سَلَفیہ یا سلفی گری، اہل سنت میں پیدا ہونے والے اس مذہبی اور سماجی تفکر کو کہا جاتا ہے جو مسلمانوں کی مشکلات کا حل سَلَف (قدیم مسلمانوں) کی پیروی میں ڈھونڈتے ہیں۔ سلفیہ پیغمبر اسلامؐ سے منسوب ایک حدیث سے استناد کرتے ہوئے اسلامی دور حکومت کی پہلی تین صدیوں کو اسلامی تہذیب کا نمونہ قرار دیتے ہیں اور اس دور میں زندگی گزارنے والوں کو دینی امور میں قابل تقلید قرار دیتے ہیں۔
سلفیوں کے مطابق قرآن و سنت کی تفسیر میں صرف اور صرف صحابہ، تابعین اور ان کی پیروی کرنے والوں کی تفسیر معتبر ہے۔ سلفی عقل کو حجت نہیں سمجھتے اس بنا پر دینی تعلیمات کو سمجھنے میں صرف اور صرف قرآنی آیات اور پیغمبر اکرمؐ کی احادیث پر تکیہ کرتے ہیں۔
توحید پر سلفیوں کے اعتقاد کے مطابق بہت سارے مسلمان مشرک ہیں۔ ابنتیمیہ، ابنقیم جوزیہ، محمد بن عبدالوہاب، محمد شوکانی اور رشید رضا اس فرقے کے اہم ترین نظریہپردازوں میں شمار ہوتے ہیں۔ دور حاضر کے مشہورترین سلفی فرقوں میں وہابیت، اِخوانالمسلمین اور دیُوبندیہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔
دور حاضر کے تکفیری گروه من جملہ طالبان، القاعدہ اور داعش سلفیوں کے انہی اعتقادات کے پیداوار ہیں جو اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ جہاد کرنے کو اپنا وظیفہ سمجھتے ہیں۔
اس مضمون میں شامل موضوعات
تعریف
سَلَف لغت میں قدماء کو کہتے ہیں۔[1] سَلَفیّہ ایک ایسا گروہ ہے جن کا دعوا ہے کہ وہ “صدر اسلام کے مسلمانوں” کے پیروکار ہیں۔ یہاں پر سلف سے مراد کونسے اشخاص ہیں، ان کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن ان کی اکثریت “سلف صالح” سے اسلامی دور کے پہلے تین صدیوں میں زندگی بسر کرنے والے یعنی پیغمبر اسلامؐ، صحابہ، تابعین اور تابع تابعین) مراد لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ پیغمبر اکرمؐ کی ایک حدیث سے استناد کرتے ہیں جس میں آپ نے فرمایا: “لوگوں میں سب سے لوگ میرے ہم عصر ہیں، پھر ان کے بعد آنے والے اور پھر ان کے بعد آنے والے ہیں”۔[2]
سلفیہ ہر اس چیز کو بدعت سمجھتے ہیں جو پیغمبر اکرمؐ کے کسی صحابی کے گفتار کے مخالف ہو۔[3]
فکری اور اعتقادی خصوصیات
سلفیوں کے بعد فکری اور اعتقادی خصوصیات درج ذیل ہیں:
قرآن و حدیث پر تاکید اور عقل کی تضعیف
سلفی قرآن و حدیث کو عقل پر ترجیح دیتے ہیں۔ ابن تیمیہ جو ان کے پیشواؤوں میں سے ہیں، کا نظریہ یہ ہے کہ دینی تعلیمات من جملہ اصول دین اور فروع دین کو سمجھنے کے لئے قرآن و سنت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ ان کے مطابق عقلی دلائل مستقل طور پر ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور عقل کا کام صرف دینی متون کی تصدیق، اعتراف اور ان کی تقویت کرنا ہے۔[4]
ظاہر گرایی
سلفی صرف قرآن کے ظاہر سے استناد کرتے ہیں اور آیات میں کسی قسم کی تأویل اور تفسیر کو صحیح نہیں سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر آیت “الرحمن علی العرش استوی” کا ظاہری معنا یہ ہے کہ خدا کسی تختی پر تکیہ لگائے ہوئے ہیں،[5] کے بارے میں کہتے ہیں کہ واقعاً خدا کے لئے ایک عرش ہے جس پر آپ بیٹھتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کی تعبیر “یداللہ” سے خدا کے لئے ہاتھ اثبات کرتے ہیں۔[6]
تکفیر
ابن تیمیہ مسلمانوں کے بہت سارے گروہوں اور مذاہب کو دین سے خارج سمجھتے ہوئے ان کی تکفیر کرتے ہیں۔ المشعبی نے کتاب “منہج ابن تیمیہ فی التکفیر” میں بہت سارے گروہوں کو جسے ابن تیمیہ کافر سمجھتے ہیں، ان کے دلائل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ فلاسفہ، باطنیہ، اسماعیلیہ، شیعہ اثناعشری اور قَدَریہ من جملہان مذاہب اور گروہوں میں سے ہیں۔[7]
ابن تیمیہ کے مطابق وہ چیزیں جو کفر کا موجب بنتی ہیں، یہ ہیں: خدا اور بندوں کے درمیان کسی کو واسطہ قرار دینا، کفار کی مشابہت اختیار کرنا ،حدیث متواتر اور اجماع کی مخالفت۔[8] سلفیوں کے بعض جدید گروه جو تکفیری گروہ کے نام سے مشہور ہیں، کفر کے مصادیق کو بہت زیادہ وسعت دیتے ہیں اور اسی کے ذریعے جہاد کا جواز پیدا کرتے ہیں۔[9]
تاریخی پس منظر
سلفی گری کی ابتداء اصحاب حدیث سے ہوتی ہے اگرچہ یہ گروہ اس عنوان سے جانا نہیں جاتا تھا، پھر رفتہ رفتہ سلف کی اصطلاح ان کے درمیان عام ہونا شروع ہوا۔[10] احمد بن حنبل (متوفی 241ھ) اپنے پیروکاروں کو پیغمبر اکرمؐ کی سنت کی پیروی کے ساتھ ساتھ، آپ کے اصحاب[11] یا اصحاب اور تابعین میں سے ہدایت یافتگان کی پیروی کی بھی دعوت دیتے تھے۔[12]
احمد بن حنبل کے پیروکاروں کے درمیان سلفی گری بعض اوقات ایک سماجی مسائل میں بدل جاتا تھا۔ مثال کے طور پر چوتھی صدی میں ابوبکر بربہاری جو حنبلیوں کا واعظ تھا، نے ان کے ایک تندرو گروہ کو بغداد میں جمع کیا اور بدعتوں کے ساتھ مقابلہ کے عنوان سے عاشورا کے مراسم کی مخالفت میں شیعوں اور صفات خدا کے بعض مسائل میں اہل سنت کے مدمقابل آ گئے۔[13]
سلفیہ کا عنوان آٹھویں صدی ہجری سے اس گروہ کے ساتھ مختص ہونے لگا اور ابن تیمیہ (متوفی 728ھ) نے متعدد تألیفات کے ذریعے اس نظریے کو دوام بخشا۔[14] احمد پاکتچی کے مطابق ان تیمیہ نے مِنہاجالسنہ کو امامیہ، الرسالۃ الحمویہ کو اشاعرہ اور بعض دوسرے تالیفات کو صوفیه اور ابن عربی کے پیروکاروں کے رد میں لکھا۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر، باب اجتہاد کا آغاز اور تقلید کی نفی نیز سیاسی اور سماجی میادین میں بھر پور شرکت ان کے دیگر اقدامات میں سے تھے جن پر وہ تاکید کرتے تھے۔[15]
ابن تیمیہ کے بعد ان کے شاگرد ابن قَیِّم جوزیہ (متوفی 751ھ) ان کے نظریات کے اصلی مروجین میں سے تھا۔ ان کے بعد ابن رجب حنبلی (متوفی 795ھ) نے اس راستے کو جاری رکھا۔[16] علمائے حنبل کی بعد والی نسلوں میں بھی سلفی گری رائج تھی اور عثمان بن قائد (متوفی 1097ھ) نجد میں اور محمد بن احمد سفارینی شام اسی نظریے کے پروکار تھے۔[17]
دور حاضر کے سلفی گروہ
وہابیت، اِخوانالمسلمین اور مکتب دیُوبندیہ دو حاضر کے اہمترین سلفی مذہبی اور سماجی گروه ہیں:
وہابیت
بارہویں صدی ہجری کے دوسرے نصف صدی میں محمد بن عبدالوہاب محمد بن سعود کی حمایت سے پورے جزیرۃالعرب میں اپنی دعوت پھیلانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے نظریات کی بنیاد ابن تیمیہ کے اصول اور مبانی پر استوار تھے۔ بلکہ انہیں ابن تیمیہ سے بھی زیادہ تندرو تصور کیا جاتا ہے۔ محمد بن عبدالوہاب نے خرافات سے مقابلہ کے عنوان سے اعتقادات کے دائرے کو بہت کم کیا اور جہاد کے نام پر ایک کثیر تعداد کو اپنے ارد گرد جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کے نتیجے میں سعودی عرب میں آلسعود کی حکومت قائم ہوئی جس سے عثمانی حکومت کو سخت نقصان ہوا۔[18]
وہابیوں کے مطابق زیارت قبور اور ان کی تعمیر، ان پر مقبرے اور گنبد بنانا حرام ہے اور خدا کے علاوہ کسی مخلوق سے توسل کرنا بدعت اور کفر و شرک کا موجب ہے۔[19] سعوی عرب پر مسلط ہونے کے بعد وہابیوں نے صدر اسلام کے باقی ماندہ آثار کو تخریب کردیا۔ سنہ 1221ھ میں قرستان بقیع اور سنہ 1216ھ میں حرم امام حسینؑ کی تخریب اور ضریح اور قیمتی اشیاء کو غارت کرنا نیز حرم امام حسینؑ میں موجود بہت سارے زائرین کا قتل عام اور شہر کربلا کے خواتین کو قیدی بنانا من جملہ ان کے اقدامات میں سے ہیں۔[20]
اِخوان المسلمین
اِخوانالمسلمین سَلَفی نظریات کے حامل ایک تنظیم ہے جس کی بنیاد حسن البنا نے مصر میں رکھی۔ حسن البنا رشید رضا کا پیروکار تھا جو ایک طرف سے ابن تیمیہ اور محمد عبدہ جیسے سلفی؛[21] اور دوسری طرف سید جمالالدین اسدآبادی سے متاثر تھا جو مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور وحدت کے لئے کوشان تھے۔[22]
حسن البنا نے سنہ 1928ء کو مصر میں اپنے پیروکار 6 جوانوں کے ذریعے اخوانالمسلمین کی بنیاد رکھی۔ جس کے بعد مختصر عرصے میں مصر کے مختلف شہروں، فلسطین، سودان، عراق اور شام میں اس تنظیم کے شعبہ جات قائم ہوئے اور وہ اپنے پیروکاروں کے درمیان مرشد عام کے لقب سے مشہور ہوئے۔[23]
اخوانالمسلمین کے اہم ترین اہداف میں اسلامی حکومت کا قیام، سماجی اصلاحات اور استعمار کی مخالفت کو شمار کیا جا سکتا ہے۔[24] بعد میں اخوانالمسلمین میں تفرقہ ایجاد ہوا اور ان کے بعض اسلام خواہ جوانوں نے سیدِ قطب کے نظریات جو نظام اسلامی کو ضروری سمجھتے تھے، سے الہام لیتے ہوئے جہادی تنظیمیں تشکیل دیں۔[25]
دیوبندیہ
سَلَفی گری برصغیر پاک و ہند میں شاہ ولی اللہ دہلوی (1114-1176ھ) کے توسط سے پھیلی۔[26] انہوں نے ابن تیمیہ کے حق میں ایک رسالہ بھی تحریر کیا ہے،[27] اپنی تلیفات میں زیارت قبور، توسّل، استغاثہ، نذر اور قسم جیسے اعمال کو کفر و شکر کے مظاہر قرار دئے ہیں۔[28]
شاہ ولیاللہ دہلوی کے بعد ان کے بالواسطہ بعض شاگردوں نے مدرسہ دیُوبند کی بنیاد رکھی اور ان کے نظریات کا پرچار کیا۔ یہ مدرسہ مختصر عرصے میں ایک بارونق مدرسے میں تبدیل ہوا اور پورے برصغیر اور بیرون ممالک سے نوجوانوں نے اس میں داخلہ لینا شروع کیا یوں یہ دیوبندیہ کے عالمی مدرسے میں تبدیل ہو گیا۔[29]
انقلاب اسلامی ایران کے بعد دیوبندیہ جو پہلے سے شیعوں کے مدمقابل کھڑا تھا، پاکستان میں اہل سنت کی شیعہ مذہب اختیار کرنے سے روکنے کے لئے سپاہ صحابہ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔[30]
سلفی جہادی گروہ
معاصر سلفیوں کے اعتقادات کے نتیجے میں بعض جہادی گروہ وجود میں آگئے جنہیں بعض جدید سلفی کہتے ہیں۔[31] تاریخی اعتبار سے سلفیوں کے یہاں “شرک” اور “کفر” جیسے اصطلاحات کے وجود میں آنے میں عبدالوہاب کا کردار کلیدی ہے؛ لیکن عملی طور پر جدید سلفی لوگوں کو مشرک اور موحد میں تقسیم کرنے کی وجہ سے تکفیری کے نام سے مشہور ہوئے ہیں۔[32]
تکفیری گروہ مسلمانوں کے اکثر فرقوں کو کافر سمجھتے ہوئے ان کے قتل کو واجب قرار دیتے ہیں اور اس کام کو “جہاد” کا نام دیتے ہیں۔[33]
طالبان
دیوبندی مذہب اور پشتو قوم پر مشتمل یہ سلفی جہادی گروہ کسی دور میں افغانستان میں حکومت قائم کرنے میں کامیبا ہوا۔[34] طالبان کی مین باڈی افغانستان میں سویت یونین کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کی ہے۔[35] ملا محمد عمر طالبان کا امیر تھے جنہیں طالبان کے ہاتھوں کابل کے سقوط کے بعد امیرالمومنین کا لقب دیا گیا تھا۔ طالبان ملاعمر کو خلیفہ سمجھتے تھے جبکہ ان کے مخالفین انہیں خلیفہ کے خلاف بغاوت کرنے والا اور مہدورالدم سمجھتے تھے۔[36]
طالبان ہر قسم کی تجددگرایی کے مخالف تھے۔ مثال کے طور پر شروع میں انہوں نے ٹی وی دیکھنا حرام قرار دیا۔ لڑکیوں کو سکول جانے نہیں دیتے تھے۔[37] زیارتی اور ثقافتی مراکز کو بت پرستی کے ساتھ مقابلہ کے عنوان سے تخریب کرتے تھے۔[38]
القاعدہ
افغانستان پر سویت یونین کے حملے کے بعد بعض عرب تندرو مسلمان جو دنیا کے مختلف جگہوں سے جہاد کی خاطر افغانستان میں جمع ہو گئے۔ یہ افراد جو افغان عرب کے نام سے مشہور تھے اور اعتقادی اعتبار سے اخوان المسلمین کے جہادی گروہ کی طرح تھے، عبداللہ عزام کی سربراہی میں منظم ہوئے اور سویت یونین کو افغانستان سے نکال باہر کرنے مبں ان کا کلیدی کردار رہا ہے۔[39]
افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور عبداللہ عزام کی وفات کے بعد اسامہ بن لادن اس گروہ کے رہنما بنے اور یوں انہوں نے القاعدہ کی بنیاد رکھنے کے ذریعے افغان عربوں کو منتشر ہونے سے محفوظ رکھا۔ اسامہ بن لادن نے اس تنظیم کو یہودیوں اور صلیبیوں کے خلاف ایک عالمی تنظیم کے طور پر متعارف کرایا۔[40] بعد میں اس گروہ نے دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دئے اور گیارہ سمتمبر 2001 کو امریکہ میں ولڈٹریڈ سنٹر پر ہونے والا حملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھی جاتی ہے۔[41]
داعش
داعش، الدّولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشّام کا مخفف ہے جو تکفیری اور القاعدہ سے منشعب ایک گروہ ہے۔ جس کی بنیاد سنہ 2006ء میں “جماعہ التوحید والجہاد” کے نام سے ابومصعب زَرقاوی کی قیادت میں عراق میں رکھی گئی[42] اور عراق کا القاعدہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ اس تنظیم نے مختصر عرصے میں عراق اور شام کے وسیع علاقے پر قبضہ کیا اور سنہ 2014ء کو “دولت اسلامی در عراق و شام” کے نام سے اپنی ایک ریاست قائم کی اور ابوبکر البغدادی کو اپنا خلیفہ معرفی کیا۔[43]
داعش بہت سارے جنگی جرائیم کے مرتکب ہوئے اور اس دوران بہت سارے عام شہریوں کا قتل عام کیا۔[44] داعش کی بے رحمانہ قتل و غاربت پر حتی ایمن الظواہری جو القاعدہ کا رہنما تھا نے بھی اعتراض کیا؛ یہانتک کہ آخر کار انہوں نے اعلان کیا کہ داعش کا القاعدہ سے کوئی ربط نہیں ہے۔[45]
سلفیہ کی نگاہ میں شیعہ
بعض محققین کے مطابق تاریخی اعتبار سے سلفیہ اپنے دشمنوں کو اہل سنت کے اندر تلاش کرتی ہے؛ لیکن سلفی وہابی شروع سے شیعوں کے خلاف اقدامات انجام دیتے آئے ہیں اور کربلا اور مکہ و مدینہ میں شیعوں کے مقدس مقامات کی تخریب اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ البتہ وہابیوں کے علاوہ دوسرے سلفی گروہ جیسے اخوانالمسلمین کا شیعوں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے؛ یہانتکہ بعض اوقات اسرائیل کے خلاف یہ آپس میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے آئے ہیں ہیں؛ لیکن جدید سلفی شیعوں کو منحرف سمجتھے ہیں۔ یہ لوگ شیعوں سے ڈرا کر تمام اہل سنت کو شیعوں کے خلاف ورغلا کر انہیں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔[46]
کتابیات
ابنتیمیہ کے دور سے اب تک بہت سارے شیعہ اور اہل سنت علماء نے سلفیہ کے رد میں کتابیں لکھی ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:
- المواہب اللَّدُنیہ فی المنح المحمدیہ، تحریر قسطلانی (۸۵۱ – ۹۲۳ھ)
- الصواعق الالہیہ فی الرد علی الوہابیہ، تحریر سلیمان بن عبدالوہاب (محمّد بن عبدالوہّاب کے بھائی)
- منہج الرشاد لمن اراد السداد، تحریر شیخ جعفر کاشف الغطاء
- السلفیۃ مرحلۃ زمنیۃ مبارکہ، لا مذہب اسلامی، تحریر محمد سعید رمضان البوطی
- کشف الارتیاب فی اتباع محمد بن عبدالوہاب تحریر سید محسن امین
- آیین وہابیت، تحریر جعفر سبحانی
- الوہابیۃ المتطرفۃ: موسوعۃ نقدیہ (موسوعہ نقد وہابیت)۔ اس کتاب کی اب تک پانج جلدیں منظر عام پر آگئی ہیں جنہیں اہل سنت علماء کی طرف سے وہابیت کے رد میں لکھی گئی ہے۔
- فتنہ وہابیت تحریر احمد سید زینی دحلان
- السلفیۃ الوہابیۃ؛ اَفکارہا الاَساسیہ و جذورہا التاریخیہ، تحریر حسن بن علی بن ہاشم سقاف
- وہابیت، مبانی فکری و کارنامہ عملی تحریر جعفر سبحانی
- قرائۃٌ فی الأدلۃ السلفیہ، تحریر مروان خلیفات
- التحفۃ المدنیۃ فی العقیدۃ السلفیہ، تحریر عبدالسلام آلعبدالکریم
حوالہ جات
- ↑ ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ق، ج۹، ص۱۵۸۔
- ↑ علیزادہ موسوی، سلفیگری و وہابیت، ۱۳۹۳ش، ص۳۲۔
- ↑ ابن قیم جوزیہ، اعلام الموقعین، ۱۴۱۱ق، ج۴، ص۱۱۵۔
- ↑ ابوزہرہ، تاریخ المذاہب الاسلامیہ، دارالفکرالعربی، ص۵۲۹۔
- ↑ سورہ طہ، آیہ ۵، ترجمہ مشکینی۔
- ↑ علیزادہ موسوی، سلفیگری و وہابیت، ۱۳۹۳ش، ص۶۱-۶۲۔
- ↑ المشعبی، منہج ابن تیمیۃ فی مسألۃ التکفیر، ۱۴۱۸ق، ص۳۵۱-۴۶۳۔
- ↑ رضوانی، وہابیان تکفیری، ۱۳۹۰ش، ص۱۱۴-۱۲۲۔
- ↑ علیپور و شعبانیکیا، «سلفیگری از معنا تا برداشتہای نادرست مبانی»، ص۱۶۵۔
- ↑ پاکتچی، و ہوشنگی، بنیادگرایی و سلفیہ، ۱۳۹۳ش، ص۳۰۔
- ↑ جبرين، شرح أصول السنۃ لإمام أحمد بن حنبل، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۳۶۔
- ↑ ابن بدران دمشقی، المدخل الی مذہب الامام احمد بن حنبل، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱م، ص۵۳و۵۴۔
- ↑ پاکتچی و ہوشنگی، بنیادگرایی و سلفیہ، ۱۳۹۳ش، ص۷۱و۷۲۔
- ↑ پاکتچی و ہوشنگی، بنیادگرایی و سلفیہ، ۱۳۹۳ش، ص۷۷۔
- ↑ پاکتچی و ہوشنگی، بنیادگرایی و سلفیہ، ۱۳۹۳ش، ص۷۸۔
- ↑ پاکتچی و ہوشنگی، بنیادگرایی و سلفیہ، ۱۳۹۳ش، ص۷۹۔
- ↑ پاکتچی و ہوشنگی، بنیادگرایی و سلفیہ، ۱۳۹۳ش، ص۷۹و۸۰۔
- ↑ پاکتچی و ہوشنگی، بنیادگرایی و سلفیہ، ۱۳۹۳ش، ص۳۳۔
- ↑ مغنیہ، ہذہ ہی الوہابیۃ، منظمۃ الاعلام الاسلامی، ص۷۴تا۷۶۔
- ↑ امین، کشف الإرتیاب، دارالکتب الاسلامی، ص۱۵و۳۳۔
- ↑ فرمانیان، جریانشناسی فکری فرہنگی سلفیگری معاصر، ۱۳۵۲ش، ص۱۰۸تا۱۱۰۔
- ↑ فرمانیان، «سلفیہ و تقریب»، ص۱۴۳و۱۴۴۔
- ↑ آسایش طلب، «البنا»۔
- ↑ یوسفی اشکوری، «اخوان المسلمین»، ص۲۷۳و۲۷۴۔
- ↑ یوسفی اشکوری، «اخوان المسلمین»، ص۲۷۲و۲۷۳۔
- ↑ فرمانیان، جریانشناسی فکری فرہنگی سلفیگری معاصر، ۱۳۹۶ش، ص۷۶تا۷۸۔
- ↑ فرمانیان، جریانشناسی فکری فرہنگی سلفیگری معاصر، ۱۳۹۶ش، ص۷۸۔
- ↑ ملا موسی میبدی، «بررسی و نقد دیدگاہ شاہ ولی اللہ دہلوی در مسئلہ شرک»، ص۱۵۵۔
- ↑ فرمانیان، جریانشناسی فکری فرہنگی سلفیگری معاصر، ۱۳۹۶ش، ص۸۳۔
- ↑ فرمانیان، جریانشناسی فکری فرہنگی سلفیگری معاصر، ۱۳۹۶ش، ص۱۰۰۔
- ↑ پورحسن و سیفی، «تقابل نئوسلفیہا با شیعیان و پیامدہای آن بر اتحاد جہان اسلام»، ص۱۴۔
- ↑ پورحسن و سیفی، «تقابل نئوسلفیہا با شیعیان و پیامدہای آن بر اتحاد جہان اسلام»، ص۱۷۔
- ↑ رجوع کریں: پورحسن و سیفی، «تقابل نئوسلفیہا با شیعیان و پیامدہای آن بر اتحاد جہان اسلام»، ص۱۸۔
- ↑ «نحلہہای فکری طالبان؛ از دیوبندیہ تا وہابیت»، خبرگزاری رسا، ۱۵ مہر ۱۳۹۵۔
- ↑ فرمانیان، تاریخ تفکر سلفیگری، ۱۳۹۴ش، ص۱۰۳۔
- ↑ فرمانیان، جریانشناسی فکری فرہنگی سلفیگری معاصر، ۱۳۹۶ش، ص۱۰۳۔
- ↑ فرمانیان، جریانشناسی فکری فرہنگی سلفیگری معاصر، ۱۳۹۶ش، ص۱۰۳۔
- ↑ کریمی حاجی خادمی، مازیار، «تبارشناسی جریانہای تکفیری: بررسی موردی جنبش طالبان در افغانستان»، ص۱۹۔
- ↑ رجوع کریں: فرمانیان، جریانشناسی فکری فرہنگی سلفیگری معاصر، ۱۳۹۶ش، ص۱۵۸تا۱۶۲۔
- ↑ رجوع کریں: فرمانیان، جریانشناسی فکری فرہنگی سلفیگری معاصر، ۱۳۹۶ش، ص۱۶۲ تا ۱۷۲۔
- ↑ فرمانیان، جریانشناسی فکری فرہنگی سلفیگری معاصر، ۱۳۹۶ش، ص۱۷۲تا۱۷۴۔
- ↑ کرمی، سلفیگری و خاورمیانہ عربی، ۱۳۹۳ش، ص۲۶تا۲۹۔
- ↑ داعش اعلام خلافت کرد، بولتن نیوز، ۹ تير ۱۳۹۳۔
- ↑ جنایات داعش: روز شمار ۸۳ جنایت داعش در سراسر جہان، پایگاہ اطلاع رسانی پیام آفتاب، ۱۵ تیر ۱۳۹۶۔
- ↑ فیروزآبادی، تکفیریہای داعش را بہتر بشناسیم، ۱۳۹۳ش، ص۵۵۔
- ↑ پورحسن و سیفی، «تقابل نئوسلفیہا با شیعیان و پیامدہای آن بر اتحاد جہان اسلام»، ص۱۸تا۲۰۔
مآخذ
- ابنبدران دمشقی، عبدالقادر بن احمد، المدخل الی مذہب الامام احمد بن حنبل، تحقیق عبداللہ بن عبدالمحسن ترکی، بیروت، مؤسسہ الرسالہ، چاپ دوم، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱م۔۔
- ابنمنظور، محمد بن مكرم، لسان العرب، بیروت، دار صادر، چاپ سوم، ۱۴۱۴ھ۔
- ابوزہرہ، محمد، تاریخ المذاہب الاسلامیہ، بیروت، دارالفکرالعربی۔
- آسایش طلب طوسی، محمدکاظم، «البنا حسن»، در دانشنامہ جہان اسلام، ج۴، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، ۱۳۷۷ش۔
- پاکتچی، احمد و حسین ہوشنگی، بنیادگرایی و سلفیہ، انتشارات دانشگاہ امام صادق(ع)، ۱۳۹۳ش۔
- پورحسن، ناصر و عبدالمجید سیفی، «تقابل نئوسلفیہا با شیعیان و پیامدہای آن بر اتحاد جہان اسلام»، شیعہشناسی، شمارہ ۵۲، زمستان ۱۳۹۴۔
- داعش اعلام خلافت کرد، بولتن نیوز، ۹ تير ۱۳۹۳
- رضوانی، علیاصغر، وہابیان تکفیری، تہران، نشر مشعر، ۱۳۹۰ش۔
- علیپور گرجی، محمود و شادی شعبانیکیا، «سلفیگری از معنا تا برداشتہای نادرست مبانی»، در فصلنامہ سیاست پژوہی، تابستان ۱۳۹۷۔
- علیزادہ موسوی، سید مہدی، سلفیگری و وہابیت، نشر آوای منجی، ۱۳۹۳ش۔
- فرمانیان، مہدی، تاریخ تفکر سلفیگری، قم، انتشارات دارالإعلام لمدرسۃ اہل البیت (ع)، ۱۳۹۴ش۔
- فرمانیان، مہدی، جریانشناسی فکری -فرہنگی سلفیگری معاصر، قم، پژوہشگاہ علوم اسلامی امام صادق(ع)، چاپ دوم، ۱۳۹۶ش۔
- فرمانیان، مہدی، «سلفیہ و تقریب»، در مجلہ ہفت آسمان، شمارہ۴۷، ۱۳۸۹ش۔
- فیروزآبادی، سید حسن، تکفیریہای داعش را بہتر بشناسیم، تہران، دانشگاہ عالی ملی، ۱۳۹۳ش۔
- کرمی چرمہ، کامران، سلفیگری و خاورمیانہ عربی، تہران، خبرگزاری فارس، ۱۳۹۳ش۔
- کریمی حاجی خادمی، مازیار، «تبارشناسی جریانہای تکفیری؛ بررسی موردی جنبش طالبان در افغانستان»، در مجلہ مطالعات بیداری اسلامی، بہار و تابستان ۱۳۹۵۔
- المشعبی، عبدالمجید بن سالم، منہج ابن تیمیۃ فی مسئلۃ التکفیر، ریاض، مکتب أضواء السلف، ۱۴۱۸ھ۔
- مغنیۃ، محمدجواد، ہذہ ہی الوہابیۃ، تہران، منظمۃ الاعلام الاسلامی۔
- «نحلہہای فکری طالبان؛ از دیوبندیہ تا وہابیت»، خبرگزاری رسا، ۱۵ مہر ۱۳۹۵۔
- یوسفی اشکوری، «اخوان المسلمین»، در دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج۷، تہران، مرکز دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ۱۳۷۷ش۔