حضرت مریم

کوائف
نام: مریم بنت عمران
لقب: عذراء (پاکدامن)‌، بتول
مشہور اقارب: حضرت عیسی اور حضرت زکریا
وجہ شہرت: حضرت عیسی کی والدہ
پیدائش: 20 سال قبل از میلاد
وفات: سنہ 35ء

مریم بنت عمران حضرت عیسی کی والدہ ماجدہ ہیں جو معجزانہ طور پر حاملہ ہو گئی یوں حضرت عیسی کی ولادت ہوئی۔

قرآن میں سورہ مریم میں آپ کی زندگی پیدائش سے لے کر حضرت عیسی کی ولادت تک کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ شیعہ اور اہل سنت احادیث میں حضرت مریم کو فاطمہ زہرا(س)، حضرت خدیجہ اور حضرت آسیہ کے ساتھ چار بہشتی خواتین میں شمار کئے جاتے ہیں۔

زندگی نامہ

عیسائی منابع نیز قرآن و احادیث میں حضرت مریم کی زندگی کے بارے میں مختصر مطالب موجود ہیں۔

نسب، القاب، پیدائش

آپ کے والد کا نام عیسائی منابع میں “یواقیم”[1] جبکہ قرآن[2] اور اسلامی احادیث میں “عمران” ذکر ہوا ہے۔ امام باقرؑ سے مروی ایک حدیث میں آیا ہے کہ “عمران” بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے تھے۔[3] ابن اسحاق کے مطابق آپ کا نسب حضرت داوود تک پہنچتا ہے۔[4] عمران حضرت مریم کی ولادت سے پہلے فوت ہوئے۔[5]
آپ کی والدہ کا نام “حنۃ بنت فاقود” بتایا گیا ہے۔[6]

عیسائی منابع میں آپ کے مختلف القاب متعددی ذکر ہوئے ہیں جن میں “جدید حوا”، “مقدس باکرہ”، مادر خدا، شفیعہ، مادر فیض الہی، قرارگاہ حکمت، آوند روحانی، “پر اسرار گلاب”، صندوق عہد، ملکہ فرشتگان اور “مصیبتوں کی شہزادی” شامل ہیں۔[7]

اسلامی منابع میں بھی آپ کو “عذراء” (پاکدامن)‌ اور “بتول” کے القاب سے یاد کئے جاتے ہیں۔[8]

آپ کی ولادت کے بارے میں کہا جاتا کہ آپ حضرت عیسی کی ولادت سے 20 سال قبل پیدا ہوئی لیکن آپ کی محل ولادت کے بارے میں کوئی معبر ذرایع موجود نہیں ہیں۔[9]

معبد کی خدمت

بیروت سے 20 کیلو میٹر کے فاصلے پر کوہ حریصا کے اوپر حضرت مریم کا مجسمہ اور چاروں کلیسا

منابع میں آیا ہے کہ حضرت مریم کی والدہ “حنہ” عقیم تھی اور تیس سال کی عمر تک[10] ان کے یہاں کوئی بچہ ­نہیں ہوا۔ اس وقت انہوں نے خدا کی بارگاه میں اوالد کی دعا کی۔ ان کی دعا مستجاب ہوئی اور وہ حاملہ ہو گئی انہوں نے شکرانے میں انہوں نے اپنے فرزند کو بیت‌المقدس کی خدمت پر مامور کرنے کی نذر کی۔ سورہ آل عمران کی آیت نمیر 35 سے 37 تک میں اس واقعے کا ذکر آیا ہے۔

حضرت مریم کی ولادت کے بعد ان کی ماں نے اپنی نذر کے مطابق حضرت مریم کو معبد لے گئی اور کاہنوں کے سپرد کیا۔ کاہنوں میں حضرت مریم کی سرپرستی کے حوالے سے اختلاف ایجاد ہوا تو انہوں نے قرعہ نکالا تو حضرت زکریا کا نام نکل آیا جو ایک قول کی بنا پر حضرت مریم کی خالہ کا شوہر بھی تھے،[11] قرآن میں قرعہ نکالے جانے کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔[12] کہا جاتا ہے کہ حضرت زکریا نے حضرت مریم کی شیرخوارگی اور تربیت کے لئے مقدمات فراہم کئے اور جب بڑی ہو گئی تو معبد میں ان کے لئے ایک مخصوص جگہ بنائی گئی جہاں حضرت مریم عبادت کیا کرتی تھیں۔[13] اور جب اپنی نوبت آتی تو معبد کی خدمت انجام دیتی تھیں۔ حضرت مریم عبادت میں اس مقام تک پہنچ گئی تھی بنی اسرائیل اس سلسلے میں آپ کی مثال دی جاتی تھی۔[14]

حضرت عیسی کی ولادت

حضرت عیسی کی ولادت کی داستان قرآن میں سورہ آل عمران آیت نمبر ۴۵-۴۷ اور ۵۹ نیز سورہ مریم کی آیت نمبر ۱۶-۳۶ میں ذکر ہوئی ہے۔ قرآن مجید سے جو چیز سامنے آتی ہے اس کے مطابق خدا کی طرف سے ایک فرشتہ انسانی شکل میں حضرت مریم کے سامنے ظاہر ہو جاتا ہے اور آپ کو اولاد کی بشارت دیتا ہے:

“پس ہم نے اس کی طرف اپنی جانب سے روح (یعنی فرشتہ) کو بھیجا تو وہ اس کے سامنے ایک تندرست انسان کی صورت میں نمودار ہوا۔ حضرت مریم‌ نے کہا: “اگر تو پرہیزگار آدمی ہے تو میں تجھ سے خدائے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں۔” فرشتے نے کہا: “میں تو تمہارے پروردگار کا فرستادہ ہوں تاکہ تمہیں ایک پاکیزہ لڑکا دوں۔” حضرت مریم نے کہا: “میرے ہاں لڑکا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ کسی بشر نے مجھے چھوا تک نہیں ہے اور نہ ہی میں بدکردار ہوں؟” فرشتے نے کہا: “ونہی ہے (مگر) تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے وہ کام میرے لئے آسان ہے۔ اور یہ اس لئے بھی ہے کہ ہم اسے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) ایک نشانی قرار دیں اور اپنی طرف سے رحمت اور یہ ایک طے شدہ بات ہے۔”[15]

انجیل لوقا میں مذکورہ بالا عبارت سے مشابہ عبارت میں اس واقعے کو یوں بیان کیا ہے:

“خدا کی جانب سے… بھیجا گیا ہوں، ایک باکرہ لڑکی کی طرف… اس باکره لڑکی کا نام حضرت مریم‌ تھا۔ پس فرشتہ ان کے یہاں آیا اور کہا:…‌اے مریم! خوف محسوس مت کرو، کیونکہ تو خدا کے یہاں نعمتوں سے بہرہ مند ہو اور تم حاملہ ہو گی اور ایک لڑکا تجھ سے پیدا ہو گا جی کا نام عیسی‌ ہو گا… مریم نے فرشتے سے کہا: یہ کیسے ممکن ہے حالانکہ میں آج تک کسی مرد کو پہنچانتی تک نہیں ہوں؟ فرشتے نی کہا: روح القدس آپ پر نازل ہونگے اور خدا کی قدرت تجھ پر سایہ کرے گی…»[16]

حضرت مریم کتنی مدت تک حاملہ رہی اس حوالے سے مختلف اقوال موجود ہیں جن میں کئی گھنٹوں سے کئی مہینوں تک کا ذکر آیا ہے۔[17]
حضرت مریم کھجور کے ایک خشک درخت کے پاس وضع حمل کرتی ہیں پھر اس درخت کو ہلاتی ہے تو معجزے سے وہ درخت سرسبز ہو کر پھل دیتا ہے۔ حضرت مریم تازہ پکے ہوئے کھجوروں کو تناول کرتی ہیں۔ ان کی قوم کے ساتھ ملاقات کے وقت آپ خدا کے امر سے سکوت اختیار کرتی ہیں[18] جب حضرت مریم، حضرت عیسی کو اپنی قوم کے پاس لے جاتی ہیں تو ان کی طرف سے سرنش کی جاتی ہے، اس وقت حضرت عیسی گویا ہو جاتا ہے اور اپنی نبوت کی خبر دیتا ہے۔[19]

شادی یا باکرہ

حضرت عیسی کی ولادت کے بعد حضرت مریم نے یوسف نجار جو آپ کا خواستگار تھا، سے شادی کی تھی یا نہیں اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے اسی وجہ سے حضرت عیسی کے علاوہ آپ کی کوئی اور اولاد ہونے اور نہ ہونے میں بھی اختلاف ہے۔ انجیل‌ لوقا[20] اور متی[21] میں حضرت عیسی کے بہن بھائیوں کا تذکرہ آیا ہے۔ یہاں تک کہ انجیل مرقس[22] میں آپ کے بھائیوں کا نام اور بہنوں کا تذکرہ بھی آیا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود بعض عیسائیوں نے ان باتوں کو رد کیا ہے اور کلیسا نے بھی پانچویں صدی عیسوی کے بعد سے حضرت مریم کے باکرہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ حضرت مریم نے یوسف نجار سے کبھی شادی نہیں کی تھی۔[23] کیتھولک اور اوتھوڈکس کلیسا کتاب مقدس میں حضرت عیسی کے بہن بھائیوں سے آپ کے قریبی رشتہ دار مراد لیتے ہیں۔[24]

بعض کہتے ہیں کہ اسلامی منابع کے مطابق چونکہ حضرت مریم معبد کی خدمت کے لئے وقف تھی لہذا سوائے ضروری کاموں جیسے حضرت عیسی کی وضع حمل وغیرہ کے معبد سے باہر نہیں نکلتی تھی اس بنا پر آپ کی شادی کی داستان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔[25]

وفات یا آسمان پر صعود

عیسائیوں ہمیشہ اس بات کے معتقد تھے کہ حضرت مریم آسمان پر صعود کر گئی ہے اور یہ عقیدہ رفتہ رفتہ ان کے عمومی اعتقادات میں شامل ہو گئی ہے یہاں تک کہ بیسویں صدی عیسوی میں یہ بات کیتھولک کلیسا کے بنیادی اعتقادات میں شمار ہونے لگی ہے۔[26] اورتھوڈکس کلیسا بھی اس نظریے کو قبول کرتے ہیں؛ لیکن پروٹسٹان کلیسا اس نظریے کو قبول نہیں کرتے۔[27]

بعض عیسائی منابع میں حضرت مریم کی تاریخ وفات تقریبا ۳۵ء [28] اور آپ کی عمر ۵۱ سال بتایا جاتا ہے۔[29] آپ کا محل دفن معلوم نہیں ہے۔

کافی میں ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضرت مریم حضرت عیسی کے آسمان پر جانے سے پہلے وفات پا گئی تھی اور خود حضرت عیسی نے آپ کی غسل و کفن کا بندوبست کیا تھا۔[30]

مقام

حضرت مریم کو اسلام اور مسیحیت میں ایک مقدس اور خاص مقام حاصل ہے:

اسلام میں آپ کا مقام

قرآن میں حضرت مریم کو ایک پاکدامن اور تمام خواتین میں برگزیدہ خاتون [31] اور آپ کو مومنین کے لئے نمونہ قرار دیتے ہیں۔[32] قرآنی آیات کے مطابق حضرت مریم کئی بار فرشتوں سے ہمکلام ہوئے ہیں۔[33]

اس طرح قرآن حضرت مریم کی پرورش کو بھی خدا کی طرف نسبت دیتے ہیں:

“تو اس کے پروردگار نے اس لڑکی (مریم) کو احسن طریقہ سے قبول فرما لیا۔ اور اچھی طرح اس کی نشوونما کا انتظام کیا (یعنی) جناب زکریا کو اس کا کفیل (اور سرپرست) بنایا۔ جب بھی زکریا محرابِ عبادت میں اس (مریم) کے پاس آتے تھے تو اس کے پاس کھانے کی کوئی چیز موجود پاتے۔ (اور) پوچھتے: اے مریم! یہ تمہارے پاس کہاں سے آیا ہے؟ وہ جواب دیتی۔ یہ خدا کے یہاں سے آیا ہے۔ بے شک خدا جسے چاہتا ہے اسے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔”[34] [نوٹ 1]

مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت مریم کے لئے سردیوں میں گرمیوں کے میوہ جات اور گرمیوں میں سردیوں کے میوہ جات فراہم تھے۔[35]

شیعہ اور اہل سنت احادیث میں حضرت مریم کا نام حضرت فاطمہ زھرا، حضرت خدیجہ اور حضرت آسیہ کے ساتھ چار بہشتی برگزیدہ خواتین میں ذکر کیا گیا ہے۔[36]

مسیحیت میں آپ کا مقام

عیسائی عقیدہ اولوہیت میں حضرت مریم کو ایک خاص مقام حاصل ہے یہاں تک کہ ان کے عقیدہ الوہیت کا ایک حصہ مریولوجی (Mariology) کے نام سے موجود ہے جس میں حضرت مریم کی شخصیت اور آپ کے مقام و منزلت سے بحث کرتے ہے۔

حضرت مریم کی شخصیت پر قرون وسطی سے زیادہ اہمیت دینا شروع ہوا۔ اس دوران حضرت مریم کو الوہیت سے نیچے اور فرشتوں اور دیگر مقدس ہستیوں سے اوپر کا مقام دیا گیا۔ اس دور میں عام مسیحیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ فرشتے اور دیگر مقدس ہستیاں حضرت مریم کے خدمتگزار ہیں۔[37]

اس کے علاوہ بعض مقامات من جملہ جزیرۃ العرب کے عیسائی تثلیث کے قائل تھے اور خدا اور حضرت عیسی کے ساتھ حضرت مریم کی بے پرستش کرتے تھے۔[38] کہا جاتا ہے کہ سولہویں صدی عیسوی تک یورپ کے بعض شہروں میں بھی باکرہ مریم کی پرستش کی جاتی تھی۔[39] قرآن میں عیسائیوں کے اس عقیدے کی مذمت کی گئی ہے۔[40]

اسی طرح قرون وسطی میں حضرت مریم کی عصمت کا مسئلہ مطرح ہوا اور سنہ ۱۸۵۴ء کو کیتھولک کلیسا نے اس عقیدے کو ایک خطا ناپذیر عقیدے کے عنوان سے قبول کر لیا۔[41] لیکن اورتھوڈکس کلیسا حضرت مریم کی عصمت کے منکر ہیں۔[42]

ادب و فنون میں حضرت مریم کا تذکرہ

مریم مقدس فلم کا ایک منظر
  • مریم مقدس فلم: اس فلک کے ہدایتکار “شہریار بحرانی” ہیں جو سنہ ۱۳۷۹ شمسی میں بنائی گئی۔ اس فلم میں حضرت مریم کی ولادت سے حضرت عیسی کی ولادت تک حضرت مریم کی زندگی اور آپ کی زندگی میں حضرت زکریا کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس فلم میں تقریبا 90 سے زیادہ فنکاروں نے اپنی فنکاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس فلم میں “شبنم قلی خانی” نے حضرت مریم روپ میں فنکاری کی ہیں۔[43] بعد میں اس فلم کو 11 قسطوں میں ٹی وی سیریل کی شکل میں بھی براڈکاشٹ کی گئی ہے جس میں حضرت مریم کی زندگی کے ساتھ ساتھ یہودیوں کی دینی اور سماجی حالات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔[44]
  • حضرت مریم کا تذکرہ فارسی اشعار میں: فارسی کے بہت سارے اشعار میں حضرت مریم کی معجزہ آسا حاملگی اور آپ کی پاکدامنی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ مثنوی “روح القدس کا انسانی شکل میں حضرت مریم کے پاس آنے کی منظوم تصویر کشی کی گئی ہے…” “دیوان شمس” میں بھی کی بار حضرت مریم کی طرف اشارہ ہوا ہے من جملہ یہ کہ:

مریمِ دل نشود حاملِ انوار مسیح تا امانت ز نهانی به نهانی نرسد

ما را چو مریم بی‌سبب، از شاخ خشک آید رطب ما را چو عیسی بی‌طلب، در مهد آید سروری

اسی طرح نظامی، عطار، سنایی اور دیگر شاعروں نے بھی حضرت مریم کا نام اپنے اشعار کی زینت قرار دئے ہیں۔[45]

حوالہ جات

  1. The Protevangelium Of James-The gospel Of Pseudo-Matthew
  2. سورہ آل عمران، ۳۵
  3. مجلسی، بحار الأنوار،(۱۴۰۳ق)، ج۱۴، ص۲۰۲
  4. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۲، ص۵۶
  5. مقدسی، البدء و التاریخ، ج۳، ص۱۱۹
  6. تاریخ طبری، (۱۳۸۷ق)، ج۱، ص۵۸۵ ؛ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، (دار الفکر)،‌ ج۲، ص۵۶
  7. – K. Flinn, Frank, Encyclopedia of Catholicism, p.444
  8. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، (دار المعرفۃ)، ج۱، ص۳۳۷
  9. – K. Flinn, Frank, Encyclopedia of Catholicism, p.441
  10. تاریخ ابن‌ خلدون، ج۱، ص۱۵۹
  11. مجلسی، بحار الأنوار، (۱۴۰۳ق)، ج۱۴، ص۲۰۲، ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۲، ص۵۸
  12. آل عمران، ۴۴
  13. مقدسی، البدء و التاریخ، ج۳، ص۱۱۹
  14. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۲، ص۵۸
  15. سوره مریم، آیه۱۷- ۲۱.
  16. لوقا، ۱: ۲۷- ۳۴۔
  17. مجلسی، بحار الأنوار، (۱۴۰۳ق)، ج۱۴، ص۲۲۵
  18. علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، ج۲، ص۴۹
  19. مزید مطالعے کے لئے رجوع کریں: میرعبداللہی، تولد عیسی در قرآن، صحیفہ مبین، شمارہ ۵، ص۵۳-۶۳
  20. ۸، ۱۹-۲۰
  21. ۱۲، ۴۶-۴۷
  22. ۶، ۳
  23. Cross, F. L. (ed.), The Oxford dictionary of the Christian Church, p.1047
  24. میشل، توماس، کلام مسیحی، ترجمہ حسین توفیقی، ص۶۷
  25. دفتر آیت اللہ مکارم آفیشل ویب سائٹ
  26. Britannica Encyclopedia of World Religions, p.696
  27. مولند، اینار، جہان مسیحیت، ترجمہ محمد باقر انصاری و مسیح مہاجری، ص۱۸۰
  28. – K. Flinn, Frank, Encyclopedia of Catholicism, p.441
  29. غریغوریوس ملطی، تاریخ مختصرالدول، ص۶۶
  30. کلینی، الکافی، (۱۳۶۲ش.)، ج۱، ص۴۵۹
  31. آل عمران، آیت ۴۲
  32. سورہ تحریم، آیت ۱۲
  33. آل عمران، آیت ۴۵
  34. سورہ آل عمران، ۳۷
  35. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۲، ص۵۸
  36. ابن عبدالبر، الاستیعاب، (۱۴۱۲ق.)،‌ ج۴، ص۱۸۲۳؛ مجلسی، بحار الأنوار،(۱۴۰۳ق)، ج۸، ص۱۷۸
  37. – K. Flinn, Frank, Encyclopedia of Catholicism, p.442
  38. مونتگمری وات، ویلیام، برخورد آرای مسلمانان و مسیحیان، ترجمہ محمدحسین آریا، ص۳۹
  39. لین، تونی، تاریخ تفکر مسیحی، ترجمہ روبرت آسریان، ص۲۷۷
  40. سورہ مائدہ، ۱۱۶
  41. K. Flinn, Frank, Encyclopedia of Catholicism, p.442
  42. مولند، اینار، جہان مسیحیت، ترجمہ محمد باقر انصاری و مسیح مہاجری، ص۵۳
  43. سورہ سینما
  44. جام جم،مروری بر سریال تلویزیونی مریم مقدس، بازدید،۱۳۸۰/۱۱/۹
  45. گنجور
  1. فَتَقَبَّلَهَا رَ‌بُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَکفَّلَهَا زَکرِ‌یا ۖ کلَّمَا دَخَلَ عَلَیهَا زَکرِ‌یا الْمِحْرَ‌ابَ وَجَدَ عِندَهَا رِ‌زْقًا ۖ قَالَ یا مَرْ‌یمُ أَنَّیٰ لَک هَٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ یرْ‌زُقُ مَن یشَاءُ بِغَیرِ‌ حِسَابٍ. سورہ آل‌عمران، آیت ۳۷

مآخذ

  • قرآن کریم
  • انجیل‌ہای لوقا و مرقس و متی
  • ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت،‌دار الفکر، بی‌تا
  • ابن عبد البر، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت،‌دار الجیل، ۱۴۱۲ق۔
  • ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، بیروت،‌دار المعرفۃ
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، دوم، بیروت، دارالتراث، ۱۳۸۷ق
  • غریغوریوس ملطی(ابن عبری)، تاریخ مختصر الدول، تحقیق انطون صالحانی یسوعی، سوم، بیروت، دارالشرق، ۱۹۹۲م۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم،‌دار الکتاب، ۱۴۰۴ق
  • کلینی، الکافی، دوم، تہران، اسلامیۃ، ۱۳۶۲ش۔
  • لین، تونی؛ تاریخ تفکر مسیحی؛ ترجمہ روبرت آسریان، انتشارات فرزان، ۱۳۸۰ش
  • مجلسی، بحار الأنوار، بیروت،‌دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بور سعید، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ،بی تا۔
  • مولند، اینار؛ جہان مسیحیت؛ ترجمہ محمد باقر انصاری و مسیح مہاجری، دوم، انتشارات امیر کبیر، ۱۳۸۱ش۔
  • مونتگمری وات، ویلیام، برخورد آرای مسلمانان و مسیحیان، ترجمہ محمدحسین آریا، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ۱۳۷۳ش۔
  • میشل، توماس، کلام مسیحی، ترجمہ حسین توفیقی، سوم، قم، انتشارات دانشگاہ ادیان و مذاہب، ۱۳۸۷ش
  • K۔ Flinn, Frank, Encyclopedia of Catholicism Facts on File, New York, 2007
  • Cross, F۔ L۔ (ed۔), The Oxford dictionary of the Christian Church, Oxford, 1997, 3rd ed۔
  • Britannica Encyclopedia of World Religions, Encyclopedia Britannica INC, 2006
تبصرے
Loading...