حدیث وصایت

حدیث وصایت رسول اکرم کی وہ حدیث ہے جس میں آپ نے حضرت علیؑ کو اپنا وصی اور جانشین مقرر فرمایا ہے۔ شیعہ اور اہل سنت مصادر و مآخذ میں یہ حدیث مختلف الفاظ کی صورت میں بیان ہوئی ہے۔ ان میں سے سب سے مشہور تعبیر لِكُلِّ نَبِيٍّ وَصِيٌّ وَ وَارِثٌ وَ إِنَّ عَلِيّاً وَصِيِّي وَ وَارِثِي‏ ہے جسے بریدہ بن حصیب نے رسول اللہ سے نقل کیا ہے۔

اس مضمون میں شامل موضوعات

متن

حدیث وصایت شیعہ اور سنی مصادر جیسے فضائل الصحابہ ابن حنبل،[1] مناقب ابن مغازلی،[2] المعجم الکبیر طبرانی،[3] تاریخ مدینہ دمشق،[4] مناقب خوارزمی،[5] الکامل جرجانی،[6] تذکرۃ الخواص،[7] کفایۃ الأثر،[8] من لا یحضرہ الفقیہ،[9] دلائل الإمامۃ،[10] مناقب ابن شہر آشوب[11] و بحارالانوار[12] میں مذکور ہے۔ عبداللہ بن بریدہ عبارت لِكُلِّ نَبِيٍّ وَصِيٌّ وَ وَارِثٌ وَ إِنَّ عَلِيّاً وَصِيِّي وَ وَارِثِي‏ نے اسے رسول اکرم سے نقل کیا ہے۔[13] سلمان فارسی نے رسول اللہ سے انکے وصی کے متعلق استفسار کیا تو آپ نے جواب دیا: میرا وصی اور وارث وہ ہے جو میرا قرض ادا کرے گا اور میرے وعدوں پر عمل کرے گا اور وہ علی بن ابی‌ طالب ہیں۔[14][نوٹ 1]

ایک اور روایت میں علی بن علی ہلالی اپنے باپ سے نقل کرتا ہے: پیغمبر نے سیدہ زہرا سے مخاطب ہو کر فرمایا:وَصِيِّي خَيْرُ الْأَوْصِيَاءِ وَ أَحَبُّہُمْ إِلَى اللَّہِ وَ ہُوَ بَعْلُكِ[15] میرا وصی اوصیا میں سے بہترین وصى، ان میں سے خدا کا محبوب ترین ہے اور وہ تمہارا شوہر ہے۔

مضمون

حدیث وصایت کا مضمون خلافت علی اور ان کی جانشینی سے متعلق ہے۔ شیعہ علما اسے علی بن ابی طالب کی امامت کے دلائل میں سمجھتے ہیں؛ وہ حدیث میں وصایت کو جانشنی کے معنا میں سمجھتے ہیں اور وہ معتقد ہیں کہ رسول اللہ نے اس حدیث کے مطابق حضرت علی کو اپنا جانشین مقرر کیا ہے۔[16] لیکن بعض اہل سنت علما اسے خلافت کے معنا میں نہیں سمجھتے بلکہ اس معنا میں سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ اپنے خاندان کے بارے میں حضرت علی کو سفارش کی تھی۔[17] اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے حضرت علی کو کسی قید و شرط کے بغیر اپنا وصی قرار دیا ہے اور کوئی ایسا قرینہ یہاں موجود نہیں ہے کہ جو ان کے خاندان سے مقید ہونے پر دلالت کرتا ہو۔ [18] حمدی بن عبدالمجید سلفی نے المعجم الکبیر کے تحقیقی نسخے میں کہا ہے کہ اگر حدیث کی سند صحیح ہوتی تو وہ خلافت اور جانشینی کے مسئلے پر دلالت کرتی ہے۔[19]

سند

حدیث وصایت مختلف اسناد کے ساتھ بریدہ،[20] سلمان،[21]ابو ایوب انصاری اور انس بن مالک[22] سے اہل سنت کے مآخذ میں مروی ہے۔ تذکرۃ الخواص کے مصنف سبط بن جوزی نے سلمان کی روایت کو دو اسناد سے نقل کیا ہے اور فضائل الصحابہ میں مذکور سند کو صحیح سمجھتا ہے۔[23]

اہل سنت کے ابن جوزی،[24] جلال الدین سیوطی[25] اور ہیثمی[26] جیسے علما اس حدیث کے سلسلۂ سند میں محمد بن حمید رازی یا علی بن مجاہد واقع ہونے کی وجہ سے تردید رکھتے ہیں اور اسے قبول نہیں کرتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں سید علی میلانی کہ کہنا ہے کہ محمد بن حمید صحاح ستہ کے راویوں میں سے ہے اور ثقہ ہے۔[27] اسی طرح صحاح ستہ میں سے سنن ترمذی کے مصنف نے اور احمد بن حنبل نے علی بن مجاہد سے روایت نقل کی ہے۔ [28]

حوالہ جات

  1. ر.ک. سبط بن جوزی، تذکرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق، ص۴۸.
  2. ابن مغازلی، مناقب علی بن ابی‌طالب، ۱۴۲۶ق، ص۱۶۷.
  3. طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۵ق، ج۶، ص۲۲۱.
  4. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۴۲، ص۳۹۲.
  5. خوارزمی، المناقب، ۱۴۱۴ق، ص۸۵.
  6. جرجانی، الکامل، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۱۴.
  7. سبط بن جوزی، تذکرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق، ص۴۸.
  8. خزاز رازی، کفایۃ الأثر، ۱۴۰۱ق، ص۸۰
  9. صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۱۸۰
  10. طبری آملی، دلائل الإمامۃ، ۱۴۱۳ق، ص۹۰
  11. ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۱۸۸، ج۳، ص۶۶.
  12. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۸، ص۱۵۴-۳۳۹.
  13. ابن مغازلی، مناقب علی بن ابی‌ طالب، ۱۴۲۶ق،ص۱۶۷؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۴۲، ص۳۹۲؛ خوارزمی، المناقب، ۱۴۱۴ق، ص۸۵؛ جرجانی، الکامل، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۱۴؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۱۸۸، ج۳، ص۶۶؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۸، ص۱۵۴-۳۳۹.
  14. طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۵ق، ج۶، ص۲۲۱؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۸، ص۱۲.
  15. ہیثمی، مجمع الزوائد، ۱۴۰۸ق، ج۹، ص۱۶۵؛ طبرانی، المعجم الاوسط، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۳۲۷؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۴۲، ۱۴۱۵ق، ص۱۳۰؛ طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۴ق، ج۳، ص۵۸.
  16. مراجعہ کریں: استرآبادی، البراہین القاطعہ، ۱۳۸۲ش، ج۳، ص۲۴۴.
  17. طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۵ق، ج۶، ص۲۲۱.
  18. پایگاہ شمیم شیعہ، نص حدیث وصایت و بررسی سند آن، بازبینی: ۱۳ تیر ۱۳۹۶.
  19. طبرانی، المعجم الکبیر، ج۶، ص۲۲۱.
  20. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۴۲، ص۳۹۲؛ خوارزمی، المناقب، ص۸۵؛ جرجانی، الکامل، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۱۴.
  21. طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۵ق، ج۶، ص۲۲۱.
  22. سبط بن جوزی، تذکرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق، ص۴۸.
  23. سبط بن جوزی، تذکرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق، ص۴۸.
  24. ابن جوزی، الموضوعات، ۱۳۸۶ق، ج۱، ص۳۷۶.
  25. سیوطی، اللالی المصنوعہ فی احادیث الموضوعہ، دارالمعرفہ، ج۱، ص۳۵۸ بنقل از پایگاہ شمیم شیعہ، نص حدیث وصایت و بررسی سند آن، بازبینی: ۱۳ تیر ۱۳۹۶.
  26. ہیثمی، مجمع الزوائد، ۱۴۰۸ق، ج۹، ص۱۶۵.
  27. میلانی، تشیید المراجعات و تفنید المکابرات، ۱۴۲۷ق، ج۳، ص۴۳۰-۴۳۱.
  28. پایگاہ شمیم شیعہ، نص حدیث وصایت و بررسی سند آن، بازبینی: ۱۳ تیر ۱۳۹۶.
  1. قلت یا رَسُولَ اللَّہِ لِکُلِّ نَبِیٍّ وَصِیٌّ فَمَنْ وَصِیُّکَ؟ قال فإن وصیی وَ مَوْضِعُ سِرِّی وَ خَیْرُ من أَتْرُکُ بَعْدِی وَ یُنْجِزُ عِدَتِی وَ یَقْضِی دَیْنِی عَلِیُّ بن أبی‌طَالِبٍ۔ (طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۵ق، ج۶، ص۲۲۱.)

مآخذ

  • ابن جوزی، الموضوعات، تحقیق: عبدالرحمن محمد عثمان، مدینہ، المکتبۃ السلفیہ، ۱۳۸۶ق/۱۹۶۶ء۔
  • ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب علیہم‌السلام، علامہ، قم، ۱۳۷۹ھ۔
  • ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، تحقیق: علی شیری، دارالفکر، بیروت، ۱۴۱۵ھ۔
  • ابن مغازلی، مناقب علی بن ابی‌طالب(ع)، انتشارات سبط النبی (ص)، ۱۴۲۶ق-۱۳۸۴شمسی ہجری۔
  • استرآبادی، محمدجعفر، البراہین القاطعہ فی شرح تجرید العقائد الساطعہ، تحقیق: مرکز مطالعات و تحقیقات اسلامی، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، ۱۳۸۲شمسی ہجری۔
  • جرجانی، عبداللہ بن عدی، الکامل، تحقیق: یحیی مختار غزاوی، دارالفکر، بیروت، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۸ء۔
  • خزاز رازی، علی بن محمد، کفایۃ الأثر فی النص علی الائمۃ الإثنی عشر، تحقیق عبداللطیف حسینی کوہکمری، قم، نشر بیدار، ۱۴۰۱ھ۔
  • خوارزمی، موفق، المناقب، تحقیق: مالک محمودی، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۱۴ھ۔
  • سبط بن جوزی، تذکرۃ الخواص، قم، منشورات الشریف الرضی، ۱۴۱۸ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، تصحیح و تحقیق علی اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین قم، ۱۴۱۳ھ۔
  • طبرانی، المعجم الاوسط، تحقیق: قسم التحقیق بدارالحرمین، دارالحرمین للطباعہ و النشر و التوزیع، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵ء۔
  • طبرانی، المعجم الکبیر(ج۶)، تحقیق: حمدی عبدالمجید سلفی، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵ء۔
  • طبرانی، المعجم الکبیر(ج۳)، تحقیق: حمدی عبدالمجید سلفی، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ق/۱۹۸۴ء۔
  • طبری آملی صغیر، محمد بن جریر بن رستم، دلائل الإمامۃ، قم، نشر بعثت، چاپ اول، ۱۴۱۳ھ۔
  • ہیثمی، مجمع الزوائد، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۸ء۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ھ۔
  • میلانی، سید علی، تشیید المراجعات و تفنید المکابرات، قم، مرکز الحقائق الاسلامیہ، ۱۴۲۷ھ۔
تبصرے
Loading...