خبر واحد

خبر واحد علوم حدیث کی اصطلاح ہے جواس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کے معصوم سے صادر ہونے کے بارے میں یقین نہ ہو۔ خبر واحد کے مقابلے میں خبر متواتر ہے جس کے سلسۂ سند کے تمام طبقات میں راویوں کی تعداد اس قدر ہے جس سے ہمارے لئے حدیث کی صداقت کے بارے میں یقین حاصل ہو جاتا ہے۔

خبر واحد کے مختلف اقسام ہیں جن میں سے چار اصلی اقسام یوں ہیں: حدیث صحیح، حدیث حَسَن، حدیث مُوَثَّق اور حدیث ضعیف۔

خبر واحد کی حُجّیّت (معتبر ہونا) علم اصول فقہ کے اہم مسائل میں سے ہے۔ متقدم فقہاء کے ایک گروہ کے علاوہ تمام شیعہ علماء خبر واحد کو احکام شرعی میں معتبر سمجھتے ہیں لیکن اس کے شرائط میں اختلاف نظر رکھتے ہیں۔

بعض فقہاء جیسے آیت‌اللہ خویی اور آیت‌اللہ معرفت خبر واحد کو اعتقادات میں بھی حجت سمجھتے ہیں؛ لیکن اکثر فقہاء اس نظریے کے مخالف ہیں۔

تعریف

خبر واحد اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کے راویوں کی تعداد اتنی نہیں ہے جس سے ہمیں اس کے معصوم سے صادر ہونے کے بارے میں یقین حاصل ہو اور کوئی قرینہ بھی نہیں ہے جس سے اس کے صادر ہونے پر علم حاصل ہو۔[1] علمائے اصول فقہ کے مطابق خبر واحد سے صرف ظن و گمان پیدا ہوتا ہے جس کے مقابلے میں خبر متواتر ہے[2] جو اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کے معصوم سے صادر ہونے کے بارے میں علم اور یقین حاصل ہوتا ہے۔[3]

اقسام

خبر واحد کے کئی اقسام ہیں ۔[4] راویوں کی خصوصیات کو مد نظر رکھتے ہوئے خبر واحد چار اصلی اقسام: صحیح، حَسَن، مُوَثَّق اور ضعیف میں تقیسم ہوتا ہے:[5]

  • خبر صحیح، اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کے سلسلہ سند میں موجود تمام راوی امامیہ اور ثقہ ہوں۔[6]
  • خبر حسن، اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کے تمام راوی امامیہ تو ہیں لیکن سب کے سب ثقہ نہ ہوں۔[7]
  • خبر موثق، اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کے تمام رواوی امامیہ تو نہیں ہیں لیکن سب کے سب ثقہ ہیں۔[8]
  • خبر ضعیف، اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس میں درج بالا شرائط میں سے ایک بھی موجود نہ ہو؛ مثلاً اس کے سلسلہ سند میں ایک ایسا راوی بھی ہو جو امامیہ بھی نہ ہو اور ثقہ بھی نہ ہو۔[9]

حدیث مُسند، متصل، مرفوع، مُعَنعَن، مُعَلَّق، مشہور، غریب، مقبول، مقطوع، مُرسَل اور موضوع (جعلی حدیث) خبر واحد کی دیگر اصطلاحات میں سے ہیں جو درج بالا اصلی اقسام کے ذیل میں ذکر کئے جاتے ہیں۔[10]

حجیّت خبر واحد کی اہمیت

آخوند خراسانی کے مطابق خبر واحد کی حجیت کا مسئلہ علم اصول فقہ کے اہم مسائل میں سے ہیں۔[11] اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلامؐ اور ائمہ معصومینؑ سے نقل شدہ اکثر احادیث خبر واحد ہیں لہذا احکام شرعی کے استنباط میں عموما خبر واحد سے ہی مدد لی جاتی ہے۔[12] علم اصول فقہ میں اس مسئلے کو “خبر واحد کی حجیّت” کے عنوان سے بحث کی جاتی ہے۔[13]

خبر واحد کی حجیّت

شیخ انصاری کے مطابق اکثر شیعہ فقہاء خبر واحد کو کلی طور پر حجت سمجھتے ہیں[14] اور صرف اس کی حجیت کے شرائط میں اختلاف نظر رکھتے ہیں۔[15] اس کے مقابلے میں متقدم فقہاء میں سے ایک گروہ خبر واحد کی حجیّت کے قائل ­نہیں تھے۔[16]

شیخ طوسی، سید بن طاووس اور علامه حلی خبر واحد کو حجت ماننے والے گروہ میں سے ہیں ان کے مطابق وہ خبر واحد جو معتبر سند اور مضامین کے حامل ہوں حجت ہے۔[17] سیدِ مرتضى، ابن‌زہرہ، اِبن‌بَرّاج اور ابن‌ادریس خبر واحد کو حجت نہیں سمجھنے والوں میں سے ہیں۔[18]

البتہ متقدم فقہاء تمام خبر واحد کی تمام اقسام کو غیر معتبر نہیں مانتے تھے؛ بلکہ فیض کاشانی کے مطابق اگر خبر واحد میں درج ذیل قرائن میں سے کوئی ایک موجود ہو تو متقدم فقہاء بھی قبول کرتے تھے۔ وہ قرائن یہ ہیں:

  1. حدیث اصول اربع مائہ میں سے کئی اصولوں میں منقول ہو؛
  2. حدیث اصول اربع مائہ میں سے ایک یا دو میں موجود ہو لیکن متعدد طریقوں اور کئی راستوں سے نقل ہوئی ہو؛
  3. حدیث اصول اربع مائہ میں سے اس اصل میں منقول ہو جس کا مؤلف اصحاب اجماع میں سے ہو؛ جیسے زرارہ، محمد بن مسلم وغیرہ؛
  4. حدیث ایسی کتاب میں منقول ہو جو معصوم(ع) کو پیش کی گئی ہو اور امام نے اس کتاب کی تائید کی ہو؛
  5. حدیث متقدم شیعہ فقہاء کے نزدیک قابل اعتماد کتاب میں نقل ہوئی ہو؛

قائلین حجیّت خبر واحد کے دلائل

خبر واحد کی حجیّت کے قائلین اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی آیات، احادیث، اجماع اور سیرہ عُقَلا سے استناد کرتے ہیں:[19]

آیت نَبَأ اور آیت نَفْر من جملہ ان آیات میں سے ہیں جس سے اس سلسلے میں تمسک کی جاتی ہے۔ آیت نباء کے مطابق اگر کوئی فاسق خبر لے آئے تو اس کی بات کو بغیر تحقیق کے قبول نہیں کرنی چاہئے۔[20] کہا جاتا ہے کہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی عادل شخص کے توسط سے نقل ہونے والی خبر کی چھان بین ضروری نہیں ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خبر واحد حجت ہے۔[21]

سیرہ عقلا کو خبر واحد کی حجیّت پر سب سے محکم دلیل قرار دیتے ہیں۔[22] اس دلیل کو شیخ انصاری یوں بیان کرتے ہیں: تمام لوگوں معمول کی زندگی میں مورد اعتماد اشخاص کی خبروں پر اعتماد کرتے ہیں۔ اگر شارع مقدس اس طریقے کے مخالف ہوتے تو لازمی طور پر اس سے منع کرنا چاہئے تھا؛ جس طرح بعض موارد میں جہاں شارع مخالف تھے تو اس مورد سے منع کیا ہے۔ پس چونکہ اس مورد میں شارع نے اس کام سے منع نہیں کیا ہے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شارع نے اس طریقے کی تائید کی ہے۔[23]

مخالفین کے دلائل

شیخ انصاری کے مطابق خبر واحد کی حجیّت کے مخالفین بھی اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے قرآن، احادیث اور اجماع سے اسناد کرتے ہیں۔[24] یہ حضرات ان آیات سے استناد کرتے ہیں جن میں ان چیزں پر عمل کرنے سے منع کی گئی ہے جو یقین آور نہیں ہیں؛[25] مثلا سورہ اِسرا کی آیت نمبر 36: اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے نہ پڑو اسی طرح سورہ یونس کی آیت نمبر 36 کے مطابق وہم و گمان کبھی بھی حقیقت سے بے نیاز نہیں کرتے ہیں۔

اسی طرح یہ حضرات بہت ساری احادیث سے بھی استناد کرتے ہیں جن کے مطابق اس حدیث پر عمل نہیں کرنا چاہئے جس کے بارے میں ہمیں یقین نہ ہو کہ یہ حدیث کسی معصوم سے صادر ہوئی ہے؛ مگر یہ کہ قرآن اور معتبر احادیث میں سے کوئی قرینہ اس کی تائید کرے۔[26]

اعتقادات میں خبر واحد کی حجیّت

شیعہ فقہاء میں سے حتی وہ اشخاص بھی جو خبر واحد کی حجیّت کے قائل ہیں جیسے شیخ طوسی، علامہ حلی، شہید ثانی، شیخ انصاری اور آخوند خراسانی وہ بھی خبر واحد کو صرف احکام شرعی میں حجت مانتے ہیں؛ یعنی اسے اعتقادات میں حجت نہیں مانتے ہیں۔[27] اس سلسلے میں پیش کی جانے والی دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ خبر واحد سے صرف گمان‌ پیدا ہوتا ہے؛ جبکہ اعتقادات میں ہمیں یقین کی ضرورت ہوتی ہے۔ بنابراین اعتقادات میں خبر واحد کی حجیّت کا لازمہ تکلیفِ ما لایُطاق (ایسا کام جس کے انجام دینا ممکن نہ ہو) ہے جو کہ محال ہے۔[28]

ان کے مقابلے میں بعض معاصر شیعہ علماء من جملہ آیت‌اللہ خویی اور آیت‌اللہ معرفت خبر واحد کو اعتقادات میں بھی حجت مانتے ہیں۔[29]

اعتقادات میں خبر واحد کی حجیّت کے بارے میں اہل‌سنت علماء کے درمیان بھی اختلاف‌ پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر فخر رازی اعتقادات میں خبر واحد کو قبول نہیں کرتے۔[30] لیکن ابن تیمیہ اس بات کے معتقد ہیں کہ وہ خبر واحد جس میں قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے وہ اعتقادات کو بھی ثابت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔[31]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، ۱۳۸۹ش، ص۴۴۷۔
  2. مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، ۱۳۸۹ش، ص۴۴۷۔
  3. مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، ۱۳۸۹ش، ص۴۴۲۔
  4. ملاحظہ کریں: شہید ثانی، البدایہ فی علم الدرایہ، ۱۴۲۱ق، ص۲۳تا۳۹۔
  5. شہید ثانی، البدایہ فی علم الدرایہ، ۱۴۲۱ق، ص۲۳و۲۴۔
  6. فیض کاشانی، الوافی، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۲۲۔
  7. فیض کاشانی، الوافی، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۲۲۔
  8. فیض کاشانی، الوافی، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۲۲۔
  9. شہید ثانی، البدایہ فی علم الدرایہ، ۱۴۲۱ق، ص۲۳و۲۴۔
  10. شہید ثانی، البدایہ فی علم الدرایہ، ۱۴۲۱ق، ص۲۶تا۳۹۔
  11. آخوند خراسانی، کفایۃالاصول، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۳۱۰.
  12. جناتی، منابع اجتہاد از دیدگاہ مذاہب اسلامى، ۱۳۷۰ش، ص۱۰۴و۱۰۵
  13. ملاحظہ کریں: مظفر، اصول‌الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۳، ص۷۵، ۸۶، ۸۹، ۹۶؛ شیخ انصاری، فرائدالأصول، ۱۴۲۸ق، ج۱، ص۲۳۸۔
  14. شیخ انصاری، فرائدالأصول، ۱۴۲۸ق، ج۱، ص۲۳۷۔
  15. شیخ انصاری، فرائدالأصول، ۱۴۲۸ق، ج۱، ص۲۴۰و۲۴۱۔
  16. جناتی، منابع اجتہاد از دیدگاہ مذاہب اسلامى، ۱۳۷۰ش، ص۱۰۵و۱۰۶۔
  17. جناتی، منابع اجتہاد از دیدگاہ مذاہب اسلامى، ۱۳۷۰ش، ص۱۰۵و۱۰۶۔
  18. جناتی، منابع اجتہاد از دیدگاہ مذاہب اسلامى، ۱۳۷۰ش، ص۱۰۵و۱۰۶۔
  19. مظفر، اصول الفقه، ۱۴۳۰ق، ج۳، ص۷۵.
  20. سورہ حجرات، آیت ۶۔
  21. مظفر، اصول‌الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۳، ص۷۹۔
  22. ملاحظہ کریں: نائینی، فوائدالاصول، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۱۹۴۔
  23. شیخ انصاری، فرائدالاصول، ۱۴۲۸ق، ج۱، ص۳۴۵۔
  24. شیخ انصاری، فرائدالأصول، ۱۴۲۸ق، ج۱، ص۲۴۲۔
  25. شیخ انصاری، فرائدالأصول، ۱۴۲۸ق، ج۱، ص۲۴۲۔
  26. شیخ انصاری، فرائدالأصول، ۱۴۲۸ق، ج۱، ص۲۴۲۔
  27. شیخ طوسی، العُدّه، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۱۳۱؛ علامہ حلی، مبادی الوصول الی علم الاصول، ۱۴۰۴ق، ص۲۱۱؛ شہید ثانی، المقاصد، ۱۴۲۰ق، ص۴۵؛ شیخ انصاری، فرائدالاصول، ۱۴۲۸ق، ج۱، ص۵۵۶؛ آخوند خراسانی، کفایۃالاصول، ۱۴۰۹ق، ص۲۲۰و۳۲۹۔
  28. علامہ حلی، مبادی ‏الوصول الی علم الأصول، ۱۴۰۴ق، ص۲۱۱؛ شہید ثانی، المقاصد، ۱۴۲۰ق، ص۴۵۔
  29. خویی مصباح‌الاصول، ۱۴۲۲ق، ج۱، ص۲۷۷و۲۷۸؛ معرفت، «کاربرد حدیث در تفسیر»، ص۱۴۳.
  30. فخررازی، اساس التقديس، ۱۴۱۵ق، ص۱۲۷.
  31. ابن تیمیہ، المستدرک علی مجموع فتاوی، ۱۴۱۸ق، ج۲، ص۷۳۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • آخوند خراسانی، کفایۃالاصول، قم، مؤسسہ آل‌البیت، چاپ اول، ۱۴۰۹ق۔
  • ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، المستدرک علی مجموع فتاوی ابن تیمیہ، محمد بن عبدالرحمن بن قاسم، ریاض، بی‌نا، ۱۴۱۸ق۔
  • جناتى، محمدابراہیم، منابع اجتہاد از دیدگاہ مذاہب اسلامى، تہران، کیہان، ۱۳۷۰ش۔
  • خویی، مصباح‌الاصول، قم، مؤسسۃ احیاء آثار الامام الخوئی‏، چاپ اول، ۱۴۲۲ق۔
  • شہید ثانی، زین العابدین بن علی، البدایہ فی علم الدرایۃ، تحقیق سیدمحمدرضا حسینی جلالی، قم، انتشارات محلاتی، چاپ اول، ۱۴۲۱ق۔
  • شہید ثانی، زین‌العابدین بن علی، المقاصد العلیہ فی شرح الرسالۃ الالفیہ، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، ۱۴۲۰ق۔
  • شیخ انصاری، فرائدالأصول، قم، مجمع الفکر الاسلامی‏، چاپ نہم‏،‏ ۱۴۲۸ق۔
  • شیخ طوسی، محمدبن حسن، العُدّہ فی اصول الفقہ، تہران، محمدتقی علاقبندیان‏، چاپ اول، ۱۴۱۷ق۔
  • علامہ حلی، مبادی الوصول الی علم الاصول، قم، المطبعۃ العلمیہ، چاپ اول، ۱۴۰۴ق۔
  • فخررازی، محمد بن عمر، اساس‌التقدیس فی علم الکلام، بیروت، مؤسسۃ الکتاب الثقافیہ، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م۔
  • فیض کاشانى، محمدمحسن، الوافی، اصفہان، کتابخانہ امام أمیر المؤمنین على علیہ السلام‏، چاپ اول، ۱۴۰۶ق۔
  • مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، ۱۳۸۹ش
  • معرفت، محمدہادی، «کاربرد حدیث در تفسیر»، الہیات و حقوق دانشگاہ رضوی (آموزہ‌ہای قرآنی )، ش۱، ۱۳۸۰ش۔
  • مظفر، محمدرضا، اصول‌الفقہ، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی التابعہ لجماعہ المدرسین بقم، چاپ پنجم، ۱۴۳۰ق۔
  • نائینی، محمدحسین، فوائدالاصول، قم‏، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، ۱۳۷۶ش۔
تبصرے
Loading...