رشید ہجری

رشید .jpg

عراق میں ان سے منسوب مزار کے گنبد کی تصویر

ذاتی کوائف
نام کامل رشید ہجری
لقب رشید البلایا
شہرت کی وجہ امام علی و امام حسن کے صحابی
کیفیت شہادت پاؤں اور زبان کاٹ کر سولی پہ لٹکایا گیا
مقام دفن عراقی شہر کفل

رُشَید ہَجَری، امام علی(ع) اور امام حسن(ع) کے جانثار اصحاب اور امام علی کے رازدار ساتھیوں میں سے تھے۔اس لحاظ سے آپ نے علم منایا و بلایا حضرت علی سے سیکھا تھا۔ شیخ طوسی نے انہیں اصحاب امام حسین(ع) اور امام سجاد(ع) سے بھی گنا ہے۔ وہ بالآخر زیاد بن ابیہ یا اسکے بیٹے کے ہاتھوں اسی طرح شہید ہوئے جیسے حضرت علی نے ان کے متعلق خبر تھی ۔

اس مضمون میں شامل موضوعات

زندگی‌ نامہ

تاریخی مآخذ میں رشید ہجری کا نام کم ذکر ہوا ہے ۔ان کے متعلق زیادہ معلومات مذکور نہیں ہیں۔ ہَجَر ہَجَری شہر سے منسوب ہے کہ جو قدیم زمانے میں بحرین کے مرکز کا نام تھا یا مکمل طور پر اسے ہَجَر کہا جاتا تھا[1] یا یمن کے ایک شہر یا مدینے کے نزدیک ایک گاؤں کا نام تھا[2]

رشید امام علی خاص اصحاب میں تھا[3] یعقوبی انہیں حضرت علی کے شاگردوں میں سے شمار کرتا ہے۔[4] شیخ طوسی نے اسے امام حسن کے اصحاب اور راویوں میں سے گنا ہے[5] نیز امام حسین[6] اور امام سجاد(ع)[7] کے اصحاب میں بھی لکھا ہے۔

کلام آئمہ

عراق میں ان سے منسوب مزار کا عکس

امام علی (ع) نے انہیں رشید البلایا کا نام دیا۔[8] امام کاظم (ع) نے ان کے بارے میں فرمایا:

يَا إِسْحَاقُ قَدْ كَانَ رُشَيْدٌ الْهَجَرِيُّ يَعْلَمُ عِلْمَ الْمَنَايَا وَ الْبَلَا؛ ای اسحاق! رشید ہجری منایا اور بلایا کا علم جانتے تھے[9][10]

شہادت

کہا گیا ہے کہ امام علی نے ان کی زندگی میں ان کی شہادت کی کیفیت کی خبر دے دی تھی۔[11]

ان کے قاتل کے بارے میں اختلاف نظر ہے۔ محسن امین زیاد بن ابیہ[12] اور خوئی عبیدالله بن زیاد کو ان کا قاتل سمجھتے ہیں۔[13] شیخ مفید کے مطابق ابن زیاد نے حکم پر ان کے پاؤں اور زبان کاٹ دیئے گئے اور پھر انہیں سولی پر لٹکا دیا گیا۔[14] رشید ہجری کی قنوا نام کی بیٹی مذکور ہے کہ جس سے ان کے باپ کی شہادت منقول ہے۔[15]

عراق کے کفل نامی شہر میں ان کا مزار موجود ہے۔

حوالہ جات

  1. یاقوت حموی، المشترک وقعا و المفترق صقعا، ص۴۳۸
  2. اعیان الشیعہ، ج۷، ص۷
  3. رجال طوسی، ص۶۳
  4. یعقوبی، ج۲، ص۱۴۰
  5. رجال طوسی، ص۹۴
  6. رجال طوسی، ص۱۰۰
  7. رجال طوسی، ص۱۱۳
  8. اعیان الشیعہ، ج۷، ص۷
  9. کافی، ج۱، ص۴۸۴
  10. بحار الانوار، ج۲۲، ص۱۲۳، ج۴۸، ص۵۴؛ المناقب، ج۴، ص۲۸۷
  11. الإرشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، ج۱، ۳۲۷-۳۲۶
  12. اعیان الشیعہ، ج۷، ص۷
  13. خوئی، ج۷، ص۱۹۱
  14. شیخ مفید، الإرشاد فی معرفہ حجج الله علی العباد، ج۱، ص۳۲۵
  15. سید محسن، اعیان الشیعہ، ج۷، ص۶

منابع

  • تاریخ یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب ابن واضح یعقوبی، ترجمہ محمد ابراہیم آیتی، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، چ ششم، ۱۳۷۱ش.
  • شیخ طوسی، رجال الطوسی، جامعہ مدرسین، قم، ۱۴۱۵ق.
  • شیخ مفید، الإرشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، کنگره شیخ مفید، قم، ۱۴۱۳ق.
  • محسن امین، اعیان الشیعہ، تحقیق و تخریج: حسن الأمین، دارالتعارف للمطبوعات، بیروت، ۱۴۰۳ق- ۱۹۸۳م.
  • خوئی، معجم رجال الحدیث، مرکز نشر آثار شیعہ، قم، ۱۴۱۰ق/۱۳۶۹ش.
  • علامہ مجلسی، بحارالأنوار، مؤسسہ الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ق.
  • یاقوت حموی، المشترک وقعا و المفترق صقعا، گوتینگن، ۱۸۴۶م.
تبصرے
Loading...