تہذیب الاحکام (کتاب)

تہذیب الاحکام (کتاب)

تہذیب الاحکام شیخ الطائفہ کے لقب سے مشہور ابو جعفر محمد بن حسن طوسی (د۴۶۰ق /۱۰۶۸م) کے حدیثی مجموعے کا نام ہے ۔اس کتاب کو امامیہ کی کتب اربعہ میں سے شمار کیا جاتا ہے ۔شیخ طوسی نے اسے الاستبصار سے پہلے لکھا۔اس مجموعے میں صرف فقہی احکام سے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں۔

تعارف

تہذیب الاحکام کو شیعہ مسلک کی معتبر حدیثی کتابوں میں سے ہی نہیں بلکہ کتب اربعہ میں سے گنا جاتا ہے ۔ہر زمانے میں علمائے تشیع اور فقہا اس کتاب کی اہمیت کے قائل رہے ہیں ۔اس کتاب میں فقہی احکام سے متعلق اہل بیت اطہار سے مروی روایات کو ذکر کیا گیا ہے ۔شیخ طوسی نے اس کتاب کو شیخ مفید کی کتاب المقنعہ کی توضیح میں لکھا۔یہ کتاب فقہی روایات کے بیان کے ساتھ ساتھ اصولی،رجالی اور انکے علاوہ مفید ابحاث پر مشتمل ہے ۔

شیخ طوسی نے اس کتاب میں اصول دین سے مربوط ابحاث کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے بلکہ اول سے لے کر آخر تک فروع دین سے متعلق یعنی طہارت سے کتاب دیات تک کے احکام کے متعلق احادیث آئمہ طاہرین سے ذکر کی ہیں ۔اس کتاب کے عناوین کی ترتیب شیخ مفید کی کتاب المقنعہ کے مطابق ہے.شیخ طوسی نے اس کتاب میں قرآنی آیات ،احادیث متواتر ،قرائن قطعیہ پر مشتمل احادیث اور اجماع مسلمین سے استدلال کیا ہے اور اصحاب کے درمیان مشہور روایات کو بھی ذکر کیا ہے ۔ نیز مخالف روایات ، ان کی جمع ،روایات کے ضعف سند اور عمل اصحاب کو بھی ذکر کیا ہے ۔یہ کتاب ۳۹۳ ابواب و ۱۳۵۹۰ احادیث پر مشتمل ہے.

کتاب کے آخر میں شیخ طوسی نے مشیخہ ذکر کیا ہے جس میں ان کتابوں کی سند ذکر کی ہے ہے جن سے اس کتاب میں احادیث نقل ہوئی ہیں۔اس مشیخہ کی شروحات لکھی گئی ہیں جیسا کہ سید ہاشم توبلی نے تنبیہ الاریب وتذکرۃ اللبیب فی ایضاح رجال التہذیب کے نام سے شرح لکھی۔

وقت تالیف

شیخ مفید کے بارے میں کتاب کے مقدمے ،پہلی جلد اور دوسری جلد کے آغاز میں “ایده اللہ” کی تعبیر استعمال کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کی تالیف کا کام شیخ مفید کے زمانۂ حیات میں شروع ہوا اور 413 ھ میں شیخ مفید کی وفات کے بعد کتاب کے تکمیل ہونے تک جاری رہا ۔[1]

غرض تالیف

تہذیب الاحکام کے مقدمے[2] کے مطابق شیخ کے ایک دوست نے شیعہ احادیث کے مآخذوں میں متعارض روایات کی موجودگی کے متعلق بات کی اور مخالفین کی شدید تنقید اور بعض شیعوں کے جدا ہو جانے کا تذکرہ کیا اور آپ سے تقاضا کیا کہ شیخ مفید کی کتاب المقنعہ پر ایک بسیط شرح لکھی جائے کہ جس میں ہر مسئلہ کی قطعی ، مستند اور مشہور دلیلیں بیان ہوں نیز باہم مخالف روایات اور ان کی جمع کا ذکر بھی کیا جائے اور متعارض احادیث کا ضعف بھی بیان ہو ۔پس تہذیب الاحکام حقیقت میں اس درخواست کے جواب میں لکھی گئی ہے ۔ [3]

پہلی تالیف

تہذیب الاحکام شیخ طوسی کی پہلی تالیف ہے چونکہ اس کتاب میں کسی جگہ انہوں نے اپنے کسی اثر کا نام نہیں لیا جبکہ اس کے بر عکس دوسری تالیفات میں اس تالیف کا نام لیا ہے [4]

استبصار[5] میں ان کی تحریر کے مطابق تہذیب الاحکام کی تالیف اور انتشار کے بعد استبصار کی تالیف کا کام شروع کیا اسی طرح العُدّة فی اصول الفقہ میں ان دونوں کتابوں کا ذکر کیا ہے ۔[6] اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ دونوں کتابوں کی تالیف کے بعد عدہ کی تصنیف کا آغاز کیا .[7]

تعداد ابواب

شیخ طوسی اپنی کتاب الفہرست[8] میں اپنے حالات کے ذیل میں تہذیب کے ۲۳ ابوابِ اصلی ذکر کرتے ہیں نیز کہتے ہیں کہ استبصار اور نہایہ بھی انہی ابحاث پر مشتمل ہیں لیکن شہادات و اطعمہ و اشربہ تہذیب میں مستقل عنوان کے تحت بیان نہیں ہوئے ہیں جبکہ باب زیارات تہذیب میں صرف ذکر ہوا ہے.اس بنا پر تہذیب ۲۱ فقہی کتابوں کو شامل ہے ۔

نجف سے چاپ ہونے والی تہذیب الاحکام ۴۰۹ ابواب پر مشتمل ہے کہ جس میں تین جلدوں کے 28ابواب تکراری ہیں اور احادیث کی تعداد۱۳۹۸۸ ہے۔لیکن محدث نوری،[9] کے مطابق ابواب کی تعداد۳۹۳ اور احادیث کی تعداد ۱۳۵۹۰ ہے. یہ تعداد کا اختلاف حقیقت میں بعض ابواب کو مستقل یا غیر مستقل شمار کی وجہ سے پیدا ہے ۔

روش تألیف

ابتدائی طور پر یہ کتاب مقنعہ کی ایک کامل شرح کے عنوان سے جس میں قرآن،احادیث متواتر یا قطعی قرائن کے ساتھ احادیث،اجماع اور امامیہ کے درمیان مشہور احادیث اور متعارض احادیث کی تاویل اور ضعف کے بیان کی ترتیب کے مطابق لکھی گئی [10]طہارت کی بحث کا بیشتر حصہ اسی طرز پر لکھا گیا ۔کبھی کبھی متاخرین کی اصطلاح کے مطابق اجماع مرکب ،اقوال مشائخ اور عقلی صورتوں سے بھی استناد کیا گیا ہے [11]۔اہل سنت کی احادیث مرسلہ صورت میں ذکر ہوئی ہیں [12] اس کتاب میں مختلف ابحاث جیسے قرآنی، ادبی (صرف ، نحو اور لغت) نیز اصولی ابحاث بہت نمایاں ہیں ۔[13]

روش میں تبدیلی

اس روش کے مطابق کتاب کا حجم بہت بڑھ رہا تھا نیز کتاب حدیثی روش سے دور ہو رہی تھی لہذا مؤلف نے اپنی روش تحریر تبدیلی اختیار کی اور صرف شیعہ کی متعارض احادیث کے ذکر پر اکتفا کیا ۔
پھر ارادہ کیا کہمقنعہکی ابحاث کا لحاظ کئے بغیر فقہی احادیث کو ذکر کریں یہی وجہ ہے کہ پہلی 3 جلدوں میں زیارات کے ابواب کا اضافہ کیا ہے [14] ۔ہس اس بیان ککی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ تہذیب الاحکام دو مختلف روشوں کے تحے لکھی گئی ہے .[15]

اہمیت

تہذیب الاحکام زیادہ تر فقہی احادیث پر مشتمل ہونے کی وجہ سے دوسری کتابوں میں ایک مخصوص حیثیت رکھتی ہے ۔

فقہی اہمیت

یہ کتاب فقہی اعتبار سے ایک فقیہ کو دوسری کتابوں سے بے نیاز کرتی ہے ۔[16] جبکہ دیگر کتب اس خصوصیت سے خالی ہیں .[17] ابن طاووس[18] نےکافی و تهذیب کو فقہی لحاظ سے بزرگترین کتابوں میں سے شمار کیا ہے جبکہ علامہ حلّی[19] نے اسے علم فقہ کا اصل مآخذ اور اسے مقنعہ کے ہمراہ ایک بہت بڑا ذخیرہ قرار دیا ہے کہ جس سے فقیہ فائدہ حاصل کرتا ہے۔

فقہی کتابوں میں شیخ کی تہذیب میں نظر کو بعنوان فتوا بہت زیادہ نقل کیا جاتا ہے اور اسکے متعلق بہت بحث و تمحیص کی جاتی ہے ۔[20] تہذیب میں شیخ طوسی کے بعض فتاوا کے قائلین بہت کم ہیں [21] بلکہ بعض اوقات تو تہذیب اور استبصار کے بعض فتاوا ان کی دوسری کتابوں سے باہمی اختلاف رکھتے ہیں .[22]

حدیثی اہمیت

تہذیب الاحکام فقہی لحاظ کے علاوہ حدیثی لحاظ سے بھی نہایت اہم کی حامل ہے ۔ فہارس کی کتب میں میں اس کا تعارف کرواتے ہوئے اس کی اس خصوصیت کی جانب اشارہ کیا جاتا ہے ،[23] بعد میں لکھے جانے والی حدیثی کتب میں احادیث ذکر کرنے کے بعد اس کتاب کو بطور اصل ماخذ کے نقل کرتے ہیں [24]اس کتاب کی بہت زیادہ احادیث ابن طاووس کی کتب میں دیکھنے کو ملتی ہیں .[25]ابن ادریس[26] نے اس کی ایک قابل توجہ تعداد کو انتخاب کر کے السرائر سرائر کے آخر میں ذکر کیا ہے ۔

بعض اخباری علما شیخ طوسی کی العُدّة فی اصول الفقہ[27] ذکر کرنے والی بات کے حوالے سے تہذیب الاحکام کی تمام روایات کو دوسری کتب اربعہ کی مانند درست اور صحیح مانتے ہیں ،[28] لیکن اس بات کی جانب توجہ کرتے ہوئے کہ شیخ طوسی نے خود تہذیب الاحکام میں روایات متعارض کے متعلق ضعیف کا حکم بیان کیا ہے ،اخباریوں کا یہ کہنا درست نہیں ہے ۔[29]

ضعف روایت کے اسباب

  • حدیث کا ظاہر قرآن و احادیث متواتر کے مخالف ہونا[30]
  • علمائے امامیہ کے اجماع کا کسی حدیث پر عمل نہ کرنا[31]
  • ایک راوی کی خبر کا ایک یا زیادہ افراد کی خبر سے متعارض ہونا [32]
  • کسی حدیث کا آئمہ طاہرین اور یقینی حکم شرعی کے مخالف ہونا [33]
  • اضطراب حدیث یعنی راوی کسی حدیث کو مختلف طرح سے نقل کرے[34]
  • ایک راوی کا دوسرے راوی سے مختلف روایت نقل کرنا[35]

تہذیب میں ضعیف روایات کی اقسام

اسناد

شیخ طوسی نے تالیف کی روش تبدیل کرنے کے بعد اسناد کو کتاب میں اصل مآخذی کتاب کے مصنف کے نام سے شروع کیا اور اس تک اپنے سلسلے کو مکمل کرنے کیلئے مشیخہ کے عنوان کو کتاب کے آخر میں اضافہ کیا ہے اور اس کی مزید تفصیل کی صورت میں اپنی کتاب فہرست کی طرف ارجاع دیا ہے [42] ابتدائی طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ شیخ طوسی نے بلا واسطہ کتاب کے راوی سے نقل کیا ہے اس سے حدیث کو لیا ہے لیکن بہت سے قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ شیخ طوسی نے ایک واسطے سے یا ایک سے واسطوں کے ذریعے قدیمی کتابوں سے احادیث نقل کی ہیں اور مصادر کے مشہور ہونے کی وجہ سے ان کا نام لئے بغیر ذکر کیا ہے ۔

مصادر کتاب

  • تہذیب الاحکام کے اہمترین مصادر اور مآخذوں میں سے کلینی کی کافی ہے .کلینی کے نام سے شروع ہونے والی احادیث کے علاوہ بہت سی احادیث کلینی کے مشائخ سے کسی واسطے کے بغیر یا کلینی کے واسطے کے ساتھ یاکافی کی اسناد میں موجود افراد سے احادیث نقلکی ہیں .[43]

تہذیب الاحکام اور الاستبصار کا باہمی موازنہ

شیخ طوسی نے تہذیب الاحکام کے بعد کتاب الاستبصار فیما اختلف من الاخبار لکھی ہے لیکن استبصار اور تہذیب چند جہت سے آپس میں مختلف ہیں :

  • ظاہری طور پر متعارض روایات جمع کی گئ ہیں لیکن اس کتاب کی ترتیب تہذیب سے کوئی فرق نہیں رکھتی ہے.
  • ایک لحاظ سے استبصار کی تمام روایات تہذیب میں مذکور ہوئی ہیں ۔لیکن دونوں کتابوں کی روایات کی اسناد میں تفاوت موجود ہے :
استبصار کی پہلی جلد میں 200 سے زیاد احادیث منقول ہیں کہ جنکی اسناد مکمل طور پر تہذیب میں ذکر ہوئی ہے لیکن استبصار میں سند کے بغیر ذکر ہوئی ہیں [45]
  • تہذیب کی پہلی جلد اکثر شیخ مفید سے احادیث منقول ہیں جبکہ استبصار میں متعد روات سے مذکور ہیں خاص طور پر اگر شیخ مفید کے طریق میں کسی قسم کی کمی مثلا واسطہ یا تعدد راویان وغیرہ پایا جاتا ہے.[46]
  • استبصار کی احادیث کے بیشتر مآخذ وہی تہذیب الاحکام کے مآخذ ہیں اور بہت کم موارد میں تہذیب کے علاوہ دیگر مآخذ آئے .[47]

استبصار میں توضیح یا تفسیر حدیث اور رفع تعاراض کی روش تہذیب الاحکام کی طرح ہی ہے ہر چند اس کتاب میں تہذیب کی نسبت تعبیریں مختلف استعمال ہوئی ہیں ۔[48]

دیگر کتب حدیث سے مقائسہ

شروحات اور حواشی

آقا بزرگ طہرانی نے تہذیب الاحکام کی سولہ (16) شرحوں اور بیس (20) حاشیوں کو ذکر کیا ہے [49]

دوسری کتب میں ان کے علاوہ اور کتابوں کے نام بھی مذکور ہوئے ہیں جیسے حواشی شیخ احمد احسائی[50] کتب اربعہ پر حواشی میرداماد [51] اور جامع الحواشی.[52]

تہذیب کے مشیخے پر یا من لایحضره الفقیہ کے ہمراہ شروح بھی لکھی گئیں جیسے حدیقۃ الانظار اثر محمدعلی بن قاسم آل کشکول.[53] رسالۃ فی الجمع بین احادیث باب الزیادات من التہذیب جو شیخ احمد احسائی کی تالیف نیز ایک طرح کی شرح ہے .[54]

ان شروح اور حواشی میں سے صرف ملاذالاخیار کہ جو اثر علامہ مجلسی ہے وہ سولہ (16) جلدوں میں چھپا ہے وہ تہذیب پر ایک مکمل شرح ھے .[55] اس شرح میں بہت سے مطالب دوسری شروحات مثلا شرح محمدتقی مجلسی و عبداللہ تستری، نقل ہوئے ہیں.[56]

ترجمے اور خلاصے

  • ترجمۂ تہذیب الاحکام :مترجم محمدتقی گیلانی[57]
  • ترجمۂ تہذیب الاحکام:مترجم محمدیوسف گورکانی[58]
  • مختصر مزار کتاب التہذیب: اثر محمد جاوجانی[59]
  • گزیده تہذیب:(خلاصۂ تہذیب) تالیف محمدباقر بہبودی
  • تنبیہ الاریب و تذکرة اللبیب فی ایضاح رجال التہذیب: اثر سید ہاشم بحرانی
  • انتخاب الجید من تنبیہات السید: خلاصۂ تہذیب تالیف حسن دمستانی[60]
  • رسالہ فی اسانید التہذیب: اثر فخرالدین طُرَیحی[61]
  • تصحیح الاسانید: اثر میرزا محمد بن علی اردبیلی (مؤلف جامع الرواة)[62]
  • ترتیب اسانید کتاب التہذیب: تالیف آیت اللہ حاج آقاسید حسین طباطبائی بروجردیاہم ترین تالیف ہے جس کے خطاط کا نام حسن نوری ہمدانی ہے جسکی پہلی تحریر بنام تنقیح اسانید التہذیب چاپ ہوئی ہے .

خطی نسخہ جات

  • اس کا اصلی ترین خطی نسخہ آپ کے پوتوں آل طاؤوس کے اختیار میں تھا.[63]
  • مؤلف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ جسے بیٹے نے باپ کے پاس قرآت کیا وہ علی بن محمد بیاضی کے پاس تھا .[64]
  • تہذیب کے پہلے جزو کا خطی نسخہ کتابخانۂ علامہ سید محمدحسین طباطبائی میں محفوظ تھا اس نسخے کے مالکان میں ایک شیخ بہائی کا ہمعصر تھا ،شیخ بہائی اسے مؤلف کے ہاتھ کا لکھا ہوا سمجھتے تھے .[65]
  • تہذیب کے بہت سے خطی نسخے اسلامی کتابخانوں میں موجود ہیں .[66]

قدیمی‌ ترین نسخہ

تہذیب کا قدیمی ترین خطی نسخہ جس کی تاریخ کتابت : ۵۷۵ ہے۔ وہ ایران کے شہر قم میں آیت اللہ سید محمد رضا گلپائیگانی کے کتابخانے میں موجود ہے ۔ یہ نسخہ چوتھی اور پانچویں جلد کے کچھ حصے پر مشتمل ہے .[67]

طباعت

کتاب تہذیب الاحکام پہلی مرتبہ دو رحلی جلدوں میں احمد شیرازی و باقر قوچانی کی تصحیح کے ساتھ ۱۳۱۷ و ۱۳۱۸ شمسی چھپی ۔

وزیری سائز کے اندر دس (10جلدوں) میں ایک مرتبہ سیدحسن موسوی خرسان کی تصحیح کے ساتھ نجف سے چھپی دیگر محمدجعفر شمس الدین کی تصحیح کے ساتھ چاپ بیروت ہے ۔نیز علی اکبر غفاری کی تصحیح کے ساتھ چاپ تہران ہے.

حوالہ جات

  1. شبیری، مصادر…، ص۱۸۶
  2. ج۱، ص۲ـ۳
  3. عابدی، ص۳۳ ـ ۳۵
  4. طوسی، النہایہ، ص۲۳۵، ۲۴۳؛ طوسی، الجمل والعقود، ص۱۶۰؛ طوسی، کتاب الخلاف، ج۴، ص۱۵، ۱۱۰؛ طوسی، المبسوط، ج۱، ص۳۵۶، ج۷، ص۱۲۳؛ طوسی، التبیان، ج۳، ص۱۲۱؛ طوسی، تہذیب الاحکام، ج۱، ص۲، ۱۰، ۱۴، ۱۳۳، ۱۳۷، ۱۵۵، ۱۷۵
  5. ج ۱، ص۲ـ۳
  6. طوسی، العده، ج۱، ص۱۳۷
  7. مدیر شانہ چی، ص۱۴۰
  8. الفہرست، ص۴۴۷
  9. نوری، ج۶، ص۴۱۵
  10. طوسی، تہذیب الاحکام، ج۱، ص۳
  11. طوسی، تہذیب الاحکام، ج۱، ص۲۵، ۲۹، ۷۵، ۹۵، ۲۹۰، ۲۹۴
  12. طوسی، تہذیب الاحکام، ج۱، ص۶۳، ۸۳ ـ ۸۴، ۹۶
  13. شبیری، مصادر…، ص۱۷۹ـ۱۸۷
  14. طوسی، تہذیب الاحکام، ج۱۰، مشیخہ، ص۴
  15. شبیری، چہارمقالہ، ص۱۸۱ـ۱۸۴
  16. ج ۳، ص۲۲۹
  17. نوری، ج۳، ص۱۶۹، ج۶، ص۱۳؛ جزائری، عبداللہ، ص۲۱۵
  18. فتح الابواب، ص۲۹۲
  19. مختلف الشیعہ، ج۲، ص۳۵۵
  20. ابن ادریس حلّی، ج۱، ص۳۳۴ـ ۳۳۵؛ نیلی، ص۹، ۱۱؛ محقق حلّی، ج۱، ص۳۴، ۴۳، ۵۵؛ آبی، ج۱، ص۴۸، ۶۰، ۱۰۸؛ حلّی، منتہی المطلب، ج۱، ص۲۹، ۵۶؛ حلی، تذکرة الفقہا، ج۲، ص۳۲۵، ج۴، ص۱۳۰؛ شہید اول، الدروس، ج۱، ص۱۰۳، ۲۰۱
  21. حلی، مختلف الشیعہ، ج۱، ص۳۳۹، ج۲، ص۳۸، ج۳، ص۳۱۰؛ فخرالمحققین، ج۱، ص۷۳
  22. حلی، مختلف الشیعہ، ج۱، ص۴۰۸ـ۴۰۹
  23. طوسی، الفہرست، ص۴۴۷
  24. طبرسی، ج۱، ص۱۳۲، ۱۳۷
  25. کولبرگ، ص۵۵۰
  26. ج ۳، ص۶۲۸ـ۶۳۲
  27. ج ۱، ص۱۳۷
  28. فیض کاشانی، ج۱، ص۲۳ـ۲۴
  29. خویی، ج۱، ص۹۵ ـ ۹۷
  30. ج ۴، ص۱۷۶ـ۱۷۷
  31. ج ۱، ص۱۵۷، ۲۱۹
  32. ج ۱، ص۲۴۲، ج۲، ص۱۷۸
  33. ج ۱، ص۹۳ـ۹۴، ج۴، ص۱۷۶
  34. ج ۱، ص۲۰۱، ج۲، ص۲۱۳
  35. ج ۲، ص۷۵، ج۷، ص۲۷۸
  36. ج ۱، ص۱۶
  37. ج ۸، ص۴، ۳۱
  38. ج ۱، ص۳۵
  39. ج ۱، ص۱۹۶
  40. ج ۱، ص۱۸
  41. ج ۴، ص۳۱۶ و ج۷، ص۱۰۱ و ج۹، ص۲۰۴
  42. طوسی، تہذیب الاحکام، ج۱۰، مشیخہ، ص۸۸
  43. طوسی، تہذیب الاحکام، ج۱۰، ص۲ـ۳
  44. طوسی، تہذیب الاحکم، ج۱، ص۴۵۹ـ۴۶۰، ج۲، ص۱۱۳ـ ۱۱۴، ۱۹۵، ۳۶۴، ج۴، ص۱۷۱، ج۵، ص۴۴۰ـ۴۴۱، ج۷، ص۱۵۵
  45. طوسی، استبصار، ج۱، ص۱۶، حدیث ۱، ص۱۷
  46. استبصار، ج۱، ص۷۳
  47. طوسی، استبصار، ج۳، ص۱۳
  48. طوسی، استبصار، ج۱، ص۱۴ـ۱۶
  49. ج ۱، ص۳۰۷، ج۴، ص۵۰۵ ـ۵۰۷، ج۶، ص۵۱ـ۵۳، ۲۵۷، ج۱۳، ص۱۵۶ـ۱۵۹، ج۱۶، ص۱۸
  50. بحرانی، علی ص۴۱۲
  51. مجلسی، بحارالانوار، ج۱۱۰، ص۴
  52. آقابزرگ طہرانی، ج۵، ص۵۱
  53. حسینی اشکوری، اجازات الحدیث…، ص۱۵۷
  54. آقابزرگ طہرانی، ج۱۱، ص۱۶۴
  55. آقابزرگ طہرانی، ج۲۲، ص۱۹۱
  56. مجلسی، ملاذ الاخیار، ج۱، ص۴۳
  57. مجلسی، حیدرعلی، ص۲۶۷
  58. آقابزرگ طهرانی، ج۴، ص۹۲
  59. آقابزرگ طهرانی، ج۲۰، ص۲۰۸
  60. مدیرشانہ چی، تاریخ حدیث، ص۱۴۶
  61. آقابزرگ طهرانی، ج۱۱، ص۶۴
  62. آقابزرگ طہرانی، ج۴، ص۱۹۳
  63. ابن طاووس، الاقبال بالاعمال الحسنہ، ص۲۵
  64. مجلسی، بحارالانوار، ج۱۰۷، ص۲۲۳
  65. طوسی، الجمل و العقود، ص۳۹۰ـ۳۹۳
  66. شہرستانی، ص۱۰۴ـ۱۱۳
  67. مدیرشانه چی، ص۱۴۵

 

کتابیات

  • آبی، حسن بن ابی طالب، کشف الرموز فی شرح المختصر النافع، چاپ علی پناه اشتہاردی و حسین یزدی، قم، ۱۴۰۸ـ۱۴۱۰ق.
  • آقابزرگ طہرانی، الذریعہ
  • ابن ادریس حلّی، کتاب السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، ۱۴۱۰ـ۱۴۱۱ق.
  • ابن طاووس، علی بن موسی، الاقبال بالاعمال الحسنہ چاپ فضل اللہ نوری، چاپ افست، ۱۳۶۷ ش.
  • ایضا، فتح الابواب بین ذوی الالباب و بین رب الارباب فی الاستخارات، چاپ حامد خفاف، قم، ۱۴۰۹ق.
  • بحرانی، علی بن حسن، انوارالبدرین فی تراجم علماء القطیف و الاحساء و البحرین، چاپ محمدعلی محمدرضا طبسی، چاپ افست قم، ۱۴۰۷ق.
  • جزایری، عبداللہ، الاجازة الکبیرة، چاپ محمد سمامی حائری، قم، ۱۴۰۹.
  • حسینی اشکوری، اجازات الحدیث التی کتب‌ ہا شیخ المحدثین و محیی معالم الدین المولی محمدباقر المجلسی الاصبہانی، قم، ۱۴۱۰ق.
  • حلّی، تذکرة الفقہاء، قم، ۱۴۱۴ق.
  • ایضا، مختلف الشیعہ فی احکام الشریعہ، قم، ۱۴۱۷ـ۱۴۱۹ق.
  • ایضا،منتہی المطلب فی تحقیق، مشہد، ۱۴۱۲ق.
  • خوئی، معجم رجال الحدیث، بیروت، ۱۴۰۳ق.
  • شبیری، محمدجواد، چہار مقالہ، در مقالات فارسی،ش ۵۵، کنگره جہانی ہزاره شیخ مفید، قم، ۱۳۷۲ ش.
  • شبیری، محمدجواد، مصادر الشیخ الطوسی فی کتابہ تہذیب الاحکام، علوم الحدیث، سال ۳،ش ۶.
  • شہرستانی، نسخہ ہای خطی مؤلفات شیخ طوسی در کتابخانہ ملی ملک، در یادنامہ شیخ طوسی، ج۱، دانشگاه مشہد، مشہد، ۱۳۴۸ ش.
  • شہیداول، الدروس الشرعیہ فی فقہ الامامیہ، قم، ۱۴۱۲ـ۱۴۱۴ق.
  • طبرسی، مکارم الاخلاق، چاپ علاء آل جعفر، قم، ۱۴۱۶ق.
  • طوسی، الاستبصار فیما اختلف من الاخبار، چاپ حسن موسوی خرسان، تہران، ۱۳۹۰ق.
  • ایضا، التبیان فی تفسیر القرآن، چاپ احمد حبیب قصیرعاملی، بیروت.
  • ایضا، تہذیب الاحکام، چاپ حسن موسوی خرسان، نجف، ۱۳۷۸ـ۱۳۸۲ق.
  • ایضا، الجمل و العقود فی العبادات، چاپ محمد واعظ زاده خراسانی، مشہد، ۱۳۴۷ش.
  • ایضا، العدة فی اصول الفقہ، چاپ محمدرضا انصاری قمی، قم، ۱۳۷۶ ش.
  • ایضا، کتاب الخلاف، قم، ۱۴۰۷ـ۱۴۱۷ق.
  • ایضا ،المبسوط فی فقہ الامامیہ، چاپ محمدتقی کشفی، تہران، ۱۳۸۷ش.
  • النہایہ فی مجردالفقہ و الفتاوی، بیروت، ۱۳۹۰ق.
  • عابدی، شیوه شیخ طوسی در تہذیب الاحکام، آینہ پژوہش، سال ۹،ش ۱.
  • فخرالمحققین، ایضاح الفوائد فی شرح اشکالات القواعد، چاپ حسین موسوی کرمانی، علی پناه اشتہاردی، و عبدالرحیم بروجردی، قم، ۱۳۸۷ـ۱۳۸۹.
  • فیض کاشانی، کتاب الوافی، چاپ ضیاءالدین علامہ اصفہانی، اصفہان، ۱۳۶۵ـ۱۳۷۴ ش.
  • کولبرگ، کتابخانہ ابن طاووس و احوال و آثار او، ترجمہ علی قرائی و رسول جعفریان، قم، ۱۳۷۱ ش.
  • مجلسی، حیدرعلی، رسالہ انساب خاندان مجلسی، چاپ علی دوانی، تہران، ۱۳۷۰ ش.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، تہران، ۱۳۸۰ش.
  • مجلسی، ملاذالاخیار فی فہم تہذیب الاخبار، چاپ مهدی رجائی، قم، ۱۴۰۶ـ۱۴۰۷ق.
  • محقق حلّی، المعتبر فی شرح المختصر، قم، ۱۳۶۴ ش.
  • مدیرشانہ چی، تاریخ حدیث، تہران، ۱۳۷۷ ش.
  • نجاشی، فہرست اسماء مصنّفی الشیعہ معروف بنام رجال النجاشی، چاپ موسی شبیری زنجانی، قم، ۱۴۰۷ق.
  • نوری، خاتمہ مستدرک الوسائل، قم، ۱۴۱۵ـ۱۴۲۰ق.
  • نیلی، نزہہ الناظر فی الجمع بین الاشباه و النظائر، چاپ احمد حسینی و نورالدین واعظی، نجف، ۱۳۸۶ق.

بیرونی روابط

 

تبصرے
Loading...