رقیہ بنت پیغمبر اکرم

بقعه های بقیع.jpg
ائمہ بقیع کے گنبد کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی بیٹیوں کا مزار
معلومات شخصیت
مکمل نام رقیہ بنت پیامبرؐ
تاریخ ولادت قبل از ہجرت
مقام سکونت مکہ • حبشہ • مدینہ
مہاجر/انصار مہاجر
معروف رشتہ دار پیغمبر اکرمؐ • خدیجہ • عثمان • ہالہ
تاریخ وفات اور مقام وفات 2ھ، مدینہ
مقام دفن بقیع
دینی مشخصات
ہجرت حبشہ • مدینہ
وجہ شہرت رسول خداؐ سے منسوب

رُقَیۃ بنت رسول اللہ (متوفی2ھ.) حضرت محمدؐ اور خدیجہ کی بیٹی جو حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں شامل تھی۔ شروع میں ابو لہب کا بیٹا عتبہ سے شادی کی اور «تَبَّتْ یدَا أَبِی لَہَبٍ وَتَبَّ»، کی آیت نازل ہونے کے بعد عتبہ نے اسے طلاق دی۔ اور پھر عثمان بن عفان سے شادی کی۔ سنہ دو ہجری کو وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئی۔

بعض شیعہ محققین جیسے سید جعفر مرتضی عاملی کا کہنا ہے کہ رقیہ رسول خداؐ اور خدیجہ کی اولاد نہیں تھی؛ بلکہ وہ خدیجہ کی بہن ہالہ کی بیٹی تھی چونکہ آنحضرتؐ کے گھر پرورش پائی تھی تو اس لئے پیغمبرؐ کی بیٹی سے مشہور ہوگئی۔

پیدائش اور نسب

رقیہ ہجرت سے پہلے مکہ میں متولد ہوئی ہے۔ انہیں پیغمبر اکرمؐ کی سب سے بڑی بیٹی، دوسری بیٹی یا سب سے چھوٹی بیٹی سے یاد کیا ہے۔[1]اہل سنت کی نظر میں رقیہ پیغمبر اکرمؐ اور خدیجہ کی اولاد میں سے ہیں۔[2]

شیعہ محقق سید جعفر مرتضی عاملی اور چوتھی صدی کے شیعہ عالم دین ابوالقاسم کوفی کا کہنا ہے کہ رقیہ، زینب اور ام کلثوم رسول اللہؐ اور خدیجہ کے بیٹے نہیں ہیں بلکہ لے پالک بیٹیاں تھیں۔[3] جعفر مرتضی نے اپنی کتاب بنات النبی اَم رَبائبُه؟ (پیغمبر کی بیٹیاں یا منہ بولی بیٹیاں؟) کو یہی بات ثابت کرنے کے لئے لکھا ہے۔[4]

شادی اور ہجرت

رقیہ نے عتبۃ بن ابی لہب سے شادی کی لیکن «تَبَّتْ یدَا أَبِی لَہَبٍ وَتَبَّ»،[5] نازل ہونے کے بعد عتبہ نے اپنے باپ کے حکم سے رقیہ کو طلاق دی۔[6] اس کے بعد پھر عثمان بن عفان سے شادی کی اور ان کے ساتھ حبشہ کو ہجرت کی۔ آنحضرتؐ کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے وقت وہ بھی حبشہ سے مدینہ آئی۔[7]

تاریخِ اسلام کی کتابوں میں رقیہ اور عثمان بن عفان سے عبداللہ نامی ایک بیٹے کا ذکر ہوتا ہے جو بچپنے میں ہی فوت ہوا۔[8]

جب خدیجہ نے پیغمبر اکرمؐ پر ایمان لے آیا تو رقیہ بھی مسلمان ہوئی اور جب خواتین نے آنحضرتؐ کی بیعت کی تو رقیہ نے بھی ان کے ساتھ بیعت کی۔[9]

جب رقیہ دینا سے چل بسی تو رسول اللہ نے فرمایا:

«الْحَقِی بِسَلَفِنَا الصَّالِحِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ وَ أَصْحَابِہ»
ہمارے سلف صالح عثمان بن مظعون اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ملحق ہوجائے

وفات

جنت البقیع میں رقیہ بنت پیغمبرؐ کا مقام دفن

جب رسول الله جنگ بدر کو جارہے تھے تو رقیہ ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہوئی۔ پیغمبر اکرم نے عثما کو ان کے پاس رہنے کا حکم دیا[10] رقیہ دو ہجری، رمضان میں جنگ بدر کے فتح کے دن وفات پائی۔[11]

شیعہ کتابوں میں رقیہ کی وفات کی وجہ عثمان کی ضرب و شتم ذکر کیا ہے۔[12]اور اس مار پٹائی کی وجہ مغیرۃ بن ابی العاص کے مخفی ہونے کی جگہ کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ کو بتانا بیان کیا ہے۔[13]

ان کی قبر پر بعض خواتین نے گریہ کیا ان میں سے ایک فاطمہؑ بھی تھیں۔[14]خلیفہ دوم ان خواتین کو تازیانہ کے ذریعے رونے سے منع کرتے تھے تو پیغمبر اکرمؐ نے انہیں اس کام سے روکا۔[15]رسول خدا نے یہ کہہ کر کہ «جس نے بھی آج کی رات ہمبستری کی ہے قبر میں داخل نہ ہوجائیں»، عثمان کو قبر میں داخل ہونے سے روک دیا۔[16]

آپ کا نام رمضان المبارک کی دعاوں میں سے ایک میں آیا ہے: اللہم صل علی رقیۃ بنت نبیک…[17]

مقام دفن

پیغمبر اکرمؐ کے کہنے پر رقیہ کو بقیع میں دفن کیا۔[18] بقیع میں ائمہ بقیع کے مقبرے کے شمال اور ازواج نبی کے مقبرے کے جنوب مغرب میں پیغمبر اکرمؐ کی بیٹیوں سے منسوب ایک مقبرہ تھا جس پر قدیم زمانے میں ایک ضریح بھی نصب تھی[19]جو وہابیوں کے ہاتھوں مسمار ہوئیں۔

مزید مطالعہ

اس بارے میں مزید معلومات کے لیے مندرجہ ذیل کتاب کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

حوالہ جات

  1. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج‏۴، ص۱۸۳۹.
  2. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۸۳۹.
  3. عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۲۱۸؛ عاملی، بنات النبی اَم ربائبه؟، ۱۴۱۳ق، ص۷۷-۷۹؛ کوفی الاستغاثه، ج۱، ص۶۸.
  4. ملاحظہ کریں: عاملی، بنات النبی اَم ربائبه؟، ۱۴۱۳ق.
  5. مسد، آیہ‌۱
  6. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۰۱.
  7. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۱۴۱۲ق، ج‏۳، ص‌۱۰۳۸ و ج۴، ص۱۱۳۹-۱۱۴۰؛ کحّالہ، اعلام النساء، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۴۵۷؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۸، ص۳۵.
  8. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۸، ص۳۵؛ ابن عبدالبر،الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج‏۴، ص‌۱۸۴۰ و ج۳، ص۱۰۳۷.
  9. صالحي دمشقي، سبل الہدى و الرشاد، ۱۴۱۴، ج۱۱، ص۳۳.
  10. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج‏۳، ص ۱۰۳۸.
  11. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج‏۳، ص‌۱۰۳۸.
  12. کلینی، الكافی، ۱۴۰۷ق، ج‏۳، ص۲۳۶.
  13. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۲، ص۱۶۷.
  14. کحّالہ، اعلام‌النساء، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۴۵۸.
  15. کحّالہ، اعلام‌النساء، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۴۵۸.
  16. امین، اعیان‌الشیعہ، دارالتعارف للمطبوعات، ج۳، ص۴۸۷.
  17. شیخ طوسی، تہذیب‌الاحکام، ۱۳۶۵ش، ج۳، ص۱۲۰.
  18. ابن شبہ، تاریخ‌ المدینة‌ المنورہ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۱۰۳؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۸، ص۳۷.
  19. جعفریان، پنجاہ سفرنامہ حج قاجاری، ۱۳۸۹ش، ج۵، ص۲۴۱.

مآخذ

  • ابن سعد، الطبقات الكبری، بہ كوشش محمد عبدالقادر، بیروت، دارالكتب العلمیہ، ۱۴۱۸ق.
  • ابن شبّہ، تاریخ‌المدینة‌المنورہ، بہ كوشش شلتوت، قم، دارالفكر، ۱۴۱۰ق.
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبد اللہ،الاستیعاب فی معرفة الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دارالجیل، ط الأولی، ۱۴۱۲/ق۱۹۹۲م.
  • امین، سید محسن، أعیان‌الشیعة، تحقیق حسن الأمین، دارالتعارف للمطبوعات، بیروت، بی تا.
  • بلاذری، احمدبن یحیی بن جابر، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زكار و ریاض زركلی، بیروت، دارالفكر، ۱۴۱۷ق.
  • جعفریان، رسول، پنجاہ سفرنامہ حج قاجاری، تہران، نشر علم، ۱۳۸۹ش.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تہران، دارالكتب الإسلامیہ، ۱۳۶۵ش.
  • سیوطی، جلال الدین، تاریخ الخلفا، محقق حمدی الدمرداش، بی جا، مکتبة نزار مصطفی الباز، ۱۴۲۵ق.
  • صالحی دمشقی، سبل الہدى و الرشاد، بیروت، دارالکتب العلمیة، ۱۴۱۴ق.
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، قم، دارالحدیث، ۱۴۲۶ق/۱۳۸۵ش۔
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، بنات النبی ام ربائبہ؟، مرکزالجواد، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۳ء۔
  • کوفی، علی بن احمد، الاستغاثہ فی بدع الثلاثہ، بی‌نا، بی‌تا۔
  • کحّالہ، عمر رضا، اعلام النساء، بیروت، موسسة الرسالة، طبعة العاشرة، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۱م.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق علی اکبر غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، موسسہ وفا، الطبعة الثانية، ۱۴۰۳ق.
تبصرے
Loading...