تجرید الاعتقاد (کتاب)

تجرید الاعتقاد (کتاب)

تَجریدُ الإعتِقاد خواجہ نصیرالدین طوسی (متوفی 672ھ) کی ایک کتاب ہے جسے انہوں نے علم کلام میں شیعہ اعتقادات کی اثبات میں لکھی ہے۔ مصنف نے اس کتاب کو “تجرید الاعتقاد” یا بعض نسخوں کی بنا پر “تجرید العقائد” نام رکھا ہے اس کے دیگر اسامی میں “تجرید الکلام” بھی ہے۔ اس کتاب میں شیعہ کلامی مباحث کو فلسفی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

اس کتاب میں بیان ہونے والے بعض موضوعات میں خدا کے وجود اور صفات کا اثبات، پیغمبر اسلامؐ کی بعثت کا عالمگیر ہونا، قرآن کریم معجزہ ہونا، پیغمبر اکرمؐ کے بعد امام علیؑ کے علاوہ کسی اور کا خلافت کیلئے موزون نہ ہونا، امام علیؑ کا دوسروں سے افضل ہونا، عصمت ائمہ اور معاد جسمانی شامل ہیں۔

تجرید الاعتقاد علم کلام میں لکھی گئی مختصر ترین، اہم ترین اور مستدل ترین شیعہ کتابوں میں سے ہے۔ انہی خصوصیات کی وجہ سے اس کتاب بہت ساری شرحین اور تنیدیں کی جا چکی ہیں یہاں تک کہ اس پر لکھی شروحات کی تعداد 231 تک پہنچتی ہیں جنہیں شیعہ اور سنی دونوں فریقوں کے علماء نے لکھی ہیں من جملہ ان میں علامہ حلی کی کتاب کشف المراد اور عبدالرحیم اصفہانی کی کتاب تسدید القواعد کا نام لیا جا سکتا ہے۔ شہید مطہری کے مطابق خواجہ نصیر الدین نے اس کتاب میں علم کلام کو جدلی طریقے سے نکال کر علمی اور برہانی طریقے کے نزدیک لایا ہے۔

مصنف

نصیرالدین محمد بن محمد طوسی، محقق طوسی یا خواجہ نصیرالدین طوسی کے نام سے معروف، برجستہ مسلمان فلسفی اور ریاضی‌دان ہیں۔[1] آپ سنہ 597ھ کو شہر طوس میں پیدا ہوئے۔[2] انہوں نے ہلاکوخان کے دور حکومت میں سنہ 660ھ میں رصدخانہ مراغہ کی بنیاد رکھی۔[3] خواجہ نصیر کو سلطان محمد خدابندہ کے مسلمان ہونے کا اصلی مسبب جانا جاتا ہے۔[4]

مختلف علوم من جملہ علوم عقلی فلسفہ، کلام اور اخلاق کے علاوہ دیگر علوم جیسے ہندسہ، ریاضیات، جبر، طبیعیات، فقہ اور تفسیر سمیت تاریخ، شعر، طب اور موسیقی[5] میں مختلف موضوعات پر آپ کے تقریبا 200 سے زیادہ تصنیف، شرح، ترجمے اور مقالات موجود ہیں۔[6] جن میں شرح اشارات، تجرید الاعتقاد اور تجرید، فصول نَصیریہ، اوصاف الاشراف، قواعد العقائد، نقد المحصل اور اساس الاقتباس کا نام خصوصیت سے لیا جا سکتا ہے۔[7] آخر کار آپ سنہ672 ہجری قمری کو 75 سال کی عمر میں بغداد میں وفات پائی۔[8]

مضامین

تجرید الاعتقاد یا تجرید العقائد[9] یا تجرید الکلام[10] خواجہ نصیرالدین طوسی کی تصنیف ہے[11] اور مشہور کے مطابق اس کی تصنیف سنہ 660ھ میں ختم ہوئی تھی۔[12]

یہ کتاب عربی زبان میں لکھی گئی ہے جو فلسفہ اسلامی اور کلام شیعہ کے مسائل پر مشتمل ہے گویا مصنیف نے اس کتاب میں کلامی مسائل کو فلسفیانہ انداز میں بیان کیا ہے۔[13] یہ ساتویں صدی ہجری سے علم کلام میں اہل سنت اور شیعہ دنوں مکاتب فکر کے کلامی مباحث کی تحریر میں ایک نمونہ کے طور پر چلی آرہی ہے۔[14] یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل درج ذیل مطالب کا حامل ہے:

  1. امور عامہ: تین حصوں وجود و عدم، ماہیت اور علت و معلول پر مشتمل ہے۔
  2. جوہر اور عرض: پانج حصوں جواہر، اجسام (دو حصے)، جواہر مجرد اور اعراض پر مشتمل ہے۔
  3. خالق اور اس کی صفات کا اثبات: تین ابواب خدا کے وجود، صفات اور افعال پر مشتمل ہے۔
  4. نبوت: دس ابواب پر مشتمل ہے جس میں بعثت انبیا، بعثت کی ضرورت، انبیاء کی صفات، معجزات، کرامات، بعثت کا عالمگیر ہونا، حضرت محمدؐ کی بعثد، قرآن کریم کا معجزہ ہونا، نسخ اور حضرت محمد کے بعثت کا علمگیر ہونا جیسے موضوعات شامل ہیں۔
  5. امامت: بارہ ابواب پر مشتمل ہے جس میں امام کی تعیین کا واجب ہونا، عصمت، امام کا باقی لوگوں سے افضل ہونا، امام کے بارے میں نص کا ہونا واجب ہے، حضرت علیؑ کی امامت، امام علیؑ کے علاوہ کسی اور میں امامت کی صلاحیت نہ پانا، 12 امام، امام علیؑ کے مخالفین اور آپ سے لڑنے والے۔ اس حصے کے تین ابواب ابوبکر، عمر اور عثمان کے بارے میں ہے۔
  6. معاد: گیارہ ابواب پر مشتمل ہے جس میں کسی اور عالم کی خلقت کا ممکن ہونا، معاد جسمانی، ثواب و عقاب، غفران الہی، شفاعت اور توبہ وغیرہ پر بحث کی گئی ہے۔

اہمیت

تجرید الاعتقاد علم کلام میں شیعوں کی ایک اہم اور منفرد کتاب ہے۔[15] یہ کتاب مختصر ہونے کی باوجود بہت سارے مسلمان خاص کر شیعہ علماء نے اس پر حاشیے اور اس کی شرح لکھتے ہوئے خواجہ نصیرالدین طوسی کے نظرات کے صحیح یا غلط ہونے پر استدلال کئے ہیں۔[16] آقابزرگ طہرانی تجرید الاعتقاد کو شیعہ عقائد میں ایک گران بہا علمی خزانہ قرار دیتے ہیں۔[17] علی صدرایی کی تحقیق کے مطابق تجرید الاعتقاد کی شروحات اور حاشیوں کی تعداد تقریبا 231 تک پہنچتی ہیں۔[18]

محققین کا کہنا ہے کہ خواجہ نصیرالدین طوسی اس کتاب میں فلسفہ مشاء اور کلام شیعہ کو جمع کر کے شیعہ علماء کے درمیان ان دو علموں کو ایک دوسرے قریب لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔[19]

شہید مطہری معتقد ہیں کہ خواجہ نصیرالدین طوسی نے اس کتاب کے ذریعے علم کلام کو حکمت جدلی سے حکمت برہانی کے نزدیک کئے ہیں۔[20] اور یہ کتاب اس حوالے سے بعد میں آنے والی کتابوں کیلئے ایک نمونہ اور مثال بن گئی اور مسلمان متکلیمن چاہے اشعری مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے ہوں یا معتزلی دونوں نے خواجہ نصیر الدین طوسی کے طریقے کی پیروی کی ہیں۔[21] خواجہ نصیرالدین خود اس کتاب کو بہترین روش پر مشتمل ایسے اعتقادات اور نظریات کا حامل قرار دیتے ہیں جو انہیں دلیل و برہان کے ساتھ ثابت ہوئے ہیں۔[22]

شرح

تجرید الاعتقاد علم کلام میں لکھی گئی مختصر ترین کتاب ہونے کے ساتھ ساتھ اہم ترین اور مستدل ترین شیعہ کتابوں میں سے ایک ہے۔ انہی خصوصیات کی وجہ سے یہ کتاب جب سے لکھی گئی ہے اس وقت سے ایک خاص شہرت کا حامل ہے رہی ہے اور مختلف اسلامی فرقوں کے دانشوروں نے اس پر عربی اور فارسی میں متعدد حاشیے لگائے ہیں۔[23] اس کتاب پر شرح لکھنے والوں کے نظریات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ مصنف اپنے اس اقدام میں نہایت کامیاب رہا ہے۔ [24]

ظاہراً تجرید الاعتقاد کی سب سے پہلی شرح مصنف کے معروف شاگرد علامہ حلّی نے لکھی ہے۔ یہ شرح، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد کے نام سے معروف ہے جس کے متعلق بعض کا کہنا ہے کہ اگر علامہ حلی اس کتاب کو نہ لکهتے تو شاید تجرید الاعتقاد میں مصنف کا اصلی ہدف کسی پر بھی واضح اور روشن نہ ہوتا۔[25] آقابزرگ طہرانی [26] اور حاجی خلیفہ[27] و غیرہ[28] نے اس کتاب کی کئی شرحوں اور حاشیوں کی معرفی کی ہیں۔ ان میں سے بعض شرحوں اور حاشیوں میں خواجہ نصیر الدین کے نظریات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب کے قدیمی اور معروف شرحوں میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • تعرید الاعتماد فی شرح تجرید الاعتقاد، مصنف شیخ شمس الدین محمد اسفرائنی بیہقی (متوفی ۷۴۶)
  • تسدید یا تشیید القواعد فی شرح تجرید العقائد جو شرح قدیم کے نام سے معروف ہے، مصنف شمس الدین محمودبن عبدالرحمان بن احمد عامی اصفہانی (اسے فاضل قوشچی کے شرح کے مقابلے میں “قدیم” کہا جاتا ہے نہ یہ کہ یہ سب سے زیادہ قدیمی شرح ہو کیونکہ خود شارح نے مقدمہ میں علامہ حلی اور اسفرائنی بیہقی کی شرح کی طرف اشارہ کیا ہے)
  • شرح فاضل قوشچی (متوفی ۸۷۹) جو شرح جدید کے نام سے مشہور ہے۔
  • متأخر شرحوں میں سے ایک شرح ملاعبدالرزاق لاہیجی(متوفی ۱۰۵۱) کی ہے جو دقیق، مفصل اور آراء کی تطبیق کے لحاظ سے مختلف خصوصیات کی حامل ہے۔

تجرید الاعتقاد کی قدیمی اور جدید شرحوں پر مختلف حاشیے لگائے گئے ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:

  • شرح قدیم پر محقق جرجانی (متوفی ۸۱۶) کا حاشیہ جو حاشیہ تجرید کے نام سے معروف ہے۔[29]
  • شرح جدید پر جلال الدین محمد دوانی(متوفی ۹۰۸) نے تین حاشیے حاشیۃ قدیم، حاشیۃ جدید اور حاشیۃ أجدّ[30] اور صدرالدین محمد دشتکی شیرازی(متوفی ۹۴۸).[31] نے دو حاشیے لکھے ہیں جن میں ان دونوں نے ایک دوسرے کے اوپر اعتراضات اور اشکالات کئے ہیں یہ شرحیں طبقات الجلالیۃ و الصدریۃ کے نام سے معروف ہیں۔ قابل توجہ نکتہ اس میں یہ ہے کہ صدرالدین کی وفات کے بعد ان کے بیٹے میرغیاث الدین منصور حسینی دشتکی (متوفی ۹۴۹) نے اپنے والد کی طرف سے دوانی کے آخری اشکال کا بھی جواب تجرید الاعتقاد کی ایک اور شرح پر لکھے گئے اپنے حاشیے میں دیا ہے۔[32] شرح جدید پر لکھے گئے یہ حاشیے بہت قیمتی اور حائز اہمیت ہیں جس کی وجہ سے مختلف شیعہ اور سنی دانشوروں کی توجہ کا مرکز قرار پایا ہے اور بہت ساری کلامی اور فلسفی اشکلات اور اعتراضات کا سرچشمہ قرار بھی قرار پایا ہے اور ان پر بھی بہت ساری شرحیں اور تنقید کی گئی ہیں۔[33]

دستیاب نسخہ جات

تجرید الاعتقاد کے بہت زیادہ نسخے دستیاب ہیں من جملہ ان میں سنہ 669ھ کی تحریر کردہ نسخہ ایرانی پارلیمنٹ کی لائبریری میں موجود ہے۔[34]
تجریدالاعتقاد علامہ حلّی کی شرح کے ساتھ پہلی بار سن 1311ھ میں شایع ہوئی۔[35] اس کتاب کے مختلف نسخہ جات موجود ہیں من جملہ اس کے ترمیم شدہ نسخوں میں، محمدجواد حسینی جلالی کی تصحیح شدہ نسخہ جو سنہ1407ھ کو قم میں منتشر ہوئی ہے۔[36] کشف المراد کی مختلف نسخہ جات میں، حسن زادہ آملی کی اشاعت کردہ نسخہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ یہ نسخہ بھی اسی سال منتشر ہوا ابوالحسن شعرانی نے اس کا فارسی میں ترجمہ اور شرح لکھی ہے۔

آقابزرگ طہرانی[37] اور حاجی خلیفہ[38] نے اس تجرید الاعتقاد کے بہت زایدہ شروحات اور حاشیوں کا ذکر کئے ہیں۔ اسی طرح علی صدرایی خویی اور سید محمود مرعشی نے “کتابشناسی تجرید الاعتقاد” نامی کتاب میں تجرید الاعتقاد کے مختلف خطی نسخوں، اس کے شروحات اور حاشیوں کی چھان بین کے بعد کے بعد اس کتاب سے مربوط تمام آثار کا ذکر کئیے ہیں۔ اس کتاب کو آیت اللہ مرعشی نجفی کی لائبریری نے سنہ 1382ش کو قم میں منتشر کیا ہے۔[39]

حوالہ جات

  1. نصیرالدین طوسی، تنسوخ‌نامہ ایلخانی، مقدمہ، ص چہاردہ۔
  2. نصیرالدین طوسی، تنسوخ‌نامہ ایلخانی، مقدمہ، ص پانزدہ۔
  3. نصیرالدین طوسی، تنسوخ‌نامہ ایلخانی، مقدمہ، ص نوزدہ
  4. نصیرالدین طوسی، تجرید الاعتقاد، مکتب الاعلام الاسلامی، ص۲۷-۲۸۔
  5. نصیرالدین طوسی، تجرید الاعتقاد، مکتب الاعلام الاسلامی، ص۳۸۔
  6. نصیرالدین طوسی، تجرید الاعتقاد، مکتب الاعلام الاسلامی، ص۳۵-۶۸۔
  7. نصیرالدین طوسی، تنسوخ‌نامہ ایلخانی، مقدمہ، ص بیست و دو۔
  8. نصیرالدین طوسی، تنسوخ‌نامہ ایلخانی، مقدمہ، ص بیست و یک۔
  9. نصیرالدین طوسی، تجرید الاعتقاد، مکتب الاعلام الاسلامی، ص۱۰۱۔
  10. آقابزرگ طہرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، دار الأضواء، ج۳، ص۳۵۲-۳۵۴؛ شعرانی، کشف المراد، ۱۳۷۲ش، ص۱۱۔
  11. حاجی خلیفہ، کشف الظنون، دار إحیاء التراث العربی، ج۱، ص۳۴۶۔
  12. نصیرالدین طوسی، تجرید الاعتقاد، مکتب الاعلام الاسلامی، ص۷۳۔
  13. نصیرالدین طوسی، تجرید الاعتقاد، مکتب الاعلام الاسلامی، ص۷۱۔
  14. نصیرالدین طوسی، تجرید الاعتقاد، مکتب الاعلام الاسلامی، ص۷۱۔
  15. شعرانی، کشف المراد، ۱۳۷۲ش، ص۱۱.
  16. حسینی خوانساری، کشف الاستار، ۱۴۱۸ق، ج۵، ص۲۴.
  17. آقابزرگ طہرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، دار الأضواء، ج۳، ص۳۵۲.
  18. صدرایی خویی، کتابشناسی تجرید الاعتقاد، ۱۳۸۲ش، ص۱۳.
  19. احمدی، «اجمالی از سیر فلسفه اسلامی…»، ص۲۲۴؛ داوری، «پیدایش و بسط علم کلام»، ص۱۱۹.
  20. مطہری، آشنائی با علوم اسلامی، ج ۲، ص۶۸
  21. مطہری، آشنائی با علوم اسلامی، ج ۲، ص۵۷
  22. علامہ حلّی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ۱۴۰۷ق، ص۲۰.
  23. کنتوری، کشف الحجب و الاستار عن اسماء الکتب و الاسفار، ص۹۷
  24. قوشچی، شرح تجریدالعقائد، ص۲
  25. آقابزرگ طہرانی، الذریعہ، ج ۳، ص۳۵۳؛ علامہ حلّی، مقدمہ حسن زادہ آملی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص۳
  26. آقابزرگ طہرانی، الذریعہ، ج ۳، ص۳۵۲ـ۳۵۴، ج ۶، ص۶۴ـ۷۰
  27. حاجی خلیفہ، کشف الظنون، ج ۱، ستون ۳۴۶ـ۳۵۱
  28. انوار، فہرست نسخ خطی کتابخانہ ملی، ج ۷، ص۳۵۷، ج ۸، ص۳۶۰ـ۳۶۱، ج ۹، ص۳۰۸، ج ۱۰، ص۲۹۰ـ۲۹۱، ۲۹۷ـ ۲۹۸؛ فاضل،فہرست نسخہ‌ہای خطی…، ج ۲، ص۵۷۱، ۶۱۸ـ۶۱۹، ج ۳، ص۷۶۷، ۷۷۴، ۸۰۷ ـ ۸۰۸، ۸۱۵، ۸۶۴ ـ ۸۶۶، ۸۷۲، ۸۹۵؛ نسخہ‌ہای خطی، ج ۵، ص۳، ۲۲، ۳۷، ۲۱۱، ۲۱۳، ۲۹۹، ۵۹۴ ـ ۵۹۵؛ منزوی و دانش پژوہ، فہرست کتابخانہ مدرسہ عالی سپہسالار، ج ۴، ص۱۷۵ـ ۱۸۵
  29. حاجی خلیفہ، کشف الظنون، ج ۱، ستون ۳۴۷
  30. فہرست نسخہ‌ہای خطی کتابخانہ دانشکدہ الہیات و معارف اسلامی مشہد، ج ۲، ص۵۷۱؛ نسخہ‌ہای خطی، ج ۵، ص۵۹۴
  31. حسینی، فہرست نسخہ‌ہای خطی …، ج ۳، ص۲۳۸ـ۲۳۹
  32. حاجی خلیفہ، کشف الظنون، ج ۱، ستون ۳۵۰
  33. آقابزرگ طہرانی، الذریعہ، ج ۶، ص۶۴ـ۷۱
  34. نصیرالدین طوسی، تجرید الاعتقاد، مکتب الاعلام الاسلامی، ص۷۶.
  35. ون دایک، کتاب اکتفاء القنوع بماہو مطبوع، ص۱۹۷
  36. شعرانی، کشف المراد: شرح تجرید الاعتقاد، ۱۳۷۲ش، ص۱۳.
  37. آقابزرگ طہرانی، الذریعہ، ج۳، ص۳۵۲ـ۳۵۴، ج۶، ص۶۴ـ۷۰.
  38. حاجی خلیفہ، کشف الظنون، دار إحیاء التراث العربی، ج۱، ص۳۴۶-۳۵۱.
  39. صدرایی خویی، کتابشناسی تجرید الاعتقاد، ۱۳۸۲ش.

 

منابع

  • احمد احمدی، «اجمالی از سیر فلسفہ اسلامی بعد از ابن رشد»، در فلسفہ در ایران: مجموعہ مقالات فلسفی، تہران: حکمت، ۱۳۵۸ش.
  • عبداللّہ انوار، فہرست نسخ خطی کتابخانہ ملی، تہران ۱۳۴۳ـ ۱۳۵۸ش.
  • مسعودبن عمر تفتازانی، شرح المقاصد، چاپ عبدالرحمان عمیرہ، قاہرہ ۱۴۰۹/۱۹۸۹، چاپ افست قم ۱۳۷۰ـ۱۳۷۱ش.
  • حاجی خلیفہ؛
  • احمد حسینی، فہرست نسخہ‌ہای خطی کتابخانہ عمومی حضرت آیۃ اللّہ العظمی نجفی مرعشی، قم ۱۳۵۴ـ۱۳۷۴ش.
  • رضا داوری، «پیدایش و بسط علم کلام»، در فلسفہ در ایران: مجموعہ مقالات فلسفی.
  • ہادی بن مہدی سبزواری، اسرارالحکم، چاپ ح. م. فرزاد، تہران ۱۳۶۱ش.
  • محمدبن ابراہیم صدرالدین شیرازی، شرح اصول الکافی، چاپ سنگی تہران ۱۳۹۱.
  • حسن بن یوسف علامہ حلّی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، چاپ حسن حسن زادہ آملی، قم ۱۴۰۷.
  • محمود فاضل، فہرست نسخہ‌ہای خطی کتابخانہ دانشکدہ الہیات و معارف اسلامی مشہد، تہران ۱۳۵۵ـ۱۳۶۱ش.
  • محمد آصف فکرت، فہرست الفبائی کتب خطی کتابخانہ مرکزی آستان قدس رضوی، مشہد ۱۳۶۹ش.
  • علی بن محمد قوشچی، شرح تجریدالعقائد، چاپ سنگی تہران ۱۲۸۵.
  • اعجاز حسین بن محمدقلی کنتوری، کشف الحجب و الاستار عن اسماء الکتب و الاسفار، قم ۱۴۰۹.
  • مجلسی
  • محمدتقی مدرس رضوی، احوال و آثار خواجہ نصیرالدین طوسی، تہران ۱۳۵۴ش.
  • مرتضی مطہری، آشنائی با علوم اسلامی، ج ۲، تہران ۱۳۶۹ش.
  • احمدبن محمد مقدس اردبیلی، الحاشیۃ علی الہیات الشرح الجدید للتجرید، چاپ احمد عابدی، قم ۱۳۷۵ ش.
  • علینقی منزوی و محمدتقی دانش پژوہ، فہرست کتابخانہ مدرسہ عالی سپہسالار، ج ۳، تہران ۱۳۴۰ش، ج ۴، تہران ۱۳۴۶ش.
  • نسخہ‌ہای خطی: نشریہ کتابخانہ مرکزی دانشگاہ تہران، ج ۵، زیرنظر محمدتقی دانش پژوہ، تہران ۱۳۴۶ش.
  • محمدبن محمد نصیرالدین طوسی، تجریدالاعتقاد، ضمن کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، تألیف علامہ حلّی، چاپ حسن حسن زادہ آملی، قم ۱۴۰۷.
  • محمدبن محمد نصیرالدین طوسی، تلخیص المحصّل، چاپ عبداللّہ نورانی، تہران ۱۳۵۹ش؛
  • ادوارد ون دایک، کتاب اکتفاء القنوع بماہو مطبوع، چاپ محمدعلی ببلاوی، مصر ۱۳۱۳/۱۸۹۶، چاپ افست قم ۱۴۰۹.
تبصرے
Loading...