اس مضمون میں شامل موضوعات
دعائے فرج
دعائے فَرَج، کا آغاز “إلهي عَظُمَ البَلاءُ” سے ہوتا ہے اور شیعیان اہل بیت مشکلات اور دشواریوں سے نجات کے لئے اس دعا کی قرائت کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ دعا شیخ عباس قمی نے مفاتیح الجنان میں کفعمی کی کتاب البلد الامین سے نقل کی ہے، اور سند کے لحاظ سے معصوم سے متصل نہیں ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ دعا امام زمانہ(عج) نے خواب کی حالت میں محمد بن احمد بن ابی لیث کو تعلیم فرمائی ہے جبکہ محمد قتل ہونے کے خوف سے کاظمین میں پناہ لئے ہوئے تھے۔
شیعیان اہل بیت(ع) کے نزدیک دعائے “أللهمَّ كُن لِولیكَ الحجة بنِ الحَسن۔۔۔” ـ جو امام زمانہ(عج) کی سلامتی کی دعا ہے ـ بھی دعائے فَرَج کے نام سے مشہور ہے۔
دعا کی سند
کتاب وسائل الشیعہ اور دیگر کتب حدیث میں اس دعا کو سید ابن طاؤس کی کتاب جمال الاسبوع[1] کے حوالے سے، نماز کے بعد کے اعمال کے زمرے میں نقل کیا گیا ہے لیکن اس کے لئے ایسی کوئی سند مذکور نہیں ہے جو اس کو معصوم سے متصل کرے۔[2]
ابن المشہدی کی کتاب المزار الکبیر میں سردابِ امام زمانہ(عج) کے آداب میں آپ(عج) کی ایک زیارت نقل ہوئی جس کے بعد دو رکعت نماز مستحب ہے جس کے بعد اس دعا کی قرائت مذکور ہے۔[3]
کفعمی اپنی کتاب جُنةُ الأمان الواقیة وجَنةُ الإیمان الباقیة (المصباح) میں مرقوم کیا ہے کہ یہ دعا امام زمانہ(عج) نے ایسے شخص کو تعلیم فرمائی جس نے اسے پڑھ کر قیدخانے کی صعوبتیں جھیلنے سے نجات پائی۔[4]
امین الاسلام طبرسی نے اپنی کتاب کنوز النجاح میں لکھا ہے کہ یہ دعا امام زمانہ(عج) نے محمد بن احمد بن ابی لیث کو حالت خواب میں تعلیم فرمائی جس نے خوف کے مارے کاظمین کے مقبرۂ قریش میں پناہ لی تھی اور اس نے اس دعا کی برکت سے نجات پائی۔[5]
شیخ عباس قمی نے یہ دعا مفاتیح الجنان میں رمضان المبارک کی تئیسویں کی رات کے اعمال کے ضمن میں اپنی ہی کتاب هدیة الزّائرین و بهجة النّاظرین المعروف بہ (ہدیۃ الزائر) سے نقل کی ہے۔
کسی بھی منبع میں اس دعا کی سند معصوم سے متصل نہیں ہے لہذا سند کے لحاظ سے ضعیف ہے۔
شأن صدور
فضل بن حسن طبرسی المعروف بہ امین الاسلام نے اپنی کتاب کنوز النجاح میں کہا ہے کہ “دعائے فَرَج” ایسی دعا ہے جو امام مہدی(عج) نے ابوالحسن محمد بن احمد بن ابی لیث کو شہر بغداد میں ـ جہاں وہ مارے جانے کے خوف سے مقبرہ قریش (کاظمین) میں پناہ گزین ہوئے تھے ـ تعلیم فرمائی اور اور انھوں نے یہ دعا پڑھ کر قتل ہونے کے خطرے سے نجات پائی۔[6]
اس نام کی دوسری دعائیں
لفظ “فَرَج”، کے معنی لغت میں “غم و اندوہ اور پریشانیوں سے نجات اور فراخی و کشادگی” کے ہیں۔[7] حدیث کی کتب میں “فَرَج” کے حصول کے لئے بعض دعائیں اور اعمال کا تذکرہ آیا ہے جن کا سبب اس لفظ کے لغوی معنی ہی ہیں۔ علامہ مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار کی جلد 95 کے “باب ادعیۃ الفَرَج” میں 39 دعائیں نقل کی ہیں۔
شیعیان اہل بیت(ع) کے نزدیک “أللهمَّ كُن لِولیكَ الحجة بنِ الحَسن۔۔۔ ـ جو امام زمانہ(عج) کی سلامتی کی دعا ہے ـ بھی دعائے فَرَج کے نام سے مشہور ہے۔
دعا کا متن اور ترجمہ
دُعاءُ الفَرَج
مفاتیح الجنان
دعائے فَرَج
اے معبود! درورد بھیج دے محمد و آل محمد پر، وہ صاحبان امر اور فرمانروا، جن کی پیروی تو نے ہم پر فرض کردی اور اس واسطے سے تو نے ہمیں ان کی منزلت کی معرفت کرائی،
پس ان کے واسطے ہمیں آسودگی اور فراخی عطا کر، بہت جلد، بہت قریب، آنکھیں جھپکنے کی مانند یا اس سے بھی زیادہ قریب، اے محمد(ص)، اے علی(ع)، اے علی(ع) اے محمد(ص)، میری کفایت فرمائیں کیونکہ آپ ہی کفایت کرنے والے ہیں، آپ ہی میری مدد فرمائیں کیونکہ آپ ہی ہیں مدد کرنے والے،
اے ہمارے آقا، اے صاحب زمان! میری فریاد ہے آپ سے، فریاد ہے آپ سے، فریاد ہے آپ سے، میری مدد کریں، میری مدد کریں، میری مدد کریں، اسی وقت، اسی وقت، اسی وقت، جلدی، جلدی، جلدی،
اے مہربانوں کے مہربان ترین، بواسطۂ اور آپ(ص) کی آل پاک کے۔
تفصیلی مطالعہ
پاورقی حاشیہ
- ↑ جمال الاسبوع، ص280- 281۔
- ↑ شیخ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص435۔
- ↑ ابن المشہدی، المزار الکبیر، ص590۔
- ↑ مصباح کفعمی، ص176۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ج53، ص275۔
- ↑ الیزدی الحائری، إلزام الناصب، ج2، ص43۔
- ↑ ابن منظور، لسان العرب، ج2، ص343 ذیل لفظ اَلفَرَج۔
مآخذ
- ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، نشر دار صادر، بیروت، چاپ سوم، 1414ھ ق
- ابن مشهدی، المزار الکبیر، قم، نشر القیوم، 1419ھ ق
- کفعمی، مصباح، بیروت، اعلمی، 1403ھ ق
- مجلسی، بحار الانوار، بیروت، الوفا، 1404ھ ق
- سید ابن طاووس، رضی الدین علی، جمال الأسبوع بکمال العمل المشروع، دار الرضی، قم، چاپ اول، بیتا.
- الیزدی الحائری، علی، الزام الناصب فی إثبات الحجة الغائب(عجّ) موسسة الاعلمی، طبع اول، بیروت ۔ لبنان، 1422ھ ق