتی ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ معصوم اس کام سے آگاہ ہو اور اس کام کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر بیان کرنے میں کوئی مانع بھی نہ رکھتا ہو۔

سنت کے لغوی اور اصلاحی معنی

سنت لغوی اعتبار سے گوناگون معانی میں استعمال ہوتی ہے۔ جن میں روش، دستور، رواج، طریقہ، عادت، راہ، قانون وغیرہ شامل ہیں۔

دینی اصطلاح میں ہر پسندیدہ اور رائج عمل کو سنت کہا جاتا ہے جو پیغمبر اکرم(ص)(باالاتفاق) یا ائمہ معصومین (اہل تشیع)[1] یا صحابہ (اہل سنت) میں سے کسی ایک کے کردار، گفتار اور تقریر کے ذریعے ثابت ہو۔ اس معنی میں کہ ان شخصیتوں میں سے کسی ایک نے کوئی کام انجام دیا ہو یا کسی عمل کے انجام دنے کا فرمان دیا ہو یا کسی اور کو کوئی کام انجام دیتے ہوئے دیکھا ہو اور انہوں نے تائید کی ہو یا کم از کم اس کام سے منع نہ کیا ہو حالنکہ منع کرنے میں کوئی مانع بھی نہ ہو۔

سنت اور حدیث

سنت اور حدیث میں یہ فرق ہے کہ حدیث سے مراد اس کلام کو کہا جاتا ہے جو معصوم ہستیوں کے کردار، گفتار اور تقریر کو بیان کرے جبکہ سنت اس کے علاوہ خود اس کردار، اور تقریر کو بھی شامل کرتی ہے۔ [2] دوسرے لفظوں میں حدیث، سنت سے حکایت، یا اسے بیان کرتی ہے۔

سنت قرآن کی روشنی میں

سنت قرآن کے بعد فروع دین اور عبادی احکام کی استنباط کا دوسرا منبع ہے۔[3]

قرآن کریم میں کئی مقامات پر تصریحاً یا اشارۃ سنت کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔[4] جیسا کہ درج ذیل آیات میں :

  1. وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ﴿٤﴾(ترجمہ: اور وہ ہوائے نفس کی پیروی میں کوئی بات نہیں کرتا (۳) یہ بات صرف وحی جو ان پر نازل کی جاتی ہے، کے سوا کجھ نہیں ہے (۴))
  2. وَمَا آتَاكُمُ الرَّ‌سُولُ فَخُذُوه وَمَا نَهاكُمْ عَنْه فَانتَهوا(ترجمہ: اور جو کچھ یہ رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے یہ تمہیں منع کرے اس سے باز آجاؤ)
  3. وَأَطِيعُوا اللَّـه وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ(ترجمہ: خدا کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو)

قرآن کے ساتھ موازنہ

جو احکام سنت کے ذریعے بیان ہوتی ہیں قرآن کے آیات احکام کی بنسبت ان کی تین حالت ہوتی ہے:

  • یا یہ احکام قرآن کے کلی احکام کی تأکید کرتی ہیں؛ جیسے وہ روایات جو نماز، روزہ، زکات اور حج، کو واجب اور شراب اور قمار وغیرہ کو حرام سمجھتے ہیں۔
  • یا قرآن کے کلی احکام کی تشریح اور تبیین کرتی ہیں: جیسے وہ روایات جو نماز، روزہ اور حج وغیرہ کے اجزاء، شرایط اور موانع کو بیان کرتی ہیں۔
  • یا بعض جدید احکام کو بیان کرتی ہیں جو قرآن کے ظواہر سے سمجھ نہیں سکتے، قاتل کا ارث سے محروم ہونا یا ایک ہی وقت میں کسی لڑکی اور اس کی پھوپھی یا خالہ سے شادی کا حرام ہونا۔ [5]

قرآن اور سنت کا ظاہری تعارض

بعض مواقع پر روایات اور قرآن کے ظواہر کے درمیان تعارض اور ناسازگاری دکھائی دیتی ہے اس کی دو صورتیں ہیں:

  • قرآن کو سنت کے ذریعے تخصیص دینا: یقینی اور قطعی روایات کے ذریعے قرآن کے عمومی احکام کو تخصیص دے کر اس سے اصلی مراد کو بیان کر سکتے ہیں۔ اور خبر واحد اگر اسکی حجیت ثابت ہو، تو اس کے ذریعے بھی قرآن کے عمومات کو تخصیص دے شکتے ہیں۔
  • قرآن کو سنت کے ذریعے منسوخ کرنا: سنت کے ذریعے قرآن کا نسخ بھی جائز ہے۔[6]

قرآن اور سنت میں فرق

قرآن اور سنت میں تین تفاوت پائے جاتے ہیں :

  1. سنت کے برخلاف، قرآن کلام وحی ہے اور ایک معجزہ کے طور پر نازل ہوا ہے۔
  2. قرآن کا منبع وحی سے صادر ہونا قطعی اور یقینی ہے، لیکن روایات جو سنت پر دلالت کرتی ہیں اکثر موارد میں قطعی اور یقینی نہیں ہے بلکہ ان کے جعلی ہونے کا امکان پایا جاتا ہے۔
  3. عام طور پر قرآن میں احکام کے کلی قوانین بیان ہوئے ہیں جبکہ سنت میں احکام کے جزئیات اور فروعات بیان ہوئے ہیں۔ [7]

سنت کے مصادیق اور انکی دلالت

سنت سے منعلق ایک اہم مسئلہ، سنت کو تشکیل دینے والے عناصر کی مقدار حجیت ہے۔ ذیل میں اس مسلئے کو مورد بررسی قرار دیتے ہیں۔

الف. قول

اس سے مراد پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ معصومین(ع) کے وہ فرامین اور ارشادات ہیں جو مختلف مناسبتوں میں مختلف اغراض و مقاصد کے پیش نظر ان حضرات سے منقول ہیں۔ مثلا پیغمبر اسلام نے فرمایا: انما الاعمال بالنیات [8]

ب. فعل

سنت فعلی اس عمل کو کہا جاتا ہے جسے معصوم نے تشریع کی قصد سے انجام دیا ہو جیسے وضو کرنا، نماز پڑھنا، حج بجالانا وغیرہ۔ پیغمبر اکرم(ص) سے منقول ہے کہ اپنے اصحاب سے فرمایا کہ “جس طرح میں نماز پڑھتا ہوں اسی طرح نماز پڑھو”۔

اگر کسی معصوم سے کوئی عمل صادر ہوجائے تو یہ چیز کم از کم اس عمل کے جایز ہونے اور حرام نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ جس طرح اگر کسی کام کو معصوم نے ترک کیا ہو تو اس سے کم از کم اس عمل کے واجب نہ ہونے پر یقین حاصل ہوتا ہے۔[9] صحابہ کے زمانے میں کوئی مواقع پر جس طرح پیغمبر اکرم(ص) کا عمل مورد استناد واقع ہوتا تھا، آپ کا کسی کام کو ترک کرنا بھی مورد استناد واقع ہوتا تھا۔ [10]

ج. تقریر

تقریر معصوم سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص نے معصوم کے سامنے کوئی کام انجام دے یا کوئی بات کہے یا کسی عقیدے کا اظہار کرے اور معصوم کسی مانع جیسے تقیہ وغیرہ، کے بغیر اس عمل سے منع نہ فقط منع نہ کرے بلکہ خاموش رہ ہے۔ معصوم کا یہ خاموش رہنا گویا اس عمل یا بات یا عقیدے کے صحیح ہونے کی تصدیق سمجھی جاتی ہے۔[11]
تقریر بھی فعل کی طرح حکم کی نوعیت کو بیان نہیں کرتی مگر یہ کہ کوئی خاص قرینہ موجود ہو جو کسی خاص نوع پر دلالت کرے۔ [12]

موارد سنت کی چھان بین

سنت پیامبر

سنت نبوی یعنی پیامبر اسلام(ص) کا قول، فعل اور تقریر اسلام کے تمام مذاہب کے علماء کے ہاں حجت اور معتبر ہے اور اسے قرآن کے بعد اجتہاد کا دوسرا منبع شمار ہوتی ہے۔[13]

اہل بیت کی سنت

اہل بیت(ع) کی سنت میں ائمہ معصومین کے فرامین، کردار اور تقریر شامل ہیں۔ اہل بیت میں ائمہ معصومین، امام علی(ع) سے لے کر امام زمان(عج) تک اور حضرت فاطمہ زہرا شامل ہیں۔ اہل تسنن صرف اور صرف سنت نبوی کو لازم الاتباع اور حجت سمجھتے ہیں جبکہ شیعہ علماء کے نزدیک اہل بیت کی سنت کو بھی سنت نبوی کا مقام حاصل ہے اور اسے بھی سنت نبوی کی طرح حجت سمجھتے ہیں۔
اہل تشیع کے مطابق ائمہ معصومین میں سے کوئی ایک جب بھی کسی حکم کو بیان کرے تو ان کی حیثیت صرف ایک راوی یا مجتہد کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ حضرات پیغمبر اکرم(ص) یا پہلے والے امام یا الہام کے ذریعے واقعی حکم شرعی کو بیان کرتے ہیں۔ اس بنا پر ان کے اقوال افعال اور تقریر بھی خود سنت ہے نہ سنت سے حکایت۔ [14]

صحابہ کی سنت

اہل سنت کے بعض علماء پیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب کی سنت کو بھی حجت سمجھتے ہیں۔ لیکن اہل تشیع صحابہ کو غیر معصوم اور ان کی سنت کو غیر معتبر سمجھتے ہیں۔[15]

حوالہ جات

  1. أصول الفقہ، ج۲، ص۶۴ ۶۵
  2. مشرق الشمسین، ص۲۲ و ۲۴
  3. شہابی، ادوار فقہ، ج1، ص403.
  4. شہابی، ادوار فقہ، ج1، ص404.
  5. طباطبایی حکیم، محمد تقی، الاصول العامة للفقہ المقارن، ص۲۴۱-۲۴۷
  6. طباطبایی حکیم، الاصول العامة للفقہ المقارن، ص۲۴۱-۲۴۷
  7. جرجانی، محمد بن علی، کتاب التعریفات، ص ۵۳. مظفر، محمد رضا، اصول الفقہ، ج ۲، ص ۶۳. طباطبایی حکیم، محمد تقی، الاصول العامة للفقہ المقارن، ص۱۲۳- ۱۲۱. فرہنگ نامہ اصول فقہ، ص:۴۹۱
  8. مظفر، محمد رضا، اصول الفقہ، ج ۲، ص ۶۳. فرہنگ نامہ اصول فقہ، ص۴۹۲
  9. زحیلی، وہبہ، الوجیز فی اصول الفقہ، ص ۳۵. ولایی، عیسی، فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، ص ۲۱۶. محمدی، علی، شرح اصول فقہ، ج ۳، ص۱۲۰- ۱۱۹. ابو زہرہ، محمد، اصول الفقہ، ص ۹۷. فرہنگ نامہ اصول فقہ، ۴۹۲
  10. شہابی، ادوار فقہ، ج1، ص403.
  11. محمدی، علی، شرح اصول فقہ، ج۳، ص۱۳۰؛ مظفر، محمد رضا، اصول الفقہ، ج۲، ص۶۸- ۶۷
  12. الأصول العامة، ص۲۳۶ ۲۳۷
  13. بحر العلوم، محمد، الاجتہاد اصولہ و احکامہ، ص ۶۸. جناتی، محمد ابراہیم، منابع اجتہاد (از دیدگاہ مذاہب اسلامی)، ص ۷۷. موسوی بجنوردی، محمد، مقالات اصولی، ص ۲۵. ابو زہرہ، محمد، اصول الفقہ، ص ۹۷. مظفر، محمد رضا، اصول الفقہ، ج ۲، ص ۶۳.
  14. مظفر، محمد رضا، اصول الفقہ، ج ۲، ص ۶۳. محمدی، علی، شرح اصول فقہ، ج ۳، ص ۱۱۷- ۱۱۵. طباطبایی حکیم، محمد تقی، الاصول العامة للفقہ المقارن، ص ۱۴۷.
  15. فاضل لنکرانی، محمد، سیری کامل در اصول فقہ، ج ۶، ص۴۵۲- ۴۳۳. نیز ر. ک: مذہب صحابہ. جناتی، محمد ابراہیم، منابع اجتہاد (از دیدگاہ مذاہب اسلامی)، ص ۷۵. موسوی بجنوردی، محمد، مقالات اصولی، ص ۲۵. بحر العلوم، محمد، الاجتہاد اصولہ و احکامہ، ص ۷۰.

مآخذ

  • ابو زہرہ، محمد، اصول الفقہ، دارالفکر العربی، ۱۹۵۷م؛
  • بحر العلوم، محمد، الاجتہاد اصولہ و احکامہ، بیروت، دارالزہرا؛
  • جرجانی، علی‌بن محمد، کتاب التعریفات، تہران، ناصرخسرو، ۱۳۷۰؛
  • جناتی، محمد ابراہیم، منابع اجتہاد (از دیدگاہ مذاہب اسلامی)، تہران، کیہان، ۱۳۷۰؛
  • زحیلی، وہبہ، الوجیز فی اصول الفقہ، تہران، نشر احسان؛
  • شہابی، محمود، ادوار فقہ، تہران: وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1366ش.
  • شیخ بہایی، محمد بن حسین، مشرق الشمسین و اکسیر السعادتین، بی‌نا، بی‌تا؛
  • طباطبایی حکیم، محمد تقی، الاصول العامہ للفقہ المقارن، قم، مجمع جہانی اہل بیت؛
  • فاضل لنکرانی، محمد، سیری کامل در اصول فقہ، قم، نشر فیضیہ؛
  • فرہنگ نامہ اصول فقہ، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی؛
  • محمدی، علی، شرح اصول فقہ، قم، دارالکفر، ۱۳۸۷؛
  • مظفر، محمد رضا، أصول الفقہ، قم، نشر مولف(شارح)، ۱۳۸۷؛
  • موسوی بجنوردی، محمد، مقالات اصولی، بی‌نا، تہران؛
  • ولایی، عیسی، فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، تہران، نشر نی، ۱۳۷۴.
تبصرے
Loading...