حی علی خیر العمل

حی علی خیر العمل، اذان اور اقامت کا ایک جملہ جس کا معنی “بہترین عمل کی طرف آئیں” ہے. یہ جملہ دوسرے خلیفہ کے حکم سے ختم کیا گیا اور اس کی جگہ “اَلصَّلاةُ خَیرٌ مِنَ النَّوم” لایا گیا. طول تاریخ اہل تشیع نے اس جملے کو نہیں چھوڑا اور یہ جملہ شیعہ کے ایک شعار میں تبدیل ہو گیا.

تشریح اور ترجمہ

“حی علی خیر العمل” اذان اور اقامت کا ایک جملہ ہے. اس جملے کا معنی ہے “بہترین عمل کی طرف آئیں”. اس جملے کی وجہ سے شیعہ اور اہل سنت کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اور عرب نے اس سے “حَیعَلَه” کے نام کا مصدر بنایا ہے.[1]

حضور(ص) کے زمانے میں

اہل بیت(ع) سے اس بارے میں بہت سی روایات ملتی ہیں، اور شیعہ علماء بھی اس نظریے پر متفق ہیں کہ “حی علی خیر العمل” اذان کا جزء تھا اور “حی علی الفلاح” کے بعد آتا ہے. [2] ان روایات میں کلیب اسدی کی روایت، [3] اور عبداللہ بن سنان کی روایت [4] جو امام صادق(ع) کی طرف اشارہ کرتی ہیں.

اہل سنت کی کتابیات میں

اس بارے میں اہل سنت کی روایات دو قسم میں تقسیم ہوتی ہیں. پہلی قسم وہ ہے کہ “حی علی خیر العمل” حضور(ص) کے زمانے میں اذان کا حصہ تھا، اور دوسری قسم، وہ ہیں جن میں “حی علی خیر العمل” کے بارے کچھ بیان نہیں ہوا لیکن “الصلاۃ خیر من النوم” کے بارے میں اشارہ کرتے ہیں کہ یہ دوسرے خلیفہ کے زمانے میں اضافہ ہوا ہے.

حی علی خیر العمل کا موجود ہونا

اہل سنت کے منابعوں میں متعدد روایات موجود ہیں کہ جہاں پر بیان ہوا ہے کہ “حی علی خیر العمل” اذان کا جزء ہے. ان روایات کو بعض صحابہ نے نقل کیا ہے من جملہ:

  • عبد اللہ بن عمر: اس سے نقل ہوا ہے کہ بعض اوقات اپنی اذان میں “حی علی الفلاح” کی عبارت کے بعد “حی علی خیر العمل” اضافہ کرتا تھا. [5]
  • سہل بن حنیف: “حی علی خیر العمل” کا کہنا سہل بن حنیف سے بھی روایت ہوا ہے. [6]
  • بلال حبشی: بلال سے روایت نقل ہوئی ہے کہ وہ بھی اپنی اذان میں، “حی علی خیر العمل” کہتا تھا، البتہ اس حدیث کے ذیل میں یہ بھی آیا ہے کہ حضور(ص) نے اس کو کچھ مدت کے بعد فرمایا کہ اس عبارت کی جگہ “الصلاۃ خیر من النوم” کو لے آؤ. [7]

الصلاۃ خیر من النوم کا اضافہ ہونا

اہل سنت کے اکثر علماء نے “تثویب” یا “الصلاۃ خیر من النوم” کو حضور اکرم(ص) کی رحلت کے بعد اذان میں اضافہ کر دیا ہے. مذہب مالکی کا رہنما مالک بن انس اپنی کتاب میں کہتا ہے: ہمارے تک یہ خبر پہنچی ہے کہ ایک دن دوسرے خلیفہ کا موذن، صبح کی اذان کے لئے آیا تھا کہ خلیفہ کو سویا ہوا دیکھا، لہذا اس نے اذان کے درمیان یہ جملہ کہا “الصلاۃ خیر من النوم، نماز نیند سے بہتر ہے”، خلیفہ جب بیدار ہوا تو اس نے اسے حکم دیا کہ یہ جملہ صبح کی اذان میں اضافہ کر دو. [8] مالک بن انس کی کتاب میں ایک شخص جس کا نام محمد بن حسن ہے اس نے اذان والی روایت کے بعد کہا ہے کہ: “الصلاۃ خیر من النوم” کی عبارت کو اذان ختم ہونے کے بعد کہا جائے کیونکہ یہ صحیح نہیں ہے کہ جو چیز اذان میں موجود نہیں، اسے اضافہ کیا جائے. [9]

ختم ہونے کی وجہ

“حی علی خیر العمل” کے ختم ہونے کے بارے میں دو نظریے بیان ہوئے ہیں:

عبداللہ بن عباس سے پوچھا گیا کہ عمر نے “حی علی خیر العمل” کو اذان سے کیوں ختم کیا، اس نے کہا کیوں کہ لوگوں کا رجحان نماز کی بجائے جہاد کی طرف بڑھتا جا رہا تھا لہذا عمر نے ارادہ کیا کہ اس جملے کو اذان سے ختم کر دے. [10]

فضل بن شاذان، ابن ابی عمیر سے نقل کرتا ہے کہ امام کاظم(ع) سے پوچھا: کہ کس وجہ سے “حی علی خیر العمل” کو اذان سے ختم کیا گیا؟ آپ(ع) نے فرمایا: اس کی ظاہری وجہ چاہیے یا واقعی اور باطنی وجہ؟ عرض کیا: دونوں. امام(ع) نے فرمایا: اس کی ظاہری وجہ یہ ہے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ بہترین عمل نماز ہے اور اس کی وجہ سے جہاد سے منہ نہ موڑ لیں. اور اس کی باطنی وجہ یہ ہے کہ کیونکہ بہترین عمل “ولایت” ہے، جس نے اذان سے اس عبارت کو ختم کیا ہے، اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ ولایت کی طرف مائل نہ ہوں. [11]

معانی الاخبار میں بھی ایک حدیث اسی مضمون پر بیان ہوئی ہے. امام صادق(ع) نے “حی علی خیر العمل” کے متعلق سوال کے جواب میں فرمایا: بہترین عمل ولایت ہے اور ایک اور خبر میں آیا ہے کہ بہترین عمل حضرت فاطمہ(س) اور انکے فرزندوں کے ساتھ نیکی کرنا ہے. [12]

اہل تشیع کا نعرہ

ابن نباح جو حضرت علی(ع) کا موذن تھا. اس نے اپنی اذان میں “حی علی خیر العمل” بیان کی اور حضرت علی(ع) نے اس کے اس کام کی تعریف کی. [13]

امامیہ، اسماعیلیہ اور زیدیہ، اس جملے کو کسی قیام یا اجتماعی تحریک میں شعر کے عنوان سے استعمال کرتے تھے.

سن ١٦٩ق میں جب مدینہ کے حاکم نے صبح کی اذان میں “حی علی خیر العمل” کے جملے کو سنا، تو متوجہ ہوا کہ حسین بن علی (شہید فخ) نے قیام کیا ہے لہذا مدینہ سے بھاگ گیا.[14]

اسماعیلیوں نے مصر میں داخل ہو کر “حی علی خیر العمل” کو اذان میں اضافہ کیا [15] اور یہ جملہ وہاں پر سیاسی حیثیت رکھنے لگا صلاح الدین ایوبی نے مصر میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اذان سے اس جملے کو ختم کیا اور اس کے بعد فاطمی خلفاء کا نام خطبوں سے ختم کیا اور حکم دیا کہ عباسی خلیفہ کے نام سے خطبہ پڑھیں. [16]

سنہ ٤٤١ق میں بغداد کے محلہ کرخ میں مذاہب کے درمیان نااتفاقیاں پیش آئیں اور شیعیوں نے اذان میں “حی علی خیر العمل” کہا.[17] سنہ٤٤٨ق میں جب عباسی خلیفہ کی طاقت پہلے سے زیادہ ہو گئی تو اس نے حکم دیا کہ “حی علی خیر العمل” کو ختم کر کے اس کی جگہ “الصلاۃ خیر من النوم” اضافہ کیا جائے. [18]

اولجایتو نے مذہب تشیع کی طرف رجحان کے بعد حکم دیا کہ “حی علی خیر العمل” کو اذان میں واپس لوٹایا جائے. [19]

یہ جملہ زیدی مذہب کا نعرہ بھی تھا. [20]

حوالہ جات

  1. مقدسی، أحسن التقاسیم، ۱۳۶۱ش، ج‌۱، ص۳۴۱.
  2. سید مرتضی، الانتصار فی انفرادات الإمامیۃ، ۱۴۱۵ق، ص۱۳۷.
  3. صدوق، من لایحضره الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج‌۱، ص۲۹۰.
  4. طوسی،تہذیب الأحکام، ۱۴۰۷ق، ج‌۲، ص۵۹.
  5. سنن بیہقی، ج۱، ص۴۲۴؛ الموطأ، ج۱، ص۱۶۳، ح ۹۲
  6. سنن بیہقی، ج۱، ص۴۲۴.
  7. سنن بیہقی، ص۴۲۵
  8. الموطأ، ج۱، ص۱۶۱، ح ۹۱
  9. وہی، ص۱۶۳، ح ۹۲
  10. صدوق، علل الشرائع، ۱۳۸۵ش، ج‌۲، ص۳۶۸.
  11. صدوق، علل الشرائع، ۱۳۸۵ش، ج‌۲، ص۳۶۸.
  12. معانی الأخبار، النص، ص: ۴۱
  13. صدوق، من لایحضره الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج‌۱، ص۲۸۸.
  14. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دارالمعرفۃ، ص۳۷۵.
  15. ابن خلدون، دیوان المبتدأ و الخبر فی تاریخ العرب، ۱۴۰۸ق، ج‌۴، ص۶۱.
  16. ابن کثیر، البدایۃوالنہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج‌۱۲، ص۲۶۳.
  17. الذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۱۳ق، ج‌۳۰، ص۶.
  18. ابن الاثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج‌۹، ص۶۳۲.
  19. تاریخ اولجایتو، صص ۹۹ -۱۰۲
  20. تاریخ الإسلام،ج‌۴۴، ص:۳۶۰

ماخذ

  • طوسی، محمد بن حسن،تہذیب الأحکام (تحقیق خرسان)،‌ تہران،‌دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق.
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الانتصار فی انفرادات الإمامیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۵ق.
  • بیہقی، سنن بیہقی،المکتبۃ الشاملۃ.
  • الموطأ، المکتبۃ الشاملۃ.
  • حسینی شیرازی، محمد، القول السدید فی شرح التجرید،‌ قم،‌دار الایمان، ۱۴۱۰ق.
  • صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، قم، انتشارات داوری، ۱۳۸۵ش.
  • ابوالفرج اصفہانی، علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، تحقیق سید احمد صقر، بیروت،‌دار المعرفۃ، بی‌تا.
  • ابن الأثیر، علی بن أبی الکرم، الکامل فی التاریخ، بیروت،‌دار صادر -‌دار بیروت، ۱۳۸۵/۱۹۶۵.
  • الذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، تحقیق عمر عبد السلام تدمری، بیروت،دار الکتاب العربی، ط الثانیۃ، ۱۴۱۳/۱۹۹۳.
  • ابن خلدون، عبدالرحمن بن محمد، دیوان المبتدأ و الخبر فی تاریخ العرب و البربر و من عاصرہم من ذوی الشأن الأکبر، تحقیق خلیل شحادۃ، بیروت،‌دار الفکر، ط الثانیۃ، ۱۴۰۸/۱۹۸۸.
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النهایۃ، بیروت،دار الفکر، ۱۴۰۷/ ۱۹۸۶.
  • مقدسی، محمد بن احمد، أحسن التقاسیم فی معرفۃ الأقالیم، ترجمہ علینقی منزوی، تہران، شرکت مؤلفان و مترجمان ایران، چ اول، ۱۳۶۱ش.
تبصرے
Loading...