دعائے عدیلہ

دعائے عدیلہ

دعائے عَدیلَہ ایسی دعا ہے جس میں صحیح شیعہ عقائد کا ایک دورہ بیان ہوا ہے۔ اس دعا کے مضامین کے مطابق مومن اپنے اعتقادات کو جس طرح وہ زبان پر جاری کر رہا ہے اسی طرح خدا کے یہاں بطور امانت محفوظ رکھتا ہے اور خدا سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ موت کے وقت اسے اسی انداز میں پلٹایا جائے تاکہ وہ صحیح عقیدے کے ساتھ اس دنیا سے چلا جائے۔ اس دعا کو محتضر (وہ شخص جو جانکنی کی حالت میں ہو) کے سرہانے پڑھنے کی سفارش کی گئی ہے۔ حاجی نوری کے مطابق یہ معصومین سے نقل نہیں ہوئی ہے بلکہ علماء متقدم کی لکھی ہوئ ہے لیکن ثواب کی امید اور اعتقادات کی تثبیت کیلئے پڑهنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

عدیلہ کے معنی

“عدیلہ” مادہ “ع ـ د ـ ل” سے عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی حق سے باطل کی طرف پلٹنے کے ہیں اور اس سے یہاں مراد یہ ہے کہ موت کے وقت شیطان، محتضر کے پاس آکر شیطانی وسوسوں کے ذریعے اس کے ایمان کو اس سے چھیننا چاہتا ہے تاکہ وہ کفر کی حالت میں اس دنیا سے چلا جائے۔ دعائے عدیلہ موت کے وقت ایمان کو محفوظ رکھنے کی دعا ہے۔ اس مقصد کیلئے اسلامی منابع میں اور بھی دعائیں ذکر ہوئی ہیں۔

اس دعا کے پڑھنے کے اوقات

اس دعا کو انسان کو اپنی پوری زندگی میں پڑھتے رہنا چاہئے تاکہ اس کے اعتقادات پختہ ہو جائیں۔ اس دعا کو محتضر کے سرہانے پڑھنے کی سفارش کی گئی ہے خصوصا یہ کہ اگر خود محتضر بھی اسے پڑھ سکے تو ساتھ تکرار کرنا بہتر ہے۔

یہ دعا مفاتیح الجنان میں دعائے جوشن کبیر سے پہلے آئی ہے۔ حاجی نوری معتقد ہیں کہ یہ دعا معصومین نقل نہیں ہوئی ہے بلکہ شیعہ علماء کی لکھی ہوئی ہے اور حدیث کی کتابوں میں یہ دعا موجود نہیں ہے۔ البتہ ثواب کی امید اور اعتقادات کی تثبیت کیلئے پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ [1]

دعا کے مضامین

دعائے عدیلہ سے اقتباس

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ وَ الْمَلائِكَةُ وَ أُولُوا الْعِلْمِ قَائِما بِالْقِسْطِ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ وَ أَنَا الْعَبْدُ الضَّعِيفُ الْمُذْنِبُ الْعَاصِي الْمُحْتَاجُ الْحَقِيرُ أَشْهَدُ لِمُنْعِمِي وَ خَالِقِي وَ رَازِقِي وَ مُكْرِمِي كَمَا شَهِدَ لِذَاتِهِ وَ شَهِدَتْ لَهُ الْمَلائِكَةُ وَ أُولُوا الْعِلْمِ مِنْ عِبَادِهِ بِأَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ ذُو النِّعَمِ وَ الْإِحْسَانِ وَ الْكَرَمِ وَ الامْتِنَانِ قَادِرٌ أَزَلِيٌّ عَالِمٌ أَبَدِيٌّ حَيٌّ أَحَدِيٌّ مَوْجُودٌ سَرْمَدِيٌّ سَمِيعٌ بَصِيرٌ ، … سُبْحَانَهُ مَا أَجَلَّ نَيْلَهُ وَ أَعْظَمَ إِحْسَانَهُ بَعَثَ الْأَنْبِيَاءَ لِيُبَيِّنَ عَدْلَهُ وَ نَصَبَ الْأَوْصِيَاءَ لَيُظْهِرَ طَوْلَهُ وَ فَضْلَهُ وَ جَعَلَنَا مِنْ أُمَّةِ سَيِّدِ الْأَنْبِيَاءِ وَ خَيْرِ الْأَوْلِيَاءِ وَ أَفْضَلِ الْأَصْفِيَاءِ وَ أَعْلَى الْأَزْكِيَاءِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ، آمَنَّا بِهِ وَ بِمَا دَعَانَا إِلَيْهِ وَ بِالْقُرْآنِ الَّذِي أَنْزَلَهُ عَلَيْهِ وَ بِوَصِيِّهِ الَّذِي نَصَبَهُ يَوْمَ الْغَدِيرِ وَ أَشَارَ بِقَوْلِهِ هَذَا عَلِيٌّ إِلَيْهِ وَ أَشْهَدُ أَنَّ الْأَئِمَّةَ الْأَبْرَارَ وَ الْخُلَفَاءَ الْأَخْيَارَ بَعْدَ الرَّسُولِ الْمُخْتَارِ عَلِيٌّ قَامِعُ الْكُفَّارِ وَ مِنْ بَعْدِهِ سَيِّدُ أَوْلادِهِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ثُمَّ أَخُوهُ السِّبْطُ التَّابِعُ لِمَرْضَاةِ اللَّهِ الْحُسَيْنُ ثُمَّ الْعَابِدُ عَلِيٌّ ثُمَّ الْبَاقِرُ مُحَمَّدٌ ثُمَّ الصَّادِقُ جَعْفَرٌ…

یہ دعا خدا کی وحدانیت کی گواہی سے شروع ہوتی ہے اور یہ کہ خدا کے نزدیک قابل قبول دین صرف اور صرف اسلام ہے: شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ وَ الْمَلائِکةُ وَ أُولُوا الْعِلْمِ قَائِما بِالْقِسْطِ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْعَزِیزُ الْحَکیمُ، إنَّ الدِّینَ عِنْدَ اللّهِ الْاِسْلامُ،(ترجمہ: خدا گواہ ہے کہ سوائے اس کے کوئی معبود نہیں نیز ملائکہ اور با انصاف صاحبان علم بھی اس پر گواہی دے رہے ہیں کہ سوائے اس کے کوئی معبود نہیں جو صاحب عزت حکمت والا ہے یقینا خدا کا پسندیدہ دین اسلام ہی ہے)۔…. خدایا میں اقرار کرتا ہوں کہ تیرے بے کراں لطف و کرم کے مقابلے میں میں نے کوتاہی کی ہے۔ وہ خدا جس نے انسان کو مکلف بنایا تاکہ سب خدا کے واجبات کو انجام دے سکیں اور حرام کے ترک کرنے کا راستہ بھی آسان کر دیا تاکہ سب اسے ترک کر سکیں۔

اس بات کا اقرار کہ خدا نے انبیاء بھیجے تاکہ عدل و انصاف کو قائم کر سکیں اور خدا کی نعمتوں کو بندوں پر واضح کر سکیں۔ پیغمبر خاتم(ص)، ان پر نازل ہونے والی کتاب قرآن اور ان کے وصی حضرت علی(ع) کہ جن کا اعلان غدیر کے دن کیا گیا، پر ایمان لانے کا اقرار۔ تمام ائمہ معصومین یہاں تک کہ امام زمانہ جس کے ہم سب منتظر ہیں، پر ایمان لانے کا اقرار۔ ان کے وجود کی بدولت دنیا قائم ہے اور آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے ان کے طفیل رزق کھا رہے ہیں، ان کے ہی ذریعے زمین پر عدل قائم ہو گا ان کا کلام میرے اوپر حجت ہے اور ان کی اطاعت میرے اوپر واجب ہے۔ ان کی مودت ضروری ہے اور ان کی اطاعت نجات دہندہ اور ان کی مخالفت ہلاکت میں ڈال دینے والی ہے۔ قبر میں ہونے والے سوال و جواب اور قبر سے دوبارہ اٹھایا جانا حق اور حقیقت پر مبنی ہے۔

آخر میں یہ اظہار کیا جاتا ہے کہ ان اعتقادات کو خدا کے یہاں بطور امانت رکھا جا رہا ہے کیونکہ وہ بہترین امانت دار ہے اور خدا سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ موت کے وقت ان اعتقادات کو صحیح انداز میں ہمیں واپس کرے تاکہ اس مشکل وقت میں صحیح ایمان اور اعتقادات کے ساتھ اس دنیا سے جائے اور شیطان ہم سے ہمارا ایمان چھین نہ سکے: اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِک مِنَ الْعَدِیلَةِ عِنْدَ الْمَوْتِ۔

دعائے عدیلہ صغیر

کتاب زاد المعاد میں “دعائے عدیلہ صغیر” کے نام سے بھی ایک دعا موجود ہے جس میں اختصار کے ساتھ یہی مضامین پائے جاتے ہیں۔ [2]

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ
رَضِیتُ بِاللَّهِ رَبّاً وَ بِالْإِسْلَامِ دِیناً …وَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ نَبِیاً وَ بِالْقُرْآنِ الَّذِی أُنْزِلَ عَلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ کتَاباً وَ بِالْکعْبَةِ قِبْلَةً وَ بِالصَّلَاةِ فَرِیضَةً وَ بِعَلِی علیه‌السلام إِمَاماً وَ بِالْحَسَنِ وَ الْحُسَینِ وَ عَلِی بْنِ الْحُسَینِ وَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِی وَ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَ مُوسَی بْنِ جَعْفَرٍ وَ عَلِی بْنِ مُوسَی وَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِی وَ عَلِی بْنِ مُحَمَّدٍ وَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِی وَ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ صَاحِبِ الْعَصْرِ وَ الزَّمَانِ وَ خَلِیفَةِ الرَّحْمَنِ وَ مَظْهَرِ الْإِیمَانِ سَیدِ الْإِنْسِ وَ الْجَانِّ صَلَوَاتُ اللَّهِ وَ سَلَامُهُ عَلَیهِ‏ وَ عَلَیهِمْ أَجْمَعِینَ، أَئِمَّةً وَ سَادَةً. یا اللَّهُ یا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ إِنِّی أَوْدَعْتُک یقِینِی هَذَا الْإِقْرَارَ بِک وَ بِالنَّبِی وَ الْأَئِمَّةِ عَلَیهِمُ السَّلَامُ وَ أَنْتَ خَیرُ مُسْتَوْدَعٍ فَرُدَّهُ عَلَی وَقْتَ سُؤَالِ مُنْکرٍ وَ نَکیرٍ بِرَحْمَتِک یا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ وَ صَلَّی اللَّهُ عَلَی سَیدِنَا وَ نَبِینَا مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّیبِینَ الطَّاهِرِینَ.۔

حوالہ جات

  1. مفاتیح الجنان، ذیل دعائے عدیلہ
  2. زاد المعاد، ص۴۲۵
تبصرے
Loading...